"سوات ریسٹ ہاؤس ایک دل فگار یاد"
باب۔ ۔12
سینکڑوں برس بوڑھے ملائیشین درختوں نے چپکے سے کہا ۔۔۔
" تمہاری سراہتی نظروں کا شکریہ ، لیکن اب ہم کسی تعریف ، توصیف یا تبصرے سے ماوراء ہو چکے ہیں ۔ ہمیں سراہنے والوں کا بھی شکریہ اور نظر انداز کرنے والوں کا بھی شکریہ ، کیوں کہ وقت وہ بُردباری دے جاتا ہے کہ نفرت اور محبت کے رویوں کے اثرات لینا دینا بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ شاید فنا فی اللہ کی منزل کے قُرب کا ادراک ہو جاتا ہے ، یہ احساس کتنا لطیف کر دیتا ہے ، تم کیا جانو ، تم کیا جانو !"
تبھی مجھے انہی کے خدوخال کے حامل گھنے سائے دار ، خوب موٹے تنوں کے عمر رسیدہ درختوں کا بہت چھوٹا سا خاندان یاد آگیا جو سوات ریسٹ ہاؤس کے عقبی اور اس کی شمالی جانب پھیلا ہوا تھا ۔ سوات کے دل نشیں نظاروں نے طبیعت میں کمال نغمگی بھر دی تھی۔ریسٹ ہاؤس میں کچھ دیر ٹھہرنے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن اس قیام نے طبیعت کی بشاشت کو یکدم معدوم کر دیا اور چند گھنٹوں میں اُس کے کمروں نے تاریخ کے چند اہم صفحات جلدی جلدی پڑھا ڈالے ۔ کسی ساتھی کو کیا بتاتی کہ کیا سُن رہی ہوں ۔ دل کی اس کیفیت کو بہلانے کے لئے اس کے عقبی لان کی طرف نکل گئی ، جہاں وہی عمر رسیدہ خاندان تفکر اور گیان میں ڈوبا کھڑا تھا جو مجھے اپنی طرف متوجہ کر ہی لیتا ہے ۔ اپنی حساسیت کے سبب فوراًمعلوم ہوگیا کہ یہاں گھمبیر اُداسی کا بسیرا ہے ۔ لیکن اب آ ہی گئےتو ان اشجار کے پاس ٹھہرنا ضروری لگا۔ تب اُن کے "گُرو " نے خوبصورت غلافی آنکھیں جھپکیں ! "یہاں کیوں آئیں ؟ ہماری اُداسی کا تخمینہ لگانے ؟ ہمارے ٹھنڈے ، میٹھے سایوں تلے تمہارے بد مست بھینسوں جیسے ناپاک لوگوں نے اپنے ضمیر یہیں دریائے سوات میں ڈبو دئیے تھے اور وطن کے پاک لوگوں کی تقدیر خریدنے، بیچنے کے سودے کے بعد پاک لوگوں میں جا کر معزز بن بیٹھے،تمہیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ تمہیں بار بار ڈستے لوگ ایسی پُر بہار جنتوں میں آکر شیطانی کھیل کھیلتے ہیں اور ہم یہ گھناؤنا کھیل دیکھتے ہیں اور ہم ہی ان کے جرائم کے گواہ بھی ہیں ۔ہم درخت ساکت و ساکن سہی ، لیکن ہمارا پتّا پتّا اس کے سائے تلے ہونے والے مکالموں اور معاہدوں کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے ، ریکارڈ جمع ہو رہا ہوتا ہے، یہ سارے بوجھ ہم اپنے سینوں پر لادے کس کرب سے گزرتے ہیں ، تم کیا جانو ، تم کیا جانو !!!""
اگر انسان لمحے بھر کو بھی سوچ لے کہ یہ جو میں غلاظت بھرا کردار کر رہا ہوں ،تو کتنے عرصے کے لئے ؟ دائمی زندگی میں کیا پیش کرو گے ، ان کرتوتوں کا کیا جواز دو گے؟
سوات کے عمر رسیدہ درخت کی یاد نے اور اس کی باتوں نے دل پر عجب بوجھ ڈال دیا تھا ، اس کے برعکس انسانی تاریخ نے تو کسی خطے کو آباد کرنے کا جب بھی سوچا تو مثبت سوچا ! اس کے پیشِ نظر یہ تین اہم عوامل مدِ نظر رہے ۔،تاکہ وہ اس کی زندگی ، بندگی ، نغمگی سے معمور قیامِ وطعام دنیا کے لئے آسانی فراہم کرتا رہے ۔
اول ، پانی کا کنارہ ہو
دوم، درختوں کی آبیاری بہ آسانی ہو سکے
سوم ، وہا ں کسی برگزیدہ ہستی کا قیام رہا ہو
اور یہاں سوات کے یہ سر سبز درخت تھے ہی دریائے سوات کے نیلے اور سبز پانی کنارے ۔۔ انسانی آبادی کے لئے عین جنت ، ارد گرد پھلوں کے درختوں نے اپنا کام الگ دیانت داری سے سنبھال رکھا تھا اور ہے ! مگر
؎ دل و نظر بھی اِسی آب و گُل کے ہیں اعجاز
نہیں ، تو حضرتِ انساں کی انتہا کیا ہے ؟ (علامہ اقبال ر ح )
( منیرہ قریشی ، 6 اپریل 2024ء واہ کینٹ )۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں