جمعہ، 16 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر)"سفرِِ حج " (14)۔

یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِِ حج " (14)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
خیال تھا کہ خانہ کعبہ ، کی سب سے اونچی چھت پر رَش کم ہو گا ، لیکن یہاں بھی کندھے سے کندھا جُڑا ہوا تھا ۔ جب ہم نے طواف شروع کیا تو ہم نے اپنی آگے پیچھے والی لائن بنائی ، پاشا سب سے آگے ، پھر اقبال بھائی ، پھر نگہت اور اسکے پیچھے ، جوجی ، پھر مَیں ، اور آخر میں ہاشم ،،، رَش تو ہونا ہی تھا ، کہ 25 لاکھ ، 65 ہزار میں سے اگر آدھے حاجی بھی پہنچ چکے تھے ، تو یہ وقت ، سب کے جذبات کے کا نقطہء عروج بھی تھا کہ آج رات طوافِ زیارہ مکمل ہونے جا رہا ہے،، گویا " حدتِ جذبات ،، حدتِ وجود ہاۓ انساں ،، اور حدتِ الفاظ اِلہیٰ،،،،،،،،،،،،،،میَں اُس " تپش" کو محسوس کر رہی تھی ،، لیکن بیان سے قاصر تھی ،، ،طواف ، اور تلبیہ کا جو ردھم اِس طواف میں ہوتا ہے ،،( اگراُن قارئین نے محسوس کیا ہو گا ، جو حج کر چکے ہیں ،، یا بعد میں اس " احساس کو " ذرا ری کال ،کر کے محسوس کریں تو یاد آجاۓ گا ) کہ ایسا ردھم ،، ایسی گونج ،، زمین اور آسمان کے درمیان تھی کہ ، طواف کے دوران سارے،۔۔" خانہ کعبہ ، کی مساجد ،، اور جس منزل پر ہم مصروفِ طواف تھے ،، سبھی پر ایک لرزا سا طاری محسوس ہورہا تھا ،،فضا میں عجیب سا بھاری پن تھا ، مَیں اپنے حواس میں صرف اور صرف ، ہلکی ہلکی گونج محسوسکر رہی تھی ،، بلکہ مَیں سراپا " گونج ِ تلبیہ " بن چکی تھی ،،،، "سات چکر ختم ہوۓ ، کب اور کیسے ،،، مجھے ڈولنے اور گرنے سے اللہ نے بچاۓ رکھا ،، اور اس کے لیۓ ہاشم بیٹے کے دو ہاتھ مسلسل میرے کندھوں پر ٹِکے رہے !!! اللہ ہی اسے ہر قدم کا اجر عطا کرے ،، یہ طواف جو عام حالات میں ایک یا ڈیڑھ گھنٹے میں ہو جاتا تھا ،، آج دو ، ڈھائی گھنٹے میں مکمل ہوا ،،ہم نے دو نفل کتنی مشکل سے پڑھے ، کیوں کہ جگہ سجدے کے لیۓ بھی نہ مل سکی تھی،،،،،لمحے بھر کے لیۓ نیچے جھانکا ، تو پھر ، دل ڈول گیا کہ عشاق کا دیوانہ وار ، طواف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ، محسوس ایسا تھا کہ" نیوکلس ' کے گرد مالیکیولز،،، رقص کر رہے تھے ، ۔
؎ حرمِ پاک ، عُشاق سے بھرا ہوا تھا
آنسوؤں سے پیالہ چھلک رہا تھا !
تیرا دَر ، فریاد سے لرز رہا تھا
کرم ، رحم ،فضل ، یا رب العالمین
کسی طرح جب نیچے بازار تک پہنچے ،،، تو رات کا ایک بج چکا تھا ، مختصرروحانی سفر کے بعد،،اب ہم "دنیا " میں واپس آچکے تھے،، اور کھانے پینے کی فکر ہوئی۔ کسی چھوٹے ، کسی بڑے ، کسی درمیانے کسی بھی ہوٹل ، ڈھابے ، میں کہیں جگہ نہ مل رہی تھی ، آخر ایک ریسٹورنٹ کی دوسری منزل میں ، ایک خوب لمبی میز ، جس کے ایک سِرے پر دو لڑکے اور دو لڑکیاں بیٹھی تھیں ،،اور کوئی میز خالی نہ تھی ، لہذٰا ہم بھی اُسی میز کے دوسرے سِرے پر بیٹھ گۓ ،،، کھانے میں صرف دال ، چاول تھے ،، جو غنیمت لگے اسی کا آرڈر دیا ،، ہم آپس میں گفتگو کرنے لگے ،، ہر ایک اپنے آپ کو یقین دلا رہا تھا کہ " ہم نے حج کر لیا ہے " ،،، یہ احساس ، یہ تاثر ، یہ خوشی ،،، کچھ ایسی تھی کہ ، لگتا تھا ، جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں ، ( مجھے تو یوں ہی لگ رہا تھا ، باقی اللہ بہتر جانتا ہے) ۔۔ ابھی ہمیں ، 15 منٹ ہی ہوۓ تھے کہ ، ہم سے ایک ڈیڑھ گز پرے بیٹھے ، چاروں حاجی، صاحبان کی بات چیت کانوں میں پڑنے لگی ، جو باوجود ، کوشش کے کہ ہم نظر انداز کر دیں ، سنائ دیئۓ جا رہی تھی ، ان میں سے ایک باریش لڑکا ، 30 ،32 سال کا ،،، مسلسل اپنے سامنے بیٹھی ،نوجوان ، عبائیہ میں ملبوس ، دبلی سی لڑکی کو مخاطب کر کے ا عتراضی جملے بولے جا رہا تھا ، اور لمحے بھر کو اُن پر نظر ڈالتے ہی ، لڑکی کی حیران شکل اور افسردہ آنکھوں میں اٹکے آنسو ، نظر آگۓ ،،میرا دل سخت رنجیدہ ہو گیا ،،، ابھی ابھی ،، بس ابھی ابھی ،،، ہم سب نے جو روحانی ، سفر کیا تھا ،، اس کے قدموں کے نشان تو یہ پیچھے نظر آرہے ہیں ،،، کیا شیطان کے اثرات اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں ،،، کہ ہم نے " احرام " نہیں اُتارا ،،، اخلاق کا چوغہ اتار ڈالا ہو،،، ،،، باقی تینوں افراد خاموش تھے ،، ہم سب بھی اداس سے ہو گۓ ، ، کہ اس دوران ویٹر نے ، دال چاول سَرو کیۓ ، سب نے پلیٹوں میں ڈالنے شروع کیۓ ،،، بھٹکا ہوا انسان مسلسل اُس کمزور پر اپنا رعب ، اپنا غصہ نکال رہا تھا ،، آواز اگرچہ بہت بلند نہ تھی ،لیکن ایسی کہ ہم تک پہنچ رہی تھی ،، میں نے اپنی چالوں کی ڈش ، اور دال کا ڈونگا اُٹھایا اور ، اُن کے قریب جا کر کہا " بچو ،،السلامُ علیکم ،، اور حج مبارک ، حج مبارک !۔
وہ مجھے حیران ہو کر دیکھنے لگے ،،، لیکن میَں نے انھیں کوئی موقع دیۓ بغیر کہا ،، لو بھائی ، کچھ ہمارے کھانے میں سے بھی لو ، آج بہت خوشی کا موقع ہے ،،، اللہ کا شکر جس نے حج پورا کروایا ،، آپ لوگ کہاں سے آۓ ہیں ، مَیں پاکستان سے ہوں ،، وہ سب ساکت مجھے دیکھ رہے تھے ،،، لیکن ، مجھے باقی تینوں افراد کے چہروں پر فوراً ریلیکس ہونے کے واضح تاثرات نظر آۓ ،، اور بولنے والا لڑکا تو چُپ ہو کر رہ گیا ، دوسرا باریش ، اُسی عمر کے لڑکے نے مسکرا کر انڈیا کہا ،، ! مَیں اتنی جلدی انھیں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی ، چنانچہ دال چاول تو انھوں نے یہ کہہ کر واپس کیۓ کہ نہیں آنٹی ، ہم کھانا کھا چکے ہیں ،،، لیکن میَں نے پوچھا آپ سب آپس میں کیا لگتے ہیں ،، تب مسکراتے لڑکے نے بتایا ہم ، وٹے سٹے والے، شادی کے جوڑے ہیں ،،، وہ کتنا شریف لڑکا تھا ، جو اپنی بیوی کے بھائی سے جو اُس کا بہنوئی تھا ، صبر سے بہنوئی کی فضول باتیں سن رہا تھا ، لیکن مَیں نے یہ جملہ ضرور کہا " بچو،، یہاں شیطان خصوصی طور پر اپنی ڈیوٹی خود دیتا ہے ،،، اور ہمارے راستے کھوٹے کرتا ہے ، ہماری نیکیاں ڈبوتا ہے ، ہوشیار رہنا ،" ،، سب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے ،، خاص طور پر ، اداس آنکھوں والی نے اپنے اٹکے آنسو پونچھ کر ، فوراً پوری توجہ میری طرف کر دی ، ، اس سب واقعے کو لکھتے ہوۓ بھی میری آنکھوں کے سامنے ، حج جیسے بہت اہم بہت بڑے فریضے کو مکمل ہونے کی خوشی اس کے چہرے پر نہ تھی ،، بلکہ اس کی آنکھوں میں دکھ اور حیرانی ، ٹھہر سی گئی تھی ،،، آہ ، انسان ، بے صبر اور خسارہ پانے والا۔۔۔ 
مجھے اپنے گروپ سے جوجی اور نگہت کے بلاوے والے جملے سنائی دیۓ ۔ آجاؤ ، کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ،،، تب میں نے انھیں دوبارہ حج مبرور کہا ،، وہ تینوں مسکراۓ ، اور اللہ حافظ کہہ کر اپنے گروپ میں آگئی ،، قریباً سب نے ہی مجھے تنبیہ کی،"ایسے ہر کسی کے معاملے میں ٹانگ نہ اٹکایا کریں ،، لوگ برا منا جاتے ہیں ، وہ اگر کہہ دیتے ، جائیں اپنا کام کریں ،،، وغیرہ وغیرہ ،،، ! میَں نے کہہ دیا بھئ ، میری ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے ، شاید آئندہ بھی نہ رک سکوں ،، میرے چند الفاظ نے انھیں وقتی ریلیف تو دیا ۔ ،اور آج بھی یہی عادت ہے ، بلکہ اب تو اپنے بڑھاپے کا خوب فائدہ اُٹھاتی ہوں ،، ہنسی میں یا سنجیدگی سے ایسی فضولیات پر بول پڑتی ہوں ،،، اب ہم نے ٹیکسی لی ،، یا بس میں گۓ یاد نہیں ، واپس عزیزیہ پہنچے ،، تب تک صبح کاذب ہونے والی تھی ،، کچھ دیر سب فریش ہونے میں لگے ،، اور جب فجر ہوئی تو ، اللہ پاک کے آگے دیر تک سجدے میں پڑی رہی کہ ، جو سجدے ، جو قرآن مکمل ہوا ، جو مشقت یہاں سہی ،، سب تیرے حکم اور ، محبت کی وجہ سے ادا ہوا انھیں قبول کرنا ،، ہمارے لیۓ باعثِ نجات ، ومغفرت کرنا ،،، آمین ثم آمین۔ 
صبح ہوتے ہی ہم ، اپنے "کمرہ پڑوسی" کے پاس گئیں ، اُن سب کو حج کی مبارک دی ،، اتنے میں ، عاطف مٹھائی لے آیا جو ہم نے خوشی خوشی کھائی ،،بزرگ خاتون بہت خوش تھیں کہ اللہ نے وہیل چیئر کے باوجود اتنے بڑھاپے اور طبیعت ،کی خرابی ،کے باوجود حج کے تمام ارکان کو مکمل کروا دیا ، اب 40 دن میں سے باقی دن بھی خیریت سے گزر جائیں گے ،، ہم نے اُن کے تبلیغی بیٹے کو ایک دن نہیں دیکھا تھا ، وہ ہمارے کمرے میں آمد کے ساتھ ہی نکل جاتا ،، حالانکہ اس کی بیوی بہت خوش مزاج لڑکی تھی ،، ہم سب نے ایک دوسرے کے ایڈریس اور فون نمبر لیۓ اور دیۓ ، ثمینہ ، بہت باشعور اور میچور لڑکی تھی ،، وہ اور اس کے بھائی میجر عاطف ، نے والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ، بلکہ ثمینہ ایک دفعہ بیمار بھی ہوئی لیکن ماں کے لیۓ ہر لمحہ کھڑی رہتی ،، اُن کی ماں کے دل سے پتہ نہیں کتنی دعائیں نکلتی ہوں گی ،،،لیکن ، اس پورے 41 دن کے قیام میں ، اتنے تھکے ہوۓ ہوتے کہ بےہوشی کی نیند سو جاتے ،، لیکن پھر بھی پہلا خواب ، اپنے پوتے کی خوشخبری کے سننے کے بعد دیکھا تھا کہ وہ میری گود ، میں ایک آنکھ کھول کر دیکھتا ہے ،، اور خوب صحت مند بچہ ہے ، مِنیٰ کے میدان میں حاجیوں کے خیموں کےدرمیان پتلی گلیاں بنی ہوئیں تھیں ، میَں نے وہیں کے قیام میں دیکھا ،، کہ انہی گلیوں میں سے گزر رہی ہوتی ہوں ، کہ ایک پھیری والا ، گلے میں معمولی سامان والا کا لکڑی کا بکس سا اُٹھاۓ جارہا ہے جس میں ربن ، بندے وغیرہ ہیں ۔میَں سوچتی ہوں ، بچوں کے لیۓ کچھ چیزیں اسی سے لے لیتی ہوں ،، اور چیزوں پر متوجہ ہوں ، گلی میں کوئی خاص لوگ نہیں ہیں ،، ایک دم میرے سامنے اباجی آجاتے ہیں ،، اور مجھ سے سیدھے سے پوچھتے ہیں " احسان تمہارے ساتھ نہیں آیا ؟ " مَیں انھیں خوشی والی حیرت سے دیکھتی ہوں کیوں کہ انھوں نے بیرٹ کیپ ، اور سفاری سوٹ اور لونگ بوٹ پہنے ہوتے ہیں ،، ہاتھ میں وہی فوجیوں والی چھڑی بھی ہے ، میں کہہ تو دیتی ہوں " اباجی آپ یہاں ،، اور بھائی جان تو نہیں آۓ " میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اباجی ، بھائی کا نام ' احسان ' اتنا اونچا پکارتے ہیں کہ سارے مِنیٰ کے میدان میں ان کی گونج سنائی دیتی ہے " ، ، مجھے عجب لگتا ہے کہ میَں کہہ رہی ہوں کہ بھائی جان نہیں آۓ پھر بھی پکار رہے ہیں !!! اور پھر آنکھ کھل گئی ،، واپس آکر میں نے بھائی جان کو یہ خواب سنایا ،،، میَں نے کہا کہ اب آپ تیاری کریں ،، لیکن اُن کا حج کا ارادہ ، سات سال بعد مکمل ہوا ،، اور اللہ کا شکر ، میرے خواب کی تعبیر سامنے آگئی ،، اور اُس رب کا مزید شکر کہ ہم سب بہنوں اور بھائی نے یہ فریضہ ادا کر لیا ،،۔
ایک اور خواب ، عزیزیہ کے قیام کے دوران دیکھا ،، کہ میں پرانی کوٹھیوں والے علاقے میں کسی کے گھر کو ڈھونڈ رہی ہوں ،، چلتے چلتے ایک کوٹھی ، جس کی بیرونی دیوار چھوٹی ہے اور اندر خوب باغ اور گھنے درخت ہیں ،، باہر گیٹ پر نام کی تختی پر " جنرل عاطف " لکھا ہوا ہوتا ہے ،، میَں رشک کر رہی ہوں " ،،، اگلے دن ہم جب ملے تو بزرگ خاتون کو یہ خواب سنایا ،، وہ بہت خوش ہوئیں ،،، میَں نے انھیں کہا کہ " عاطف سے کہنا جب کبھی ، جنرل بنا تو اطلاع ضرور دے " ،،، لیکن ضروری نہیں یہ اشارہ یہ عہدہ ، دنیاوی ترقی کا ہو ،، یہ اللہ کے پاس درجات میں سے بھی اشارہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اُس شریف النفس فیملی کو ہم دونوں بہنیں بھُلا نہیں پائیں ۔ اگرچہ ، ہم یا وہ حج سے واپسی پر کوئی تعلق نہ رکھ پاۓ۔ 
اب اگلے ہی دن سامانِ زیست سمیٹا اور مکہ شہر میں عازم سفر ہوۓ ،، یہ جاۓ رہائش عین بازار میں تھی ، اور خانہ کعبہ صرف  دس منٹ کی واک پر تھا ،،، اس بلڈنگ میں بھی دو کمرے ، کچن سمیت مل گۓ ، اور ، ہم نے اِن دِنوں کو غنیمت جانا اورکعبہ سے اور کعبہ کے مالک سے اپنی محبتوں کی بار بار تجدید کی ،،، میرے اللہ ،، تُو رحیم وکریم ہے ، تُو ہماری حاضری کو قبول کر لینا ۔ آمین ِ۔
( منیرہ قریشی ، 16 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں