پیر، 1 اپریل، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ10)


جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ10)
جب ہم کسی ایسے ماحول میں رہ رہے ہوں ،، جہاں قدرت اپنی فیاضی دکھانے میں کسی بُخل سے کام نہ لے تو دل سے تو جیسے موت کا خوف بھی دُور ہو جاتا ہے ۔
جنگلوں نے اپنی محبت میں ایسا جکڑا ہوا تھا کہ کبھی شہروں کی چکاچوند ، اُن کی آرائش و زیبائش نے اتنا متاثر ہی نہ کیا کہ ہائے ہائے کرتے رہ جائیں ۔۔۔ لیکن وہ لمحات جب بھی درختوں کی معیت میں گزرے جو بُدھ مت کی گیان میں مست مورتی کی طرح کے ہوں تو ،،، دل پر ان کی محبت کے معجزے اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔ جانے کب لیکن اُس خوبصورت جنگل نے دل میں تصویر بنا ڈالی ،،، کہ دل سے کبھی یاد محو نہ ہو سکی ۔۔۔ اُس دن ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی ،،، دُعا کی قبولیت کے لمحے بھی شاید ایسے ہی ہوتے ہوں گے کہ ایک ایسے قدرتی جنگل کے کنارے پہنچنا ہوا ،، جہاں ایک طرف کھیت تھے اور جانوروں کا باڑہ ،، دوسری طرف بتدریج اُونچا ہوتا جنگل ،، اور ایک قوس کے شکل کا پُل جس کے نیچے پانی مدھم مدھم بہہ رہا تھا ،، پھوار نے ماحول کو دھندلا دیا تھا ،،، اس تصویر میں عجب پُراسراریت شامل تھی ،،، یہ جگہ اکا دکا انسانی موجودگی سے آشنا تھی ۔ محسوس ہوا میں صدیوں سے یہیں کی رہائشی ہوں ،،، اور چند لفظ ان تنہائی اور کائی زدہ درختوں کے لئے تخلیق ہو گئے جن کو کچھ کہنے سننے والا شاید ہی ملتا ہو !
" بیک اَپ کے ایک جنگل کنارے "
شام کے دھندلکے میں
اکتوبر کی خاموش جھڑی میں
ایستادہ جنگل ، جیسے بوڑھا فوجی
اپنی کہانیاں سنانے کو بے قرار ہو
اور سننے والا کوئی نہ ہو !
دُکھ کچھ کہنے کا ،سننے کا ، چُپ رہنے کا
دکھ ،، بے نیاز وقت کی ٹِک ٹِک کا
بقا کا عجیب دکھ
فنا کا بے آواز دکھ
نظاروں کو سراہتی آنکھیں اندھیروں میں اُتر جاتی ہیں
ایستادہ جنگل ، لبوں پر لفظ سجائے کھڑے رہ جاتے ہیں
اس نثری نظم کو لکھ کر جیسے اس جنگل کی عبودیت کا احساس کر لیا تھااور میں شانت ہو گئی تھی ،،، شاید "مِستی" misty ماحول خود بھی سِحر کا استعارہ ہوتا ہے ۔ کہ دل و دماغ آج بھی اس منظر کو بھُلا نہیں پائے ۔ دراصل نیچر ،،، یا فطرت جب تک فطری رنگ ڈھنگ میں ہو تو ہی سِحر زدہ ہوتی ہے ،،، غیر فطری ، مصنوعی انداز وہ محبت نہیں دے پاتا کہ اسے سراہا جائے ۔
ایسا ہی تجربہ جب ایک بڑے شہر کے بہت بڑے شاپنگ مال کے چھَت پر انسانی ہاتھوں سے بنے جنگل سے ملنا ہوا،،، داخلی دروازے پر بانس کے چھوٹے قد و قامت والے درخت پہرے داروں کی طرح قطار میں کھڑے نظر آئے ۔ ہماری حیرت کی نظر اُن پر پڑی تو جیسے وہ بھانپ گئے کہ بانس کے درخت اور وہ بھی کوتاہ قامت !! ،،، اور ساتھ ہی اُن کی بڑبڑاہٹ سنائی دی " تمہیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا ،،، یہاں کی چیختی چلِاتی ٹریفک اور جگمگاتی اشتہاری دنیا ،،، اور کہاں جنگل کی کھلی فضا ، اور ہمارے اونچے لمبے گھنے ذخیرے ،،، اور کہاں یہ ہم ،، اور ہمارے بے توقیر سے حُلیئے ،، آہ انسان بھی کیا مخلوق ہے ، یا تو فطرت کو بھُولتا ہی نہیں اور ہر طرح اسے بچانے میں کوشاں ،،، اور کہاں یہ مادی جنگل ،، جو چھت پر بنا کر انسان خود کو مطمئن کر رہا ہے ۔ کہ میں ' حُبِ فطرت' ہوں ،،، ذرا چکر لگاؤ تب تمہارے محسوسات جو ہوئے سَو ہوئے ،، لیکن ہماری اداسی کا سبب جان جاؤ گی"
چند قدم کے بعد ہی انسانی کمالات نظر آنے لگے ،،، چھوٹے قد کی جھاڑیاں، چھوٹے قامت کے سدا بہار درخت ،،، ان درختوں تلے چھوٹے سائز کے بنچ ،، اور تو اور نیچی پرواز کی عادی ننھی چڑیاں ،، اور انھیں چند گز اوپر اُڑنے والے توانا پرندوں سے بچانے کے لئے کہیں سفید اور کہیں سبز کپڑے کی مضبوظ جالی ، خوبصورت چھت۔۔۔اگرچہ کچھ پودے اور جھاڑیاں جاذبِ نظر تھیں ،،، لیکن یہ وہ جنگل تھا جو انسانوں کو خوشی دینے کے لئے بنایا گیا تھا ۔ حیرت انگیز طور پر خود جنگل انسانوں سے بیزار نظر آیا ،، یہ سارا رقبہ دو ڈھائی کنال تک کا تھا ۔ لیکن ہر پودا ، ہر پتّہ ہمیں یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو ،،، " دیکھو دیکھو ہم انسانوں کے ہاتھوں کی تخلیق ہیں ۔ ہم فطری اور غیر فطری دو اجزاء کے ملاپ سے بنائے گئے ہیں ، ہم وہ پودے ہیں جنھیں " ٹرانس جینڈر " کہا جا سکتا ہے ۔ ہم انسان کی طرف سے کھانے ، پینے پر انحصار کرتے ہیں ، ورنہ ہم دنوں میں مُرجھا جائیں اور موت سے ہمکنار ہو جائیں ،،، ہمارا رویہ تمہیں خاموش اور احساسِ محرومی والا لگا ہو گا ؟؟؟۔۔۔۔ اس لئے کہ آزاد فضا کے جنگل ،، چرند ، پرند جس طرح وقار دکھاتے ہیں ، وہ پنجروں کی محدود دنیا میں کہاں دِکھے گا !! غور سے دیکھو ،، لیکن ترس کرتی نظروں سے مت دیکھنا ، ہم تو اپنی اداسیوں کے بُکل مارے ،، تم انسانوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اپنے خالق کی بنی چیزوں کو پہلے تباہ کرتے اور پھر انھیں خود تخلیق کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ۔ بیشک آؤ ! لیکن ہم تمہارے اعزاز میں جھوم نہیں سکتے ،، کہ اس مصنوعی طرزِ زندگی میں ہم جُھومنا بھُول چکے ہیں ۔"
ہم واپسی پر چور نظروں سے جلدی سے داخلی دروازے کی طرف چل پڑٰیں ، کہ بانس کے کوۃ قامت درخت کوئی ایسا سوال نہ کر بیٹھٰیں جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہو !!

( منیرہ قریشی 2 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں