پیر، 24 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال ( 7)۔

" اِک پرِ خیال " ( 7)۔
' انشائیہ ،،شکریہ '
اُردو ادب کی بے شمار جہتیں ہیں ، لیکن ہر ادیب ناول کے سمندر کا شناور نہیں ہو سکتا ،، نہ ہر لکھاری افسانوں اور ناولٹ کے میدان کا شہ سوار بن سکتا ہے ۔ نہ ہی ہر قلم کار میں آپ بیتی لکھنے کی وہ ماہرانہ تیکنیک ہوتی ہے ،، کہ واقعات کے تسلسل کی روانی اور دلچسپی کو برقرار رکھ سکے، کہ قاری کے لیۓ ان واقعات کی گرفت سے خود کو نکالنا مشکل ہو جاۓ ۔
لیکن ہر لکھنے کی چاہت رکھنے والا ، طویل ابواب کو اکثر نہیں سنبھال پاتا ۔ اور یوں کئی تحاریرگوشہء گمنامی میں رہ جاتی ہیں ۔ ،،، ایسے میں مختصر نویسی ، نے اپنا جلوہ دکھایا ،، اور لاتعداد ایسے قلم کاروں کا جُھنڈ سامنے لے آئی ، جنھیں اس میدان نے آسانی عطا کر دی ، اور اردو ادب میں " انشائیہ " کا آغاز ہوا، ، حیرت انگیز طور پر اس کی پزیرائی بھی بہت ہوئی۔
انشائیہ ، دراصل ایک بندے کی سوچ کا وہ لمحہ ہوتا ہے جو وہ کسی منظر ،، شخصیت ،،، یا واقعہ کو دیکھتا ہے ، اور کچھ دیر تکتے رہنے اور پھر اس پر غور کرنے سے سیرِ حاصل اثر لیتے ہوۓ ، آگے قدم بڑھا دیتا ہے ،، یہ کیفیت کچھ عالمانہ ، کچھ فلسفیانہ ، اور کچھ مجذوبانہ جذبات سے ایسے معمور ہوتی ہے ،، کہ منفرد خیال ، سوچ کاانوکھا اینگل پڑھ کر قاری چونک جاتا ہے ۔ انشائیہ کا لکھاری ،، اپنے باطن کے حساس لیول کو بھی چوکنا رکھتا ہے ، اسی لیۓ کبھی کبھی اس پر کسی خیال کی " آمد " ہوتی ہے ،، اور تارے جیسی چھَب دکھا کر ، وہ خیال اس سے پہلے کہ معدوم ہو جاۓ ،،، وہ اسے لفظوں ، جملوں ، کی صورت میں ترتیب دے دیتا ہے ،،، اور پھر اپنی اس تخلیق پر ایسی ہی محبت بھری نگاہ ڈالتا چلا جاتا ہے ، جیسے ماں اپنے نومولود بچے پر فخر اور محبت کی ، نگاہ ڈالتی چلی جاتی ہے ،، تحریر کی یہ تخلیق ،، اکثر دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہوتی ہے ۔ لکھاری اسے کچھ عرصہ سنوارتا ، نکھارتا رہتا ہے ، لیکن مطمئن نہیں ہوتا ، آخر کار وہ دوسروں کے سامنے پڑھے جانے کے لیۓ جب پیش کر دی جاتی ہے تو
لکھنے والے کو اپنی یہ مختصر ، لیکن مکمل تحریر کچھ ذیادہ ہی مکمل محسوس ہوتی ہے ،، اس لیۓ کہ اسے اپنا ما فی اضمیر مختصر راستے سے کہہ دینے کا میدان مل گیا ، حوصلہ مل گیا ۔،
انشائیہ ایسے ہی محبت ، درد ، اور انوکھے پن کے لمحوں کو تحریر میں ڈھالنے کا نام ہے جسے اردو ادب میں جس نے بھی متعارف کرایا ، وہ خوبصؤرت ذہنی اُپچ کا مالک ہو گا ، اور جرات کا مظہر بھی ۔ اس کا شکریہ !۔
انشائیہ ، چند منٹوں کے لیۓ اپنے قاری کو گرفت میں تو رکھتا ہی ہے ، لیکن معلومات کے ساتھ اسے ادبی ذوق بھی سکھاتا جاتا ہے ۔
تخلیق ، چاہے سیاہ ہو یا سفید ،، گرے ہو یا گلابی ، نیلی ہو یا پیلی ،،، لکھنے والا اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ، اور اپنی صلاحیتوں کا معترف بھی ہوتا ہے ۔ یوں اسے اپنی ذات پر اعتماد ، اور بامقصد زندگی کا اشارہ مل جاتا ہے ۔ کہ اللہ کی ایک تخلیق تو وہ خود ہے اور اِس کی اپنی تخلیق یہ مختصر تحریر ہے جسے دوسروں کو دکھانے کا حوصلہ ملا ،،،۔
اسی لیۓ کہہ رہی ہوں " انشائیہ ،، شکریہ "
( منیرہ قریشی 24 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )
( یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں ، کہ مجھے کچھ کتب ، انشائیہ کی پڑھنے کو ملیں ، کچھ نے متاثر کیا کچھ نے کوئ اثر نہ دیا ،، فیس بک پر ڈاکٹر شارق کے " انشے سیریز " جو تحریر اور ریکاڈنگ کے ساتھ ملیں ، تو جیسے ، انشائیہ کی محبت بےدار ہو گئ ،، اتنا دلچسپ ، معلوماتی ، اور اقدار کے پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ ، اس سیریز سے بہت کچھ سیکھا " شکریہ ڈاکٹر شارق علی )۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں