جمعرات، 4 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 11)


"سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد"
باب۔۔ 11
کافی دن گزر چکے تھے کہ گھر کے قریبی جنگل سے ملنا ملانا ہی نہ ہو سکا ۔ لندن کے شاپنگ مال کی چھت کے درختوں کی اداسی بار بار مغموم کر رہی تھی یہی غم بانٹنے کے لئے آج باڑ کے باہر اس آزاد فضا کے لہلہاتے درختوں سے السلامُ علیکم کہا تو وہ جیسے کھِل اُٹھے ۔ اُن کی مسکراتی آنکھوں نے واضح پیغام دیا " کیوں بھئی کہاں ؟ اتنا تو پتہ تھا یہیں کہیں سیر ہو رہی ہے لیکن یہ چند دن کی غیر حاضری ہمیں پسند نہیں آئی " ان کا مجھے اتنی اہمیت دینا بہت اچھا لگا ۔وہ گاؤں کے سادہ اور خالص لوگوں کی طرح کے جذبات کا اظہار کرتا جنگل تھا کیوں کہ اسے کسی مصنوعی پن سے سابقہ نہیں پڑا تھا ۔ جب میں نے بتایا کہ چھت پر اُگائے گئے درختوں کی جڑیں کتنے ہی آپریشنز کے بعد چھوٹے قد میں رہنے کے قابل بنا دی جاتی ہیں تو یہ سُن کر اِن سب چھوٹے بڑے درختوں نے جھرجُھری لی ، اپنے اوپر اٹکے شبنم کے قطروں سے مجھے بھگو دیا ۔ " ہاں ہم اُن کا غم محسوس کر سکتے ہیں " یہ کہہ کر جنگل یکدم خاموش ہو گیا ،جیسے اشارہ دے دیا کہ اب تم جاؤ ہم آپس میں اُن درختوں کے غم بانٹیں گے ۔
میرے لئے بھی اُن پابندِ سلاسل درختوں کو بھولنا ممکن نہیں ہو رہا تھا ۔ شام کے نیم اندھیرے میں پچھلے برآمدے میں تا دیر بیٹھی اِس مخلص جنگل کو دیکھتی رہی جو اپنے ہم نفسوں کے غم میں ابھی تک خاموش تھا ۔آج لومڑیوں کا کچھ کھانا لان میں ہی رکھ دیاتھا کہ یکدم لان کی جھاڑیوں میں حرکت محسوس ہوئی اور واقعی خوب گُچھے دار دُم والی ایک لومڑی نہایت محتاط انداز سے کھانے کی طرف آئی اور وہیں کھڑے کھڑے کھانے لگی ۔ فطرت کے ساتھ جنگلی حیات کا نظارہ کتنا پُر سکون ہوتا ہے کہ اُس دن کی اداسی جیسے ہَوا ہو گئی ۔ یوں لگا جیسے لان سے باہر اُگے ان درختوں نے مجھے خوش کرنے کے لئے اِس لومڑی کے حساس نتھنوں تک کھانے کی خوشبو پہنچانے کی ہوا کے کسی جھونکے کو درخواست کی ہو گی اور یوں سامنے کے منظر نے میرے مضمحل اعصاب کو پُرسکون کر دیا ۔
جانے لوگ درختوں کی زبان اور رویے کو سمجھنا اتنا مشکل کیوں سمجھتے ہیں جب کہ انہی کی صحبت انسان کو بہت سے تفکرات سے دور کر دیتی ہے ۔
ملائیشیا کی سلطان صلاح الدین عبدالعزیز شاہ مسجد ، اُس روز چاشت کے وقت بالکل اکیلی تھی ۔ حالانکہ یہ کوالالمپور کی بڑی مساجد میں سے ہے ۔ خیال تھا کہ اندر کچھ نا کچھ تو بِھیڑ ہو گی لیکن دو " مَلے (مقامی) جوڑوں" کے علاوہ کوئی نہ تھا ، خاموش مسجد کی ایک الگ ہی شان ہوتی ہے ۔ اُس دن اس ملائیشین مسجد کے پُر سکون لمحات نے بہت متاثر کیا ، دو نفل ادا کئے اور پھر اس کے اندرونی دالانوں میں گھومتے ہوئے ، اس کے درو دیوار کے گہرے نیلے ، ہلکے نیلے اور فیروزی رنگ کے ساتھ کہیں کہیں سیاہ اور سفید لائنوں کے دل نشیں امتزاج کو دل کی آنکھوں سے ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے پچھلے لان میں پہنچ گئی ۔ برآمدے سے اترتے ہی گہری خاموشی نے گھیر لیا ، آہ ! یہی گہری خاموشی اُس وقت فوراً محسوس ہو جاتی ہے جب آپ کسی با رعب ، بُرد بار ، ہستی کے سامنے پہنچ جائیں اور یہاں فاصلے سے قدرِ دور دور وہ درخت کھڑے تھے ، جن کے بھاری ، خوب گھیرے دار تنوں نے سبز خلعت پہن رکھی تھی ۔ وہ بلند و بالا اور خوب گھنیرے بھی تھے ۔ وہ کئی سو سال کے عمر رسیدہ درخت تھے ، جن کا مختصر خاندان کچھ کم اور کچھ زیادہ گھیر کے تنوں کے ساتھ خاموشی ، تمکنت اور تفکر میں ڈوبا محسوس ہوا۔ میرا دل اُن کے احترام اور عقیدت سے سرشار سا ہو گیا ۔ ہاں میں جانتی ہوں ، انھوں نے شاہوں کے جلال کو دیکھا اور تاریخ کے کئی صفحات کو اپنے تنّوں پر رقم کر ڈالا ہے ۔ یہ تحریر انسانی انگلیوں کے پَوروں کے دائروں کی طرح خاص طرزِ تحریر ہے ۔ شاید اسی لئے سبز پتّوں کی خلعت اوڑھ لی تھی تاکہ تاریخ محفوظ ہو جائے ۔ پیارے درختو ! تم جہاں کے بھی ہو تمہارا شکریہ کہ انسان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا ، کبھی اسے ٹہنیوں میں چھُپایا ،کبھی تنّے شق ہو گئے اور ان میں برگزیدہ ہستیوں کو چھُپا لیا ، کبھی پھل دیے تو کبھی پھول ، اور سایہ تو بہر طور چند ٹہنیوں سے بھی مل گیا کہ انسان کا جنم جنم کا ساتھ ، پانی ، مٹی اور پھر درخت کا رہا ۔ !! کیسا دِلی رشتہ ہے کہ جہاں بھی تم ہوتے ہو ، دل کا سکون آس پاس ہی رہتا ہے ۔ اور کیسی عجیب بات کہ جہاں اللہ نے اپنی جنت کا ذکر کیا وہیں اُس کے درختوں کا بھی ذکر ہے ، وہی درخت یا پودا جس کے پھل کو کھانے سے منع کیا ، وہی درخت جن کے پتّوں سے کائنات کے پہلے دو انسانوں نے خود کو ڈھانپا ، وہی درخت جس کے سائے تلے مچھلی والے کے درد کا درماں کیا گیا ، درخت ، پتےّ ، ٹہنیاں ، اور انہی سے فائدے اٹھاتی انسانی اور حیوانی حیات!! تو ہم کیوں نا ان کی سرگوشیاں سنیں ؟!

( منیرہ قریشی ، 5 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں