اتوار، 18 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓسفر)"سفرِِ حج" (15)۔

 یادوں کی تتلیاں"( سلسلہ ہاۓسفر)۔"
سفرِِ حج" (15) (آخری قسط)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مجھے اُس بلڈنگ کا نام تو یاد نہیں ، لیکن ہمیں اِس کے نزدیک ہونے کا بہت فائدہ ہوا، کہ ہر نماز وہیں ادا ہونے لگی، اللہ کا شکر کہ ہم سب کی صحت بھی ٹھیک رہی،، اپنی چھوٹی موٹی خریداری بھی ہو چکی ، اب واپسی کے صرف سات دن رہ گئے تھے۔ اس دوران بہت طواف کرتے رہے ، بہت سے حاجی اپنے وقت پر واپس اپنے اپنے دیس لوٹ رہے تھے ،،، یہ کیسا عجیب وقت تھا ، کہ غم اس "مرکزِ دین و آخرت" سے دوری کا اور خوشی اُسی" مرکز کے خالق و مالک" کے بلاوے پر ، ایک فریضہ مکمل کرنے کی ،،،، ! اِن لوٹ جانے والے شمال جنوب ، مشرق ،مغرب کے مسلمان ، جن کی شکلیں ، پہناوے ، اُطوار سبھی میں اتنی رنگا رنگی تھی کہ ، سمجھ نہیں آتا تھا کہ ، خالق کے گھر کو دیکھیں یا خالق کی اِس تخلیق کو دیکھیں ۔ مجھے نیگرو ، لوگوں کے اتنے متفرق خدو خال دیکھنے کو ملے ، کہ سفیدی کے حُسن کے اُلٹ بھی خوب صورتی نے دنگ کیا ،، جب ہم مسجدِ نبوی ﷺ میں تھے ،، تو ایک جمعہ بھی پڑھنے کو مل گیا ،، اور تب ، اُس جمعۃالمبارک کا جو اہتمام ، ان نیگرو خواتین میں نظر آیا ،، یہ خوش کن نظارہ تھا،،جو بہت ذیادہ خوش حال بھی نہیں تھیں ،اُن کی تیاری پر بھی رشک آرہا تھا۔ ہم نماز کے لیۓ جس صف میں کھڑی تھیں ، اس کے بالکل سامنے ایک نیگرو " حُسن کا مجسمہ" صلاۃ التسبیح پڑھ رہی تھی ،، اُس نے بہت نفاست سے سر سے پاؤں تک خوبصورت فریش سبز رنگ کا لباس پہن رکھا تھا ،،، جب وہ فارغ ہوئی ، تو اس کا لمبا قد ، ، اُسے مزید شاندار بنا رہا تھا ۔ اسی طرح ، دو سناگالین بہنیں ہمارے ساتھ آبیٹھیں ، جن میں سے بڑی بہن صرف سکول تک پڑھی تھی جب کہ دوسری نے فرانس سے پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا ، دونوں نے اپنی حیثیت کے مطابق بہترین لباس پہنا ہوا تھا ،،، اور یہ نوٹس کیا کہ ذیادہ تر نیگرو خواتین کے لباس میں" لیسسز " کا استعمال بہت وافر اور سلیقے سے ہوا ، تھا ۔ اسی طرح ہم نے مراکش کی خواتین کے شنگھائی کے عبائیہ ٹائپ لمبے کوٹ اور خوبصورت سکارف پہنے دیکھے، تو ہماری ستائشی نظریں ان کو دیکھتی چلی گئیں، کہ اُن کا حسن بھی دوبالا ہو رہا تھا ، چینی حجاج خواتین اپنی ہی نفاست سے آئی تھیں لیکن ترکی ، چیچنیا ، اور ملائیشین ، انڈونیشین خواتین کی سج دھج الگ ہی تھی کہ ان کے لباس ، اس تمام عرصے میں ، کسی وقت گندے نظر نہیں آۓ ۔ اور جمعے کے دن کا اُن کا اہتمام مزید قابلِ رشک تھا ،،،، آہ مگر ایک پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیشی ، سری لنکا ،،، ہمارا حلیہ بالکل کسی اہتمام کے بغیر ،، کوئی سجاوٹ نہیں، کوئی ذوق نہیں ،،، ! کچھ سمجھ نہیں آیا  ، ہمیں تو کسی ایک حاجی نے اس طرف متوجہ نہیں کیا کہ اچھے ، خوب صورت حلیۓ میں رہنا ، خاص طور پر جمعے کے دن اور حج کے دنوں میں ،،، خیر ،،،بات ہو رہی تھی کہ اب حج فلائیٹس جلدی جلدی واپس جا رہی تھیں ،،،خانہ کعبہ میں رش کم ہو رہا تھا اُس دن شاید ترکی   کے اُس حاجی کی فلائیٹ تھی ، جو میرے ذہن سے ، کبھی محو نہیں ہوا ،،، اس نے شاید طوافِ وداع کر لیا تھا ، وہ حلیے  سے کوئی کسان یا محنت کش لگ رہا تھا ، ، ، دبلا سا ، جینز ، بشرٹ میں وہ خانہ کعبہ کے کافی قریب ، گُھٹنوں کے بل بیٹھ کر ، اپنی زبان میں ،، باآواز بلند اشعار پڑھ رہا تھا ، اور کعبہ کی طرف کبھی ایک ہاتھ اور کبھی دونوں ہاتھ اُٹھا کر ، جس درد مندی اور سوز سے وہ اشعار پڑھ بلکہ گا رہا تھا ،،،،،، کہ کچھ سمجھ نہ آنے کے باوجود ، ہمارے آنسو رواں ہو گۓ ۔ ہمیں خود بخود اس کے جذبہء عشق کا احساس ہو رہا تھا ،( جو ہم سب کا مشترکہ تھا ) اس ترکی کے 60 ،65 سال کے حاجی کو پتہ تھا ، دوبارہ آنا ہو نہ ہو ،،، اسکا یہ والہانہ پن ہر گزرنے والے حاجی کو رُلا رہا تھا ۔ ،، کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ، جو برملا اپنے اظہارِ محبت کا سلیقہ رکھتا ہے ۔
اب ہم جس بلڈنگ میں تھے ،، اس کے کچن میں برتن کم تھے ،، یا یہ برتن بھی ، پچھلے حاجیوں کے ہو سکتے تھے ، بلڈنگ سے روانگی کے وقت ہم نے بھی اپنے ساتھ لاۓ کافی برتن چھوڑ دیۓ ،،، سامانِ سفر باندھا گیا اور 19جنوری 2006ء کی صبح ہم نے طوافِ وداع کیا ،،، اور ، کن جذبات کے ساتھ واپس آۓ ،،، یہ سب کے اپنے اپنے تھے ۔ دوپہر تک بسیں آن پہنچیں ، ، ، طبیعت کی خرابی پھر شروع ہوگئی ،، سفر مجھے خوف میں مبتلا کر رہا تھا ،، جدہ ائرپورٹ پہنچے اور دو گھنٹے کی کڑی دیکھ بھال کے بعد ، جب جہاز کی طرف جانے کے لیۓ قدم بڑھاۓ تو سعودی حکومت کی طرف سے ہر حاجی کو اردو ترجمہ و تفسیر کے قرآن پاک ، دیۓ گۓ ،۔ ہم نے جہاز کی سیٹیں سنبھالیں ،، بیٹھ کر اپنے آنے والے استقبال کا تصور کیا ،، اور کچھ دیر آنکھیں بند کرلیں ،،، عصر اور مغرب جہاز میں ادا ہوئیں ،، اور عین مغرب کےبعد جہاز راولپنڈی ایر پورٹ پر اترا ،، ہمارے سامان لانے ، اور ہمیں مزید چیکنگ تک ایک ویٹنگ لاؤنج میں بٹھایا گیا ،، معلوم ہوا ، میرے گھر سے علی آگیا تھا ،، لیکن باقی تینوں نگہت ، اقبال بھائی اور ان کے بھتیجے پاشا کا استقبال ان کے گھر کے پانچ ، چھے لوگ آۓ ہوۓ تھے ،،، ایئر پورٹ کے حکام کا انتظام اور رویہ ، افسوس ناک تھا ۔ لاؤنج میں زم زم کی بوتلیں پھٹ چکی تھیں ۔ اور سارے میں پانی ہی پانی پھیل ہوا تھا ۔ عشاء کی نماز یہیں لاؤنج میں پڑھ لی گئی ، اور جب باہر آۓ تو پاشا کی پھوپھی کی طرف سے ہمیں بھی گلاب کے ہار پہناۓ گۓ ۔ ہم اس قسم کے استقبال کی قائل نہیں ہیں ، اس لیۓ علی کو پہلے ہی منع کر رکھا تھا ،،، ہم نے ایک فریضہ ادا کیا ہے ،،، اللہ کی جتنی شکرگزاری کی جاۓ، اتنا کم ہے ،،،، باہر آکر جوجی نے اور میَں نے علی کو پیار کیا ، ہاشم بہت  پُرجوش تھا ۔ سامانِ زیست کار میں رکھا گیا، پاشا کے گھر والوں نے سب اپنے مہمانوں کے لیۓ گرینڈ کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا ، اور کہا گیا ،" آپ نے بھی آنا ہے " ،، لیکن ہم نے معذرت کر لی ۔ اور واہ کینٹ کی طرف روانہ ہو گۓ ،، راستے بھر سب کی خیریت اور نئے مہمان کا پو چھتے رہے ،، ایمن ثمن ، ماہرہ ، جوجی کی بیٹیاں، آپا کے گھر میں آچکی تھیں ، میری بیٹی بھی پنڈی سے واہ آ چکی تھی ۔ اور ہم سیدھے آپا کے گھر ، داخل ہوۓ تو رات دس ، بج چکے تھے ، بر آمدے میں سارا ہمارا خاندان موجود تھا ، باری باری سب سے گلے ملے اور، ، ، پھر نۓ مہمان محمد عمر علی قریشی کو گود میں لیا ،،تو وہ ہو بہو ، ویسا ہی تھا ، جیسا میں نے خواب میں دیکھا تھا ،،،،،، کھانا کھایا گیا ، اور تھکاوٹ سے چُور ، ہم جلد سونے چل پڑیں ،،، اور صبح ملاقات کا کہا۔
اور اگلا دن ،،، اور اسکے بعد اگلا پورا مہینہ ، ہمارے مہمان کا بلامبالغہ ، وہ رَش رہا کہ ، ، ہمیں آرام کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا ،،،جس کا نتیجہ تھا کہ کئی مرتبہ ہم مہمان کے بیٹھنے ، کے دوران نیند سے بےحال ہو جاتیں، کہ آنکھیں بند ہو ہو جاتیں۔ نمازیں پڑھنے کا موقع بہ مشکل ملتا ،،، محبتیں پہنچانے والوں کی محبتوں کا بےحد شکریہ ۔ ،، ہمیں تو خود اندازہ نہ تھا کہ ہم اتنے استقبال کے مستحق ہیں ۔ الحمدُ للہ ، آخر کار ، دو ماہ تک یہ سلسلہ کچھ کم ہوا ،،،،،،،!! ۔
اگلے سال کا حج پھر جنوری 2006ء میں آیا ، اور میں نے نگہت ، اقبال بھائی ، کو فون کیا ،، میَں نے دلی شکریہ کہا کہ آپ کے ساتھ نے ہمیں نہایت تسلی ، اور اطمینان سے یہ فریضہ ادا کرنے کا موقع دیا ،،، میں آپ کی مشکور ہوں ،، وغیرہ ، پاشا کو الگ فون کرکے اس کی خوشگوار طبیعت کے تحت ، ہمارا بہت اچھا وقت گزرا ، اصل میں میَں ،،، تو بس وہیں مکہ اور مدینہ کے روز و شب میں اٹک گئی تھی ۔ ( ہو سکتا ہے وہ اس سپل میں نہ ہوں ) اس سے اگلے سال ، پہلی حج فلائیٹ گئی ،، پھر نگہت اور اقبال بھائی کو شکریہ کے جملے بولے ،،، میَں واقعی ان تینوں کی مشکور تھی ،، کہ ایک شریف اور  کوآپریٹو, , فیملی نے ہمیں ، محبت ، عزت اور تحفظ کا احساس دیۓ رکھا ،،، اور ،پھر تیسرے سال بھی میں نے شکرئیے کا فون کیا ،، لیکن چوتھے سال فون " نہ "کیا کہ وہ کہیں گے اسے اور کوئی کام نہیں ،،،تو جواباً تینوں فیملی ممبرز اگلے دن  میرے گھر آگۓ ،،، کہ ہم بھی حج کی پہلی فلائیٹ کے ساتھ ، تمہارے فون کا انتظار کرتے رہے اس دفعہ تمہارا فون نہ آیا ،، تو سوچا ہم ، تمہیں سرپرائز دیں ، میں نے کہا " دراصل میں حج کے" سِحر" ،، مکہ ، مدینہ کے شب و روز سے نکل ہی نہیں پائی تھی ، میں اپنے ساتھیوں کا شکریہ کیوں نہ ادا کروں کہ جن کے ساتھ نے ہمیں مطمئن کیۓ رکھا ، خاص طور پر پاشا کا شکریہ کہ ، اس کی خوش مزاجی سے سارا وقت ماحول خوش گوار رہا، اور ہاشم کو ایک اچھا دوست بھی،مل گیا ، جس نے اسے کمپنی دی ، کہ مَیں بھی بےفکر رہی ،،، یہ بہرحال ماننے والی بات ہے کہ اگر سفر میں گروپ ممبران ، تعاون ، و احترام کرنے والے ہوں ، سب کا نقطۂ نظر سننے والے ہوں ،، تو سفر میں ٹینشن نہیں رہتی۔ 
آج یہ ہمارے یا میرے" سفرِ حج " کا آخری صفحہ تھا ،،، مَیں نے بہت سے سفرِحج پڑھے ہیں ،، وہاں کی تاریخی معلومات دینا ، بہت اچھی بات لگتی ہے لیکن ، مجھے یوں لگا کہ یادگار ، ناقابلِ فراموش سفر بس سادے انداز سے ،، صرف اپنے جذبات کے تحت اس سفرِحج کو بیان کیا جاۓ ،،، جو میَں نے محسوس کیا ،لکھ دیا ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ میرے احساسات ، سب گروپ ممبران کے ہوں ۔ حالانکہ اس سارے سفر میں " ہمارے " کا صیغہ ذیادہ استعمال ہوتا رہا ۔ کہ "ہمسفر" ، سارے سفرکے دوران ایک یونٹ کی طرح ہوتے ہیں ،، اللہ اُن سب کو دنیا و آخرت میں آسانیاں عطا کرے آمین ۔ اور ہمارے حج کو قبول فرما لے آمین۔
دو سال بعد مجھے " الھُدیٰ سکول " میں حج سے متعلق لیکچر دینے کے لیۓ بلایا گیا ،، یعنی ویسی ہی ایک ورکشاپ کروائی گئی ، جیسی ہم نے ایٹینڈ کی تھیں ۔ تب میں نے وہ تمام پوائنٹس یہاں بیان کر دیۓ کہ آپ کا حلیہ ، آپ کا دوسروں سے رویہ ،، اور ، آپ کا ہر قدم پر دوسروں کے ساتھ تعاون ، نا صرف اللہ کے نزدیک پسندیدہ افعال ہوں گے ، بلکہ آپ اپنی قوم کی نمائندگی کر رہے ہوں گے ،، اسے آسان نہ لیں ، سنجیدگی سے لیں اور ان پر عمل کریں ۔ نیز میَں نے لیکچر کے دوران بتایا کہ میَں ،نے کبھی مکمل چیک اَپ نہیں کروایا تھا کہ مجھے کیا ہوناہے ؟ ۔ کوئی بی پی نہیں کوئی شوگر نہیں ،،، لیکن وہاں کی مسلسل طبیعت کی خرابی ، بھوک ختم ، ہو گئی تھی میرا ، 8 کلو وزن کم ہو گیا تھا ،، واپس آکر چیک اَپ کرایا ، تو علم ہوا ، گال بلیڈر ( پِتہ) ، سٹونز (پتھروں)سے بھرا ہوا ہے اور فوری آپریشن ہونا ضروری ہے ، چنانچہ آپریشن ہوا ،، اور اب میَں بالکل ٹھیک ہوں ، آپ لوگ بھی اپنا چیک اَپ کروا لیں" ۔ 
مجھے اکثر لوگ پوچھتے ہیں ،، آپ دوبارہ حج پر نہیں گئیں ، ، میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ " پہلے کے سِحر سے نکلوں تو اگلے کا سوچوں " ،، اور یہ بات تو طے ہے کہ اس رب ِ ذوالجلال والاکرام کا بلاوہ جب تک نہ ہو ،کوئی وہاں قدم نہیں رکھ سکتا ، ! 
واپس آکر ایک نظم جو اپنے رب کی میزبانی کی محبت میں لکھی تھی ، پیشِ خدمت ہے اسے صرف " والہانہ عشقِ " کے اظہار کا طریقہ جانیۓ ، ۔
 حرمِ کعبہ پر پہلی نظر " (جنوری 2006ء)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 
میَں آج کس مقام پر ہوں 
یہ خواب ہے یا حقیقت ،، 
میرا جسم ، میرے ساتھ ہے ؟
یا ۔۔۔ شاید مَیں اپنے مکاں میں نہیں ہوں ،
تُو نے مجھے میزبانی بخشی ، 
میرے منہ میں وہ لفظ بھی ڈال دے 
کہ تُو راضی ہو جاۓ ،،،،
تیری شکرگزاری کا حق ادا ہو جاۓ 
میرے مالک وخالِق !!
زمین کے ذروں ،،،
آسمان کے تاروں ،،،
زمین کے پتوں ،،،
آسمان کے قطروں سے بھی ذیادہ ،
تشکر ،، تشکر ،، تشکر !
کہ میَں حاضر ہوں ، 
تیرا کوئی شریک نہیں
کہ میَں سرتاپا ،،،،
لرزیدہ آنسو ،
میَں حاضر ہوں 
میرا اندر باہر کالا 
میرا دامن لِیرو لِیر 
تُو غنی از ہر دو عالم ، مَن فقیر ( علامہ اقبالؒ)
مَیں سراپا آنسو !
تُو بخش دے ، اے سمیع و بصیر !!!!
( منیرہ قریشی 18فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں