منگل، 6 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر )۔" سفرِِ حج " ( 8)۔

یادوں کی تتلیاں "( سلسلہ ہاۓ سفر )۔"
 سفرِِ حج " ( 8)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اب دوپہر کے تین بج چکے تھے، کہ میگا فون یا سپیکر سے ہلکی ، سی آواز آئی ،،، جس میں پہلے ترکیہ ، اور پورپ کے مسلمز کا گروپ ، اکٹھا کیا گیا ،اور ان کا داخلہ ریاض الجنہ میں ہو چکا ، مزید آدھ گھنٹہ گزرا ، تب پھر ہلکی سی آواز آئی ،، جنوبی آسیان کے ممالک کا گروپ اکٹھا ہو ،، مجھے ایک طرف سے جوجی اور دوسری طرف سے نگہت نے مضبوطی سے پکڑا ،، اور گروپ میں ، شامل ہوگئیں ،، کچھ دیر چلتیں ، پھر رکوا دیا جاتا ،، اور یہ راستہ جو چند گزوں میں تھا ، آدھ پون گھنٹے میں طے ہوا ، اور وہ بھی زِگ زیگ ، رکاوٹوں کے ساتھ۔ جب" ریاض الجنۃ " کے کمرے میں پہنچے ، جو سبز قالینوں سے نمایاں کیا ہوا تھا ۔ ، تو اس چھوٹے سےکمرے میں ڈبل تعداد میں خواتین موجود تھیں ، ، نفل پڑھنے کا ، یا یکسوئی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا تھا ،، نگہت اور جوجی نے کہا ہمت کرو ، اور نفل شروع کر لو ، ان دونوں نے نفل شروع کر دیۓ ،، مجھے کھڑے ہونے کی جگہ ملی ، جب سجدے میں گئی تو ایک دو خواتین کے پاؤں کے نیچے میرا سر آرہا تھا ،، بیٹھے ہی بیٹھے دوسری رکعت پڑھی ، جیسے ہی سلام پھیرا ، دعا کے لیۓ ہاتھ اٹھاۓ کہ، ڈیوٹی پر موجود ، باپردہ خاتون نے بازو سے اُٹھایا ،، اور جانے والے راستے کی طرف دھکیل دیا ،، درودِ پاک پڑھنے تک کی نوبت نہ آئ بلکہ ، چند قدم مزید آگے جا کر پڑھا ، جوجی اور نگہت بھی چند منٹ میں پہنچیں اور چلتے چلتے ، ہمارا ایگزٹ " بابِ عثمان ر ض " سے ہوا ،،، باہر آکر ،، ہمیں رونا سا آگیا ،،یہ کیسا انتظام ہے ،، ؟ نیم اندھیرے میں ، ہر بندی کو جو چند منٹ دیۓ بھی جا رہے ہیں تو ، ایسے کہ سمجھ ہی نہیں آترہا تھا کہ ہم نے ابھی ابھی جو سجدے دیۓ ، وہ زمین پر جنت کے ایک ٹکڑے پر تھے ؟؟؟کہ شور شرابا ، دھکم پیل ،،، ! دل بھر آیا ،،، اور ہم واپس" بابِ عمر خطاب رض " میں داخل ہوئیں ،، کہ عصر ہونے والی تھی ،،، عصر پڑھی ، لیکن درود پاک پڑھ کر دعا کی " یا رسولِ اللہ ﷺ ،، میں صدقے ، میں قربان ،، میں تو اپنے جذبہء محبت کو اتنا سینت سینت کر رکھتی رہی ، لیکن آج پہلے دن ہی ، مَیں اپنا سلام تک بھی صحیح سے نہ پہنچا سکی ،، دل گرفتہ بیٹھے رہیں ،مغرب اور عشا تک،کی نمازیں پڑھنے کے دوران ، مسجدِ نبوی ؐ کی حسین چھتوں کے بند ہونے کا نظارہ کیا ،، بہرحال سعودی حکومت نے جتنا ہو سکے، زائرین کے لیۓ بہترین سہولتیں دیں ہیں ،اور مسجدِ نبویؐ کی آرائش اور بے انداز، جدید ترین میکنزم سے ، دلنشین انداز سے سجاوٹ نظر آتی ہے ، یہ سہولتیں ، یہ بے مثال سجاوٹیں ،،، انھوں نے حق ادا کر دیا ،، لیکن ریاض الجنہ کے انتظام ؟؟؟؟؟؟؟؟( یہ بات 12 سال قبل کی ہے اب کا علم نہیں )۔
بہرحال یہ اطمینان تھا کہ ہم نے اپنی کوشش کی ،،، قبولیت اُس رب کے اختیار میں ہے۔ عشاء کے بعد ہم اس مقام کی طرف روانہ ہوئیں ، جہاں اقبال بھائی نے کہہ رکھا تھا ،،، راستوں کے معاملے میں مَیں صِفر نہیں تو ، نناوے فیصد نا اہل ہوں ، ، اس لیۓ مجھے ہمیشہ ایک ساتھی کی اس معاملے میں ضرورت ہوتی ہے ۔ اکھٹے ہوۓ ، تو ہاشم وغیرہ نے بتایا ، ہمیں ریاض الجنہ کے لیۓدھکم پیل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، اور حضور ﷺ کے روضہ کے باہر کے دروازے بھی نظر آۓ ،، جب کہ ایسا کوئ منظر خواتین کی طرف نہیں تھا ، البتہ خواتین کی طرف " منبرِ نبیؐ " نظر آیا لیکن وہاں بھی بہت قریب جانے کی ممانعت تھی۔ اُن سب نے ریاض الجنہ کے نوافل پڑھ لیۓ تھے ،۔ اب ہم نے واپسی کی راہ لی، راستے میں ایک عام سے ہوٹل کے باہر " لاہور ہوٹل " لکھا دیکھا ، اسی میں کھانا کھا لیا ، گھر ، یعنی ہوٹل واپس آکر ایسے سوۓ کہ صبح کی نماز سے آدھ گھنٹہ پہلے آنکھ کھلی ، سب جلدی جلدی تیار ہوۓ اور نیم اندھیرے میں مسجدِنبوی کی طرف چلے ،، لیکن صبح سویرے کی فضا یخ تھی ، ہم سب کے پاس جو گرم کپڑے تھے ، پہنے ، حتیٰ کہ گرم ٹوپیاں بھی نکل آئیں ۔
جرابیں ، سویٹر ، اور پھر دُھسہ جو ہاشم کی مرضی کے خلاف رکھا تھا ، وہ بھی نکل آیا اور پہنا بھی گیا ۔ اور حال یہ تھا کہ سردی پھر بھی ہڈیوں میں گھس رہی تھی ،،،،،،،، ہر موقع پر آپؐ کی ، آپؐ کے عظیم ساتھیوں کی جدوجہد ،آپ سب کی تکالیف بھری زندگی آنکھوں کے سامنے آجاتی ،، موسموں کی سختی ، مالی پریشانیاں ،، ہر طرح کے دشمن سے مقابلے !!!! اور ہم ، صرف دین پر عمل کرنے کے دور سے گزر نے والے ،،ہر آسائش و آرام کے خوگر،، یہ ہم کیا ہیں ؟؟ کون ہیں ، کتنے ظرف والے ہیں ؟؟؟ آہ کچھ بھی نہیں !!!۔
خیر اندازہ ہو گیا کہ دسمبر ، جنوری کی صبح ، شام شدید ٹھنڈ ہو گی ، اور دوپہر ، نارمل ،،، ! فجر پڑھی ،، اور اشراق کے بعد باہر آۓ ، جہاں مرد حضرات انتظار میں تھے ، ہاشم نے اعتراف کیا ،، آپ کے رکھے گرم دُھسے نے خوب کام دیا ، ہم نے راستےکے کسی ہوٹل سے اچھا ناشتہ کیا اور کمرے میں آگۓ ۔ 
اے سی آن کیا تو وہ آن نہ ہوا ، پاشا نے فوراً کھڑکی کھولی ،، اور نعرہ لگایا ،، " شمائلہ ، مَیں آگیا ہوں " ،،، ہم سب چونک کر اسے دیکھنے لگے ،، تو اس نے شرارت سے ہمیں دیکھا اور ہم اس کے سنجیدہ مذاق پر ہنس پڑے ،، کہنے لگا ،، اس نیچے کے کوٹھے ، میں کپڑے دھلے ہوۓ ۔ تار پر لٹکے ہوۓ ہیں ،،، تو ظاہر ہے کسی شمائلہ نے ہی دھوئے ہوں گے ۔ ،، پاشا اسی طرح فی البدیع مذاق کرتا ،،کہ جیسے ہی یقین آنے لگتا ، وہ شرارت سے مسکراتا ،،، اس کی ایسی حسِ مزاح نے ، ماحول کو تفکر سے دور رکھا ہوا تھا ، شکر کہ ہاشم اور پاشا میں بھی بےتکلفانہ گپ شپ قائم ہو چکی تھی ،، ،، ناشتہ ہم نے کر لیا تھا ،، تھوڑی دیر کے لیۓ ، ہاشم اور پاشا غائب ہو گۓ ،، اور جب 15 منٹ بعد آۓ ، تو ایک کلو کی پاکستانی مٹھائی ، اور کلوجلیبی اُٹھاۓ تشریف لاۓ ،، معلوم ہوا ، آتے ، جاتے میں ایک پاکستانی سوئیٹس کے نام پر نظر پڑی ، تو آج لے آۓ ہیں ،، فورا" چار ، کواٹر پلیٹس میں ، کچھ مٹھائی ، کچھ جلیبی رکھی اور ، ساتھ کے کمروں کے دروازے کھٹکھٹاۓ ،، پہلے کمرے میں ، ونگ کمانڈر منیب صاحب مہ فیملی قیام پزیر تھے ،، اگلے میں کیپٹن آفتاب اور انکی بیگم ڈاکٹر عظمیٰ ،، اور تیسرے میں آفتاب کی بہن اور بھانجا تھا ،،، سب کو بتایا "یہ میرے پوتے کے پیدا ہونے کی مٹھائی ہے ، جو خبر تو مکہ میں ملی تھی لیکن ، وہاں ہمیں مٹھائی نہیں ملی تھی ،ہم سب نے تومٹھائی ، بھوکوں کی طرح ، کھائی ،،کہ ہم سب ہی میٹھے کے شوقین لوگ تھے،(اور ہیں)۔
اب ایک چکر باہر کا لگانے کی تیاری کی ، مسجدِ نبویؐ کے گِرد بہت سے شاپنگ مالز ،، اور 5 سٹار اور7 سٹار ہوٹلز تھے ،،انہی مالز میں سے چکر لگا کر ظہر تک مسجد میں پہنچنے کا فیصلہ ہوا ،،، اور عجیب بات تھی کہ ، یہاں اِن مرد حضرات کو دوسرے ہی دن خواتین کا خود سے ادھر اُدھر جانے پر فکر نہیں تھی ۔ کہ فضا میں بھی اِک سکون اور امن ہے ۔ اب اِس وقت دوپہر کو اتنا نارمل موسم ہوتا کہ ، سویٹر ، یا شال کی ضرورت نہ پڑتی ، لیکن ان کو ساتھ ہی رکھنا پڑتا ، کہ مغرب سے عشا تک مسجد میں رُکنا ہی تھا ،، تب یہ کپڑے کام آتے ،،، ایک آدھ مال کا چکر لگایا ،، حالانکہ علی چند ماہ پہلے عمرہ کرکے آیا تو اس نےہمیں آگاہ کر دیا تھا ، وہاں ہر چیز چائنا کی ہے ،، یہ سب کچھ پاکستان میں بھی مل جاتا ہے ،، آپ صرف کھجوریں اور زم زم لانے پر فوکس کرنا ،،یا بہت ہوا تو تسبیحیں ،وغیرہ ، لیکن عورت کی فطرت میں " چیزوں " کی کشش ذیادہ ہے ، اور دوسرے یہ کہ بچوں کے لیۓ کچھ نا کچھ تو ہونا چائیۓ ،، وغیرہ ،، کچھ لوگوں کے لیۓ چھوٹی تسبیحات لیں ،، اور جلد ہی ظہر کے لیۓ مسجدِ نبوی آ گئیں ۔ مسجد میں داخلے کے وقت بھی سخت تلاشی دینی پڑتی ، اور جب ایک دن میری شاپنگ میں ، میری پوتی اور نواسی کی رِیسٹ واچ نکلی ، جن پر سینڈریلا کی تصویر بنی ہوئی تھی ، تو تلاشی لینےوالی نے اندر جانے کی اجازت نہٰیں دی اور ہم بے دلی سے باہر کے فرش پر نمازیں پڑھنے پر مجبور ہو گئیں ۔اور اگر ہمارے پاس ایک طے ہو کر پرس بن جانے والی چٹائی نہ ہوتی تو ننگے فرش پر رات تک ہمارا برا حال ہو جاتا ،،، خیر آئندہ کے لیۓ نصیحت ہو گئی ۔
مسجدِ نبویؐ میں تیسرا دن تھا ، سبھی نمازوں کے بعد ،،، "نمازِ جنازہ" کا سپیکر پر اعلان ہوتا ،، اور اسمیں ہر نماز میں بچوں کے جنازے ہوتے ،، اور بڑا کوئی ایک ۔ شاید سخت ٹھنڈ کا اثر تھا کہ بچوں کی اموات ذیادہ تھیں ۔ ایک دن تہجد کے وقت پہنچیں ، تو اندر کی مسجد بھر چکی تھی ،شدید ٹھنڈ میں بےشمار خواتین صبر کا پیکر بنیں ، اوپن ایئر میں جاۓ نمازیں بچھا کے کچھ نفل پڑھ رہی تھیں ، کچھ ذکر میں مشغول تھیں ، ہمارے بالکل ساتھ ، 30، 32 سال کی لڑکی ایک پتلی سی جاۓ نماز پر نہایت سکون سے نفل پڑھتی رہی ، ، جب اس نے ذکر کر لیا ، تو سلام دعا ہوئی ، میں نے پوچھا تمہیں سردی نہیں لگ رہی ، ایک پتلی سی سویٹر اور اس پر جارجیٹ کا عبائیہ ،، ؟ کہنے لگی ، میں انگلینڈ کی رہائشی ہوں ، مجھے کہا گیا تھا کہ وہاں ٹھنڈ ہوگی ، موٹے عبائیہ بھی لے کر جاؤ ،، میں نے سوچا انگلینڈ سے ذیادہ کی ٹھنڈ تو نہیں ہو سکتی ، لیکن یہاں واقعی اوَر طرح کی سردی ہے ہاں البتہ جب میں نفل ، یا نماز میں مشغول ہوتی ہوں تو موسم کی شدت محو ہو جاتی ہے !! ،، ہم اس جوان لڑکی کے پاکیزہ جذبے سے متاثر ہوئیں ، اور مَیں تو خود پر افسوس کرتی رہی۔بےشمار انسانی کمزوریاں لیۓ پھرتے ہیں ،کوئی احساسِ شکرگزاری نہیں۔
مسجد سے چل کر اپنے ہوٹل کی طرف آتے ہوۓ ، ایک چوک پر نیگرو عورتیں ، بہت خوب صورت اچھے مٹیریل کے دوپٹے سڑک پر ڈھیر لیۓ بیٹھی ہوتیں ، کچھ اپنی بیٹیوں کے لیۓ ، کچھ تحائف کے لیۓ خرید لیۓ ، لیکن جوں ہی انھیں سُن گُن ہو جاتی کی پولیس آیا ہی چاہتی ہے ، وہ سیکنڈوں میں کپڑے کا ڈھیر اُٹھا ،،اور غائب ہو جاتیں ،،، مَیں سوچتی ہوں ،، پولیس یا سعودی حکومت ، انھیں کوئی ورک پرمٹ کیوں نہیں دیتی ، انھیں بھی خوار نہ ہونا پڑے ، اور خریدار بھی عجیب سی سچویشن سے نہ گزریں ۔ !۔
( منیرہ قریشی ، 6 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں