بدھ، 4 اپریل، 2018

سفرِتھائی لینڈ(5)۔

"سلسلہ ہاۓ سفر"
تھائی لینڈ" (5)۔"
تھائی لینڈ میں ہمارا تیسرا دن ختم ہو چکا تھا اور باقی دو دن رہ گۓ تھے ،،، اور ہم تھائی لینڈ کی چند گلیوں سے متعارف ہوۓ تھے،، والا حساب تھا ،، شیڈول ٹپیکل سیاح والا تھا ،،، یہ اور یہ دیکھنا ہے ،،، دیکھ لیا تو چلو " ٹِک " لگاؤ ،،، آگے بڑھو !!! 
خیر آج نیا دن ، نئے جذبے سے سرشار طلوع ہوا ہے ، صبح سات بجے جِم آ چکی تھی ، لیکن کوشش کے باوجود ساڑھے سات بج ہی جاتے ،،، وین میں بیٹھتے ہی اس نے بتایا ، آج ہم دو اہم ترین جگہوں کا وزٹ کریں گے ،،، ایک مشہور و معروف دریا " کواۓ " ،، جس پر دوسری جنگِ عظیم پر انگریزوں نے پل بنایا ،، لیکن یہ پل انگریزوں نے قیدیوں کی صورت میں بنایا ۔ یعنی جب انگریز تھائی لینڈ پر قابض تھے ،، توکچھ ہی سال میں جاپانی فوج آگئی ، نہایت بہادری اور سمجھ داری سے تھائی لینڈ پر موجود، انگریز فوج کو ناکام کیا ، انھیں قیدی بنایا ، اس دریا پر کوئی  پل ایسا نہ تھا کہ ٹرین گزر سکے ،، جاپانیوں کے پاس اس وقت اس کے انجینئرز نہ تھے ، انھوں نے انگریز ، کمانڈر سے کہا ، پل تو تمہیں بنانا ہی ہوگا ورنہ ،،،،، اس ، ورنہ ،کے نتائج کچھ بھگتے ، کچھ خود بھی " وقت کا تقاضا ہے " کو سمجھا اور ایک مضبوط پُل بن گیا ،،، اس مشہور پل پر ہالی وڈ نے زبردست فلم بنائی " بریج آن دا ریور کواۓ" ،،، ( کسی زمانے میں ہم بہنوں نے یہ فلم اباجی کے ساتھ سینما ہاؤس میں دیکھی تھی ) اور آج اسی " فلمی بریج " کو خود دیکھنے جا رہیں تھیں ۔ بہت آرام دِہ وین ، خوش گوار گائیڈ ، اور نارمل موسم نے لمبا سفر بھی چھوٹا بنا دیا ،،، لمبے سفر سے مراد ایک گھنٹے کی ڈرائیو تھی ،، حالانکہ تھائ لینڈ بہت خوش حال ملک نہیں لیکن سڑکیں بہت اچھی تھیں ( کم ازکم 2009ء میں ) جب ہم " کواۓ دریا " تک پہنچیں ، تو ابھی صبح کے ساڑھے نو یاپھردس بجے تھے ۔ وین سے اتر کر پُل کو بغور دیکھا ،،،یہ ویسا ہی مضبوط پل تھا جیسے ہر ملک میں ہو سکتا ہے ، خوب بھاری پلرز ، لوہے کا خوب استعمال ، اور سادہ ، مگر ناقابلِ شکست ، ، یوں لگا جیسے پل کہہ رہا ہو " مجھے شہرت اس دریا سے اتنی نہیں مل سکتی تھی جتنی اس پر قربان ہونے والوں کی یاد پر مبنی فلم نے دی " " میَں تو ویسا ہی بریج ہوں ، جیسا تمہارے ملک میں " اَٹک َ کا پل " ( انگریز دور کا پل جو اپنی مدت پوری کر چکا ، تو اس کے برابر نیا پُل بنا دیا گیا ہے ، لیکن اُس پرانے پل کو گرایا نہیں گیا ، تا حال موجود اور دیکھ بھال کی جاتی ہے لیکن ٹریفک کے لیۓ بند ہے)،
اِس پل پر جو ٹرین چلتی ہے ، وہ اِنھوں نے پرانی "کُوک چھِک چھِک"
والی رکھی ہے ۔ ایک تو یہ پل اور اس کی ہسٹری کا تقاضا بھی یہی تھا دوسرے 
، سیاح ، " ہالی وُڈ" کی فلم سے اتنے متاثر اور " فیملیئر" تھے کہ یہ ٹرین ہی صحیح تھی ۔ پُل کے آس پاس ریڑھی بازار تھا ،، ماحول ، کچھ مایوسانہ سا تھا ،، کوئی قابلِ ذکر بازار یہ ریسٹورنٹ نہیں تھے ( میں پھر لکھ دوں کہ کم ازکم اُس وقت ) لیکن ہم نے انہی ریڑھی بازار سے بچوں کے لیۓ تھائی لینڈ کے روایاتی کپڑے خرید لیۓ جن پر ہاتھی بنے ہوۓ تھے ،، اور بند گلے ، کی شنگھائی کی شرٹ اور پاجامے ، جو شنگھائی کے مخصوس پرنٹ میں تھے ، اور ہمارے بچوں نے انھیں رات سونے کے لباس کے طور پر پہننا تھا ۔ کہ اسی دوران ٹرین کی آمد ہوئی ، ٹکٹ لیۓ جا چکے تھے اور یہاں وین اور جِم دونوں نے ہمیں ایک اور پوائنٹ پر ملنا تھا ،، اور کچھ اپنے ضروری کام کا کہہ کر وہ چلی گئ ۔ اب ٹرین کے ڈبے میں بیٹھے ، تو دیکھا اس میں جدید کوئی  چیز نہیں لگائی گئی ،، بہت صاف ستھری ، لکڑی کی بنچیں بیٹھنے کے لیۓ ،،، اورفرش پر کوئی کارپٹنگ نہیں ، ،،، ٹرین چلنا شروع ہوئ تو آس پاس کے گزرتے نظارے دیکھ کر دل نہال ہو گیا ، یہ" ٹرین رائیڈ" تھی ۔۔۔ جِم نے بتا دیا تھا کہ بوٹ سے بھی سفر ہو سکتا ہے ، اور ٹرین سے بھی، ٹورسٹ کی اپنی مرضی ،،، ہم نے ٹرین کو ترجیح دی ۔ اور اب گزرتے مناظر دل خوش کر رہے تھے ،، راستے بھر سرسبز ، کھیت ، باغات ، یا میدان تھے ، نیز ہر کچھ منٹ کے بعد سبز باڑ کوکبھی ، رائینو ، کبھی جراف ، کہیں لڑکی ، کہیں ہاتھی ، کہیں دل کی صورت میں تراشا گیا تھا ،، اور اس طرح پورے ایک گھنٹے کی "ٹرین رائیڈ " نے تو جیسے پیسے پورے کر دیۓ بلکہ ہمیں بہت کچھ دے ڈالا !! ٹرین میں چار تو فرانسسی ٹورسٹ تھے ، اور ایک ٹرکش فیملی تھی ،،، ہم سب آپس میں " صرف مسکراہٹ کی زبان " "بول " رہے تھے کہ کسی کو انگریزی نہیں آتی تھی ، اور ہمیں فرنچ یا ٹرکش نہیں آتی تھی ،، لیکن جب کچھ دیر بعد ہی فرنچ گروپ نے اپنا کوئ جوشیلا گیت گانا شروع کیا تو سب نے ان کے ردھم کے ساتھ تالیوں میں ساتھ دیا ۔ اور ایک مدت بعد میَں نے ایک نظم لکھی ( 2017ء میں ) تو شاید وہ پرانا تجربہ بھی ذہن میں رہ گیا ہوگا ۔۔۔
"مسکراہٹ اور موسیقی "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عالمی طریقہء دوستی ،،،
عالمی زبانِ محبت ،،،
عالمی جذبہء قُربت،،،
عالمی جُبہ و دستار ،،،
عالمی رقصِ گُفتار ،،،
مسکان و موسیقی،،،
لیکن زبانیں !!؟ ،،لکیریں اور فاصلے
عالمی جذبہء نفرت ،
عالمی اجازتِ کدورت ،
( متفق ہونے کی ضرورت نہیں ، یہ میں نے تب لکھی تھی جب اوپر لکھے گۓ تجربے سے ایک مرتبہ پھر سابقہ پڑا تھا )
فرنچ نغمہ ختم ہوا تو ٹرکش جوان العمر لڑکوں نے اپنا نغمہ الاپا ،، وہ اس پر ہلکا ہلکا جھوم بھی رہے تھے لیکن فرنچ خاتون اور ایک مرد نے تو ان کا باقاعدہ ڈانس کر کے ساتھ دیا ،، جو ختم ہونے پر تالیوں سے سراہا گیا ،،، ٹرین رائیڈ ختم ہوئی تو ایک مرتبہ پھر میَں اس منظر پر دل وجان سے عاشق ہو گئی جہاں ہم اتر ے ،،کہ ایک تو نہایت سرسبز ماحول ، آبادی نام کی چیز نہ تھی ، سیاحوں کو اتار کر ایک طرف ایک ریسٹورنت کی طرف لے جایا گیا جہاں صرف چاۓ ، کافی ، قہوہ ، ملنا تھا ،، لیکن اس کا نظارہ ،، تو بس دل موہ لینے والا ،، ایک سرسبز ٹیلے پر چڑھتے ہوۓ یہ بانس کے چھت ، بانس کے فرنیچر ، اور بانس کے پِلرز پر مشتمل ریسٹورنٹ دل کو نہ بھا جاۓ ، تو یہ ممکن ہی نہ تھا ،،اس سادہ اور " اوپن ایئر " قسم کے ،ریسٹورنٹ کا اونچائی پر ہونے کی وجہ سے دور تلک نظارہ کیا جا سکتا تھا ،، جب آرام سے بیٹھیں ، تو بائیں طرف دیکھا تو ذرا نیچے کی جانب بہت بڑا " شترمرغ " کا فارم نظر آیا ، جہاں 50 ۔ 55 کے قریب شترمرغ ، پِھر رہے تھے گویا " نیچر اپنے مکمل حسن کے ساتھ ہمارے سامنے تھی ۔ چاۓ ، یا کافی سے ذیادہ تو دلکش نظارے نہیں خاموش کر دیا تھا ۔ لیکن شاہدہ ، جوجی اور میں نے چاۓ لی ، بچیوں نے بسکٹ سے دل بہلایا ،، یہ قیام بس 20 ، 25 منٹ کا رہا لیکن ،، مجھے آج بھی اس کا متاثر کن ، ماحول یاد آتاہے ۔۔۔ یہاں جِم ، معہ ڈرائیور اور وین کے حاضر تھی ،،، اس نے بتایا بس اب آپ کو ایک بوٹ میں بیٹھنا ہو گا ،، لیکن میں اس بوٹ کے دوسرے سٹاپ پر ملوں گی ،، وہ وین میں ہمیں دریا کے کنارے لے گئی ،،، جہاں سے ٹکٹ لیۓ گۓ ،، بوٹ بہت بڑی نہ تھی اس لیۓ صرف ہم پانچ ہی اس پر بیٹھیں ،،، اور 15، 20 منٹ کے بعد تھائی لینڈ کے " فلوٹنگ " بازار کے کنارے اُتر رہیں تھیں ۔! 
( منیرہ قریشی ، 4 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں