منگل، 16 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " (رپور تاژ) 16

" جنگل کچھ کہتے ہیں " (رپور تاژ) 16
سرگودھا کے بزرگ برگد کی ملاقات اگرچہ سَرسری سی تھی ،، اس حیرت انگیز درخت نے جانے ہمیں اور کتنی کہانیاں سنانی تھیں ،، بلکہ کچھ راز تھے ۔۔۔ جو عیاں کئے جانے تھے ۔ اس کی ہر ٹہنی ، بزبان خاموشی ہمیں کچھ دیر اَور ، کچھ دیر اَور رکنے کا کہہ رہی تھیں ۔ لیکن انسان ، کو جلد باز اور بے صبرا ایسے ہی تو نہیں کہا گیا ۔ وہ ایسے ہی گمان میں ،،، " چلو جلد چکر لگائیں گے "، لیکن وہ" جلد" یا تو پھر آتی نہیں ،،، آتی بھی ہے تو وقفہ اتنا لمبا ہو چکا ہوتا ہے کہ پہلے والی گرم جوشی اکثر مفقود ہو چکی ہوتی ہے ۔ شاید ایسے میں سامنے کے مظاہرِ فطرت بھی محتاط ہو چکے ہوتے ہیں ۔۔ اسے اگر چاہ نہیں تو ہمیں بھی پرواہ نہیں ، اور قسمت ہمیں بہترین موقع دیتی ہے لیکن ہم اسے جلد بازی کی نذر کر دیے ہیں ۔ کیا پتہ اس برگد کے جہاندیدہ ، کہنہ سال درخت کی جھکی کمر ، تجریدی آرٹ کے عجب نمونے میں ڈھلی لا تعداد جڑیں ، جو اب خود ایک درخت کے روپ میں ڈھل چکی تھیں ،،، اسی لئے تو جھکی کمر کے اصل درخت کے گرد جنگل نہیں بلکہ اسرار کا ہالہ کھڑا ہو چکا تھا ۔ جب اس نے کہا تھا ،، " '' دیکھو ! قدرت نے میرے وجود کو نہ صرف عجب ہییت دے دی ہے بلکہ اس میں سے دروازے اور کھڑکیاں کھلتی نظر آ رہی ہیں " اس وقت سوچا بھی تھا ، کیا پتہ یہ ایک اور اَن دیکھی دنیا کا دروازہ ہو ۔ کیا پتہ غور کرنے سے کسی کھڑکی سے کسی نئی دنیا کو دیکھ پاتی ،،کیا پتہ ؟؟؟
بالکل ایسا ہی پیغام ایک "ہوائی سفر "کے دوران ایک افریقی سر زمین نے دیا تھا ۔ جیسے ہی علم ہوا کہ ہم اس وقت ایمزون جنگل کے ساتھ جڑے ممالک کے اوپر سے گزر رہے ہیں ، تو آنکھ چھپکے بغیر یہ منظر اُس وقت تک دیکھا کئے ،، جب تک جنگل کی آخری قطار نہیں گزری ۔ آہ ! اُس کے ایرانی قالین کی طرح کے گُتھے درخت عجب منظر پیش کر رہے تھے ،،، نیرنگئ قدرت اپنے منفرد رنگ سے سامنے تھی ۔۔ کہ وہاں سبز رنگ کا ہر عکس جھلکیاں دکھا رہا تھا ۔ پہلے ہلکے سبز رنگ کی لہر آئی ، پھر بتدریج گہرا سبز سامنے آیا ،،، اور اس کے بعد کائی سبز ،، جو جنگل کا زیادہ حصہ سمیٹے ہوئے تھا اس کے فوری بعد سمندری سبز اور پھر جہاز کی پرواز کے دوسری جانب کے موڑ تک ذمردیں سبز نے دلبہار منظر دکھایا جو یادوں نے آج تک بسا رکھا ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ ہر سبز رنگ الگ الگ پیغام دیتا چلا گیا ،،، " ہمارے راز جاننے ہیں ، تو نیچے اترو ہمارے درمیان آؤ ! ہم اس طرح فضا سے اپنی اصل خوب صورتی نہیں دکھاتے ،،،، تمہیں جاننا بھی چاہیئے کیوں کہ ہم تمہاری دنیا کو آکسیجن کا '6 فیصد' حصہ دیتے ہیں ۔ اور 25 فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں ۔ اسی لئے تو ہمیں دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے ۔۔۔ یہی علاقہ ہے ، جہاں سینکڑوں قبائل کے ساتھ ساتھ ان گنت جنگلی حیات ، پل بڑھ رہی ہے،،،ہم 5 کروڑ سال سے انسان کے لئے حیرت اور ہیبت کا علاقہ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ "
میں سبھی سبز رنگوں کے پیغامات سے تھک گئی ،، آنکھیں بند کیں اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی ،،، لیکن ابھی سبز رنگ مجھے چھوڑ نہیں رہا تھا ۔،، میری آنکھوں کی پُتلیاں سبز ہو چکی تھیں ،، میرے منہ کے اندر سبز رنگ کا ذائقہ گھل چکا تھا ، سبز رنگ مسلسل میرے گرد ہالہ بنا کر ہلکورے لے رہا تھا ،،، اس کے جملوں کی تکرار تھی ، "کبھی دیکھا ہے افریقی لوگوں کو ،، بھلے ان میں سے لا تعداد کے آباء دوسرے مغربی ممالک میں جا بسے ہیں لیکن ، ان میں چند باتیں مشترک ہیں ، وہ چلتے نہیں جھومتے ہیں ،، وہ انہی جنگلوں سے اِس فطری عمل کو اپنے خون میں لے کر گئے تھے ۔ ہم افریقی درخت بہت مضبوطی سے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اونچے ہوتے چلے جاتے ہیں ،،، ہمارے قدموں میں سے نئی پود پنپ رہی ہوتی ہے ۔ اب یہاں یہ چھوٹے پودے ہوں ، جھاڑیاں ہوں ، یا آسمان کو چھوتے خوب لمبے درخت ہم جھومنا نہیں چھوڑتے ،،، موسم چاہے جو بھی ہو ،،، ہمارے ڈال ڈال پات پات جھومتا رہتا ہے ،، یہی ہمارا حمد و ثنا کا انداز ہے ،"
۔ تب سوچ نے افریقی خدوخال کے سیاہ رنگ نے متوجہ کیا تو احساس ہو گیا یہ جھوم جھوم کر چلنا ، ان کے جینز میں ودیعت کر دیا گیا ،،، اب زندگی کا برش مصیبت کے منظر پینٹ کر رہا ہے ، یا خوشی کے چیختے چلاتے رنگوں کی بوچھاڑ دکھا رہا ہے ۔ افریقی وجود جھوم جھوم کر ہر طرح کے وقت کو گزار رہا ہوتا ہے ،، یہی جھومنا اُن کے اعصاب کو شانت رکھتا ہے ،،،،
مختلف سبز شیڈز کے ایرانی قالین کی طرح گُتھے جنگل نے جاتے جاتے جو پیغام دیا تھا ،، اس کی صدا بار بار کانوں میں گونج رہی تھی ۔
" ہم سے ملنے آؤ تو وقت طے کر لینا ،،، ہم چند گھنٹوں میں گھُل مِل جاتے ہیں ،،، تم نے انداہ لگایا افریقی سیاہ رنگ کتنے دوستانہ رنگ میں گندھا ہوا ہے ۔ " ہم ہزاروں سال سے دنیا کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم احسان جتاتے ہیں ، ؟ تم غور کرنا ،، افریقیوں میں بھی آحسان جتانے کی عادت نہیں ملے گی ،۔ ہم سے یہی اُصول سیکھ لو ،، خدمت ، صبر اور بے غرضی !!
" یہی پیغام قدرت الہیٰ کا ہر مظاہر دے تو رہا ہے ۔ تم غور ہی نہیں کر رہے ۔ آزادی اور خود مختاری کی چاہت رکھتے ہو ، جسمانی آزادی حاصل کر بھی لیتے ہو لیکن ، اخلاقی آزادی اپنانے کی رفتار کیوں تیز نہیں کرتے ، انسان کو یہ زندگی تو بہت تھوڑی ملی ہے ، اے فانی !!! بس یہی تم براؤن اور کالی قوموں کا المیہ ہے ۔ کہ سوچ کی بلند پروازی میں سست ہو ۔ تم میں موجود گنے چُنے بہادر نہ ہوتے تو تم کانوں کے کچے اپنی ہی جاتی کو مارنے لگتے ہو ،،، کب سنبھلو گے ؟؟ ہم درختوں تلے کیسے کیسے ظلم روا نہیں ہوتے ،،، اگر خالق کا حکم نہ ہوتا تو ہم خود کو ظالموں کے اوپر گرا دیتے ،،،،،، "

ہاں البتہ ،،، ہم نے خوب غربت اور ظلم ہوتے دیکھے ، لیکن افریقی ہوائیں ، اور ہم درخت فیاضی کو نہیں بھولے ۔ اسی لئے افریقی جہاں ہو ،، مہمان نوازی میں کمی نہیں کرتا ۔ افریقی جنگلات کو خوشحال قومیں تباہ کرنے ، اور اس کے وسائل پر قبضہ کے لئے بے چین رہتی ہیں ۔ لیکن ہم دیوارِ چین کی طرح ناقابلِ تسخیر ہیں ، یہ ایکا ہی ہمیں بچا رہا ہے کبھی افریقی نسل کے ماضی کو پڑھنا ،، غلامی کا کون سا رنگ ہے جو انھوں نے نہیں سہا ،،، لیکن صبر سے اپنی قسمت بدلنے میں لگے رہے ۔ ،، سیکھو ،، انسانو ں ! سیکھو ۔ خود میں ایکا مضبوط کرو ۔ ہم درختوں سے سیکھو !! ہم ہی تو اِس کائنات کا حُسن ہیں ۔ہمیں برباد ہونے دو اور نہ خود کو برباد کرنے کی کسی کو اجازت دو ۔ تمہارے ہی ایک خوبصورت ذہن کے درویش فطرت ادیب خلیل جبران نے کہا تھا ،،،" ۔ "درخت نظمیں ہیں جنہیں زمین آسمان پر لکھتی ہے"۔ 

( منیرہ قریشی ، 17 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں