جمعرات، 25 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔18)

"شدت ہائے غم"
باب۔18
گھر کے باہر کے چھِدرے جنگل سے کبھی چند منٹ کی اور کبھی ایک گھنٹے کی مجلس جمتی اور وہ میری ساری باتیں ، مکمل ذوق شوق سے سنتا ، دوستی کا ایک گُر یہ بھی ہےکہ کہنے والے کے دل تک پہنچنے کے لئے اُس کی باتوں کو یوں سنا جائے جیسے وہ پہلی مرتبہ یہ سب سُن رہا ہے ۔ " اوہ! اچھا مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں تھا" والا رویہ ہوتا ہے ۔
کوئنز پارک کا چکر لگائے چند دن گزر چکے تھے ۔ موسم بھی خزاں کی آمد کی خبر دینے کے لئے دبے پاؤں آ رہا تھا ۔ اور اُس دوپہر ' پارک' جو کبھی گھنّا جنگل تھا ۔ باوجود خوش باش ، سیر کرتے لوگوں کے کچھ مراقبے میں ڈوبا لگا ۔یا حسب سابق میری حسیّات نے یہ خبر دی ۔ کچھ دیر اسی پارک کی جھیل کنارے ،بسنے والی بے تکلف بطخوں کے اچھے بڑے خاندان کی صحبت رہی ،اس جھیل کے گرد خوبصورتی سے بنائے گئے واکنگ ٹریک پر بہت سے بچے ، اپنے والدین یا اساتذہ کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے اور کئی اداس دل بھی انہی شانت چہروں کی وجہ سے اپنے تفکرات بھول گئے تھے ۔ ایک مخصوس راہ پر چلتے چلتے اپنے پسندیدہ درختوں کے جُھنڈ کی طرف چلتی گئی ،اس جھنڈ میں شامل سب سے بڑے گھیر کے تنّے والے سے خاص سلام دُعا ہو چلی تھی لیکن آج اِس جھُنڈ پر صاف محسوس ہوا کہ یہاں خاموشی کچھ گہری ہے ۔ جہاندیدہ بزرگ درخت کے پتے ہلکی پیلاہٹ کے رنگ میں آیا چاہتے تھے اور وہ آنکھیں بند کیے مراقبے کی کیفیت میں نظر آیا، جب کہ کچھ نزدیکی نسبتاًکم عمر درخت کے سبز پتے سُرخ رنگت میں تبدیل ہونے کی تیاری میں نظر آئے سوچا ،!! شاید بزرگ درخت اس لیے پیلے رنگ میں رنگا جا رہا ہے کہ سوچ رہا ہو " شاید یہ میری آخری بہار تھی ، شاید یہ آخری خزاں بِتا کر جا رہا ہوں" اور باقی قدرِ جوان درخت سُرخ لبادے اوڑھ کر یہ ظاہر کر رہے ہیں، " ہمیں لمبی خزاں کا سامنا ہوا تو پھر کیا ؟ پھر سے بہار آ ہی جائے گی ، پُر اُمید رہنا چائیے "۔
کچھ دیر وہیں رُکی رہی تو یکدم زیادہ سُرخ پتوں والے ایک کم عمر درخت نے بولنا شروع کیا تو بولتا چلا گیا ۔" ہم پر وقت کے اُتار چڑھاؤ کے رنگ آتے اور چلے جاتے ہیں ۔ یہ ازل سے لکھ دیا گیا ۔ ہم یہ تبدیلیاں خوش دلی سے قبول کرتے اور گزارتے ہیں ۔یہ نیچے گِرے پتے ہمارے ہی لیے کھاد کی وہ خوراک بن جاتے ہیں جس کی طاقت سے ہماری بیماریاں دور ہوتی ہیں ، ہر جنگل اپنے آپ میں محسوسات کا خزانہ بھی سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ۔ ہمیں بھی سکون اور گیان دھیان کے لئے پاکیزہ فضا درکار ہوتی ہے ۔ خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اب کئی سالوں سے شخصی آزادی کے نام پر نو عمر یا پختہ عمر کے انسان ،اپنی غلط کاریوں کے لئے ہماری چھاؤں کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں ۔ ہم خزاں میں بے لباس ہو جاتے ہیں ، شدید ٹھنڈ ہمیں بیزار بھی کر دیتی ہے ۔ لیکن کم از کم اِن قبیح نظاروں سے تو جان چھُٹ جاتی ہے "۔
تو اس خاموشی اور مراقبے جیسی کیفیت کی یہ وجہ تھی! بزرگ درخت تو پھر بھی مراقبے کے ہالے میں ساکت کھڑا رہا ، جب کہ کم عمر درخت نے دل کی بات کہہ ڈالی " تمہیں علم تو ہو چکا ہے نا !! یہ پارک بعد میں بنا ، پہلے گھّنا جنگل تھا ، جہاں ہرنوں کی ڈاریں بے فکری سے چَرتی چُگتی تھیں ۔
گچھے دار دُموں والی لومڑیاں ، خرگوش اور سہہ ( خار پُشت ) اور گوہ (monitor lizard ) اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھیں ۔ بےشک ایسے جنگل انسان کو ڈراؤنے لگتے تھے ۔ لیکن یہی ڈر کا غلبہ ہم درختوں کی زندگی کا باعث بھی بنا رہا ۔ البتہ صاحبِ اقتدار طبقہ جنگل کے خوف سے تو آزاد تھا کیوں کہ وہ اپنے اقتدار کو خظرہ سمجھ کر گھنے جنگلوں کی کانٹ چھانٹ کرتے رہتے ، کہیں یہاں باغیوں کے مستقل ٹھکانے نہ بن جائیں ، کہیں ہمیں چیلنج کرنے والے عناصر ، یہیں چھُپ کر ہمارے خلاف سازشوں میں کامیاب نہ ہو جائیں ، ایسے ہی بے معنی خدشات کے تحت اس طبقے کے مُٹھی بھر انسان ہمارے دشمن بنے رہے ۔ ہمارے ساتھیوں کو شہید کرتے رہے ، جنگلوں کے درمیان راستے بنے ، پھر انھیں تفریحی پارکوں میں بدلایا گیا اور اِسی کوشش میں جنگلی حیات سِمٹ سُکڑ کر رہ گئی ۔ یاد رکھو ،وہی جنگل ، مکمل جنگل کہلاتا ہے جہاں ہمارے تنوں کے گِرد چھوٹے بڑے جانور چُہلیں کرتے ہوں ۔ اُن کی خوبصورت بولیاں فضا میں موسیقیت پیدا کرتی ہوں ،وہی جنگل خاص دبدبہ اور خاص چھَب کا مالک ہوتا ہے ۔ اب جنگلی جانور کم بھی ہو گئے ہیں ،جو ہیں وہ دن بھر اپنے بِلوں اور پرانے نالوں کے محفوظ کونوں میں چھُپ کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ شام ہو انسانوں کی چلت پھرت ختم ہو تو پھر خوراک کے لئے نکلیں ۔ اور تم نے دیکھا !!؟ اب پارک تو بن گئے لیکن اب اِکا دُکا درختوں کے جھُنڈ تلے آج کا انسان وہ حرکتیں کر رہا ہوتا ہے ، جو شریف لوگ اپنے گھروں کے اندر اپنے محرم رشتوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور آج کل نہ صرف نا محرم مرد و زن یہاں ہمارے سایوں میں ہمیں اپنے گناہوں کے گواہ بنا رہے ہوتے ہیں بلکہ اِسی دوران ہم جنسی کے بد بودار طوفان کے افعال ہمارے سایوں تلے روا رکھے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہمیں بیزار کر دیتا ہے۔ ہم دکھ سہنے اور کُڑھنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں ، تم دیکھو ہم انھیں آکسیجن جیسی قیمتی چیز مفت بانٹتے ہیں اور انسان مادر پدر آزادی اور میرا جسم میری مرضی کے گھٹیا خیالات اپنا کر ہمارے سایوں تلے کیا کر رہا ہوتا ہے ؟ جب بھی یہ منظر دہرایا جاتا ہے ، ہمارا غصہ کئی گُنا بڑھ جاتا ہے ۔تم جہاں سے گزریں ، وہاں ابھی تک نوجوان لڑکے اُسی قبیح حرکت میں مصروف تھے ، جس کی وجہ سے ربِ کائنات کا غضب بھڑکا تھا ، اور سب سے زیادہ عذاب اِسی گھناؤنے فعل کی وجہ سے بھیجا گیا تھا ، اپنی نئی نسل کو " شخصی آزادی "(پرائیویسی )کے نام پر آزاد چھوڑ دینا ،والدین کا یہ رویہ ناقابلِ معافی ہے !" ۔
کیا ہم سمیت کائنات کے سب مظاہر اُس ضابطۂ حیات کے پابند نہیں ، جو اُس نے مقرر کر دئیے ہیں ، ہم میں سے جب کوئی یہ ضابطہ توڑتا ہے تو نتیجے میں کائنات میں غضب و قہر کی لہر پیدا ہو جاتی ہے ۔ جو انسانی جانوں ، علاقے کے خدو خال کو شدید نقصان پہنچا کر دم لیتی ہے ۔ خود سوچو ، یہ گندی حرکات ہمارے غصے کو بھڑکا ئیں گی نہیں "۔ یکدم نگاہ اُسی درخت کی اُوپر شاخوں کی طرف گئی ، تو سبھی کم عمر درختوں کے پتّے بھی جیسے شعلہ زن تھے ،ان کی آنکھیں انگارے برساتی محسوس ہوئیں ۔ ایسا لگا جیسے وہ اِن خلافِ فطرت حرکات کے مرتکب لوگوں کو جلا ڈالیں گے ، یا اُن پر خود کو گرا دیں گے کہ اُنھیں کچل ڈالیں ۔
مجھے جلد وہاں سے ہٹنا پڑا ۔ کہ بزرگ درخت کی گھمبیر خاموشی اور کم عمر درختوں کی غضب ناکی نے خوف زدہ کر دیا تھا ۔
دل اداسی کی گہرائی میں ڈوب گیا۔ شیطان کے چھاپے اور تانے بانے میں انسان اِتنی آسانی سے کیسے آجاتا ہے جیسے ، مکڑی ساکن اور جامد ہو کر کامیابی سے شکار کو اپنے جال میں پھنسا لیتی ہے ۔ کاش اے انسان ! عارضی آزادیوں کے بدلے اپنے ضمیر کو نہ مار ےکہ یہ ضمیر وہی ہمزاد ہے جس کی گواہی پر وہ جکڑا جائے گا ۔ چلیئے ،وہ بعد کا دربار سہی لیکن دنیا میں اس کے اثراتِ ظاہری و باطنی کی تباہ کن حالتیں ہو سکتی ہیں اور ہو رہی ہیں ۔ اُس انجام سے ڈریں !!
کوئنز پارک کا وہ دن ، درختوں کے غم اور خوشی اور غصّہ و شانتی سبھی کیفیات نے دل و دماغ پر ایسا اثر ڈالا کہ جلدی سے اپنی من پسند کیاریوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی کہ پھولوں کی معصومیت ، لطافت ، خوش نمائی ، اور خوش ادائی ، انسانی مزاج پر عجب خوشگوار اثرات ڈالتے ہیں ۔ اور ان کی صحبت سے انسان مایوسی کی دلدل سے نکل جاتا ہے ۔ وہ پھر سے امید کے چراغ روشن کرنے لگتا ہے ۔ جلد انسان فطرت کی طرف لوٹے گا ۔ اور پھر ہر کسی کے مطالبات دائرۂ فطرت کے تحت پورے کئے جائیں گے۔

( منیرہ قریشی ، 26 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں