منگل، 9 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)



" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)
اگر انسانی تاریخ میں انسانوں کی ہجرت کا مطالعہ کیا جائے تو ، تو جنگل اس ہجرت میں انسانوں کے ساتھی بن کر ساتھ دیتے رہے ہیں ، بلکہ جب کبھی کسی برگزیدہ ہستی نے اللہ کے حکم سے کسی ویرانے میں ڈیرہ ڈالا ، تو کسی درخت کے نیچے ٹھکانہ پکڑا ،،، اور لوگ نیکی اور سکون کی تلاش میں آتے چلے گئے ،، اور کارواں بنتا چلا گیا والا حساب ہونے لگتا ۔
راجہ سدھارتھ جِسے لوگوں نے مہاتما بدھ کا خطاب دے دیا ،600 سال قبلِ مسیح پیدا ہوا ،،، شاہی خاندان کا پروردہ ، نیپال جیسے سر سبز لیکن ایک چھوٹے سے ملک کا مالک ، اصل خوشی ،، آگاہی اور اول و آخر کی تلاش میں دنیا تیاگ دی ۔ تو کسی ویرانے میں وہ خوش قسمت درخت انجیر کا تھا جس کے نیچے بیٹھا،، جس کی چھاؤں نے اور محبت بھری شعاعوں نے راجہ سدھارتھ کو مہاتما بُدھ بنا دیا ۔۔ کہ " صفائے باطن اور محبتِ خَلق " ہی زندگی کا محاصل سمجھا دیا گیا ۔ اُسی کی تعلیمات کو لے کر اس کے شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے اور ،، ایک زمانہ گزرا کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب بُدھ قرار پایا ،، اس کے ماننے والوں میں ان کی نمایاں صفت " عاجزی" سمجھی جاتی ہے ، جسے مختلف خطہء ارض کے انسانوں نے اپنے اپنے انداز میں جذب کیا ،،،
"مہاتما بُدھ"کی تعلیمات سے متاثر ایک (hwanung ) ہیوانگ نام کا شخص کوریا کی سر زمین پہنچا اور کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک غیر آباد جگہ "صندل " کے درخت کے نیچے بسیرا کیا ۔ اور وہیں ایک عبادت گاہ بنائی ،،، اور جب کچھ مزید لوگ وہیں آ کر آباد ہونے لگے تو اُس نے اس نئے شہر کو
"سنسی "SINSI" کا نام دیا یعنی " خدا کا شہر " ،،، گویا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے تصور کو درخت سے جوڑے رکھا ،،، اور اپنے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا جلوہ ،،، سر سبز درخت کی صورت میں دکھایا جو ایک شعلہ نما روشنی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ آہ میرا رب کتنا حیران کن ہے کہ کہیں نہیں سما سکتا ، سوائے مومن کے دل میں ۔۔ وہ خود جمال ہے تو اس نے جمیل چیزوں سے اپنے بندوں کے لئے کائنات کو حسین ترین چیزوں سے سجا دیا ،،، اور اس فہرست میں آسمان سورج چاند تارے تو ہیں ہی ،،، زمین کے تارے درخت بنا دئیے ،، جو دلوں اور مزاجوں کو ٹھنڈک سے مالا مال کرتے رہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں ،،، سراپا محبت وہ خود ،، اور سراپا محبت اس کی کائنات ! تشکر ، تشکر ، تشکر !! اے کُن فیکون کے مالک !!
اسی لئے تو میں سمجھتی ہوں درخت شاہد ہوتے ہیں ،،، الہام کے ، الہامی لمحات کے ،،، ہر خیر و شَر کی مجالس کے جو ان کے نیچے منعقد کی جاتی ہیں ۔ ، ہر عہد اور بد عہدی کے ۔۔۔ اور جب وہ سُن سکتے ہیں ، تو کبھی خالق نے زبان دے ڈالی تو بول بھی پڑیں گے ۔ ۔ پھر رازوں اور گواہیوں کا وہ دروازہ کھل سکتا ہے ،،، جو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہونے کا سماں ہو سکتا ہے ۔ لیکن کائنات کی سب سے ذہین ترین مخلوق" انسان " سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی ،،، سمجھنا نہیں چاہتا ۔ کہ اپنی ذلت کے سامان کا ابھی سے کچھ احوال درست کر لوں ۔

( منیرہ قریشی 9 اپریل 2024ء واہ کینٹ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں