بدھ، 26 ستمبر، 2018

اِک پرخیال (9)۔

" مہربان مہربان موت " 
ہم جب بھی کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں تو منہ سے" انا للہِ وَانا علیہ راجعون "کا جملہ نکلتا ہےاور دل اداسی میں ڈوب جاتا ہے ۔ کوئ انجان ہو تو اداسی کےلمحےکم وقت لیتے ہیں ،کوئ جان پہچان والاہوتویہ دورانیہ قدرِ لمبا ہو جاتا ہے اوربہت قریبی شخصیت ہے تو نہ صرف اداسی کا ڈیرا ذیادہ دن رہتا ہے بلکہ اس کی باتیں ہوتی ہیں اور آنکھوں کے آگےانکے ساتھ گزرے وقت کی ریل چلنے لگتی ہے،کچھ ماہ یہی کیفیت رہتی ہے،اور وہی دنیا اوروہی دھندے، وہی دلچسپیاں ،،،،!
حالانکہ جو جملہ کسی کی موت پر فوری نکلتا ہے اس کا مطلب یہ واضع کرتا ہے کہ"بے شک ہم سب نے لوٹ کر اسی خالق کی جانب ہی جانا ہے ۔لیکن افسوس کی شدت کے باوجود ہم اپنی موت بھولے ہوتے ہیں ،،،،۔
؎ بُلیا اساں نائیں مرڑناں 
!!گور پیا کوئی ہور
آہ اور افسوس کا تاثر برِصغیر میں کچھ اور طرح، اہلِ عرب میں اور طرز پر اور سفید فام میں اور طریقے سے لیا اور منایا جاتا ہے ۔ ان سب کو زیرِبحث لانا مقصود نہیں ،،، خاندان کےوہ بزرگ جو آخری چند سال یا مہینے اپنوں کے درمیان میں گزارتےہیں تو دراصل ان پر قسمت کا آخری وار، آخری پیرا گراف کا مکمل ہونا ہوتا ہے ۔ اب یہ " ہیپی اینڈ " کے ساتھ جاتے ہیں یا ان دعاؤں کے ساتھ کہ" یا اللہ اِن کو اُٹھا لے یا ،،، اے اللہ مجھے سنبھال لے " یہ سٹیج کا آخری سین ہوتا ہے جو بظاہر لمبا چل رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ پیچھے رہ جانےوالوں کی تقدیر بھی رقم کر رہا ہوتا ہے ! ۔
یہ موضوع اگرچہ بحث طلب ہے ،،، لیکن جب سے دنیا بنی ہے بزرگوں کی " آخیر " اکثر سوالیہ اور بوجھ والا ،،،،،پہلو رہا ہے اور رہے گا ! سمجھ نہیں آتا کیوں ؟؟؟؟ حالانکہ اس میں بھی صرف اور صرف " صبر و تحمل " کے " ٹول " کی ضرورت ہوتی ہے ، بس ۔۔۔اصل میں خدمت کے لۓ چُنے جانے والے والے لوگ " چُنیدہ " ہوتے ہیں اور وہی خوش قسمت ہوتے ہیں ، اللہ ان میں تحمل ، محبت ، اور صبر کے ایلیمنٹ ڈال دیتا ہے اور وہ اپنی آخرت غیرمحسوس انداز سے سنوار لیتے ہیں ،،، کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ، ان دعاؤں کے مرکز کے جانے کے بعد کم از کم بقایا زندگی سکون کی نیند سوتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں۔
آج میری ملازمہ کا فون آیا " باجی میں کچھ دن نہیں آسکوں گی ، میری نانی فوت ہو گئی ہےاور ہم سب گاؤں جا رہے ہیں "،،،، جوابا" میں نے اسے کہا " میری طرف سے اپنے 6 عدد ماموؤں کو مبارک باد کہنا ، کہ شکر کرو تمہاری ناگوار ڈیوٹیاں ختم ہو گئی ہیں " ،،، کچھ لمحوں کے لۓ اُس بوڑھی خاتون کے لۓ میرے دل میں غم کا احساس اُبھرا ، دوسرے لمحے میں نے سوچا " موت بھی کتنی مہربان ہے اور اللہ کی کتنی کرم نوازی کہ اس نے اپنے بندوںکو موت کی صورت میں تمام،شکائیتوں ، نفرتوں اور ناگوار اخراجات کی صورت میں چھٹکارا دلا دیا ہے ! ،،،، نانی کے مرنے کاسن کر میری ذہن نے جو اس عورت کاتصور قائم کیا جسے میں نے زندگی میں نہیں دیکھا لیکن جس کی ضروریات ، بے چارگی اور لاچاری کی کہانیاں ، نواسی کی زبانی سُنتی رہتی تھی کہ ہمارے چھ ماموں ہیں سب ہی محنت کش ہیں لیکن ان کے نزدیک سب سے فالتو خرچہ " اس ماں " کا ہی ہوتا ہے وہ کبھی ایک بیٹے کبھی دوسرے ،، اور جب سب ہی اُکتا جاتے تو وہ مجبورا' بیٹیوں کو پیغام دیتی" مجھے آ کر لے جاؤ " لیکن بیٹیاں اپنے سخت گیر خاوندوں یا کثیر الاعیالی اور غربت کے ہا تھوں کبھی اس کی سنتیں کبھی کسی بھائی کو غیرت دلاتیں اور اب وہ اللہ نے اپنی تحویل میں لے لی ، یہاں نہ کوئی کمرہ گندہ کرنے کا طعنہ ، نہ پیمرز اور دوا خریدنے کا احسان ، نہ زیادہ یا کم کھانے کا نخرہ کرنے کے دلفگار الفاظ ہوتے ہیں ، بلکہ سکون ، سکھ اور ہمیشگی کی چھٹی ، ایک ماں نے 9 بچے پالے لیکن یہ نو بچے ایک ماں کو بوجھ سمجھتے ہوۓ اپنے آنے والے وقت کے دستاویز پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں !۔
ایسا سلوک صرف غربت ہی کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ خوشحال گھرانے بھی خود تھکنے کے بجاۓ اپنے بیمار بزرگوں کے لیے کسی غریب رشتہ دار یا ملازم کو رکھ کر ان کی خدمت سی فارغ ہو جاتے ہیں ،،، ایسے بزرگ موت کا انتظار ایسے کرتے ہیں جیسے جوان دولہا اپنی دُلہن کا ،،،،، تمام تر گناہوں سمیت وہ ربِ رحیم و جلیل وکریم ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے اور خاتمہ بالخیر کر کے دکھ کے سمندر سے اپنی محبت کے کنارے پر سمیٹ لیتا ہے ۔
الحمدُ للہ ،، یا رحمت العالمین ، تو نے موت کی صورت میں محبت کا عکس دیا۔
" آپ کی اچھی سوچ اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے " ( پروفیسر احمد رفیق صاحب)۔
( منیرہ قریشی 13نومبر 2016ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں