جمعہ، 27 اپریل، 2018

سفرِانگلستان(1)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت " یو کے" (1)۔"
برطانیہ کانام ، کام ، اور اثر ،،، اپنے بچپن سے اردو اخبار ، اپنی ہسٹری کی کتابوں میں پڑھتی رہی ،،، اس کی ہسٹری کا علم جوں جوں بڑھا ،، پتہ چلا ،، اللہ کی مخلوق کی رنگا ، رنگی معہ ان کی عادات و خصائل ، معہ رسوم ورواج و عقائد کے ایسا بنایا ہے کہ جس قوم سے واسطہ پڑے ، انسان حیرت کے دریا میں غوطے لگانے لگتا ہے ۔ کہ انسانی تاریخ، بارے کسی تحقیق کو حتمی و آخری قرار نہیں دیا جا سکتا ،،، !۔
صرف برِ صغیر پر ہی چھوٹے سے"جزیرے" سے آئی اس گوری قوم نے مکمل اختیار سے حکومت نہیں کی ، بلکہ امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، جیسے بڑے ممالک پر اگر حکومت کی، یا قبضہ کیا ، تو اس میں اِس برطانوی دماغ کا حصہ تھا ،، ( میَں صرف اپنے خیال کا اظہار کر رہی ہوں ) اس میں کوئ شک نہیں ، دنیا کی ذہین ترین قوم میں یہودی سرِفہرست ہیں ،، تعلیمی میدان میں ان کے تحقیقی کام سے کسی کو انکار نہیں ،،، لیکن ان کے بعد عرب قوم کو ذہانت کا خزانہ ملا رہا ،،، ان دونوں اقوام کی ذہانتیں ، محدود ہو گئیں ۔ یا غیر متوازن ہوتی گئیں ، اور اس دوران حضرت عیسیٰ رح ، کے ماننے والوں نے اپنی ذہانت کو دین اور عام طرزِ زندگی ، اور حکومت کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر لیا ۔ اور دنیاوی لحاظ سے ترقی کے زینے چڑھتی چلی گئ ۔ برطانوی قوم نے کوشش کی کہ اپنے آس پاس جھانکیں , کہ اِن کی معیشت کو کہاں کہاں سے مضبوطی مل سکتی ہے ۔ اور یوں پہلے قریب کے " تر نوالے " چنے گۓ ،، لیکن موسموں کی سختی سے نڈھال ، یہ تر نوالے ، بے کار ثابت ہوۓ ، اور آخر کار ، اِس قوم نے جواپنے ارد گرد پانی کی تنی چادرکی وجہ سے انتہائی ماہر سیلر تھے ۔ انھوں نے مزید دُور کے " تر نوالوں " کی طرف توجہ دی ،،، لیکن ساتھ ساتھ ، تعلیمی میدان کو مسلسل توجہ دیۓ رکھی ،، اپنی دینی غیر متوان پلڑے کو ، دنیاوی پلڑے کو بہترین طریقے سے توازن دینے میں لگے رہے ۔
بات ذرا لمبی ہوتی جا رہی ہے ،، لیکن ایک بڑا تاریخی پس منظر رکھنے والی قوم ، کے لا تعداد پہلو ہیں ، اور انھیں نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ اب مزید تاریخ کو کیا کھنگالنا، البتہ، یہاں اپنا بتا دوں کہ ،،، بچپن سے مجھے سفر نامے پڑھنے کا جنون ، سفر کرنے کا شوق ، اور سفر کر کے آنے والے سے سفرسے متعلق سننے کا ذوق رہا ، ، ، جو آج بھی ہے ، اور جب تک ہمت ہے کوشش رہے گی کہ یہ جذبے زندہ رکھوں ۔
لیکن دوسری طرف پاکستان کی شدید محبت نے مجھے " کچھ متعصب " بنا دیا ہے ،،، مجھے انڈیا کے " رچ کلچر " اور بہت مضبوط تاریخ کے باوجود ، اسے دیکھنے کی کبھی حسرت نہیں ہوئی ،،، بلکہ ایک دو انڈین خواتین ملیں بھی ،، تو ان پر بھی بہت واضع کر دیا ،، انڈیا کو کیا دیکھیں ، آدھا تو وہاں مسلم کلچر ، باقی مسلم عمارات ، ہیں ،، وہی آرکیٹیکچر جس کو اپنے ہاں دیکھ دیکھ کر عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ 
برطانیہ ، یا یو کے یا ، انگلینڈ ، دیکھنے کی بھی کبھی حسرت نہیں رہی تھی ،، وہی " اپنا تعصب " ( جو مجھے عزیز ہے ) کہ اس برِ صغیر کو خالی کر کے خود کو " سُپر پاور " بنا لیا ۔ خاص طور پر اس قوم کی حکمرانی کے ظالمانہ دور سے متعلق پڑھتی تو دلی دکھ محسوس ہوتا ،، ذہانت اپنی جگہ ،، لیکن یہ ہزاروں میل دور سے آۓ ہوۓ تھے ، یہاں ،، " لڑاؤ اور حکومت کرو " والا اُصول اپناۓ رکھا ۔ لیکن جوں جوں تاریخ پڑھی ، پہلی اور دوسری جنگِ ،،،عظیم میں اسی ذہین ، فطین ، چالاک قوم کو جس طرح خود کو بچانا پڑا ،،، وہ بھی بہر حال ان کی ذہانت ، ڈٹ جانے والے جرات مندانہ فیصلےاور خوب سوچ کر میدانِ جنگ کے مہرے چلانے کی صلاحیتوں کو دیکھ کر داد دینا پڑتی ہے،۔
انگلینڈ ، کو برِصغیرِ کے لوگ ولایت کہتے تھے ،، اردو یا ہندی میں لفظ " ولایت " کا مطلب ، اونچائی ،،یا بلندی ، یا اونچا رتبہ ، یا باعزت مرتبہ ہے، ، ، شاید انگلینڈ جانا ،، پہنچنا ایک حد درجہ مشکل کام ہوتا تھا ، اس لیۓ کوئی پہنچ جاتا ،، تو گویا اس نے بہت بلند مرتبہ حاصل کر لیا ۔ یا اس گوری قوم کی ذہانت ، شکل صورت ، رہن سہن میں نئے انداز، سے برِ صغیر کے لوگ اتنے متاثر ہوۓ کہ انُ ، کو ولائیتی قوم کہنے لگے ، اس کے علاوہ ، ولایت سے متعلق کتابوں کے بعد ، اگر کچھ تعارف ہوا تو وہ 1960 ء میں اپنے چھوٹے چچا ضیا الحق کے انگلینڈ جانے کے واقعہ سے ہوا ،، وہ بھائیوں میں چھوٹے تھے ، کچھ لاڈلے ، کہ ایک جگہ ٹک کر ملازمت مشکل بن گئی تھی ، اباجی نے سوچا اسے شوق بھی ہے ، اور حالات کے تحت اس کا باہر جانا ہی ٹھیک رہے گا ، کچھ ٹھکانہ بن گیا تو بیوی اور دو بچیوں کو بلا لے گا !! یہ اللہ توکل تجربہ کیا گیا ، ،، اور تجربہ کامیاب رہا ، انھوں نے بیوی بچے وئیں بلا لیۓ ، اور پھر کبھی دو سال کبھی چار سال بعد ملنے ملانے آتے رہتے ، اور پھر آخری دنوں میں ایک ہی حسرت ہونٹوں سے نکلتی رہی " ایک دفعہ اپنے گاؤں پھر لوں ،، وہاں کے کھیتوں کی گندم ، اور سرسوں کا ساگ کھا سکوں ،، صرف ایک دفعہ !! لیکن " گانگو ""( گاؤں کا نام ) ،،، سے ہجرت کر کے" گلاسگو " پہنچنے والے کی حسرتیں دل میں رہیئں ، اور گلاسگو کی مٹی ہی ان کا مقدر ٹھہری ۔ در اصل وہ پاکستان کے شیدائ تھے ، لیکن ان کا رزق اللہ نے گوروں کی سر زمین سے دینا تھا ، لہذٰاوہ وہیں پہنچے ،،، لیکن جوں ہی خوشحالی کے دور میں داخل ہوۓ ،، انھوں نے گلاسگو میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں کے حلقے میں ایک اردو شعر وسخن کی تنظیم بنا لی ، اور ہر سال گلاسگو میں مشہور پاکستانی شعراِء ذیادہ اور چند ایک بھارتی شاعر بلاۓ جاتے ،، شاندار مشاعرے منعقد کیۓ جاتے ، ان مہمان شعراء کے قیام و طعام ، ٹرانسپورٹ ، سیر ، کا سارا انتظام یہ تنظیم کرتی ،اس میں ضیاء چچا کا نمایاں کردار ہوتا ،،، ان کی ساری فیملی آج 48، سال سے وئیں رچ ، بس چکی ہے۔ 
اور ،،، جس بات کا بندہ سوچتا بھی نہیں ، کبھی وہ بات سامنے آ کر رہتی ہے ،، اور انسان اپنے ارادے ، اپنے انکار ، اقرار ، یا تعصب کو لے کر " چُپ کا چُپ ہو کر رہ جاتا ہے ۔ 
" اور میرے ساتھ یہ ہی ہوا "،،،جیسا میں نے اپنی خود نوشت " یادوں کی تتلیاں " میں ذکر کیا ہے کہ جوجی ( میری چھوٹی بہن ) کے بچوں ( 2010ء)کو انکے والد کی برطانوی شہریت کی وجہ سے شہریت مل چکی تھی ۔ چھوٹی ٹونز ایمن ثمن بھی اے لیول وئیں مانچسٹر کے کسی کالج سے کرکے لندن ، پہنچ گئیں ، ایمن کو لندن سکول آف اکنامکس میں لاء میں داخلہ مل گیا اور ثمن کو " گرینچ یونیورسٹی " میں آرکیٹیکٹ بننے کا موقع مل گیا۔جوجی وقتاًفوقتاًانگلینڈ جاتی رہی،بچیاں جب تک مانچسٹر میں رہیں ، جوجی کی بڑی بیٹی مائرہ لیلیٰاعوان نے انکا "ماں" کی طرح خیال رکھا ۔ وہ ڈینٹسٹ بن کر وہاں گئی تھی ،، اسے اپنے اور نئے ملک کے معاملات سنبھالنے آتے تھے ، اور جب اتنی جوانی میں " خود انحصاری " کرنا پڑ جاۓ ،، تو" خود اعتمادی " کا لیول بھی کافی اونچا ہو جاتا ہے ۔
2014ء تک مانچسٹرمیں قیام کو 10 سال سے ذیادہ ہونے والے تھے ، ان تینوں بہنوں نے خوب بہادری سے وقت گزارا ، ،، لیور پول میں ان کا بھائی تیمور اپنی برٹش بیوی اور ایک بیٹا ایک بیٹی کے ساتھ رہتا تھا ، جو دو تین مہینہ بعد ان کی طرف چکر لگاتا رہتا ۔ اور اِ نکے گھرکے قریب چند منٹ کی ڈرائیو پر میرے چچاذاد اور اس کی بیوی میری پھوپھی ذاد کی رہائش تھی اور یوں خوشی ، غمی کے وقت یہ بھی آتے رہتے ، بچیاں بھی ان کے گھر جاتی رہتیں ۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ، ان سب کی آپسی گپ شپ سے وقت اچھا گزرتا رہا ۔ اور دونوں خاندان جب بھی رشتہ داری کی " مٹھاس " کی کمی محسوس کرتے ۔ ایک دوسرے سے ملتے رہتے ۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہاتھا ۔ جوجی کی بہت دعا تھی کہ اب مائرہ کی شادی ہو جاۓ ،، لیکن مائرہ اب اس سٹیج پر تھی جب اس اہم فیصلے کا فیصلہ اس نے خود کرنا تھا ،، آخر اس کی " ہاں " کرنے کی اطلاع پر جوجی نے پاکستان میں بھی ایک فنگشن کرنے کا فیصلہ کیا ،، چناچہ مائرہ چند دنوں کے لیۓ " برائیڈل ڈریس " کا آرڈر دینے پاکستان آئ ، تو ایک چھوٹا سا فنگش ، آپا کے لان میں کیا گیا ،، تاکہ اپنے قریبی عزیز اور دوست جو انگلینڈ تو آ نہیں سکتے ان کا ایک رسمی ، سا دلہن کا تعارف بھی ہو جاۓ اور جوجی کی خواہش تھی کہ میرے پاکستانی احباب ، "شادی کھانے سے شاد کام" ہو جائیں ، یوں اس چھوٹے سے فنگشن میں بھی 70 ، 75 لوگ ہو گۓ ، یہ مارچ 2014ء کے دن تھے ۔
مائرہ نے خوب صورت سبز گھیردار انگرکھا ، پاجامہ پہنا ، اور ماتھے پر اپنی اماں کا شادی کا ٹیکہ سجایا ، اور ایمریلڈ کا پورا سیٹ پہنا، وہ بہت پیاری لگ رہی تھی !اس کی شادی کی تاریخ طے تھی ' مئی 2014ء ،،،، مائرہ اور جوجی کا خیال تھا ، مئی ،جون میں وہاں موسم بھی اچھا ہوتا ہے ، ، پاکستان میں چھٹیاں بھی ہوتی ہیں ، اس لیۓ امید ہے ، کہ اکثر انگلینڈ جانے والے اپنے قریبی عزیز،، تو آئیں گے ہی ،، انھوں نے وعدہ بھی کر لیا تھا ۔ جوجی کے اب تک انگلینڈ کے قریباً پانچ چکر لگ چکے تھے ، اور میَں نے وہاں کے لیۓ پہلی مرتبہ اپلائی کیا ،،،،،۔
( منیرہ قریشی ، 27اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں