پیر، 12 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہاۓ سفر)۔" سفرِِ حج" (11)۔

یادوں کی تتلیاں"(سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" (11)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عمرہ خیروعافیت سے کرنے کے بعد ، اس مرتبہ پتہ چلا کہ اب حج کے شروع ہونے تک ہم " عزیزیہ " میں ٹھیریں گے ،، چناچہ بہت سی حاجی فیملز بس میں ہی " عزیزیہ" پہنچیں ۔ اس مناسب سی بلڈنگ کی تین یا چار منازل تھیں ، بس سے سب کا سامان اتارا گیا، اور ہوٹل ملازمین کے ذریعے ان کے کمروں تک پہنچایا گیا ۔ ہمیں ایک بڑا اور ایک چھوٹا کمرہ ملا ، اس کی بالکنی بھی تھی، ان دونوں کمروں کے ساتھ مزید ایک بڑا سا کمرہ تھا جو، ایک اور فیملی کو ملا ،، اور اب ہم چند دن کے لیۓ پڑوسی تھے۔ لڑکوں نے جلدی جلدی ہمارے بستر ٹھیک کیۓ اور کاؤنٹر پر چلے گۓ کہ باقی معلومات لی جائیں۔ اس سارے میں قریباً عصر ہونے والی تھی ، اور میں کمرے کے بستروں سے ذرا مایوس ہو کر نیچے کے لان میں کرسیاں بچھیں تھیں ، وہاں دھوپ میں آبیٹھی،، اب مجھے ہلکا ہلکا بخار محسوس ہو رہا تھا ،، اور بہت بےزاار شکل کے ساتھ بیٹھی تھی ، جوجی بھی آ بیٹھی ، اور اسی نے بتایا اوپر کے کمرے کے ساتھ اچھا بڑا کچن ہے جس میں کچھ برتن بھی ہیں ، یعنی چاۓ ، یا ، کھانا پکایا جا سکتا ہے ۔ اور ایک کپڑے دھونے کی مشین بھی ہے ، سرف بھی پڑا تھا ، میں نے اور نگہت نے 15 ،20 منٹ میں سب بستر کی چادریں اور تکیوں کے غلاف دھو دیۓ ہیں ۔ اب تم آرام کرنا چاہتی ہو ، تو چلی جاؤ۔ میں دھوپ کو انجواۓ کر رہی تھی،کہ اتنے میںعربی لباس میں  ملبوس ہماری عمر کے ایک معزز سے  صاحب  وہاں سےگزرتے ہوۓ ، رُک گۓ اور قریب آکر انگلش میں پوچھا " کیا سب خیریت ہے ، آپ دھوپ میں بیٹھی ہیں ؟ ہم نے بتایا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ، انھوں نے جنراسٹی سے پوچھا ،، کسی  چیز   کی ضرورت ہو تو بتائیں ،،،! میں نے کہہ دیا ، آپ کے کمرے صاف نہیں ، اور مجھے تو کمبل بھی ضرورت ہے ،، انھوں نے وہیں سے ایک جوان سے لڑکے کو بلایا ،،، اور عربی میں ہدایات دیں ،، اور خود بھی کرسی لے کر بیٹھ گئے،، اور پوچھنے لگے ، کیا آپ دونوں ، جاب میں ہیں؟ جب ہم نے بتایا کہ ہم ایک چھوٹا سا سکول چلا رہی ہیں ، تو انہوں نے بتایا میں دو سکول چلا رہا ہوں ایک مکہ میں ، ایک جدہ میں ۔ اور ہر سکول میں دو دو ہزار بچے ہیں ، اور میں نے اکثر انڈین اور پاکستانی ٹیچرز کو سلیکٹ کیا ہواہے۔ کیوں کہ وہ قابل ہوتی ہیں ۔ ،،، اس نے اپنے مینیجر کو پھر بلایا ، اور کہا ، یہ میری بلڈنگ ہے، اور یہ میرا بھتیجا ہے ، آپ کو کوئی چیز چاہیے ہو ، اسی کو کہہ دیں ۔ 
خیر کمرے میں آکر دیکھا ، تو اچھے کمبل پڑے تھے ، اور کمرے بھی صاف ہو چکے تھے ۔لیکن لڑکے جب واپس آۓ تو پتہ چلا ،، اس بلڈنگ میں اپنی روم سروس نہیں ہے ،ہمیں کھانے کا اپنا انتظام کرنا ہو گا ،، تو ہم سب ، ٹیکسی میں چل پڑے ،،، ٹیکسی ڈرائیور عربی کے علاوہ اور کسی بھی زبان سے نا بلد تھا ۔ تین ، چار میل ، بھٹکنے کے بعد ، اس نے اقبال بھائی ، اور دونوں لڑکوں سے پوچھا ،کہاں جاؤں ؟؟ اب " طعام" کے علاو کوئی لفظ نہیں آیا ،،، تو اس نے عربی میں جو کہا ہمیں سمجھ نہ آیا ، اور اب وہ کہنے لگا " آپ کا ہوٹل ؟ " ،،، تو اس وقت سب کو احساس ہوا کہ ہم نے نہ کوئ ڈائیریکشن دیکھی ، نہ ہوٹل کانام ،،، مرد حضرات تو فکر مند ہو گۓ ،،لیکن ہم خواتین پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا کہ ، ہم کیسے پڑھے لکھے " اَن پڑھ " ہیں جنھوں نے نہ ہوٹل کا نام دیکھا نہ روڈ اور ، کھانے کی فکر میں چل پڑے ۔ خیر ہم نے ٹیکسی کو کرایا دے کر فارغ کیا ، پیدل چل پڑے ، بہ مشکل 15 منٹ چلے تھے کہ اپنا ہوٹل نظر آگیا ۔ شکر کیا ،، اب پھر جوان بچوں نے کمال دکھایا کہ وہی دونوں گۓ ، مزید آدھے گھنٹے میں وافر ، کھانے کی چیزیں لے آۓ ،، معلوم ہوا ، اسی بلڈنگ کی بیک پر جو سڑک تھی ، سبھی کھانے پینے کی چیزیں ، اسی پر ہیں ۔بلکہ صبح کے ناشتے کا سامان بھی آگیا ،،، پتہ چلا ، حرمِ پاک ، یہاں سے ڈھائ ، میل کے فاصلے پر ہے ، اسی لیۓ روزانہ وہاں جانا ممکن نہیں ، صرف جمعہ وہاں پڑھا جاۓ گا ۔ ٹیکسیوں کے کراۓ ٹرپل ہو چکے ہیں ، اس لیۓ اب حج کے 6 ، دنوں تک صبر سے کام لینا ہو گا ،،، یہ بات اگرچہ قابلِ قبول نہیں تھی ، لیکن چارہ بھی نہ تھا ،، اب ساتھ والے پڑوسی کمرے کے افراد نظر آۓ۔ کیوں کہ ہمیں ایک باتھ روم شیئر کرنا پڑ رہا تھا ، اس کمرے میں تین خواتین اور دو مرد حضرات تھے ،، جوجی ، کی بے تکلف طبیعت نے اِس کمرے کی جوان لڑکیوں سے فوراً  سلام ، دعا ، کر لی ،اور انھیں کھانے کی کچھ چیزیں بھیجیں ، ، اور یہ بات مزید محبت کا باعث بنی ۔ بہت بزرگ ، خاتون ، ان میں سے دونوں لڑکوں کی اور ثمینہ کی امی تھیں ، جبکہ دوسری لڑکی ، چھوٹے بیٹے کی بیوی تھی ،،، ان پانچ ، چھے دنوں میں ، ان کا بہت سا تعارف ہو گیا ، بڑا بیٹا ، آرمی میں میجر تھا ، چھوٹا اپنا بزنس کرتا تھا ۔ جو اپنی بیوی کے ساتھ آیا تھا اور چوں کہ تبلیغی جماعت سے بھی تعلق تھا ، اس لیۓ کمرے میں ہی ایک پردہ لٹکایا گیا تھا ، جس کے ایک طرف ان میاں بیوی کے پلنگ تھے اور باقی کمرے میں والدہ ،ایک بیٹے عاطف ،اور بیٹی ثمینہ کے پلنگ بچھے تھے ۔ ساری فیملی خوش اخلاق ، مہذب ، اور بہت تعاون کرنے والی تھی ،، دوسرے ہی دن ہم خواتین ، انہی کے کمرے میں جا کر گپ شپ لگانے پہنچ گئیں ،، بزرگ خاتون کا نام بھول گئی ہوں ، لیکن وہ بھی ایک " منفرد کردار تھیں " اِن دنوں تو وہ وہیل چیئر پر تھیں ۔ لیکن اُن کی اور بیٹی ثمینہ کی زبانی علم ہوا کہ ، خاتون ، جوانی میں بیوہ ہو گئیں ، شوہر کوئ سرکاری ملازم تھے ،، گورنمنٹ کی طرف سے انھیں جو پیسہ ملا ، ، والدہ نے جو بہت پڑھی نہ تھیں ، لیکن برقعہ پہن کر ، ٹھیکیدار کے سر پر کھڑے ہو کر سرگودھا میں اپنا گھر بنوایا ، اپنی دو بیٹیوں ، دو بیٹوں کو اس خوب صورت عورت نے بہت سختی سے پالا ،، تاکہ یہ بچے ٹریک پر رہیں ،،، اور وہ رہے بھی ۔ اب دونوں بیٹیاں ، ایم ایس سی ،، بیٹا آرمی آفیسر ، اور چھوٹا کامیاب بزنس مین تھا ،،، بزرگ خاتون کی سختی ، نے ان کے مزاج کو تھوڑا کڑوا کر دیا تھا کہ ، لیکن ان کے چہرے پر نور اور وقار تھا ،، انھوں نے کسی کا احسان لینے کے بجاۓ اپنے وسائل ، اور عقل کے مطابق اپنے گھر اور بچوں کو گرم سرد سے بچایا تھا ،،، آج بچے ان کو حج پر لاۓ تھے لیکن اتنے تعبیدار ، اتنے شریف الفطرت بچے !،،، کہ ہم آج بھی ان کے لیۓ دعا گو ہیں اور وہ اُن 6 دنوں کے پڑوس نے ہمیں 12 سال بعد بھی ان کی یاد نہیں بُھلائ ،،، آج وہ جہاں ہیں ، اللہ سبحان تعالیٰ انھیں ، دنیا و آخرت کی آسانیوں سے نوازے آمین ،،، ایسے مواقع پرہم اکثر کتنے کم فہم ، کم ظرف ہو جاتے ہیں ، جب پتہ بھی ہوتا ہےکہ ، ہم کچھ دنوں ، کچھ گھنٹوں ، کچھ مہینوں کے لیۓ ایک دوسرے کے پڑوس میں ہیں ،،، اس دوران ، ہم آپس کے عارضی پڑوسی ، نہ تو جائیداد پر قبضہ کرنے والے ہوتے ہیں ، نہ ، چند دنوں کی بےآرامی سے ہم بیمار ہوں گے ، ہمیں چائیۓ اس بےآرامی ،بدمزاجی میں مبتلا ہو کراپنی تربیت پر حرف نہ آنے دیں ۔ ہمارے یہ شریف النفس پڑوسی،، ہمارے لیۓ مثال قائم کر گۓ ،،، ہم 11 بندوں کو ایک باتھ روم دیا گیا تھا ،، لیکن کیا مجال کہ ایک دن بھی "پہلے ہم " والا رویہ اپنایا ہو ، بلکہ غسل خانہ صاف بھی رہتا ،، ،،اگلے دن پتہ چلا ، ونگ کمانڈر منیب کی فیملی ، اور رومانہ اور عارف بھی اسی فلور پر آچکے تھے ،، یہ دونوں میاں بیوی آ جاتے اور روزانہ ، رات کو ایک ایک کپ قہوے کا دور چلتا ، اپنی اپنی معلومات شیئر کی جاتیں۔ 
دو دن تک تو ہاشم اور پاشا بازار کا کھانا لاتے رہے لیکن ، میرا کسی چیز کا دل نہ چاہتا ،، میں نے ہاشم سے کہا ، دال مسور ، اور چاول لے آؤ ،، آج وہ پکاتے ہیں ،، برتن اورکچن تو موجود تھا ،، چاول ، دال ، نمک آیا تو ، جوجی اور نگہت کے اندر کی گھریلو عورت ، فورا" باہر آگئ۔ اور انھوں نے ، رات کے کھانے پر دال چاول پکا کر ، ابھی کمرے میں لاۓ گۓ ، کہ عارف کا گزر ہوا ، ،، کہنے لگا آنٹی بہت اچھی خوش بو آرہی ہے ،، اور دال چاول دیکھ کر خوش ہو کر صاف کہا ، میں نے بھی کھانا ہے اور رومانہ کے لیۓ بھی دیں ،، اور ہم نے خوشی خوشی دیا ، ساتھ کے پڑوس ثمینہ کو ایک پلیٹ ، اور منیب فیملی کو ایک پلیٹ بھجوا ئ ،،، ایسی برکت پڑی کہ ہم سب نے بھی خوب اچھی طرح کھایا ، اور ایک پلیٹ بچ بھی گئی ،، یہ سب اس لیۓ خوشی کا باعث ہوا ، کہ ہم سب گھر کے کھانے کے عادی تھے ، اور اب جب پاکستانی انداز کا کھانا ملا ، تو سب نے مزے سے کھایا ،،، اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم دوسروں کی خوشی کا باعث بنے ، اور اتنا معمولی کھانا ، مَن و سلویٰ محسوس ہوا ۔
اِس دوران ہم سب نے ایک دو دن یہاں کے بازار کا چکر لگایا ،، بچوں کے لیۓ کچھ چیزیں خریدیں ،،،،، ۔
اب جمعہ آگیا ، خوب تیاری کی ، ٹیکسی لی اور مکہ پہنچے ،،،، مجھے اوروں کا نہیں علم ،،، لیکن خانہ کعبہ ، کو دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے کو دل چاہا ، یوں لگ رہا تھا ، کعبہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوا ہے ، اور جیسے پوچھ رہا ہو ،، " کہاں تھے آپ لوگ " ،،، مجھے یوں لگا جیسے میں اپنے گھر آگئی ہوں ،، میرا بس چلتا تو میں فٹ پاتھ پر ٹھکانہ کر لیتی ،لیکن خانہ کعبہ سے دور نہ جاتی ،،، صرف چند دن ،، صرف چند دن ، یعنی شاید پندرہ سولہ دن ،، ہم نے خانہ کعبہ کی معیت میں گزارے تھے ،، ، ( پھر مدینہ روانگی ہوئی تھی ) ،،، اور اب یہ حال ہو گیا تھا کہ ،، کعبہ میرا ، اور میں کعبے کی ،، والا احساس ہو رہا تھا ،،،،، اُس وقت مجھے نبی پاک ﷺ کی ہجرت کا وقت یاد آیا کہ جب آپؐ ﷺکو مکہ چھوڑنے کا حکمِ ربانی ہوا تو آپؐﷺ نے کعبہ کو مخاطب ہو کر کہا تھا ، " اگر اللہ کا حکم نہ ہوتا ، تو اے مکہ ، مجھے روۓ زمین پر تجھ سے ذیادہ کوئ عزیز نہیں " ،،،،، ہم نے جمعہ پڑھا ،، طواف کیۓ ۔ اور ایک جگہ بیٹھ گئیں ،، جب مرد حضرات کی طرف سے موبائل میسج آیا ، کہ اب چلنا ہے ،، مخصوص جگہ پہنچ جائیں ،، تو باہر آکر ، یہیں سے کھانا کھایا ،، اب کی بار بس فوراً نظر آگئی اور ہم اسی پر واپس عزیزیہ پہنچے ۔ 
اس سے پہلے کہ ہم حج کے لیۓ منیٰ روانہ ہو جائیں ۔ یہاں میں اپنے بچپن کی سہیلی نسرین اور اس کی فیملی کا ذکر کر چکی ہوں ، جو بھوپال سے آکر ہمارے پنڈی والے گھر کے قریب ایک گھر میں ٹھہرے تھے ،،، عارفہ آپا ،، کو اللہ نے دو بیٹیاں ، اور ایک بیٹا عطا کیا تھا ،، ان کے سب بچے لائق ہیں لیکن سب سے بڑی بیٹی روبینہ بہت قابل تھی بعد میں وہ ڈاکٹر بنی ، اور اس کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئ ، مسرور، نے ،سی اے ، کر رکھا تھا ، دونوں میاں بیوی کی طائف میں جاب تھی ، یاد نہیں اسے کس نے بتایا کہ " منیرہ خالہ ، جوجی خالہ" حج کے لیۓ مکہ میں ہیں ،، روبینہ نے کسی طرح ، جوجی کا موبائل نمبر ٹریس کیا ،، اور جوجی کو رابطہ کیا کہ میں ویک اینڈ پر فلاں وقت ، فلاں جگہ آپ سب سے ملنے آؤنگی ۔ چناچہ ، مکہ میں قیام کے دوران جب ہم دس دن ، گزار چکے تھے۔ وہ اپنے میاں مسرور کے ساتھ آئ ، مغرب کی نماز ہو چکی تھی ،،، جیسی روبینہ ، ہمبل ، دینی سوجھ بُوجھ ، سادہ مزاج ، اور عاجزانہ فطرت والی تھی ،،، اللہ نے اسے شوہر بھی ویسا عطا کر دیا تھا ، اللہ کے کرم سے وہ چار بیٹوں کے والدین ہیں ،، وہ اُس دن خانہ کعبہ کی حدود کے باہر کم رش والی جگہ چٹائی بچھاۓ ہماری منتظر تھے ، اور رات کے کھانے پر" دعوت" جیسا اہتمام کر کے آئ ہوئ تھی ۔ دو سالن ، توے پر پکی روٹیاں ، دہی چٹنی ، میٹھا ، اور آخر میں قہوہ بھی ،،، اور ہم نے ندیدوں کی طرح یہ دعوت اُڑائی ۔ کہ ہوٹل کے کھانے کے بعد گھر کے پکے اس کھانے کا کتنا لطف آیا ،، کیا لکھوں ،،، بس یہ سب اللہ کا کرم تھا کہ، ہم جن کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، انھوں نے ہمیں ڈھونڈ نکالا ۔ اور محبتوں کا مظاہرہ کیا ، کہ دل ، شاد ہو گیا، اُس نے اپنا اور ، میاں کا موبائل نمبرز دیۓ کہ کسی وقت کوئی چیز ضرورت ہو ، کسی دوا کا پوچھنا ہو ، بس آپ کال کر لیں ۔
واپس عزیزیہ پہنچے اور اب یہاں چھٹا دن تھا آج ہماری بسیں آرہی تھیں ، جو ہمیں ،،،،،،،،" مِنیٰ "لے جائیں گی ۔ صبح نماز کے بعد کچھ دیر سوۓ ،، اور پھر تیاری شروع کی ۔ہم سب ،نے نہا دھو کر اچھے کپڑے پہنے ، مردوں نے احرام پہنا ،،، سامان سمیٹا ۔ اور نیچے گراؤنڈ فلور پر آکر بسوں کے انتظار میں بیٹھ گۓ ،، اِس وقت ظہر ہوئی ، تو نماز لان میں پڑھی گئی ، پھر عصر ہوئی، تو وہ بھی لان میں پڑھی گئی ، آہستہ آہستہ صبر پر ضرب لگنے لگی تھی ۔ لیکن شُکر کہ بسیں پہنچ گئیں ،، اور ہم اپنے مقصدِ اولیٰ کی طرف گامزن ہو گۓ ، لبیک کا ورد آج ذیادہ آواز کے ساتھ ہونے لگا ،،،، اور مجھے پھر بخار نے آ لیا تھا ،، ہاشم سارا وقت ، میری دوائیوں کے لیۓ فکر مند ہوتا رہا ،،، لیکن مجھے خوشی نے ہر فکر بھلا دی تھی ۔۔ !
( منیرہ قریشی ، 12 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں