اتوار، 14 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپور تاژ) 15




" جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپور تاژ) 15
ہر دور میں ، فطرتِ انسانی نے اَن دیکھی قوت سے ہیبت محسوس کی ،،، تو دکھائی دی جانے والی وہ قوت جو حوّاس میں آجاتی ہو ،، انسان اس سے متاثر ہوا اور ،،اس کے سحر کے حصار میں چلا جاتا ہے ۔ اور یوں کبھی ، سورج ، چاند یا جلتا الاؤ اسے اپنے سے بہت بلند ، قوت اور ہیبت والا لگا ،،، تو اُسی سے منتیں ماننے لگتا ۔ اور کبھی کسی درخت کی قدامت ،منفرد رنگت ، جسمامت ، اونچائی ، لمبائی ، انسان کو اپنی محرومیوں کا مداوا کرتی محسوس ہونے لگتی ، تو وہ اسے اپنی دعاؤں کا مرکز سمجھنے لگتا ،،،،،
ایسے میں درخت مسکراتے !! " یہ فانی بھی کیا چیز ہے ،، اپنے عارضی مسائل کا حل ، فانی سے طلب کر رہا ہے ۔ اور یہ جسے خالق نے فرشتوں جیسی مخلوق سے علم کی بنیاد پر سجدہ کروایا ،، اسے جو فراست بخشی ، کمزور لمحات میں اسی فراست کو بے عقلی کے گڑھے میں دھکیلنے میں دیر نہیں لگاتا ۔ ،، اسی لئے دنیا کے مختلف خطوں میں لاتعداد ایسے درخت ہیں ،، جن کی ٹہنیوں اور تنّوں کے ساتھ دھاگے ، ربن یا دوپٹے بندھے نظر آئیں گے ۔ انہی جگہوں کی یہ روایات وہاں کی عوام کی ذہنی سطح اجاگر کرتی ہے ۔"" ہم درخت چُپکے چُپکے باتیں کرتے ہیں ،،، تمہیں ہماری زبان سمجھ نہیں آ سکتی اسے " چُپ کی زبان " کہتے ہیں ۔ اِسی لئے ہم ہر آنے والے مہمان کے دوست بن جاتے ہیں کہ یہی زبان " احترام " کی زبان بھی ہے" ،، یہ سب سر گوشیاں سرگودھا جاتے ہوئے موٹر وے کنارے ایک سایا دار درخت نے کیں ، جس کی چھاؤں میں کچھ منٹ بیٹھنا ہوا ۔ اور میَں دل ہی دل میں دنگ رہ گئی کہ اس وقت ہمارا سفر سرگودھا ہی کی طرف تھا ۔۔۔ لیکن اسے کیسے پتہ چلا ؟ دھریک کے درخت نے جیسے میرا خیال پڑھ لیا تھا ،، وہ جھوم کر کہنے لگا ۔۔ بے شک ہم کہیں نہیں جاتے ، نہ ہمیں کوئی بتاتا ہے ۔ لیکن ہمارے خالق نے ہمیں خیال پڑھنے کی یہ حّس دے رکھی ہے ۔
یہ بھی تو دیکھو ،، تم بھی تو ہم سے سوچ کی لہروں سے گفتگو کر لیتی ہو ، یہ اور بات کہ انسانوں میں ایسا بہت کم نظر آتا ہے ۔
"کبھی پاکستان کے ایک سر سبز شہر"" سرگودھا " کے نواحی علاقہ مڈ رانجھا جانا ہوا تو دیکھنا۔ وہاں برگد کا وہ درخت ہے جو ساؑڑھے تین ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہے ۔ اس کا یہ پھیلاؤ دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتا ہے ۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو وہ پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لئے محسوس ہوتا ہے ۔ مقامی لوگ اسے سینکڑوں سال ( قریبا" ساڑھے تین سو سال اور بعض روایات کے مطابق 700 سال بعد )پرانا بتاتے ہیں ۔ جسِے کئی سو سال پہلے ایک صُوفی بزرگ مرتضیٰ شاہ یا کچھ روایات کے مطابق بابا روڈے شاہ نے اپنے شاگرد کے ساتھ اِسے لگایا تھا اسی کے قریب اپنا ٹھکانہ بنایا ،اور اسے "بابا روڑے دی بوڑھ"، کہا جاتا ہے۔۔ آج برگد کا یہ درخت اپنی لمبی جَٹوں کے ساتھ اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کے نیچے کئی سو لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور یہ اب اپنی ذات میں خود ایک جنگل بن چکا ہے ۔ اس کے تنے پر لوگ اپنے نام پتے لکھ جاتے ہیں ،، یہ حرکت دنیا کے اس دوسرے نمبر کے بزرگ درخت کی صحت کے لئے ہرگز ٹھیک نہیں ۔ لیکن نسل انسانی اگر قدر کرے گی تو تباہی کے بعد ہی ،، اس وقت فطرت بھی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم کرنے میں دیر نہیں لگائے گی ۔ کاش انسانی معاشرے کچھ مظاہرِ فطرت کو مقدس ہی بنائے رکھیں۔ تب ہی ان کا بچاؤ ہو سکتا ہے ۔ جیسے وسیع سر سبز میدان ،، ساحلی صفائی ، پہاڑوں کو کٹائی سے بچانا ،،،کہ یہی تو زمین کی میخیں ہیں ،،، اور ہر طرح کے جنگلوں کو بچایا جانا ۔
۔ اب یہ بزرگ درخت سب پر اپنا مہربان سایا ڈالے رکھتا ہے ،، اسی کی چھاؤں میں بے شمار مویشی آرام سے بیٹھے جگالی کرتے ہیں ۔اور لا تعداد پنکھ پکھیرو لمبے چوڑے خاندانوں کے ساتھ سکون کے ساتھ مقیم ہیں۔ صبح شام حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں ۔ درخت اپنی فطرت کے مطابق ،،، فیض کا سرچشمہ بنا کھڑا ہے ۔ لیکن جہالت کی غلاظت لیئے ، انسان نہ جانے کچھ حرکات جانوروں سے بھی بد تر کیونکر کر جاتا یے ،،، کہ وہی سازشیں، وہی تانے بانے۔۔۔۔
مڈ رانجھا پہنچ کر بزرگ برگد درخت نے ہی بتایا " عمر کے لحاظ سے میرا ایک بڑا بھائی ، سری لنکا میں ہے ۔۔ جسے اس کی حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے ،، جب کہ ایک چھوٹا بھائی انڈیا میں ہے ۔۔۔ ہم تینوں کا باہمی رابطہ ہواؤں ،، اور پرندوں کے ذریعے مسلسل رہتا ہے ۔ نہ جانے کیوں میَں خود کو کچھ مضمحل محسوس کر رہا ہوں ،،، شاید بے تحاشا پھیلاؤ نے میری قوت مدافعت کم کر دی ہے " اِسی لئے میں تھکا تھکا نظر آتا ہوں ، حالانکہ ملائیشین بزرگ درخت ایک ہزار برس سے زیادہ کے ہیں ،،جو بہت ترو تازہ ، سرسبز اور سیدھے کھڑے ہیں " ،،،،
"اب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا ہے ۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔ کہ میں نہ تن کر سروقد کھڑا ہو سکتا ہوں ، نہ اجنبی مہمانوں کے اعزاز میں جھوم سکتا ہوں ۔ لیکن چُپ کی مدھم آواز سے اس کا" جی آیاں نوں"کہنا ،، اور پھر میٹھی مسکراہٹ سے ملائیشین بزرگ درختوں ،کا احوال پوچھنا ،،، اس کا یہ انداز یکدم دل میں گھَر کر گیا ۔ ""
ماہر زولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین خان کے مطابق ، پودوں کو نا پید ہونے سے بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی اہم درخت کو " مقّدس" قرار دے دیا جائے ۔ تاکہ لوگ خود اس کا تحفظ کریں ۔ لیکن میرے وطن کے لوگ ،،، ابھی تربیتِ شعور کے دور سے گزر رہے ہیں ۔۔
ایک درخت کے لئے کہنہ سالی اس کے گیان اور وجدان میں اضافے کا باعث تو ہوتی ہے ،،، دوسرا بڑا غم وہی : اُس کے سائے تلے سازشیں اور گھناؤنے منصوبے تیار کرنے والی حرکات ،، درخت کی صحت ، اور وجدان کی راہ کو کھوٹا کرتے رہتے ہیں ۔ جانے ان انسانوں کی سوچ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی کہ کرامن کاتبین کے بعد ہم بھی ان کے اعمال کے عینی شاہد ہیں ۔"
برگد کی مڑی تڑی موٹی لیکن بے ترتیب شاخوں نے اُسے تجریدی آرٹ کا نمونہ بنا ڈالا تھا ۔ اوپر سے آتی جڑوں نے نیچے آکر مزید نئے درخت کا رُوپ دھار لیا تھا ،، ایسے کہ جیسے دروازے کھڑکیاں سی بن گئیں ہوں ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا یہ دروازے اور کھڑکیاں کسی دوسری دنیا میں قدم رکھنے کا باعث بن سکتی ہیں ، واقعی اس بزرگ درخت کا نرالا سحر تھا ۔ ،،، جو آس پاس کی خاموشی نے، درخت کے بے تحاشا پھیلاؤ نے،، ہم نے مزید
دل سے تکریم کی ۔ اور اس کے مختلف تنوں پر ہاتھ پھیرا ،، کہ اب اللہ حافظ کہوں ، کہ سرگوشی سی اُبھری " تم کتابیں تو پڑھتی ہو ،،، اور کبھی زندگی تمہیں وہاں لے گئی جہاں ہمارا بڑا بھائی سری لنکا کا شہری ہے ،،، تم میری اور اپنی ملاقات کا ذکر ضرور کرنا ،،، اُسے ملائیشین بزرگ درختوں کے بارے بھی بتانا ۔ کہ وہ ہمارے بھی آباء میں سے ہیں ۔۔ اب جاؤ ! کہ شام ہوتے ہی یہاں کا پر اسرار سناٹا ، لوگوں کو ہم سے دور رکھتا ہے ، دراصل یہی تھوڑا سا رعب ودبدبہ ہے جس کی وجہ سے ،،، ہمارے لئے سکون ، اور گیان کے اوقات میسّر ہو جاتے ہیں ۔ اللہ کا حکم ہوا تو پھر ملیں گے ۔
(منیرہ قریشی ، 15 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

۔ ( پاکستان کے شہر سرگودھا کے قریب " مڈھ رانجھا " میں برصغیر کے دوم نمبر کے برگد کا درخت ،، جو ساڑھے تین ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ اس کے تین یا سات سو سال پرانے تنے ہیں ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں