اتوار، 28 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں" (رپور تاژ) 19


" جنگل کچھ کہتے ہیں" (رپور تاژ) 19
پُھولوں کی صحبت نے دل کو کچھ شاد کیا ، کچھ پُر امید کیا ،،، ہلکی ہلکی پُروا سے سبھی پُھول مُسکرا مسکرا کر یوں جھوم رہے تھے ، جیسے دنیا میں کوئی غم نہ ہو ۔ ہاں ،،کیوں نہیں جب ہر بات ہر حکمِ الہیٰ کو راضی بہ رضا ہو کر تسلیمِ کر لیا جائے ،، جب احکامِ انبیاء پر کامل یقین کے ساتھ عمل کر لیا جائے تو ،،، دل اور روح سکون سے ایسے ہی سر شار رہتی ہے ، یہ کومل ، نازک ، دلفریب پھول لہلہا رہے تھے ۔۔ جیسے کہہ رہے ہوں " زندگی چند روزہ ہے ۔اِسے ہنس کے گزارو یا رو کر ،، یہ تو تم پر منحصر ہے ۔۔۔
؎ یہی سننے کی خواہش ہے تو پھر دہرائے دیتے ہیں
کہ ہم سے پیڑ چاہے بےثمر ہوں سائے دیتے ہیں
نئی رُت میں نئے پھولوں کا استقبال کرتے ہیں
پُرانی رنجشوں کو ہم ، یہیں دفنائے دیتے ہیں
(کنول جوئیہ)
ساتھ رہتے ہیں تو کچھ ایسی دو ا دیتے ہیں
سارے دُکھ درد کو پل بھر میں بھُلا دیتے ہیں ( شکیل حنیف)
سامنے پارک میں پھرتے خوش باش لوگ ،، خراماں خراماں یہاں وہاں جاتے ہوئے لوگ اُن غلط کاروں کو بالکل نظر انداز کر کے گزر رہے تھے ۔۔ میرے لئے شاید یہ برسرِ عام گناہ ناقابلِ برداشت تھا ،، کیوں کہ ایسی سرِ عام بے حیائی کو کم ازکم مشرقی ممالک میں اُن کی روایات نے روک رکھا تھا ۔ اور نام نہاد ہی سہی ،،، مذہب کے کمزور رسّے کو بھی تھام رکھا ہے ۔
مَرے قدموں سے میں گھر کی راہ ہو لی ۔ اگرچہ مجھے ہر صورت بوڑھے بزرگ درخت کے قریب سے ہو کر گزرنا تھا ۔ اپنے دل کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے چلتے ہوئے اس کے پاس رُک گئی ،، اس کے فراخ تنے پر اداسی سے ہاتھ پھیرا ۔ " تمہیں کیا کیا سہنا پڑا ،، اور سہنا پڑرہا ہے ۔" میں نے اُسے ہمدردی سے کہا ۔،،، اور اسی محویت میں، مَیں نے اُس کے تنّے کے تھم پرنٹ یعنی دائروں پر محبت کی نظر ڈالی ۔ یہ کیا ، یہاں تو پانچ سو سال کے سبھی واقعات پرنٹ تھے ،، جوں ہی میری نظروں نے انھیں تلاشا ،، جیسے فلم کی ریل چل پڑی ۔۔ تیز چلتی گھوڑا گاڑیاں ، حملہ آوروں کے جتھے ،، مقابلے کرتے سپاہی ، اس علاقے کی جنگلی حیات ، سازشیں کرتے باغی ،، خوبصورت لمبے لبادوں میں ملبوس ، نازک اور موٹی خواتین ،، اُن کے اغوا ہوتے مناظر اور اُن کے مختلف عمروں کے بچے ،، جن میں سے کچھ گھائل نظر آئے ، اور کچھ بھاگ نکلے ،، گھنے جنگل کی تاریکی میں گُم ہوتے چلے گئے ،،، میَں چونک گئی ،، کہیں میری تصویر بھی اس دائرے میں ثبت نہ ہو جائے ،،، کہیں میں بھی یہیں محفوظ نہ ہو جاؤں ۔۔ بے معنی خوف نے مجھے آ گھیرا ،، اور تیز قدموں سے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑی ،، تبھی مجھے یاد آیا ،، لندن کے دس ہزار سالہ "ایپنگ فارسٹ " نے کہا تھا ۔۔ "وہاں تمہارے گھر کے قریب کے پارک میں پانچ سو سال کے درخت سے ملنا ،، وہ تمہیں بہت سی کہانیاں کہہ دے گا ،، کیوں کہ تمہیں اس سے بار بار ملنے کا موقع مل رہا ہے ۔ ،، وہ ایسے ہی دلی دوستوں کو اپنے کچھ راز بتا دیا کرتا ہے " کیوں کہ
؎وہ ایک بات جو تم نے کہی درختوں میں
اِسی لئے تو ہوئی دوستی درختوں میں !! ( ظہیر قندیل )
لیکن راستے میں موجود ،، کئی درخت اپنے بزرگ درخت کی ترجمانی کرتے ہوئے بولتے جا رہےتھے ۔
"دیکھو ،، کبھی اپنے وطن میں قوانینِ قدرت کو توڑنے کی اجازت نہ دینا ،، اِس سے ماحول کی " پاکیزگی" مجروح ہوتی ہے ۔ آہ ،، انسان نے فضائی آلودگی ،، آبی آلودگی ،، اور ماحولیاتی آلودگیوں کو جان لیا ،،، اُن پر لمبے چوڑے مضامین پڑھے اور چھاپے جاتے ہیں ،، سیمینار ہوتے ہیں ،،،،، لیکن اپنی نئی نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے " اخلاقی آلودگی " کو کیوں نظر انداز کر بیٹھا ؟؟""
" یہاں تو معصوم جنگلی حیات بھی ، اِن کی بے شرم حرکتوں سے نالاں ہے ۔ کچھ تو کرو ، یہ کیسی ترقی اور خوشحالی ہے ،،کہ اب تو اِن کی ستر فیصد عبادت گائیں ویران ہو چلی ہیں ۔ وہاں سکول اور شادی ہال بنائے جا رہے ہیں ۔ جانے انسان کیوں اتنا بے حِسّ ہو گیا ہے ؟ وہ کیوں اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھ رہا ہے ؟؟"

( منیرہ قریشی ، 29 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں