جمعرات، 8 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہائےسفر)۔" سفرِِحج" (9)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِحج" (9)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم خواتین نے نیگرو عورتوں سے کافی ڈوپٹے اور اونی خوبصورت جرابیں خریدیں ،، ذیادہ کوشش تھی کہ جس کسی کے لیۓ کچھ سوغات لینی ہے تویہیں سے لیں ، کیوں کہ اب مکہ میں خوب رش ہو چکا ہو گا ، ،۔
مدینہ پہنچنے کے دوسرے دن ، صبح 10 بجے ہم نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی، اور اب اُن یادگار زیارتوں کی طرف عازمِ سفر ہوۓ ، جن کی حسرت ، ہراُس دل میں ہوتی ہے ، جو ایک دفعہ مکہ یا مدینہ پہنچ جاۓ۔ مدینہ سے 25، 20 ، منٹ کی ڈرائیو پر مسجدِِ" قُبا" پہنچے ،اور ایک دفعہ پھر دل ، و دماغ میں ہلچل مچ گئی ،، اُس پاکیزہ ہستیؐ کی آمد کا نظارہ ، آنکھوں میں پھرنے لگا ۔ میں جب بھی آپﷺ کی مدینہ ہجرت سے متعلق پڑھتی ہوں ،، تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتےہیں ۔ اور اب جب مکہ سے روانگی ہوئی،،، تو سارے راستے کو دیکھتی چلی گئی تھی کہ اتنے طویل راستے میں کوئی بڑا درخت نہ تھا کہ اُسی کی اوٹ لے کر سایہ میں کچھ دیر کو سستا لیا ہوتا ،،، یا ، ،، دشمن کے تعاقب پر خود کو یا اونٹوں کو ان درختوں کے پیچھے چُھپا لیا ہوتا ،،، اور پھر آمدِ رسولﷺ ،، اور آپؐ کی قصویٰ کا آپُ کے لیۓ پڑاؤ پر پہنچنا ،، اب مسجدِ قُبا ، ، ایک مرتبہ پھر آنکھوں نے محبت کے پھول پیش کیۓ ،، مَیں تو اس سارے سفر میں ، ماضی ، اور حال کے فلیش بیک سے اتنی دفعہ گزری کہ اب میں جسمانی سے ذیادہ ،، ذہنئ طور پر تھک گئی تھی ۔ لیکن مسجدِقُبا بےشک اب جدیدترین رنگ میں ہے لیکن ،، اس کی فضا میں آج بھی تاریخی لمحوں کی موجودگی کا احساس شدید تھا ،، یہاں کن جگہوں پر ،، کیسی کیسی ہستیوں کے قدم پڑے ہوں گے۔
آج اس چھوٹی سی مسجد میں رش بھی نہیں تھا ، آرام سے بہت سے نفل پڑھے ، پھر باہر آکر اس کے اردگرد پھر کر اسے عقیدت سے دیکھا ،، اور ان نظاروں کو دل میں بسا کر آگے بڑھے ۔ کیا پتہ پھر آنا ہو کہ نہ ہو !۔
بہ واپسی ، راستے بھر ،عربی ڈرائیور نے جسے کچھ لفظ، انگلش ،کچھ اردو کے آتے تھے، اس نے دور سے ہی مسجدِ بلال ؒ ، مسجدِفتح ، مسجدِعمر دکھائیں ،، اور ٹیکسی ، سیدھا " جبلِ احد " تک لے گیا ،، وہاں حاجیوں کی بہت سی بسیں موجود تھیں ،، کافی حاجنیں ، شاپرز میں جبلِ احد کی مٹی ڈال رہی تھیں ،، دل تو چاہا کہ ہم بھی ایسا کریں ،، لیکن نگہت ، کی پریکٹیکل سوچ نے منع کر دیا ۔ اس پہاڑ کے سامنے " جنت البقیع " کے باہر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی ۔ باہر بورڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا، " یہاں گِریہ کرنا ، اور یہاں سے مٹی اُٹھانا غیرشرعی حرکات ہیں " جبلِ احدسیاہی مائل کافی اونچا چٹیل پہاڑ ہے ۔اور پھر جنگِ احد کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا۔ ،، اور پھر ماضی ، اور وہ بھی قابلِ فخر ، شاندار ماضی ،،،، !!ہم بہ مشکل عشاء کی نمازتک مسجدِ نبویؐ پہنچے۔ رات کو بستر پر لیٹتے ہوۓ ، خود پر حیرت ہو رہی تھی ، کیا ہم وہ مقامات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں !!کیا میں اتنے نصیب والی ہو سکتی ہوں۔
ؔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے ، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ،
دو دن ایسی مزید مصروفیت میں گزرے کہ کبھی کسی شاپنگ مال ، یا کسی گلی کوچے میں ویسے ہی نکل جاتیں ۔ 
ایک دن مسجدِ نبویؐ میں ظہر کی نماز سے پہلے ، علی کے بچپن کےدوست عمر رضا کی بہن ، رومانہ سے ملاقات ہوئی ، بہت خوشی ہوئی ، وہ اپنے شوہر عارف کے ساتھ حج پرآئی ہوئی تھیں ، اور اُسی گروپ میں شامل تھے جب ہم نے ظہر پڑھ لی ۔ تو جوجی اور نگہت ، اب تیسری مرتبہ " ریاض الجنہ " جانے کی تیاری کرنےلگیں ۔ مجھے اتنے رش اور بھگدڑ میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ، حالانکہ دل چاہ رہا تھا ،،، میں دعاؤں میں مصروف ہو گئی ۔ کہ رومانہ کہنے لگی ، کیا آپ نہیں چلیں گی ،، میں نے کہا " بھئ خود میں ہمت نہیں آ رہی ،،، کہنے لگی ، آنٹی ، میں ہوں نا ،، سب سنبھال لوں گی ،، اس نیک بی بی نے میرے ریاض الجنہ پہنچنے تک ، اور پھر وہاں پہنچ کر خود کو ڈھال بنا کر کھڑی ہو گئی کہ آپ نفل پڑھیں ، میَں نے نفل تو پڑھے ، لیکن مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کیسے دھکے پڑ رہے ہیں ،، ،،، اللہ اسے جزاۓ خیر دے ، اور دنیا و آخرت میں آسانیاں عطا کرے ۔ سلام پھرتے ہی اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور کہا آپ باہر میرا انتظار کریں میں بھی نفل پڑھ کر آتی ہوں ،، جب وہ آئی ، تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا ،،،میَں تو راستے بھر اس کا شکریہ ادا کرتی رہی ، ، اور وہ مجھے ، کوئی ایسی بات نہیں ،، کے لفظ کہتی رہی ،، وہ خوب وزن دار ، اور اونچی لمبی لڑکی تھی ،، اس لیۓ اتنے رش کا مقابلہ کر پائی ،، اللہ اسے اجر دے۔
اس دوران کبھی کبھی وہ لوگ مل جاتے ہیں ، کہ جیسے ہماری یادوں میں رہ جانے کے لیۓ ملتے ہیں ،،، ایک دن مسجدِ نبوی کے باہر ہی جگہ ملی عصر کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا ،، مَیں ، جس خاتون کے ساتھ جا بیٹھی ،،اس سے سلام دعاہوئی ،، اسکی انگلش بہت بہتر تھی ، اس نے ایرانی طرز کا برقعہ پہنا ہوا تھا،، جیسے ہی میں نے بتایا ، ہم پاکستان سے ہیں ۔اس نے بتایا میَں " زاہدان " سے ہوں اور سُنی ہوں ،،وہاں شیعہ کے درمیان ، اپنے مسلک پر رہنا بڑی بات ہے کہ اس شہر میں ہم وہاں تھوڑے سے ہیں "!جب ، ہم پہلی مرتبہ " ریاض الجنہ " کے لیۓ بنے راستے میں تھیں اور داخل نہیں ہوئیں تھیں،،کہ ،، سیکیورٹی پر معمور خاتون نے سب کی تلاشی لینی شروع کر دی۔ تو میرے ساتھ ایک انڈونیشی لڑکی کھڑی تھی ، اور وہ اپنے پینٹ جیسے پاجامے کے گرد ایک فیروزی سی سوُتی چادر لپیٹ رہی تھی،، میَں اسے دیکھ رہی تھی اس نے بتایا ،، ہم نماز کے وقت ایسی چادریں لپیٹ لیتی ہیں ،، ریاض الجنہ سے اتفاق سے ہم دونوں ایک وقت میں باہر کے دروازے سے نکلیں ،،، اس نے مجھے دیکھا ، تو فوراً اپنی فیروزی چادر اتار کر مجھے دے دی ،، یہ میری طرف سے ، اب میں بتیرا ، کہہ رہی ہوں ،، میں نہیں لوں گی ، ، لیکن اس نے ایسی زبردستی دی ،، کہ میں شرمندہ سی ہو گئی ،، وہ چادر ، آج بارہ سال بعد بھی میری الماری کے ایک کونے میں دھری ہے ، یہ نہ خود استعمال کی ہے ، نہ کسی کو دینے کو دل چاہا ،، بس کبھی صفائی کے دوران ، ایک فیروزی سی جھلک نظر آجاۓ ، تو مسجدِ نبویؐ ، انڈونیشیا ، اور وہ لڑکی ،،، یہ" منظر" لمحہ بھر کے لیۓ آنکھوں ، اور ذہن کے سامنے پھر جاتا ہے ،،مَیں ایک دن ایک چھوٹی سی دکان پر کچھ چیزیں دیکھ رہی تھی ، میرے پیچھے ، بہت چوڑا سا راستہ ، بلکہ چوڑی سڑک تھی ، مجھے نگہت ، اور جوجی نظر نہ آئیں ، تو انھیں دیکھنے کے لیۓ نظر دوڑائی ، کہ دُور سے ایک بہت لمبا ، متناسب جسامت ، والا ، خوب صورت چہرے پر ، سنہری فریم کی نظر کی عینک ، صاف رنگ ، شیروانی ٹائپ کرتا ، پاجامہ ، ،، ناف تک لمبی لیکن ہلکی، کچھ گرے ڈاڑھی ، جب وہ اُسی دکان کی طرف آتا نظر آیا ،،، تو آتے ہوۓ ، اس کی لمبی ڈاڑھی خوب لہرا رہی تھی ،، مجھے اعتراف ہے کہ وہ اتنا خوب صورت تھا کہ " فرشتہ " لگ رہا تھا ، اور میری نظریں مسلسل اسے ستائشی اندازسے دیکھے جا رہیں تھیں ،، ( اللہ مجھے معاف کرے ) لیکن ، اس پورے قیام کے دوران ہزاروں ، لاکھوں لوگوں میں یہ ایک ہی عجیب سا خوب صورت انسان تھا ،، جب وہ اُسی دکان پر آ پہنچا ، تو دیکھا ، وہ بہ مشکل میرے بڑے بیٹے جتنا ہو گا ،، اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور نور سا تھا ۔مَیں نے پوچھ ہی لیا ،،" کس ملک سے تعلق ہے " اس نے انگلش میں ہی جواب دیا " بوسنیا " ،،، اس نے بھی پوچھا ، تو مَیں نے بتایا " پاکستان "! !" بوسنیا " کا نام سن کر اور اس لڑکے سے مل کر علم ہوا ،، کہ لوگ کہتے تھے کہ بوسنیا کے لوگ بہت حسین ہوتے ہیں تو اب یقین آگیا ،، یقیناً اور قومیتوں میں بھی اپنے ہی الگ رنگ کا حسن تھا ،، سیاہ نیگرو خواتین میں ایسی پُرکشش خواتین تھیں ، کہ اللہ کی شان نظر آتی، ترکی اور چیچنیا کی ذیادہ تر خواتین خوب صورت تھیں ،، کچھ ان کے صاف ستھرے اور نہایت ڈیسنٹ حلیۓ ،، انھیں خوب صورت بنا رہے تھے ،، اور کچھ قوم کے افراد میں بہت خوب صورتی نہیں تھی ، لیکن ان کے چہروں پر عجیب شان اور دبدبہ نظر آتا ،، اور وہی بات سچل سرمست کی ،،ؔ وہ اپنا رنگ دیکھنے کے لیۓ لاکھوں بیکھ بنا رہا ہے ،،،،کچھ دیر کے بعد جوجی اور نگہت مل گئیں ، تو میں نے انھیں بتایا ،، آج میں نے اللہ کی بنائی مخلوق میں سے ایسا حُسن شاید ہی کبھی دیکھا ہو !!۔
مدینہ سے ہی کھجوریں ، خریدنا ہیں ،،، اقبال بھائی نے ہمیں پہلے ہی کہہ  دیا تھا ، چنانچہ مدینہ سے رخصت ہونے کے دو دن پہلے ، تینوں مرد حضرات ظہر اورعصر کے دوران کے گھنٹے ، کھجور بازار میں گزار کر آۓ ، اور فی بندہ 15 ،، 15 کلو کھجوروں کے کارٹن لے آۓ ،، ساتھ ہی پرُجوش انداز سے بتایا ،، صرف چکھنے میں ہی اتنی کھجور کھائی گئیں کہ ، زندگی بھر کی کسر پوری ہو گئی ۔ 
کیپٹن آفتاب ، اس کی ہمبل سی ڈاکٹر بیوی ، بہن اور بھانجے سے روزانہ ملاقات ہوتی رہی ۔ کبھی قہوے کی دعوت بھی دی جاتی ۔ آفتاب سے میرے والد کی طرف سے رشتہ داری تھی۔ 
پاشا نے ہمیشہ اپنے خوش گوار موڈ سے سب کے چہروں کو مسکراہٹ ، دینے کی کوشش کی ، اور وہ اس میں کامیاب بھی رہتا ،، اس نے یہاں بھی مختلف رنگوں کے عربی " توپ "پہن کر ایسے پوز بنا کر پروفیشنل فوٹو گرافر سے تصویریں بنوائیں ،، جیسے کوئی " ان پڑھ " بندہ ہو ،،، ہم نے انجواۓ کیا ، اور اس کا مذاق اڑایا ،، لیکن اس کا کہنا تھا " یہ سب پوز فوٹوگرافر کی مرضی سے بناۓ گۓ ہیں ،، لیکن اب ہاشم اور پاشا میں کافی بےتکلفی ہو چکی تھی ،، جب ہاشم کھُل کر ہنستا ، تو میرادل کھِل اُٹھتا ،، مَیں اور جوجی ،، یہ حج اس کے محرِم ہونے کی وجہ سے کر رہیں تھیں ،، میں تو ہر لمحہ اس کو دعائیں دیتی۔مجھ میں خوداعتمادی کی کمی رہی ،،اس لیۓ آج بھی اکیلے سفر کا حوصلہ نہیں کر پاتی ،، اور یہ تو پہلا غیرملکی سفر بھی تھا ، ہمارے لیۓ اپنے بچے کا ساتھ ہونا ، بہت معنی رکھتا تھا ،، ہاشم نے ہمارے ساتھ آ کر بہت دعائیں سمیٹی تھیں ، اللہ سے دعا ہے ، اس بات کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں عطا کرے ۔ آمین !۔
( منیرہ قریشی، 8 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں