پیر، 5 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں"( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"سفرِِ حج" ( 7)۔

یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" ( 7)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اور مدینہ کی سرحد پر صبح صادق میں ہم داخل ہوۓ ، تو جسم تھکا ہوا ، دل بےچین ،، اور آنکھیں متلاشی تھیں ،،، ہمیں خود بھی کبھی پوچھنے کی توفیق نہ ہوئی ،، اور نہ کبھی کسی حاجی نے ایسی تفصیل بتانے کو اہم سمجھا کہ مدینے ، میں داخل ہوتے وقت کی صورتِ حال کیا ہوتی ہے۔ اور کتنی دیر رکنا ہوتا ہے ، کیا مسئلہ ہو سکتا ہے ۔ ،،، اصل میں بسیں مدینہ کے باہر روک دی گئیں ، اور وہیں فجر پڑھنا تھی ۔ وہاں درجنوں ، بسیں دور دور تک کھڑی تھیں ، ہم نے اپنی بس کے قریب کی جگہ کی طرف سے دیکھا ایک ریسٹورنٹ ، تھا، جلدی سے اترے ، اور ریستورنٹ کے اندر جا کر مَیں نے واش روم کا راستہ لیا، لیکن وہاں لمبی لائن تھی ، واپس آکر دیکھا تو باقی ہمسفر ، وضو کر کے، نمازپڑھ رہے تھے ، میں نے پوچھا وضو کیسے ہوا ، تو جوجی نے منرل واٹر کی بوتل پکڑائی کہ اسی سے کام چلاؤ ۔ جلدی سے وُضو کر کے نماز پڑھی ۔ اور بس میں آبیٹھے ، بلامبالغہ ،ہم بس سے کبھی اترتے ، کبھی چڑھتے ،، کہ کہیں دور گئے تو بس چل ہی نہ پڑے ،، اور اسی میں تین گھنٹے لگ گئے ،،،،،، یہ موقع ایسا تھا کہ کوئی پاکستانی عربی زبان میں ان سے معلو مات لے لیتا کہ بھئ کتنی دیر اور ہوگی ،، ہم سکون سےاردگرد پھِر لیتے ، یا کسی اور، ریستورنٹ میں کچھ دیر بیٹھ لیتے۔ لیکن تین گھنٹے کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد بسیں چلیں اور مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ، ہم اپنی رہائش گاہ پہنچ گۓ ۔ یہ ایک تین منزلہ چھوٹا ہوٹل تھا ، اس کا نام " لُو لُوالعبودی " تھا، ہمیں دوسری منزل پر کمرہ ملا ،،، جہاں پہنچتے ہی سب نہا دھو کر تیار ہو گۓ ،، یہ بہت صاف ستھرا ہوٹل تھا ،، لیکن اس دفعہ ہمیں بہت بڑا ، ایک ہی کمرہ ملا جس میں چھے صاف ستھرے بستر لگے ہوۓ تھے ، یہاں ایک کچنٹ بھی تھا ،، باقی سہولتیں بھی ٹھیک تھیں ،، ہم لوگ باری باری تیار ہوۓ ، اور مسجدِ نبوی ؐ کی طرف چل پڑے ، یہ بھی وہ خواب تھا ، جس کے پورا ہونے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا ،،، میرا اللہ ہمیں کیسا ، کیسا نواز رہا تھا ،،، ہر قدم شوقِ محبت سے اُٹھ رہا تھا ،، کاش ، اپنے احساسات کے بیان کا سلیقہ ہوتا ،!۔
اپنے ہوٹل سے بہ مشکل 15 ،16 منٹ چلنے کے بعد ایک کافی کھلی سڑک آئی ۔ یہاں اونچا ، بہت کُھلا گیٹ تھا ، جہاں سے داخل ہوۓ ، چند قدم کے بعد مرد حضرات لفٹ مڑ گئے، کہ سامنے " بابِ عمر ر ض"تھا جو خواتین کے لیۓ مختص تھا ،،،
مجھے حضورﷺ کے ہر ساتھی سے بےپایاں عقیدت ہے  خود ہمیں اپنے بزرگوں سے یہ علم ہواکہ ہمارا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ سے ہے ،، لیکن میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کو دو مرتبہ خواب میں دیکھا، تو عجیب عقیدت ہو گئی تھی ، اسی لیۓ جب پہلوٹھی کے دو بیٹے ہوۓ تو ایک کا نام عمر اور دوسرے کا علی رکھا ،، عمر ، صرف چھے سال کی عمر لے کر آیا تھا ،،، علی بڑا ہوا ، تو میں نے بھی اسے کہا اللہ نے جب بھی بیٹا دیا تو اس کانام عمر رکھنا ، اب 24 دسمبر کو محمد عمر علی قریشی دنیا میں آچکا تھا ،، عجیب اتفاق تھا کہ " عمر " نام تواتر سے سامنے آرہا تھا ،،،،۔
ہم جس حج پیکیج کے تحت آۓ تھے اس کے انچارج کا نام " عمر المصری " تھا ،، مِنیٰ میں جس سڑک پر ہمارے خیمے تھے ، اس کے نام میں بھی عمر لکھا ہوا تھا ،، اور اب مسجدِ نبویﷺ کے جس دروازے پر سب سے پہلے داخلہ ہو رہا تھا " اس کانام بھی " بابِ عمر رض " تھا ، اس دروازے پر جوجی ، نگہت ، اور میں نے موبائل سے تصویریں اتاریں ،،، پورے قیامِ حج میں بس یہ ہی تصویریں اتاری گئیں ، ، میرا خیال ہے یاد گار کے طور پر دوچار مواقع پر تصاویر لینے میں کوئی حرج نہیں ،،، البتہ اسی کام پر فوکس کیۓ رکھنا ہرگز مناسب نہیں ۔
ہم نے احاطہء مسجدِ نبوی ؐ میں داخل ہوتے وقت " گنبدِ خضرا" دیکھا تو مسلسل درودِ پاک پڑھتی رہی تھیں ،، اب مسجد میں داخل ہوئیں ،،، اس وقت ابھی ظہر کی نماز کا وقت نہیں ہوا تھا ،، اندر داخل ہوتے ہی،،،،،،،،،اِس مسجد سے ایک سکون آور جھونکا سا آیا ،، یوں محسوس ہوا جیسے مَیں بے وزن سی ہو گئی ہوں ۔ الحمدُ للہ ،۔ 
میری نظریں اندر کے ماحول کا طواف کررہی تھیں ،، لیکن دو مکمل باپردہ خواتین نے ہمارے گلے سے لٹکتے پرس کی طرف اشارہ کیا ، میکینکی انداز سے انھیں تلاشی کروائی ،،، ! اب جیسے ہی اندر گئیں ،، عجیب ، سرخوشی سی طاری ہو گئی، میری نظریں ،،تو روضہء رسولﷺ ڈھونڈ رہی تھیں ،،، ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا ،، یہ الگ سلسلہ ہے ،،، بہرحال خوبصورتی ،،، سکون ،، اور عجب سر خوشی کا احساس غالب محسوس ہوا ،، ایک کونے میں بیٹھیں ،، اور شکرانے کے نفل پڑھے ،، پھر درود ِ پاک ؐ کی تسبیحات پڑھتی رہیں ،، اتنے میں ایک پاکستانی خاتون قریب آبیٹھی ، علیک سلیک کے بعد اس نے گائیڈ کیا ،، کہ ظہر کی نماز کے بعد ،، خواتین کے دو گروپ بناۓ جاتے ہیں ، ایک گروپ کو جنوبی آسیان کہا جاتا ہے جب وہ پکارا جاۓ تو ، اس میں پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا ، ایران ، انڈونیشیا کی خواتین کو گروپس کی صورت روضۂ رسولؐ کی طرف لایا جاتا ہے ،، دوسرا گروپ امریکا ، یو کے اور یورپ کی اور ترکی خواتین کا ہوتا ہے ،،،،،،، اب ہم ظہر کی نماز کا انتظار کرے لگیں ،، اور مسجدپر نظر ڈالی کہ یہ وہ مسجد ہے جس کو دیکھنے کے لیۓ رُوۓ زمین کے ہر مسلمان کے دل میں ارمان ہوتا ہے ۔ ہم جسے صرف ٹی وی پر دیکھتی آئیں تھیں ،، آج اپنی آنکھوں سے دیکھنا ،، کیا معنی رکھتا ہے ، بیان نہیں کر سکتی ،،،،بہت جوانی میں فارسی کا یہ شعر اچھا لگا تھا تو اکثر سکول کالج کی کتابوں کے پہلے صفحے پر لکھ لیتی تھی ،،، وہ یاد بھی تھا ، اور اس کامطلب بھی آتا تھا ،،
؎ در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰؐ است
آبروۓ ماذ نامِ مصطفیٰ ؐ است !
مسجد کی ، ہلکے ، اور گہرے ، گرے ( سلیٹی) اور گلابی ، رنگوں کے امتزاج کی سجاوٹ ، آنکھوں کو عجیب سی ٹھنڈک دے رہی تھی ،، مسجد، کا یہ حصہ اگرچہ صرف ، خواتین کے لیۓ مختص تھا ،، لیکن پھر بھی نگرا ن خواتین مکمل برقعے میں ملبوس پھر رہی تھیں ۔ باقی کسی طرف سے مرد کی جھلک بھی نظر نہیں آرہی تھی ،، خواتین بےفکر ہو کر پھر رہیں تھیں۔
اگرچہ ہم ساری رات سفر میں رہیں تھیں لیکن ، نہا نے کے بعد، اور شوقِ دیدار نے ، ہلکا پھلکا سا کر دیا تھا ،، ساری رات مَیں نے ایک کینو کھایا ، اور اب دوپہر ہونے والی تھی ، لیکن طبیعت پر کوئی بوجھ ، یا بےچینی نہیں تھی ،،، یہ سب میرے مالک کا کرم تھا ، ،، اور اگر تجزیہ کیا جاۓ ،، تو انسان کی سوچ اس کے جسم کو کمانڈ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ 
ظہر کی آذان ہوئی ، اور ہم نے صفیں ترتیب دے لیں ،، مسجدِ حرم ِ کعبہ میں بھی پہلا وقت نماز ظہر کا ملاتھا ، اور اب مسجدِ نبوی ؐ میں بھی ، نمازِ ظہر پہلا وقت ادائیگی کا ملا،،، اللہ کا شکر ،، امام صاحب نے نہایت ، اطمینان بھری عربی میں نماز پڑھائی ،، نماز کے بعد ،،، ہم نے سنتیں ادا کیں ،، آس پاس خواتین کے گروپس نظر آۓ ، معلوم ہوا ، جو عرب خواتین اردو بول سکتی ہیں وہ ، اردو بولنے والوں کو دین سے متعلق لیکچر دیتی ہیں ، اور جو انگلش سمجھنے والے ہیں ، انھیں انگلش میں لیکچرز دیۓ جارہے ہیں ۔ دوپہر کے بعد عصر تک ہم  وہیں  بیٹھیں۔
(منیرہ قریشی ، 5 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں