منگل، 13 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر۔"سفرِِ حج" ( 12)۔

 یادوں کی تتلیاں "( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" ( 12)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب ہم چھے ارکان ہمسفر مِنیٰ جانے والی بس میں سوار ہو ۓ ،، تو دل بےیقینی کے جنگل میں بھٹک رہا تھا ،، اپنی ہر خوش نصیبی پر یقین کرنے کے لیۓ باربار خود کویقین دلانا پڑتا تھا ،،،کہ یہ خواب نہیں ،،حقیقت ہے! بس میں تلبیہ کی آوازیں بھی مجھے خود کو نامعلوم سی فضا میں جھومتے ہوۓ محسوس کروا رہی تھیں ،،،، میں اس کیفیت کا دو طرح سے تجزیہ کرتی ہوں ،،، 
اول ـ یہ کہ میں مسلسل طبیعت کی خرابی کا شکار رہی ،، کبھی بخار ،، اور بھوک نہ لگنا ،، زیادہ خاموشی طاری رہی ،،، اور وزن بھی کم ہو چکا تھا ۔
دوم- میں ذہنی طور پر حج کے لیۓ ، نا اُمید سی تھی ،، اب جب پہنچ بھی گئی ،، طواف، عمرے ، زیارتِ مسجدِنبوی،، کیا یہ سب سچ مچ میں دیکھ چکی ہوں ، ! کیا اب ارکانِ حج کے لیۓ جا رہی ہوں ،،، کیا یہ کرم ، یہ فضل ، یہ احسان ؟؟؟؟ مجھ پر ،،، میَں یہاں کسی اور کی بات نہیں کروں گی ، حالانکہ ہم سب چھے بندوں کا بھی پہلا پہلا حج ہی تھا ،، لیکن مجھے تو یہ لگ رہا تھا ،، یہ سب تو پہلے آچکے ہیں ، مَیں ہی پہلی مرتبہ حاضر ہو رہی ہوں ۔ میں ایسی کیفیت میں تھی کہ ،
٭ یا تو خود کو فضا میں تیرتا محسوس کر رہی ہوں ۔ ،،، یا ،٭ خواب سی کیفیت ہے ، اور دل کہہ رہا ہے ، میرا خیال ہے میں مِنیٰ جا رہی ہوں ، شاید ،شاید !۔
اور جب ہم شام ، بلکہ عشاء کے وقت تک اپنے مکتب کے قریب پہنچے ، اور وہیں بسوں نے اتار دیا ،، تھوڑی  اُلجھن  ہوئی ،، کچھ ، منٹ اور گزرے اور پوچھتے ، پوچھاتے ، اپنے اپنے خیمے تک پہنچ گۓ ، اس ایک خیمے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی 10 خواتین کے بستر کی جگہ تھی ، اس خیمے کے بالکل ساتھ دوسرا خیمہ بھی پاکستانی خواتین کا تھا ، نظر تو نہیں آتی تھیں ، البتہ آوازیں آ رہی تھیں ،،، اور ہمارے خیمے کے بالکل پیچھے کا جڑا خیمہ ، مرد حضرات کا تھا ، جس کی ڈائریکشن ، اقبال بھائی اور ہاشم نے ہمیں فوراً مو بائل سے کلیئر کر دی ، تاکہ ہمیں کسی چیز  کی ضرورت ہو تو پریشانی نہ ہو ،،، اس جگہ آتے ہی ، ، میری پانچ سالہ پوتی ، ملائکہ کو دیا گیا ایک کافی پرانا ، اور گھر کا فالتو موبائل ، جو علی نے زبردستی ساتھ کر دیا تھا، میرے گلے میں لٹکے بیگ میں ڈال دیا تھا ،،، یہ موبائل میرے لیۓ دیا گیا تھا کہ جب حج شروع ہو گا تو یہ نہ ہو آپ گم ہو جاہیں ،،اس لیۓ گلے میں لٹکاۓ بیگ میں موبائل ڈالا گیا اور اس کے ساتھ ہی باقی ہمسفرانِ حج کے نمبر لکھ کر ایک کارڈ بھی اس کے ساتھ اُس ربن میں پرو دیا گیا ، جس میں مکتب کا شناختی کارڈ تھا۔کہ مجھے کسی کے نمبر زبانی یاد نہیں تھے ،،، یہ سب اہتمام اس لیۓ کرنا پڑا ، کہ میَں نے اُس وقت تک ، کوئی موبائل نہیں رکھا تھا ، اس لیۓ اسے آپریٹ کرنا بھی نہیں سیکھا تھا ،، حالانکہ مجھے بہت کہا گیا تھا کہ ایک موبائل لے لیں ،، مگر مجھے اس کے استعمال کرنے والے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر چِڑ ہو چکی تھی کہ محفل میں بیٹھے ہیں ،، اور نظریں موبائل پر ہیں ، دوسرے کی کوئی پروا نہیں ، اور نظریں وہیں اٹکاۓ ، جواب دیۓ جارہے ہیں ،، مجھے لگا ہم اس ٹیکنالوجی سے مزید بدتہذیب ہو رہۓ ہیں ،، اس لیۓ کم ازکم جب تک اسکے بغیر گزارا ہو سکتا ہے ، کرو ،،، !۔
اور اب مِنیٰ کے خیمے میں ، مَیں تھی ، بخار تھا اور موبائل تھا ،، وہی دو چیزیں ، جن کو مَیں اپنے سے دور رکھنا چا رہی تھی ،،، اس خیمے میں خوب بڑا " بلوئر " یا " ائر کُولر" لگا ہوا تھا ، اور اس کے عین ہوا کی رینج میں نگہت، میرا اور جوجی کا بستر تھا ، ، مجھے آدھ گھنٹے میں احساس ہو گیا ، کہ جگہ نہ بدلی تو مزید خرابی ہوگی ،، دوسری طرف کی خواتین ، تو جیسے تیاربیٹھی تھیں ، وہ دو ہم دونوں کی جگہ آ گئیں ، میرا یہ حال کہ موٹے کپڑے ، سویٹر ، اور عبائیہ ،، جرابیں ،،، لیکن بخار کی دوا کے باوجود آرام نہیں آ رہا تھا ،، اللہ کا شکر اس دوران نماز کی پابندی رہی اب یہاں تو جماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا ،، ہمارے خیمے کی خواتین ، سبھی تمیز دار اور تعاون والی تھیں ، ، عشاء پڑھ کر سوۓ تونمازِ فجر پڑھ کر صبح ، 6 بجے ہی عرفات ،،،،جانے کے لیۓ تیاری پکڑی ، اقبال بھائی ، سب کچھ اپنے حج کے "استاد" کے کہنے کے مطابق کر رہے تھے ،،، ہماری ایک اچھی سہیلی نسرین خلیل ، ہم سے پہلے حج کر آئی تھی ،، اس نے ہمارے حج پر جانے کا سُنا ، تو خاص طور پر تاکید کی ، عرفات کے لیۓ پیدل چل پڑنا ، یا ٹیکسی کروا لینا ،، لیکن بسوں پر نہ جانا ، یہ بسوں کو بہت بھر لیتے ہیں ، پھر رینگ رینگ کر چلتی ہیں ، اس لیۓ بہت دیر سے پہنچتے ہیں ، لیکن چونکہ اقبال بھائی کا حکم تھا ، اس لیۓ منیٰ کے اس مقام سے جہاں بسیں حجاج کو لے کر جا رہیں تھیں ، ہم سب بھی ایک بس میں بیٹھ گۓ ،، اور واقعی کچھ ہی دیر میں جس بس میں 40 ، 45 لوگ ہونے چائیں تھے ، اِس میں70، 65 ٹھس گۓ اور عورت مرد کی کوئی تخصیص نہ رہی ،، اس قدر حبس تھی کہ الاماں ،، ہم تینوں کھڑی تھیں ، جوجی مجھ سے پیچھے تھی ،، لمحے بھر کے لیۓ مَیں نے اسے دیکھا تو اُس کا رنگ پیلا ہو چکا تھا ، اور پسینے ، میں تو سب شرابور تھے ،لیکن اُس کا پسینہ ٹپک رہا تھا ۔ اور لگ رہا تھا کچھ دیر اور یہ صورتِ حال رہی تو وہ بےہوش ہو جاۓ گی ، ، حیرت انگیز طور پر مَیں بالکل ٹھیک رہی ، ہمیں بس میں بیٹھے ، دو گھنٹے ہو چکے تھے ،، "بس" ایک جگہ رُک گئی کیوں کہ اسے ہم آسیان والوں کا نہ راستہ مل رہا تھا نہ خیمے کی سمجھ آرہی تھی ۔ اسی وقت کو غنیمت جانا اور ، زیادہ حاجی اُتر گۓ ، ہم نے جلدی سے اتر کر جوجی کو کنارے پر ڈیرا جماۓ ، نیگرو فیملی کے چٹائی ٹائپ بستر پر لیٹا دیا ،، وہاں ایک آدمی اور ایک عورت تھی ، ایک سیکنڈ کے لیۓ انھیں سمجھ نہ آیا کہ ، یہ کون اور کیوں آ کر لیٹ گیا ہے ،، جب ہم نے ،معذرت کے ساتھ پانی بھی مانگا ،، تو انھوں نے پہلے فوراً پانی دیا ، پھر جوس کا ڈبہ آگے رکھا ، اور دوسرے منٹ میں دوائیوں کا پیکٹ سامنے رکھ دیا ،،، انھیں اپنی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی ، لیکن جب میں نے پوچھا کوئی" کینڈی " یا چوکلیٹ ، تو انھوں نے فوراً وہ بھی پیش کردیں ،،، جوجی نے پانی پیا ، کینڈی ٹافی کھائی، ، کچھ حواس درست ہوۓ تو اُن کے دوائیوں کے پیکٹ سے اپنے مطلب کی ایک ٹیبلٹ نکالی ، اور وہیں کھا لی ،،، ہم  اُن کا بہت شکریہ ادا کرتی رہیں ،مشترکہ لفظ " جزاک اللہ " کی تکرار کرتے ہوئے ۔ جو لوگ حج کر کے آتے تھے وہ اکثر یہ کہتے سنے گۓ کہ " یہ کالے بہت سخت ہوتے ہیں ، دھکے بہت دیتے ہیں ، ان کو دوسروں کا خیال نہیں ہوتا " اول تو میں ، کالے ، نیلے ،پیلے کے اچھے برے کی قائل نہیں تھی ،اور اب تک اگر حرم میں ، مسجدِ نبویؐﷺ میں ہمیں جو نیگرو خواتین ملیں ، نہایت مہذب ، اور تعاون والے ۔ اب یہاں بھی ہمیں اپنائیت کے ساتھ ہر مدد پہنچائی گئی ، تو انہی نیگرو نے ، یہ ،15 منٹ ہمارے لیۓ ، بہت غنیمت رہے ، اور تب تک حاجی واپس بس میں نہیں آۓ تھے کہ ہم نے جوجی کو سیٹ پر بٹھایا ،، خود مَیں اور نگہت کھڑی رہیں ،، مرد حضرات کو اس سارے واقعہ کا کچھ علم نہ ہوا کیوں کہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل تھے ۔ خیر اب آس پاس کی نظر ڈالی ،، تو انسانوں کا سمندر تھا ، خوب چوڑی سڑکیں ، جن پر باریک پھوار پھینکتے  بجلی کے فوارے ، انسانوں کو سکون دے رہے تھے ،، ہم جلد ازجلد اپنے خیمے میں پہنچنا چاہتے تھے ، آج جمعہ بھی تھا ( اگر میری یاداشت غلط نہیں تو ) ہم جمعہ کی نماز کے لیۓ بھی بےچین تھیں ،،، آخر کار ایک بجے کے قریب ، بس ایک جگہ رکی اور کہلا دیا گیا یہاں سے کچھ دیر چلنا ہوگا ، پھر خیمہ مل جاۓ گا ،،، مرد حضرات جب ملے تو جوجی کی طبیعت کی خرابی کا بتایا ۔ لیکن چلتے چلتے اذان کی آواز آئی تو ،، ہمیں اپنا خیمہ کہیں نہیں مل رہا تھا تو ایک کھلے گیٹ سے ،، ایک سنگل منزل دو چار کمروں کی عمارت نظر آئی اور اِس کے گیٹ سے عمارت کے دروازے تک سُرخ اور سیاہ پرنٹ کے قالین بچھے چلے گۓ تھے ،، ایک طرف ایک نلکہ بھی نظر آیا ۔ ہم خواتین ، اس صورتِ حال سے کچھ ایسی پریشان تھیں کہ اسی میں گھُس گئیں ، ، کوئی بندہ نظر نہ آیا ۔ ہم تینوں نےفوراً وُضو کرنا شروع کیا ، تو ایک ملازم ٹائپ بندے نے آکر ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا ،، یہ پرائیویٹ ایریا ہے ،، اجازت نہیں ،، لیکن میں نے اور جوجی نے پرواء نہیں کی اور نماز نیت کر لی ،،، نگہت ، بھی پڑھنے لگی تو وہ بندہ شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا ،، جب ہم نے تسلی سے ان کے قالینوں پر نماز پڑھ لی ، تو ایک عربی صاحب کمروں کی طرف سے نکلے ، لیکن خاموشی سے واپس چلے گۓ ،،، گویا ، انھیں اعتراض نہ ہوا ،، دعائیں کیں ، اور پھر اپنے خیمے کی طرف چل پڑے ،،، اس دوران مرد حضرات کہیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھآۓ تھے ۔ چند منٹ اور چلے تو خیمہ نظر آگیا ،، اندر داخل ہوۓ تو ہم سے پہلے پہنچ جانے والے ہمارے پیارے پاکستانی حاجیوں نے کھانا کھایا تھا ،،، جو آدھا کھایا گیا ہو گا لیکن باقی پورے خیمے میں چاول اور ہڈیاں فرش پر بکھری ہوئی تھیں ،،، ایک ، دو ، تخت وہاں پڑے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ہی ہم تینوں دعا کے لیۓ خیمے سے باہر ہی آگئیں ، اور کھلے آسمان کے نیچے ، اپنے پیارے اللہ پاک کو دعاؤں کی فہرست سنانی شروع کر دی ۔ جوجی تو کچھ دیر بعد ہی پھر بےحال ہو کر اندر تخت پر جا لیٹی اور گہری نیند سو گئی ، ، ، میں اور نگہت ، ہر آدھ پونے گھنٹے بعد اسے جا کر دیکھتے ،، اور باہر آنے کا کہتیں ،، جس جس نے دعائیں لکھائیں تھیں ، اللہ پاک کے آگے اُن کی عرضیاں ، عرض کر دیں ،، جس انداز سے دعا کی جاتی ہے ،،، کاش مَیں ، وہ الفاظ ، وہ انداز اپنا سکتی ،، جو اس ربِ کریم کے حضور قبول ہو جائیں ، عرفات کا وقت اپنے اور ، والدین ، اور بچوں کے لیۓ دعائیں مانگتے گزارا ،،، اور بہت کچھ !!!عصر پڑھی، اور مرد حضرات آگۓ ، کہ سامنے صاف ستھرے غسل موجود ہیں ،، آپ لوگ فریش ہو جائیں ، تاکہ مغرب تک یہ جگہ چھوڑنی ہے ، پھر بسوں میں جگہ نہیں ملے گی ،،، اقبال بھائی نے حسبِ معمول اپنا پروگرام دہرایا ، بلکہ سنا دیا ۔اور ہم کچھ سستی سے تیاری کرنے لگیں ، جوجی بھی خیمے سے باہر آچکی تھی ،،، عرفات کی شام تیزی سے آچکی تھی ،، اور ہم وہیں تھے ،،، پتہ نہیں کیا ہوا کہ ہم کسی بس میں نہ جا سکے ، ، ، ہم نے مغرب اور عشا ،،، مزدلفہ جا کر پڑھنی تھی ،،، اور پورا میدانِ عرفات قریباً  خالی ہو گیا ،، صرف ہم چھے ،، میجر آفتاب کی ساری فیملی ،، اور شاید دو حاجی حضرات تھے ، جو بس سٹاپ پر کھڑے تھے،، اور اپنی جلدی واپسی کے پروگرام پر غور کر رہے تھے ،،، چند پولیس کے سپاہی تھے ،، جو ایک بہت بوڑھے بزرگ کو سٹریچر پر اُٹھاۓ ، لاۓ ،،وہ ایمبولینس کا انتظار کرنے لگے ،،، آفتاب کی بیوی ڈاکٹر عظمیٰ فوراً انھیں دیکھنے چلی گئی ،،، تو پتہ چلا ، ڈی ہائیڈریٹ ہو گۓ ہیں ، اور اب وہ سیدھے ہاسپٹل جا رہے تھے ، کیوں کہ عرفات میں دن گزار لیا ،، حج ہو گیا ۔۔۔ اتنے میں بس آئی اور ہم سب بیٹھ گۓ ،، رات کے 11 بج چکے تھے ، مزدلفہ میں چپہ چپہ لوگوں سے بھر چکا تھا ،، ہم چلنے لگے کہ شاید کہیں  رات گزارنے کی جگہ مل جاۓ ، کہ اچانک جوجی کو ایک چھوٹا سا گیٹ نظر آیا اور ہم سب اس کے پیچھے پیچھے اندر بہت بڑے سے لان میں داخل ہو گۓ ،، سب سے پہلے نمازیں ادا کیں ،، اور اپنی اپنی چٹائیاں بچھا کر ، سُنت کی پیروی میں لیٹ گۓ ،، کچھ پتہ نہیں تھا کہ آس پاس ، کیسا منظر ہے ،، ڈیڑھ یا دو گھنٹے ہی گزرے کہ اُٹھ کھڑے ہوۓ ، لڑکوں نے اُٹھ کر آس پاس  وُضو کے لیۓ نلکا ، یا غسل خانہ تلاش کرنے کی کوشش کی ، تو چند منٹ کے بعد ہی واپس آۓ اور بتایا کہ سامنے ہی کچھ دور جو چھوٹی سی بلڈنگ نظر آ رہی ہے دراصل صاف ستھرے واش رومز ہیں اور گرم پانی بھی موجود ہے ،، ہم نے شکر کیا ، وضو ہوا،، پاشا نے خوب صورت ، اذان دی ،، اور ہم نے اسی کے پیچھے فجر پڑھی ، اور ابھی سامان  سمیٹنا شروع ہی کیا تھا ،، کہ قریب کے شیڈ سے زندگی کے آثار نظر آۓ ، وہاں کوئی لمبی چوڑی عرب فیملی ٹھہری ہوئی تھی ، جس میں بزرگ ، جوان آدمی اور برقعہ پوش خواتین ، نظر آئیں ،، ذرا سی روشنی اَور ہوئی تو اُس امیر ، کبیر فیملی کی شاندار گاڑیاں ، اور ایک آدھ بس بھی نظر آگئیں ،،، تو دراصل یہ اِ ن کا مخصوص ایریا تھا ، اسی لیۓ وہاں گیٹ لگا ہوا تھا ، جو اتفاق سے کھلا ہوا تھا ،،، اور اللہ ہی کی طرف سے ہمیں آرام کے چند گھنٹے بھی مل گۓ اور گرم پانی سمیت غسل خانے بھی ،،، لیکن اُس وقت ، اس بات پر کوئی اختلافی خیال ذہن میں نہ آیا کہ یہ لوگ اپنے حج کو اتنے کروفر سے ، آرام و آسائش سے کیوں کرتے ہیں ،، کیا اللہ کے لیۓ حج کے صرف یہ پانچ دن عام عوام جیسے کیوں نہیں گزار لیتے ، ، اپنے لیۓ اتنے بڑے ایریا کو کیوں مخصوص کر لیتے ہیں کہ ہزار بندہ تو اِس جگہ رات گزار سکتا تھا ،،، شکر ہے کہ اُس وقت ہمارے ذہن میں نہ کوئی منفی خیال آیا ،، نہ اُن کے لیۓ کسی ستائش کا خیال آیا ،، ہم نے ہر چیز کو مِن جانبِ اللہ سمجھ لیا تھا ،، خیر ہم اللہ کا نام لے کر مزدلفہ سے باہر نکلنے والے راستے پر ہو لیۓ اور اب ہر چیز صاف اور واضح نظر آرہی تھی ،، ہم ابھی فرلانگ بھر چلے تھے اور ایک پُل پر سے گزر رہے تھے ، کہ ایک 30، 32 سال کی لڑکی ہمارے سامنے آئی اور زارو قطار رو کر کہنے لگی " مَیں گُم ہو گئی ہوں ، اپنے خیمے کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ، اور میرے پاس مو بائل بھی نہیں ہے ، پاشا نے اُس سے پوچھا ، اپنے شوہر کا موبائل نمبر یاد ہے تو اُس نے بتا دیا ،، شوہر نے بات سنی اور بتایا کہ یہ غسل خانوں کی تلاش میں کہاں سے کہاں نکل گئی ہے ،، اب اُس نے فرمایا آپ ،، میرے اس خیمے کی طرف آئیں ،، مَیں آپ کی طرف آؤں گا " پاشا کو یہ سن کر غصہ بھی آیا کہ جب لوکیشن سمجھادی ہے تو آجاۓ ،، لیکن ہم خواتین کی ہمدردی اس لڑکی کے ساتھ تھی ،،'" پاشا ، صرف تم نہیں ، ہاشم بھی ساتھ جاۓ گا ، اور یہ نیکی کا کام ہے وغیرہ ،،، چنانچہ دونوں جوانوں کو یہ نیکی کمانے کے لیۓ میل بھر جانا اور آنا پڑ گیا ،،، خیر یہاں سے فی بندے کے حساب سے کنکریاں بھی اُٹھا لی گئی تھیں ،، اور ہم بہ آسانی بس سٹاپ ،تک پہنچے ، لیکن بس نے ہمیں کچھ پہلے ہی اتار دیا ، مِنیٰ کے خیموں تک پہنچنے تک ، مَیں تو نڈھال ہو چکی تھی ،، لیکن باقی سب پُرجوش تھے ، کچھ لمحے  آرام کر کے جمرہ عقبیٰ پر کنکریا ں ما رنے جانے کے لیۓ تیار ہو گۓ ،،  مَیں نے معذرت کر لی ،، اور اپنے بیٹے ہاشم کو یہ اختیار دیا کہ یہ میری جگہ کنکریاں مارے گا ،،، وہاں سے یہ جمرہ عقبیٰ ، خیمے سے تین فرلانگ پر تھا ،، چناچہ یہ لوگ چلے گئے تو ، مَیں نے آرام کیا ، تھکاوٹ سے جسم سُن ہو چکا تھا ، دوا لی ، اور بخار تھا یا نہیں لیکن طبیعت بحال ہونے لگی ، ابھی بہ مشکل ایک گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ یہ سب واپس آگۓ ، اس وقت دن کے گیارہ بجے تھے ، ، اور سب بہت  پُرجوش تھے کہ ذرا رَش نہیں تھا ، ہم نے آرام سے یہ مرحلہ طے کیا ،،، ہاشم اور جوجی کہنے لگے ، اب تم بھی کل چلنا ، تاکہ ایک دفعہ تم خود بھی دیکھ لو ،، اب واپس آتے ہی مرد حضرات ، قربانی کروانے چلے گۓ ، ، ، میَں نے طبیعت کی بحالی ، محسوس کی اورظہر کے وُضو کے لیۓ خیمے سے باہر ہی آئی تھی ، کہ لگارتار اُلٹیاں آئیں ،،، لیکن طبیعت کا بوجھ جیسے ختم ہو گیا ، وضو کر کے آئی ، اس سے پہلے ، نگہت ، نے خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا ، اور یہ کہہ کر لیٹ گئی ،، " بھئ میں نے تو سمجھو دوپہر کا کھانا بھی کھا لیا ہے ، بس نماز کے وقت اُٹھا دینا " ،، اور جوجی اور میں ابھی اردگرد کی خواتین سے بات چیت اور اپنے اپنے ، تجربات و احساسات شیئر کرنے لگیں ۔، ان میں ایک جوان لڑکی جس بنک میں ملازمت کرتی تھی ، اپنے والد کے ساتھ آئی ہوئی تھی ،، اور اس نے واہ کینٹ میں ملازمت بھی کی تھی ،، واہ کا ذکر محبت سے کرتی رہی ،، ہمارے سامنے تین بہنیں بھی تھیں ، جن میں سے سب سے بڑی کچھ مسئلے کی وجہ سے وہیل چیئر پر تھی ، لیکن باقی دونوں اُس کا خیال کر رہی تھیں ، اگر سب سے بڑی 60 سے کچھ اوپر تھی ، تو باقی دونوں 40،،45 کی ہوں گی ،،، یہ سب لاہور کے زندہ دل لوگوں کی مثال تھیں ، ، ، اُن کی کھلی کھلی ، بےتکلف باتیں ، چل رہیں تھیں ،، کہ اتنے میں ساتھ کے خیمے سے  اُن کی ملنے والی ذرا زیادہ بڑی عمر کی خاتون آگئیں ،، جو دبلی پتلی ، سی ، چست مزاج والی ، پان کھا رہی تھیں ،،، اور آتے ہی سب بہنوں کو سلام کے بعد بتایا میَں خود ، کنکریاں مار کر آرہی ہوں ،، اور پوچھا ، تم لوگ ہو آئیں ؟؟؟ دونوں چھوٹی بہنوں نے قدرِ شرمندہ سا ہو کر کہا " نہیں ہمارے شوہر ہی کنکریا ں لے گۓ تھے ،، انھوں نے یہ فرض ادا کر دیا تو مجھے اُن خاتون کا یہ جملہ یاد رہ گیا " ہائیں ،، ہری ہریالی ہو کر ، خود کیوں نہ گئیں "!!! ۔
اور ہم سب مسکرانے لگیں ،،، ! مرد حضرات ، تو قربانی کا پتہ کرنے گۓ ہوۓ تھے ۔ اِس دوران ظہر ہوئی اور ساتھ ہی کھانے کے پیکٹ خیمے میں پہنچاۓ گۓ ،، میرا پیکٹ ، اب تک واپس کر دیا جاتا تھا ، نگہت سوئی  ہوئی تھی ، لیکن جوجی کو بھوک لگی ، مٹن شوربا اور روٹی تھی ،، اس نے مجھے دو تین  بارکہا ،، دو نوالے کھا کر تو دیکھو ، اُس کے اصرار پر دو نوالے کیا کھاۓ ،،، آہستہ آہستہ ساری روٹی کھا لی ،،، آج تک ، مجھے اور جوجی کو اُس دن کے کھانے کا ذائقہ نہیں بُھولا ،، دوسری طرف ،پاشا اور ہاشم جاگ رہے تھے (اور قربانی والوں نے انھیں موبائل پر قربانی ہو جانے کی اطلاع دینے کا کہہ دیا تھا ) ،، انھوں نے کھانا کھایا تو وہ بھی نہال ہو گۓ ،،، اور اقبال بھائی سوۓ ہوۓ تھے ،، ہاشم نے بعد میں بتایا کہ مَیں آپ کو فون کرنے لگا تھا کہ اماں آج کا کھانا کسی صورت نہ چھوڑنا ،،، لیکن مجھے کچھ شرم سی آ گئی کہ ، اس بات کے لیۓ فون کروں ،،، لیکن پاشا اور مَیں بھی اِتنے لاجواب ذائقے والے کھانے پر حیران ہو رہے تھے ۔ اس دوران کھانے تقسیم کرنے والے دوبارہ آتے تھے وہ آۓ تو تیسرا پیکٹ اس لیۓ واپس کر دیا کہ نگہت نے کہا تھا ، مَیں نے خوب ناشتہ کر لیا ہے ، صرف نماز کے لیۓ جگانا ،، ہم نے وہ پیکٹ واپس کر دیا ۔ جب وہ سو کر اُٹھی ، اور ہم نےکھانے کی تعریف کی ،تو وہ بھی پچھتائی ،،، دوسری طرف اقبال بھائی بھی ناشتہ کر کے سوۓ تھے ، ان کے حصے کا پیکٹ بھی واپس چلا گیا ،،، یہ باتیں صرف نصیب کی ہوتی ہیں ، کہ کس کو ،،کون سا رزق ملنا ہے !!۔
( منیرہ قریشی ، 13 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں