" رقصِ درویش اور بُرصہ کی کیبل کار"
باب۔۔17
بچپن جس گھر میں گزرا ، وہ مکمل شہری علاقہ تھا ۔۔ گھر اگرچہ آٹھ مرلے تک کا تھا لیکن صحن اتنا مناسب تھا کہ کناروں پر لگی ایک طرف چنبیلی کی بیل اور دوسری طرف موتیے کے جھاڑ کے ساتھ انگور کی بیل بھی دوسری منزل تک چلی گئی تھیں ۔ اس صحن کے درمیان میں سفیدے کا ایک درخت بھی لگا دیا گیا ۔ ہمارے بچپن میں ہی دیکھتے ہی دیکھتے سفیدے کا درخت جوان ہو گیا اور اس کی چوٹی دوسری منزل کی دیوار تک جا پہنچی ۔ ایسے جیسے ، اُسے انگور اور چنبیلی کی بیلوں کی دوسراہٹ کی خواہش تھی ، وہ بھی ان دونوں کی دوستی میں وقت گزارنا چاہتا ہو لیکن جب بھی ہَوا تیز چلتی تو ، سفیدے ( پاپوپلر) کا درخت ایسے جھومتا ، جیسے رقص کر رہا ہو ،ہلکے ہلکے ہلکورے لیتا ہوا ۔ بہت بعد میں ترکیہ جانا ہوا، وہاں "رقصِ درویش" کی محفل نصیب ہوئی ،جانے کیوں اُس چھوٹے سے ہال کے نیم اندھیرے میں تین سادہ ترین لبادے میں مختلف عمروں کے درویش کبھی ہولے ہولے ، اور کسی وقت تیز اپنے ہی قدموں پر والہانہ گھوم رہے تھے اور مجھے سفیدے کا درخت شدت سے یاد آگیا ، جیسے یہ اپنے ہی قدموں کے دائرے میں گھوم رہے تھے ویسے ہی سفیدے کا درخت جھومتا ، جیسے ہوا اسے موسیقی کے سُر سنا رہی ہو ،لیکن جب کبھی ہوا تیز ہوتی ، سفیدے کا جھومنا ، بالکل ایسی تڑپ لئے ہوتا کہ جیسے وہ اُڑ جانا چایتا ہو ۔ میَں کم عمری کے باوجود اس خیال سے اس کے تنے پر ہاتھ رکھ دیتی ، جیسے میں اپنے ننھے ہاتھوں سے اُسے گرنے سے بچا لوں گی اور اُسے گلے لگا لیتی ،میرا خیال ہوتا یہ بہت تیز ہوا سے خوف زدہ ہے کیوں کہ مجھے وہ اندر ہی اندر سسکتا ، روتا محسوس ہوتا ۔
یہ ساری دلی کیفیات میں نے گھرکے باہر کے چھَدرے جنگل کو سنا ڈالیں ۔ آج ہم کافی دنوں بعد محفل سجا پائے تھے اور آج یہاں بھی ہوا تیز تھی ، سفیدے کے درخت کی یاد نے مجھے گرفت میں لے لیا تھا ، تب چھِدرے جنگل کے ایک عمررسیدہ درخت نے ساری روداد تحمل سے سن کر اتنا ہی کہا
" وہ اکیلا درخت تھا اور یاد رکھو اکلاپے کا اپنا منفرد دُکھ ہوتا ہے ، جب وہ دُکھ کا رَس مسلسل پیتا رہتا ہے تو یا تو وہ بیمار ہو جاتا ہے یا ابدال بن جاتا ہے ، وہ آس پاس کے علاقوں کے دور دراز کے درختوں کو پیغام رسانی کر رہا ہوتا ہے، تیز ہوا سیکنڈوں میں یہ پیغامات آگے پہنچاتی ہے تاکہ مختلف مسائل میں جکڑے درختوں کو حل بتا سکے ۔"
" جس طرح انسانوں میں روحانی دنیا کی عجب توجیحات ، آداب و درجات ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی ہم درختوں کی دنیا میں بھی اللہ کے حکم سے درجات بانٹے جاتے ہیں ِ ابھی تم نے ترکیہ کا ذکر کیا وہاں بھی کسی سے ملیں ، یا مال و اسباب کی محبت میں غرق رہیں ؟"۔
مجھے اُس کے تبصرے پر شرم آ گئی ،واقعی جب ہم کسی دوسرے ملک ، یا علاقے کی سیر کو جاتے ہیں تو پہلی کوشش یہی ہوتی ہے یہاں کی تھوڑی بہت سوغات اکٹھی کی جائے، کچھ خود رکھیں کہ یاد گار ہو گی اور کچھ تحائف کے طور پر بھی دینا ہوں گی ۔اسی لین دین سے ہمارا بہت قیمتی وقت ، بے قیمت چیزوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔ لیکن ترکیہ کی سیر میں چپے چپے نے مسحور کئے رکھا کہ ہر کونا ، ہر تاریخی عمارت ، ہر چوراہا ، یوں جانا پہچانا لگا تھا جیسے میں یہاں وقت گزار چکی ہوں ۔ میرے لئے کوئی جگہ اجنبی نہیں تھی ۔ شاید اس کی یہی محبت تھی کہ وہ نو دن یوں گزرے جیسے مجھ میں کسی درویش کی روح حلول کر چکی ہو۔ میرے پاؤں تھک چکے تھے لیکن جسم سفیدے کے درخت کی طرح اپنے ہی قدموں پر جھوم رہا تھا ۔ تب میں نے چھِدرے جنگل کے بزرگ درخت کو بتایا ۔
" جب بُرصہ شہر پہنچے تواس وقت وہاں ایک روشن دن تھا ، صاف ستھرے شہر کے خوبصورت ، صحت مند ، مطمئن لوگ دلوں کو تقویت دے رہے تھے کہ دنیا میں پُر اعتماد چہروں کی بھی الگ اُٹھان اور شان ہوتی ہے ۔ اِس شہر نے داخلے کے وقت ہی اپنے نام دو تاثر درج کروا دئیے تھے ،پُرسکون فضا اور سبز ٹھنڈے رنگ کا منظر و پس منظر ۔ پھر جب ہمیں وہاں کی جدید تفریح یعنی کیبل کا رمیں بیٹھنے کا موقع ملا تو بُرصہ جو پہلے ہی پہاڑی علاقہ اور سطح سمندر سے ایک سو پچاس میٹر اونچا ہے پھر بتدریج اوپر ہی اُوپر چڑھتی کیبل کار اور نیچے وہ لمبے پتلے زمردیں رنگ کے پتوں والے انتہائی اونچے درخت ، جب کیبل کار چڑھتی چلی گئی تو ان درختوں کی چوٹیاں ہماری کیبل کار سے چُھو کر سرسراتیں چلی جا رہی تھیں ۔ اُس دن خواجہ غلام فرید رح کی خوبصورت ترین کافی کے اِس شعر کی بخوبی سمجھ آئی تھی ۔۔
؎ اُچیاں لمبیاں لال کھجوراں
تے پَتر جنھاں دے ساوے !
اور میں اُن کی اونچائی اور لمبائی کو سراہتی جا رہی تھی کہ اچانک گھّنے درختوں کی باوقار سرگوشی نے چونکا دیا ۔ '' ہم تمہیں پہچان گئے ہیں کیوں کہ تم ہمیں جانتی ہو ! ہاں اِس سرزمین پر آتے ہی تمہیں سکون ، ٹھنڈک اور سبز کے ہر شیڈ نے سرشار کر دیا ۔ اس لئے کہ ہم درختوں نے ظالم حملہ آوروں کو بھاگتے دیکھا ہے اور صاحبِ ایمان فوجوں کی استقامت دیکھی ہے ،یہ جو ہمارے سبز رنگ اتنے خوش نما ہیں اور اِن میں سبز کا ہر سبھاؤ جھلک رہا ہے اور ہم جو اتنے تن آور اور سَر بلند ہیں تو دراصل اِس سر زمین میں کیسی کیسی مَعْرَکَۃُ اْلآرا ہستیاں ابدی نیند سو رہی ہیں ۔ عثمان غازی ، علاءالدین غازی ،اورحان غازی اور اُن کے جانثار ، جانباز ساتھی، یہ سب اِس زمین پر آئے اور یہیں مدفون ہوئے۔
یہاں تم جہاں جہاں سے گزرو گی ، کسی نا کسی شہید کا خون وہاں گرا ہو گا ۔ یہ اُسی خون کی آبیاری کا نتیجہ ہے کہ یہاں سبز رنگ کا ہر عکس جھلملاتا دکھائی دے گا ۔ تمہارے دریائے سوات جیسا زمردیں سبز رنگ ، آذر بائی جان کی چراہ گاہوں جیسا ہلکا سبز رنگ ،کہیں ڈھاکا کے سُندر بَن کے جیسا کائی رنگ ، بُرسہ کے اُس جنگل نے اِک تفاخر سے اپنی چوٹیوں کو جھٹکا دیا ، ہمیں یہ فسوں و دبدبہ آزادی کی اُس تڑپ نے دیا جنھوں نے آزادی اور وقار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ۔ سو یہاں لوگوں میں ہی نہیں ، درخت ، پہاڑ ، ویرانوں میں بھی رعب جھلکتا نظر آتا ہے کبھی دیکھا ہے ایسا منفرد خطہ؟"میں نے کھُلے دل سے اعتراف کیا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد تادیر اُسے برقرار رکھنے سے ان کی کئی نسلوں کے رگ و پے میں اِک مزاجِ رندانہ آ چکا ہے اور غیر قوم کی سو سالہ پابندیاں بھی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔
میری یہ یادیں اِس سارے چھدرے جنگل نے غور سے ساکت ہو کر سنیں، مجھے اندازہ ہو گیا کہ اُنھیں سب خبر ہے ، محض میری محبت میں سکون سے ساری روداد سنتے رہے ۔ کتنی پیاری بات کہ کبھی کبھی آپ اپنے دل کی ساری بات کہہ ڈالتے ہیں ، تب احساس ہوتا ہے ، یہ باتیں سامنے والے کو معلوم تھیں اس نے صرف مُروّت میں میری داستان پھر سُن لی ۔ کتنا بڑا ظرف چاہیے ، کتنا حوصلہ چاہیے ، سُنی بات کو سکون سے سنتے رہنا اور ظاہر کرنا کہ میں پہلی دفعہ یہ سن رہا / رہی ہوں ۔ مجھے بھول جاتا تھا کہ ساری دنیا کے درخت ایک خاندان ہی تو ہیں اور ایک دوسرے کی خیر خبر رکھنے کا اُصول اور طریقہ ان کو ودیعت کیا گیا ہے ۔
( منیرہ قریشی 20 اپریل 2024ء واہ کینٹ )
۔600 سال پرانا درخت تو گویا وہ سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کا گواہ ہے ۔
سلطنتِ عثمانیہ کے دور کا قدیم چنار کا درخت ، جس کا ان سے روحانی تعلق رہا ۔اور اب صدر طیب نے قوم کو چنار کے درخت زیادہ سے زیادہ لگانے کا حُکم دیا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں