(ریمز بوٹم کی پہاڑی اور اس پر بنا مینار۔ اور اس کے دامن کے درخت ۔۔۔جو انسانوں کی انسانیت سوزی کا گواہ ہے۔)
باب۔۔13
" انسانی فطرت کو خالق نے اپنی فطرت کے رنگ دے کر بھیجا ہے ۔ لیکن یہ بتا دیا گیا کہ منفی قوتوں کا بھی سامنا ہو گا یہ اور بات کہ تم دنیا میں منفی طاقتوں کو پانچ فیصد دیکھو گے ، لیکن کامیابی کی سطح ان طاقتوں کی زیادہ جبکہ مثبت سوچ والے پچانوے فیصد ہو کر بھی بے بسی ، یا کم علمی کی دلدل میں پھنسے ہوں گے " ۔
یہ سارے جملے ایک ادبی محفل کے ذہین شخص نے ادا کیے تومیں ذہنی طور پر اُس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں منفی طاقتوں کا شکار بے بس و مظلوم بے گناہ روحیں صدیوں سے ایک ہی پکار کر رہی ہیں ، " انصاف دو ، انصاف چاہیے انصاف ! ہماری روحوں کو کب سکون ملے گا ؟
"ریمز بوٹم" ،( Rams Bottom)پہاڑی ( ایک برطانوی قصبہ )کی چوٹی پر ایک اونچا ٹاور بنا ہوا ہے۔ اور اُس چوٹی سے لے کر میل بھر کے دائرے میں کوئی درخت نہ تھا ،، البتہ زمین کے قریب آتے آتے درختوں کا گھنّا دائرہ تھا ، جس کے بعد ہی زمینی سطح تک اِکا دُکا خوبصورت گھر تھے ۔ بتایا گیا کہ یہ وہ ٹاور ہے جہاں اُن خواتین و حضرات کو جادوگری کے الزام کے بعد زندہ جلایا جاتا تھا ،جن پر یہ الزام ثابت ہو جاتا تھا اور اوپر کے سبھی درخت کاٹ دئیے گئے ، تاکہ دور نیچے کھڑے لوگ یہ کربناک ، دل دوز سزا دیکھیں اور آج کئی عشروں کے بعد بھی اس چوٹی پر کوئی گھاس تک نہیں اُگتی ، جانے کیوں !!
پہاڑی کے گھیراؤ کے گھنے درخت ہمارے گروپ کو دیکھ کر ٹھٹھک سے گئے ۔ اُن دیہاتی خواتین کی طرح جو شہری خواتین کو دیکھ کر ایک دوسرے کے پیچھے چھپتی ہیں ،کچھ منٹوں کے بعد وہ مطمئن ہو گئے تو اس کے بعد جیسے سبھی درختوں نے بیک وقت بولنا شروع کر دیا ۔
" تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو ؟ جلدی چلی جاؤ یہاں سے ،تمہیں نہیں بتایا گیا ، یہ پہاڑی آسیب زدہ ہے ۔ اس پر بنے مینار کو دیکھا ہے ، جہاں بےگناہ عورتوں سے ذاتی دشمنیاں نکالی جاتیں تاکہ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے ، جھوٹی گواہیاں اکٹھی کی جاتیں اور انہی میں کوئی جوان اور کچھ عمر رسیدہ عورتوں کو جس دن جلایا جاتا تو ہمارے اِس ذخیرے سے پرے لوگ یوں کھڑے ہو جاتے جیسے دلچسپ سٹیج ڈرامہ دکھایا جائے گا ، آہ ! انسان انسانیت کے درجے سے کتنا گِر جاتے تھے ، سزا دینے والے بھی اور دیکھنے والے بھی ۔اِن دل خراش مناظرکے کرب کو اگر کوئی محسوس کر رہا تھا تو یہ ہم درخت ہی تھے ، آہ !ہمارے سینے چھلنی ہو جاتے تھے ، بےگناہوں کی چیخوں سے زمین کانپ رہی ہوتی اور ہم لرز جاتے تھے ۔ مزید گناہ یہ کہ کئی بار ان بےگناہوں کے بچوں کو بھی جلایا جاتا !! چلو سزا دیناتھی تو یکدم گلوٹین کر دیتے ، یا پھانسی چڑھا دیتے ، ایسے تڑپا تڑپا کر مارنا ؟ اور پھر لوگوں کے سامنے ان انسانوں کا تماشا لگایا جانا ؟ جن پر لگے الزام مکمل سچائی پر مبنی بھی نہ ہوتے، یہ سب وہ نا انصافیاں تھیں کہ آج تک سرِ شام اُن سب بےگناہ روحوں کی چیخوں سے یہ علاقہ بین کرنے لگتا ہے ، وہ روحیں آج بھی انصاف مانگتی ہیں ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لئے چیختی چِلاتی چوٹی سے اُترتی ہیں تو ہماری شاخیں انھیں اپنی باہوں میں سمیٹ لیتی ہیں ،تسلی دیتی ہیں ، وہ اُن ظالم انسانوں کی نسلوں سے انتقام لینا چاہتی ہیں ، پہاڑی کے دامن میں رہائش پذیرچاہے کسی بھی خاندان سے ہوں ، ہم انھیں ، اپنے سر سبز پَروں کی چھاؤں تلے گلے لگا لیتے ہیں ۔ روز اُن کی سسکیاں ، اُن کا دکھ سنتے ہیں ! جانے سات سو سال سے یا نو سو سال سے ؟ لیکن اُن پر لگے جھوٹے الزام اور اگر یہ الزام ایک فیصد بھی درست تھے تب بھی کسی کو یہ حق نہیں تھا کہ اتنی ایذا رسانی دی جائے "۔
بوڑھے بزرگ درخت جس کی شاخیں اب مزید جڑوں کے ساتھ زمین میں پیوست تھیں ، اس نے پہلی دفعہ ہمیں اہمیت دی " کتنی عجیب بات ہے کہ جرمنی ، برطانیہ ، بیلجیئم ، اور فرانس اور چند دوسرے ممالک میں جادو گری کے الزام میں جلائے جانے والوں میں چھیاسی(86) فیصد عورتیں تھیں اور بہ مشکل چودہ فی صد مرد ؟ حیرت صد حیرت ! مرد ہی منصف ہوتے اور اپنی صنف کو بچا لے جاتے اور عورت،جو جسمانی طور پر کمزور ، بچوں اور خاندان کی محبت میں غرق ، قابلِ گردن زدنی ٹھہرتی! حالانکہ خالق کائنات نے تو عورت اور مرد کو ذہنی فہم و فراست دینے میں کوئی کمی نہیں کی ۔ عورت رشوت خور ، فرعون صفت مردار گِدھوں کے سامنے چارہ بننے کو تیار نہ ہوتی تو اسے جادو گرنی قرار دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ۔ اُنہی روحوں کی بےگناہی اور منصفوں کی نا انصافیوں کے سبب اس پہاڑی پر سبزے نے اُگنے سے انکار کر دیا ۔ اب ہم ہی اُن آگ میں تپتی روحوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں "۔
بہت ہمت کر کے پہاڑی کی چوٹی پر بنے مینار کی طرف قدم بڑھائے لیکن مینار کے در و دیوار نے اپنی پیشانی سے پشیمانی اور دکھ کے قطرے آنسوؤں کی صورت گرائے اور ہمارے قدم رُک گئے ۔
جہاں دیدہ بزرگ درخت نے کہا " دیکھا کہا تھا نا ، اُس طرف نہ جانا جہاں بے انصافی اور قتل ہوئے ہوں ، وہاں کا ذرہ ذرہ ، اُس نا انصافی کا گواہ بن جاتا ہے اور ایسی جگہ انسانوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاسکتا " ۔
واپسی کے سفر میں سبھی خاموش تھے ۔ اُن سینکڑوں سال پہلے کئے گئے ظالمانہ قتل کے برعکس ، آج کے دور کی عورت کی آسودگی محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی ۔ بزرگ درخت کی بات دل میں کھُب گئی تھی ، قربانی اور ناجائز الزمات لگا کر عورت ہی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ۔کیوں ؟ کبھی "اِنکا تہذیب" میں عورت کو سنوار کر مدہوشی میں زندہ ہی کسی غار میں دفن کر دیا جانا ،کبھی دریائے نیل کو خوش کرنے کے لئے "عورت " کو پیش کیا جاتا رہا۔ حتٰی کہ یونانی خود کو بہت ترقی یافتہ تہذیب گردانتے تھے لیکن کسی جگہ اگر قربانی دینی ہے تو 'عورت ' اور پھر یہ کوشش بھی کہ وہ جوان اورخوبصورت ہو۔اور وہ اپنی گلابی جوانی کے سنہرے دنوں سمیت اگلی دنیا میں پہنچا دی جاتی اور ہمیشہ کے لئے انصاف کی منتظر یومِ محشر کا انتظار کرتی رہتی ۔
ایسی جگہوں سے واپس آکر دل کی اداسی تو بجا ہے لیکن آج کی دنیا کی چکا چوند، روشن قمقموں اور نیون سائن سے سجے بڑے بڑے بِل بورڈ ز اور چڑیوں کی طرح چہکتی آزاد خواتین کو دیکھ کر اِک گونا اطمینان ہوا کہ کم از کم آج صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ یہ اور بات کہ دماغ نے فوری سوال کیا ، اچھا !! کیسے ؟ دیکھا جائے تو عورت کل سب کے سامنے الزام لگا کر سزاوار تھی ، آج اندرون گھر ، سنگ باری کی جاتی ہے ۔ گویا بباطن روز مرتی اور روز جیتی ہے ۔ دنیا میں اس سنگ باری کا تناسب آج بھی وہی کہ عورت چھیاسی فیصد اور مرد چودہ فی صد کی ٹرافی سنبھالے بیٹھا ہے ۔
(منیرہ قریشی 8 اپریل 2024ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں