جمعرات، 15 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر)۔" سفرِِ حج" (13)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" (13)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عصر کی نماز تک اقبال بھائی کو  فون  پر قربانی ہو جانے کی اطلاع دی گئی ،، تو ہم سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی ، اللہ کا شکر ادا کیا ،، اور یہ ہی دعا بار بار مانگتے رہے ،، یا اللہ پاک ،، تو قبول کرنا اِن سجدوں کو ، اِن مشقتوں کو اور اس حج کو ،، جو تیری رضا کے ساتھ مکمل ہو آمین ثم آمین ،، ، ہاشم ، پاشا اور اقبال بھائی ، احرام کے اتارنے کا بندوبست کرنے چلے گۓ ،،،، اور ہم ( یا مَیں ) ایسے ہلکی پُھلکی ہو گئیں ،، جیسے ، " دنیا " کے سب کام ختم ہو گۓ ہیں ۔ جب مرد حضرات اپنے پرانے حلیۓ میں آۓ تو ، ہمیں بھی ساتھ آنے کا کہا کہ قریب کسی ڈھابے سے چاۓ پیتے ہیں ،، لاِس دوران لاہوری زندہ دل بہنوں کے خاوند حضرات نے بھی خیمے سے باہر کھڑے ہو کر بتایا "او بائ ، مبارکاں ،، قربانی ہو گئیں ، اسی وی انپڑے کپڑے پا لیۓ نے " ،،، یہ مبارک خبر سنتے ہی ،، تینوں خواتین نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا میک اَپ باکس کھولا ،، اپنے بالوں کو سنوارا ، فل میک اَپ کیا ، ، اورباری باری کپڑے بدلے گۓ ،، وہ اچھی کاروباری ، امیر فیملی تھی ،،، مجھے اُن کے یوں چٹکی بجاتے تیاری کو دیکھ کر بہت دلچسپی ہو رہی تھی ، اور مزا آرہا تھا ۔ کیوں کہ زندگی کو اِس نہج اور سہج سے گزارنا بھی ایک اور ہی پہلو ہے ، ۔ وہ ساتھ ساتھ ہم سے مختلف باتیں بھی کرتی جا رہیں تھیں ۔ 
ہم سب چاۓ پینے نزدیک ہی ایک سڑک پر آۓ تو قطار سے بنے چاۓ خانوں میں سے ایک سے چاۓ کے کپ لیۓ ، اور کہیں بیٹھنے کی جگہ ، دیکھنے لگے ،،، سڑکوں کے کناروں تک لوگ ڈیرہ جماۓ بیٹھے تھے ،، اِن میں زیادہ وہ لوگ تھے جومقامی  تھے ، اور شاید صرف پانچ دن کی چھٹی لے کر آۓ ہوۓ تھے ،، بہت سے لوگ اپنے رنگین خیموں کے ساتھ ، اکیلے یا فیملی کے ساتھ آۓ ہوۓ تھے ،، ایک عمارت کے تھڑے پر بھی اکیلے حاجیوں نے اپنے بستر جماۓ ہوۓ تھے ، ابھی ہم ایک جگہ کھڑے ہی ہوۓ تھے کہ اُس تھڑے پر بیٹھے ایک 35، 36 سالہ جوان آدمی نے ہمیں بیٹھنے کی دعوت دی ،،، اور ہم خواتین اور اقبال بھائی تو اُن کے بستر پر بیٹھ گۓ ، لڑکے اس حاجی کے ساتھ باتیں کرنے لگے ، اُس نے بتایا ، میں یہاں ملازمت کرتا ہوں ، پانچ دن کی چھٹی لے کر حج کرنے آیا ہوں ۔ باتوں باتوں میں جب اُس نے یہ دو چار جملے کہے ،، جو مجھے بہت اچھے لگے ،کہنے لگے " یہاں کے انتظامات سے کچھ لوگ مطمئن نہیں ہوتے ،،، آپ خود سوچیں ، ہمارے گھروں میں چار بندے آجائیں ، اور کچھ دن ٹھہریں بھی ،،، تو سارا گھر الرٹ رہتا ہے ، اِن کے آرام کا خیال رکھا جاتا ہے ، اور ایسا نہ جاۓ ، کہ طبیعت خراب ہو جاۓ ،، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہو جاۓ وغیرہ ،،، تو سوچیں یہاں لاکھوں لوگوں کو سنبھالنے کا کام ہے اور وہ بھی کئی کئی دن ٹھہرنے کا ۔ اُن کے کھانے ، رہائش ، صحت ، اور خوراک ،،، واقعی اس کی بات میں وزن تھا ، یہ اللہ کے گھر کی خدمت اور نگرانی کرتے ہیں ، اسی لیۓ اتنی حیران کن برکت اِن کے نصیب میں آئی۔
اگلے روز تینوں جمروں پر کنکریاں مارنی تھیں ، اور اِ س بار مجھے بھی جانا تھا ، سب نےتیاری کی اور چل پڑے ۔ واقعی کچھ فرلانگ کے بعد ہی پہلا جمرہ ، پھر دوسرا اور پھر تیسرا ،،، اتنا آسان عمل ،، اور مَیں خواہ مخواہ گھبراتی رہی ،، لیکن آج رَش براۓ نام تھا ۔ اس لیۓ میرا اطمینان بلاوجہ نہ تھا ۔ آس پاس کچھ دیکھا ، جو منظر حج کے دنوں کا ہوتا ہے ،،، وہ ، وہ منظر نہیں ہوتا ، جب ہم حج کے دنوں سے پہلے زیارت کرنے آۓ تھے ۔ واپس خیموں کی طرف آگۓ ،، رات کا کھانا کھایا گیا لیکن ، پتہ نہیں اُس دن جو قربانی کے دن کا کیسا عجب کھانا تھا ،،کھانے کا پھر ویسا ذائقہ، آج بارہ سال بعد بھی کبھی نہ ملا ،،، اللہ کا شکر ۔
آج 12 ذِالحج تھا ،اُن حاجیوں کے احرام اُتر چکےتھے ، جنھوں نے قربانی کا فرض ادا کر لیاتھا ،،، آج سارا وقت تکبیر پڑھنا تھی ،،  اورسننی تھی ،،کہ اُس میدان میں آج آخری دن تھا ،، اِ س سال 21 لاکھ، 65 ہزار ( دوسری رپورٹ کے مطابق 25 لاکھ 65 ہزار ) رجسٹرڈ حاجیوں نے اللہ کے گھر کا طواف اور ارکانِ حج پورے کرنا تھے ۔ اور باوجود اس کے کہ فتویٰ دیا جا چکا تھا کہ صبح صادق سے لے کر رات گۓ ، بلکہ اگلی فجر تک ، اور یہ بھی کہ زیادہ رَش کی صورت میں 13 ذوالحجہ کے دن بھی کنکریاں ماری جا سکتی ہیں ۔ ،،، لیکن وہی اقبال بھائی ، اور وہی اُن کے اُستادِ محترم کی تربیت ، ،،،، چناچہ ہم 12 زِوالحجہ کو صبح ناشتے کے بعد ہی چل پڑے ،اس دفعہ جو سامان ساتھ لاۓ تھے اس کے چھوٹے چھوٹے بیگز تیار کر کے ساتھ لےگۓ ،،، کوئ  رہنمائی نہ تھی آگے ، سامان ساتھ ہونا چائیے یا نہیں ۔ پاشا ایک بینکر ہے ،، اُس کالیپ ٹاپ بھی ساتھ ساتھ تھا ، میرے ہاتھ میں تو سواۓ پانی کی بوتل کچھ نہ تھا اور میرا اور جوجی کا بھی بیگ ،ہاشم کے کندھے پر تھا ،، ،،،،،، اور جمروں کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی تکبیر کی ریکارڈنگ ،، تسلسل سے چل ہی تھی ،، یہاں تو انسانوں کا ہجوم نہیں ،، سمندر تھا جو خود بھی تکبیر پڑھ رہے تھے،،، اور اِن سب کے چہروں کا رُخ ، صرف چھوٹے شیطان کی طرف تھا ،،، میری حسیات تیز ہو چکی تھیں ،،، مجھے یوں محسوس ہوا میں ایک بہت بڑے بحری جہاز پر ہوں جو ہلکے ہلکے ڈول رہا ہے ، سارے ماحول پر تکبیر کے الفاظ کاوہ سحر پھیلا ہوا تھا ،، جیسے پوری کائنات ایک ردھم میں آگئی ہو ،،، یہ سحر ، یہ الفاظ ، یہ سب کا فوکسِ خیال ،،، اتنا طاقتور تھا کہ صاف لگ رہا تھا ، کہ کچھ ہونے والا ہے اور اِس ردھم کا والیوم بتدریج بڑھ رہا ہے ،،، یہ بہتا ہوا انسانی سمندر ،، مجھے حیران کر رہا تھا ، مَیں دم بخود تھی ،، اور قدموں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،، میَں نے ہاشم سے کہا مجھے ایک جگہ بِٹھا دو مَیں سامان کی نگرانی بھی کرلوں گی ، میرے حصے کی کنکریاں تم ہی مار لینا ،، کسی نے میرے فیصلے پر اعتراض نہیں کیا ،،، اور ایک عمارت کے قریب سب کے سامان سمیت بیٹھ گئی ۔ایک گھنٹہ ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے گزر گۓ ،، تکبیر پڑھنے کے دوران ، ظہر پڑھی ،، پھر عصر قریب آگئی ،،،،،، بے پناہ رِش ،ایک جانب سے آنے لگا ،، ایک "شُرطے "نے مجھے کچھ کہا جو مَیں سمجھی کہ پیچھے جاؤ ،، سامان کو اُٹھا نے میں مدد بھی دی ، اس وقت مجھے احساس ہوا سب کے چھوٹے بیگ نارمل وزن کے ہیں ، سواۓ پاشا کے ، تب پتہ چلا کہ لیپ ٹاپ ساتھ لایا گیا تھا کہ بینک افسران کا حکم بھی تھا ۔ ابھی بیٹھے 10 ،،15 منٹ ہوۓ تھے کہ لوگوں کا ایک ریلہ اور آگیا ،، مشکل سے سارا سامان گھسیٹا اور جس عمارت کا ذکر کیا تھا اس کی دیوار کے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئی ۔ میرے ساتھ بہت سے حجاج مرد ، عورتیں سب تھے۔ میرے بالکل ساتھ ایک الجزیرین ، جوان میاں بیوی بیٹھے تھے ،، یہاں سب کے چہروں پرعجیب سی پریشانی تھی۔ اتنے میں سٹریچرز آنے شروع ہو گۓ، جو اِسی عمارت میں جا رہے تھے،تو مَیں سمجھی یہ وہ لوگ ہیں جو بے ہوش ہو گۓ ہوں گے ۔ لیکن سٹریچرز کے قطار لگ گئی ، اور یہ ہاسپٹل ، یا ڈسپینسری تھی ،،، اب مجھے گھبراہٹ ہونے لگی ، کیوں کہ کافی دیر بھی ہو چکی تھی ،، اُس وقت یہ معمولی سا موبائل کام آیا مَیں نے اپنے پرس سے نکالا ، اور نمبرز والا کارڈ ، اُن الجیرین میاں بیوی کے آگے رکھا ، انھوں نے فوراً ایک کے بعد دوسرا نمبر ملایا ،، صرف آخری کوشش میں ہاشم کا مل گیا ، اس نے بتایا ، اماں سب خیریت ہے ، بس ہم پہنچ رہے ہیں ۔ اور واقعی 10 منٹ کے بعد یہ سب سامنے آۓ ، لیکن ،،،،، اِن سب کے حلیۓ کچھ عجیب سے لگے ، سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔ میری نظریں ، اِن کے پاؤں پر پڑی ، سب کے پاؤں ننگے تھے ،، نگہت کے پاؤں میں تسموں والے جاگرز تھے ، اب اس کے پاؤں میں ایک جاگر تھا ،،،،، اور پہلا جملہ اقبال بھائی نے مجھے دیکھتے ہی کہا " منیرہ تمہاری کوئی نیکی کام آگئی آج ،،، کہ تم نہیں گئیں " ِِِ ،،، ! ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں ہوئی تھی ،،، لیکن سب سے پہلے پھیری والے جوتے بیچنے والوں سےسلیپرز خریدے گۓ۔ اب ہم چلتے جا رہے تھے، اور مجھے کچھ واقعات بتاۓ جانے لگے ، کہ""" ہم سب آگے پیچھے چل رہے تھے ، کہ پیچھے سے دھکا لگا ، ہماری رفتا ر تیز ہوگئی ۔ سب سے آگے پاشا ، پھر اقبال بھائی ، پھر نگہت ، پھر جوجی اور آخر میں ہاشم تھا راستے میں کہیں ، کسی کا بیگ ، کسی کا کمبل پڑا ہوتا جس سے ٹکرا کر کئی حاجی گِر رہے تھے اور جب یہ لوگ جمرہ کے قریب پہنچنے لگے تو ایک وہیل چیئر سےنگہت ٹکرائی ، لیکن ہاشم کے بر وقت ہاتھ بڑھا کر اُٹھانے سے اُٹھ گئی ۔ اور پیچھے کے دھکوں نے انھیں مزید جکڑ دیا ،، اوراس دوران کچھ حاجی ، کچھ ان حجاج کو کنٹرول کرنے والے گارڈز ،، بھی زد میں آگۓ ،، اور آس پاس ان سب کے لیۓ ناقابلِ  برداشت مناظر پھیل گۓ ،، ہاشم نے جوجی سے کہا ،، خالہ آپ نے آس پاس نظر نہیں ڈالنی ،، سیدھا دیکھتی رہیں ،، سب نے اپنی کنکریاں ماریں ،،، اگلے مرحلے تک صورتِ حا ل مزید خراب ہو گئی،لیکن ان میں سے کس نے کس حد تک اپنا فریضہ پورا کیا ،،لیکن ہاشم کو شک پڑ گیا کہ ساری کنکریاں ماری نہیں گئیں ،، (چنانچہ مکہ پہنچ کر اُس نے میری اور اپنی ، دو قربانیاں دیں )،، ہم چلتے چلتے بس تک پہنچے ، جس نے ہمیں ایک خاص مقام تک پہنچایا ، جہاں سے خانہ کعبہ نزدیک تھا لیکن تھوڑا تو چلنا تھا ،، ہاشم کے کندھوں پر دو بیگز تھے نگہت اور جوجی کے ہاتھوں میں ایک ایک ٹرالی تھی جس پر ایک چھوٹا بیگ آسکتا تھا ،، یعنی اِس سامان نے ہمیں جلد تھکا دیا ،،،، اور  آرام  کرنے کے لیۓ ایک جگہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گۓ ،،،، سبھی چُپ تھے ، یہ سب بہت دہلا دینے والے واقعہ سے گزر کر آۓ تھے ،، ابھی وہ نارمل نہیں ہو پاۓ تھے ۔ابھی ہم فٹ پاتھ پر بیٹھے ہی تھے کہ بغلی سڑک سے ، گولڈن ، اور سُرخ یونیفارم پہنے ، کندھوں پر سنہرے ٹرے اُٹھاۓ جن پر مناسب سائز کے ڈبے پڑے تھے ، وہ سڑک کے یا چوراہے ، کے درمیان پہ پہنچے اور فوراًہر ایک نے یہ ڈبے لوگوں کی طرف اُچھالنا شروع کر دیۓ ،، اور ہم بیٹھے ہوؤں میں سے ایک ڈبہ ، نگہت کی اور ایک پاشا کی گود میں آگرا ،،، کھول کر دیکھا تو " بیکڈ مچھلی کے چھ پیس ایک ڈبے میں تھے ،،، یہ " البیک " فوڈ والوں کی طرف سے دعوت ِعام تھی،،، اُس وقت یہ "مَن وسلویٰ" لگا ، مزے دار مچھلی کھا کر توانائی آگئی ،، اور پھر " خانہ کعبہ " میں داخل ہوۓ تو رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے ،،اور خانہ کعبہ االلہ کے عشاق سے اس طرح لبا لب بھرا ہوا تھا ، کہ تِل  دھرنے کو جگہ نہ تھی تو ہم سب سے اوپر کی منزل پر چلے آۓ ،، ، اور طواف شروع ہوا !۔
( منیرہ قریشی ، 15 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں