اتوار، 11 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا( 1)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "ملائیشیا " ( 1 )۔"
اللہ سبحانَ تعالیٰ نےپہلا غیرملکی سفر دسمبر 2005ء کا جو عطا کیا ، وہ حج کا تھا ۔ اور وہاں کے 41 دن نے (مجھے اپنی حدتک ) اتنا سیراب کر دیا کہ مجھے اندر کی کیفیت کو دنیاوی کاموں میں مائل کرنے میں وقت لگا ،، ! ۔
۔2009ء کا سال شروع ہوا تو ، ہماری عزیز سہیلی شاہدہ نعیم کے فون آنے آنے لگے کہ " چلو چلو ملائیشیا چلو " ،،، دراصل اُن دنوں نعیم بھائی ، ملائیشیا کی اسلامک یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کے طور پر جا چکے تھے ، اور شاہدہ پہلے بھی ان کی خاطر ایک دفعہ جا کر رہ کر آچکی تھی ،تاکہ وہ " ہوم سِک " نہ ہوں ،،، بنیادی طور پر نعیم بھائ اپنے وطن اور اس کی ہر روٹین ، ہر مصروفیت ، اور ہر دن کو انجواۓ کرنے والے بندے ہیں ، اُن کے لیے ملک سے دوری کڑے امتحان کا باعث بن جاتی ہے ۔ اور اب ملائیشیا یونیورسٹی میں شاندار عہدہ ملنے کے باوجود ، ان پر پاکستان کی دوری نے اداسی کا حملہ کر رکھا تھا ،، کنٹریکٹ ایک سال کا ہو چکا تھا جو ہر صورت پورا کیا جانا تھا ،،، اور نعیم بھائی، بالکل اُس بچے کی طرح اداس اور غمگین ہو گئے تھے جسے زبردستی سکول بھیجا جاۓ ، اور گھر پر اس کے پسندیدہ کھلونے اور دوست آۓ ہوۓ ہوں !! شاہدہ اپنی جگہ اپنے سکول اور کالج میں انتہائی مصروف ہونے کے باوجود انھیں جا کر وقت دے آئی تھی ،، اب دوسری مرتبہ گئ ، تو اپنی بہنوں اور قریبی سہیلیوں ، سب ہی کو وہاں کی سیر کرنے ، اور اس کی خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہونے کی دعوت ، کھلے دل سے دیتی رہی ، ، بہنوں کی اپنی مصروفیات تھیں !! جوجی کو یہ موقع " سنہری " لگا ، جس کی ایک وجہ دونوں ٹونز ایمن اور ثمن کا اصرار بھی تھا ، اور ، حج کے بعد کا تین سال کا وقفہ بھی تھا اور سکول کی مصروفیات نے ، بھی تبدیلیء ماحول کی چاہت بڑھا دی ،،،،،اس نے مجھے کہا تیاری کرو ،، ہم دونوں چلتے ہیں ، ایمن ثمن بھی ساتھ ہوں گی ( جو اس وقت او لیول میں تھیں ) ان کی چھٹیاں بھی ہیں ، اور ہمیں ایک محفوظ رہائش ملے گی ، کہ ہم اپنی فیملی ممبر جیسی سہیلی کے پاس رہیں گی ، گھر والے بھی مطمئن ہوں گے ،،، وغیرہ وغیرہ !۔ 
جب کوئی سفر نصیب میں ہوتا ہے تو ، اس کے اسباب بنتے چلے جاتے ہیں ،اور حالات ساتھ دیتے چلے جاتےہیں ،، اور دل ڈولتی کشتیوں کی طرح ہونے لگتا ہے ،،، شاید یہ کیفیت 99 فیصد انسانوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ کیوں کہ باقی ایک فیصد وہ لوگ شمار ہوں گے جن کی قوتِ فیصلہ انھیں شاندار کامیاب فیصلے کروا ڈالتی ہے یا ، شدید نا کامی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے ،،، اور ہر صورت میں حکم اُس ربِ خالق و مالک کا ہی ہوتا ہے ۔
مجھے اپنے نئے گھر میں منتقل ہوۓ بہ مشکل تین سال ہوۓ تھے ، 23ستمبر 2005ء میرے لیۓ یاد گار دن تھا ،، جب اللہ پاک کی مدد اور حکم سے میں اپنے گھر شفٹ ہو چکی تھی ،، اب گھر نیا تھا تو دل چاہ رہا تھا کچھ چیزیں بھی نئی آ جائیں ، محنت سے کمانے والے ہر قدم سوچ کر ، دیکھ بھال کر اُٹھاتے ہیں ،،، پہلا سرمائیہ گھر بنانے میں خرچ ہو گیا،، اور پھر باقی بچت حج کرنے میں لگ چکی تھی ، اس لیۓ گھر کی سجاوٹ یا ضرورت کی بہت سی چیزیں ، فوری ضرورت نہ ہونے کے باعث نظر انداز کر دیں تھیں ،،،،،اب جب جوجی نے ملائیشیا کا پروگرام کان میں ڈالا ،، تو میَں نے کہہ دیا ،،، جتنے پیسے تم لینا چاہتی ہو(مشترکہ بنک بیلنس سے )لے لو ،، اتنے ہی مجھے دے دینا ،، میں ڈرائنگ روم کے لیۓ جو خریداری کرناچاہتی ہوں وہ کر لوں گی ،، وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی ، کہ" سیر کرنے کی یہ زیادہ شوقین ہے اور اس وقت گھر کی چیزوں کو ترجیع دے رہی ہے "۔ اسے میری کمزوری کا پتہ تھا ۔ لیکن میں ڈٹی رہی ۔ جب اس نے کامل اور ہاشم ( میرے دونوں بیٹے) سے بات کی تو انھوں نے بھی مجھے زور دیا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے ، آپ تیاری کریں ۔ حتیٰ کہ میری دونوں بہوؤں نے بھی اپنے اپنے طور پر مجھے قائل کرنے کی کوشش کی ، لیکن مجھے اس طرح سیر کرنے جانا ، ذرا خود غرضی سی لگی ( اور میَں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ، کاش میں ہر سفر اپنے سب بچوں سمیت کروں ، اور یہ سار انتظام و انصرام میَں خود کروں )،، اس لیۓ میرا انکار جاری رہا ۔،، مارچ کے مہینے میں فائنل امتحانات ختم ہو گۓ ، سکولوں کے رزلٹ نکلنے لگے ۔ ہم بھی اپنے سکول کےاس مرحلے سے فارغ ہو گئیں ، میری بیٹی نشل بھی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ پنڈی سے آ گئی ، ابھی اس کی صرف بیٹی ہی سکول جاتی تھی ، حمنہٰ کا سکول رزلٹ نکلا ، تو اسی دن وہ واہ پہنچ گئی ۔
گھر آئ تو 'جوجی خالہ" نے اسے میری شکایت کی کہ دیکھو یہ کہہ رہی ہے " ڈرائنگ روم سجانا ہے " ( گویا یہ میرا ایک لطیفہ بن گیا ، کیوں کہ سب کو پتہ تھا کہ مجھے گھر سجانے کا کوئی شوق نہیں ) ،،، بیٹیاں ، ایسے ہی رحمت نہیں کہی گئیں ، وہ والدین کی نفسیات کو جتنے اچھے سے سمجھتی ہیں ، ، شاید ہی کوئی اور رشتہ اتنے لطیف انداز سےسمجھتا ہو ،،،، اس نے خالہ کی تجویز کو سنا اور خاموشی سے اپنے بڑے بھائی کامل علی کو میرا پاسپورٹ دے دیا  اور دوسرے دن ایک نیا سوٹ کیس خرید لائی ، ، ،۔
نشل کی عادت ہے کہ چاہے ایک دن کے لیۓ آۓ ، یا چند دنوں کے لیۓ ،،، میرے کمرے کی بکھری حالت کی سیٹنگ کرے گی ، تمام الماریوں کی صفائی اور سیٹنگ ہو گی ،، حتیٰ کہ اگر کمرے کے لیۓ کوئی نئی چیز بہت ضروری ہے ، تو خود ہی خریداری کر کے لے آۓ گی ،، کہ اماں تو سستی کرتی رہیں گی۔ گویا جو کام بھی اس وقت تک ملتوی ہوتا رہتا ہے وہ اُس کام کو نبٹا کر جاتی ہے ۔ اب بھی جب اس نے صفائی ستھرائی شروع کی تو دراصل وہ میرے کپڑے وغیرہ رکھنے کے چکر میں مجھے چکر دیتی رہی ۔ اور چپکے سے میری پیکنگ بھی کرتی رہی ، ، ، وہ مجھے بار بار باور کراتی رہی اور کراتی رہتی ہے ،،،!کہ آپ نے اپنی تمام ذمہ داریاں بحسن وخوبی نبٹا دی ہیں ، بس اب آپ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزاریں ،، جو آپ چاہتی تھیں کہ یہاں جاؤں ، وہاں جا سکوں ،،، اب آپ نےاپنے اُن پروگراموں پر عمل در آمد کرنا ہے اور اسے انجواۓ کرنا ہے ! ،، لیکن میَں نے جیسا کہ اوپر لکھا ہے کہ میَں اپنی دلی خوشی کو اپنے سبھی بچوں کی موجودگی سے ہی محسوس کر سکتی ہوں ،،،خیر فی الحال ذکر ہے اس سفر کے احوال کا جو ، شاہدہ کی محبت کی وجہ سے سامنے آ گیا ،، چند دن میں ویزہ لگ کر آگیا جس پر اس وقت 30 دن کا ویزہ 475 روپے لگا (اب ناقابلِ یقین لگتا ہے ) ،، نشل نے مجھے قائل کر کے ، راضی کر لیا کہ آپ چند کے لیۓ جائیں گی تو پیچھے سے کوئی مسئلے نہیں ہوں گے ۔ میڈم شیما بہت ذمہ دار ہیں ، وہ نئے سیشن کو خود سنبھال لیں گی ۔ آخر ہم دونوں بہنیں اور جوجی کی ٹونز، ایمن ، ثمن نے اپنے بیگز پکڑے ، گلے کے پرس لٹکاۓ ، اور سب بچوں سے اللہ حافظ کر کے راولپنڈی ائر پورٹ کی طرف چل پڑے ، ۔ 
ہم نے شاہدہ کو اطلاع دے دی تھی کہ ہم تمہارے پاس سہ پہر تک پہنچیں گی ۔ پنڈی کا ایئر پورٹ ، ایک کم ایریا پر بناہوا ،، بغیر سہولتوں کے بے زارکر دینے والا گندہ ایئر پورٹ ہے ، عملہ ہم سے اور ہم عملے سے بے زار ہوتے ہیں ،، اور یہ صورتِ حال گذشتہ کئ دہائیوں سے مسلسل ہے ،،، ان کی کوئ "پیشہ ورانہ ٹریننگ" ہوتی ہوگی لیکن ، ان کی کوئی " اخلاقی تربیت " نہیں" ہوتی ،،، جو ان کی تربیت کا اولین حصہ ہونی چاہیۓ ۔ ہم نے اپنی پہلی پرواز " تھائی ایئر لائن " سے کرنی تھی ، ہمارے لیۓ پی آئ اے کے بعد اس ایئر لائن کا تجربہ ہوا ،،اور خوب اچھا تجربہ رہا ، ۔
مجھے اور جوجی کو ساتھ ساتھ اور ایمن ثمن کو دو الگ سیٹیں ملیں ، ، جوں ہی ٹیک آف ہوا ، چند منٹ کے بعد کولڈ ڈرنکس پیش ہوۓ، پھر کچھ دیر گزری تو دوپہر کے کھانے کے لیۓ ،،، ایئر ہوسٹس نے " حلال فوڈ " کا پوچھتی ہوئی گزرتی گئیں ۔ جہاز صاف ستھرا تھا اور ایئر ہوسٹسز ، تھائی لینڈ کے حسن سے کہیں ذیادہ حسین تھیں ۔ جب وہ جہاز میں استقبالیۓ کے لیۓ کھڑی تھیں تو اور ڈریس میں تھیں ، جب انھوں نے ، مسافروں کو سروَ کرنا شروع کیا تو ڈریس بدل چکے تھے یعنی اب وہ ایپرن باندھے ، کچھ اور گیٹ اَپ میں آگئیں ، بہت تمیز سے سب کھانا پیش کیا گیا ، اور ،،، میَں اب ہر چیز ہر لمحے کا لطف لے رہی تھی ،،، کہ اب میری روح کو اپنی " غذا " مل رہی تھی یعنی،،، سفر ،، سفر ،، تبدیلیء مناظر ،،، ہاں میَں خود کو اندر سے " خانہ بدوش " سمجھتی ہوں !!!!!اور اپنی عادت کے مطابق جہاز کی کھڑکی سے ایک ایک منظر کو غور سے دیکھ رہی تھی ،،، جہاں کے سب منظر ہرے بھرے تھے ، یاسمندر تھے ۔
( منیرہ قریشی 11 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں