منگل، 25 ستمبر، 2018

اِک پرخیال (8)۔

" تاریخ" 
تاریخِ دنیا یا تاریخِ جذبات ،،،، آج پھر کچھ نثر پڑھ لیجئیے)۔)
مجھے تاریخِ دنیا پڑھنا پسند ھے ۔ ، تاریخِ یونانی ، مصری ، ہندوستانی ، یورپ کی یا اسلامی ،،، کوشش ہوتی ہے کہ کتاب خرید لوں یا مانگ کر پڑھ لوں ،،، شاہد یہی وجہ ہے کہ پرا نی چیزیں ، پرانی دوستیاں ، پرانی یادیں میری کمزوری ہیں ۔بھلے وہ چیزیں قیمتی ہوں یا معمولی، یادیں تلخ ہوں یا شیریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،،،، البتہ ہسٹری کی کتاب " پھر کیا ہوا " کے سحر میں مجھے جکڑ لیتی ہے اور ختم کرنے کے بعد،یاسیت،بے وقعتی اور اُداسی شدت سے حملہ آور ہوتی ہے ،دنیا کی بےثباتی اور کم مائیگی کا احساس اور پڑھ جاتا ہے۔
کبھی بخت نصر کی تاراجیوں کا پڑھوں تو لاتعداد لوگوں کا خاتمہ ، بےشمار عالی نسب اور اعلیٰ دماغ لوگوں کی تذلیل،کبھی یونانی تاریخ ہے تو خوب صورت،حسین خاندان بیرونی حملہ آوروں کی زد میں آۓ تو ان کے محلوں کی شہزادیوں کو رکھیل بنا لیا گیا، اور انکے محافظ مرد تہہ تیغ کر دیے گۓ ، مصر کی تاریخ تو تھی ہی غلاموں کی بہترین " نرسری " ، ہند کی تاریخ ہےتو حُسن کو بیرونی،غیرملکی حُسن کی آمیزش سے اپنے ہاں کے سانولے نمکین پن کو مزید نکھار کا باعث سمجھا گیا اور اعلیٰ نسب ، لڑکے،لڑکیاں بکاؤ مال یا تحائف کی صورت پیش کیے جاتے رہے ۔ ایسے ، جیسے یہ سب انسان نہیں ہیں یا ان کے کوئی احساسات ، جذبات ہی نہیں ہیں۔
اتنے اعلیٰ دماغ ، اتنی خوب صورت سوچ اوراتنے عالی مرتبت اعما ل والوں کو اعلیٰ ذوقِ سلیم رکھنے والوں کو فطرت کے قوانین کیوں پیس کر رکھ دیتے ہیں ! یہ سب کیا ھے اور کیوں تاریخ میں ملکوں کو فتح کرنا اور انھیں ملیا میٹ کرنا کارنامے قرار دیا گیا ھے ؟
تاریخِ میں تو پہاڑوں ، میدانوں ،کھیتوں کھلیانوں ، محلات کا ذکر تو کیا جاتا ہے ، اور انسانوں کی تعداد اور جسموں پر قابض ہونے کو فتح قرار دیا جاتا ہے ،،،،،،،ان سب کے درمیان انسانی جذبات ، احساسات کہاں گئے ؟ ان کا ذکر تاریخ میں کیوں نہیں ہوتا ؟ کیا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں کا ٹوٹنا ،، دلوں پر لگے چرکے ، نسلوں کا خاتمہ ،، اور انسانی خون کے دریا کے بہنے کا ذکر کیوں دردمندی سے نہیں کیا جاتا ؟ کیا جاتا ہے تو ایسے کہ جیسے یہی ہوتا ہے جب ایک حملہ آور حکمران آتا ہےاور دوسرا ، جاتا یا ختم کر دیا جاتا ہے!خون اتنا بہایا جاتا ہےکہ راستے پھسلواں ہو جائیں ،،،،، دجلہ وفرات ، نیل وآمو ، سندھ و چناب اپنا رنگ بدل دیتے ہیں نیلے سے سُرخ ،،، اور یہ تاریخ ہے۔ 
خالق ومالک کے تصور سے کبھی کوئی معاشرہ خالی نہیں رہا ، سارا نہیں تو مخصوص طبقہ اپنے رب کی محبت میں ڈوبا رہا ۔اور اسی رب نے انسانی خمیر میں دُ کھ سُکھ ،محبت نفرت ،غیرت ،یہ تیری یہ میری کے احساسات گُوندھ دیۓ ،،،تو پھر رنگوں بھرے
کینوس پر یوں یکد م خوب گیلا بُرش پھیر دینا کہ ہر رنگ فورا" پھیل جاۓ اور مناظر اور منا ظر میں موجود " وجود " خود دم بخود رہ جائیں کہ یہ کیا ہو ؟کیسے ہوا ؟
یہ تاراج ہونے والی روحیں کائنات کے ایک کونے میں حیران آنکھوں سے سوچ رہی ہیں کہ"یہ ابھی ابھی جو منظر ہم نے سہا ۔۔۔۔ وہ خواب تو نہیں ،،،،،،یا ہم پہلے کوئی خواب دیکھ رہے تھے، ہر وجود اپنی جگہ ایک کہانی تھا ، ایک میں تھا ،،، انا اور خودداری کے پیکر تھے ، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتوں کو سمجھانے والے ۔کم آمیز وجود،، خاندان کے مضبوط سسٹم سے جُڑے ایک لڑی ! ،،، یہ ہار ٹوٹا یا توڑ دیا گیا اور موتی شمالاًجنوباً بکھر گۓ ۔ وہ خوب صورت آنکھیں جو کاجل سے سیاہ کرتیں ،جسم نرم ریشم سے سنوارتیں ، مضبوط سراپے جن کو دیکھ کر عورت کا ہر رشتہ خود کو محفوظ سمجھتیں ۔جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو ان کے دم بخود، خوفزدہ ، دکھ سے لبریز احساسات کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا ۔ فاتحین کا کچھ عرصہ کے لۓ فاتح بن جانا ہی تاریخِ انسانی کی مکمل "ہسٹری"ہے اور جب فاتح کے مفتوح ہونے کا وقت آیا تو وہ انہی احساسات کے ساتھ "ناپید"ہوگۓ ! اس تاریخِ انسانی میں تو انسان کے " اصل " کا تو ذکر ہی نہیں ! یعنی "میں " تو کچھ بھی نہیں گویا انسانی جسم ایک مُٹھی مٹی بن گیا تو جذبات بھی ایک مُٹھی مٹی میں رل مل گۓ ! رہے نام اللہ کا !!۔
( منیرہ قریشی جولائی 2016ء واہ کینٹ )
( میں جب آس پاس کوئی ایسے لوگ دیکھوں جو دوسرے ممالک سے آکر یہاں کے مکیں بن گئے ،،، یا ،،، اب دوسرے ممالک میں بسے اپنے لوگ جو مِکس نسل کا حصہ بن رہے ہیں ! تواب جو ہسٹری لکھی جاۓ گی اس میں پوری دنیا کا عجب رُخ سامنے آۓ گا )۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں