ہفتہ، 14 اپریل، 2018

سفرِدبئی(4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
دوبئی " (قسط چہارم)۔"
آج جمعہ تھا ،،اور جمعہ کی تیاری کر کے ہم کہیں نا کہیں سیر بھی کرنا چاہتی تھیں ،،، کہ اب ہمارے پاس صرف دو دن تھے ، ، اور آج یہاں چھٹی بھی تھی ،10 ، ساڑھے دس ،ناشتے اور تیاری میں ہو ہی گۓ ، خدیجہ اپنی بیٹی اور کار سمیت آچکی تھی ۔ خالدہ اورنزہت نے بھی ساتھ جانا تھا۔آج نزہت کی کار میں نشل اور دونوں بچے ، اور عنائیہ بیٹھیں ،میَں اور، خالدہ، خدیجہ کے ساتھ!،،، آج ہم پہلے " گولڈ مارکیٹ " پہنچیں ، کیوں کہ ایک تو ہم نے بھی اسکی سیر کرنی تھی ، دوسرے خالدہ نے کسی کے لیۓ ایک سیٹ سونے کا خریدنا تھا ،، جب ہم ایک تین منزلہ گلابی رنگ کی خوبصورت عمارت میں پہنچیں ، تو بالکل بھی رش نہ تھا ،، شاید یہاں خریداری کا ذیادہ رواج شام کو ہوتا ہو گا ،، ایک چوڑے کاریڈور کے ارد گرد چھوٹی ، بڑی دکانوں کا سلسلہ تھاجن میں صرف اور صرف سونا بک رہا تھا، اتنا پتہ چلا کہ اگر ایک گرام سونا بھی لینا ہے تو اس پر بھی " قیراط " کی مہر لگی ہو گی کہ یہ 22 کا ہے یا 24 کا ،،، اور یہ ہی شورٹٰی ، دوبئ کے سونے کی اہمیت بنا گئ تھی ۔ خیر نشل نے چند انگوٹھیاں رکھی ہوئیں تھیں ،کہ یہاں سے بدلوا لوں گی ۔ نزہت تینوں بچوں کو ادھر اُدھر گھمانے لگی ،، نشل نے بھی کچھ دیر انگوٹھیوں کا مسلہ حل کرنے کی کوشش کی ، لیکن ، کوئ فیصلہ نہ کر سکی ، تو وہ بھی نزہت کے ساتھ ساری گولڈ مارکیٹ ، دیکھتی پھری،،، کچھ دیر میَں نے بھی اُن کا ساتھ دیا ،،، یہاں کی ہر چھوٹی یا بڑی دکان میں سونا ، زیورات ، برتنوں ، اور " اینٹوں" کی شکل میں اتنا وافر تھا کہ لگتا تھا ہر دکان ، سے سونا اُبل ابل کر باہر پھسل رہا ہے ،، ہر چیز کی بہتات دیکھو تو ،، وہ غیر اہم لگنے لگتی ہے ،،،،، میرا تو کچھ ایسا ہی تائثر تھا ،،، یہاں ہم نے قریبا گھنٹے سے ذیادہ کا وقت گزارا ، کہ خالدہ اور خدیجہ کو چوائس میں مشکل ہو رہی تھی ۔ اس دوران بچے ، نشل کے ساتھ کبھی آئس کریم اور کبھی پاپ کارن سے اور کبھی لمبی کینڈیز سے لطف اندوز ہوتے رہے ، کہ دنیا کے ہر بچے کے نزدیک ، ان کی یہ پسندیدہ چیزیں کھانا ہی ، تفریح ہے ۔ میَں بھی اس خوبصورت ، صاف شفاف بلڈنگ کی اوپر کی دونوںمنزلیں دیکھ آئ ،تو دیکھا ابھی خالدہ اور خدیجہفارغ نہیں ہوئیں تھیں ۔ ایک جگہ بیٹھ کر وہی اپنا پسندیدہ مشغلہ کرنے لگی ،،" لوگوں کو دیکھنا ، ان کی حرکات ، لباس ، اور چہروں کو پڑھنا " ،،،، اور یہاں ایک اور خیال آیا کہ ، یہ کس شے کی مارکیٹ ہے!! جیسی اشیاء ہوں گی ویسے ہی لوگوں کی حرکات سکنات میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے ۔ اور یہاں تو ماحول پر " سونے کی سنہری چمک" حاوی تھی ۔ آنکھیں تو چندھیانہ ہی تھیں ،،، دماغ بھی مسحور ہوۓ جا رہے تھے ۔ میں تو اس سحر سے مدت ہوئ نکل چکی تھی ،لیکن میَں نے دیکھا کہ نشل اور نزہت نے بھی کوئ خاص دلچسپی نہیں لی تھی ۔ اور یہ ایک اچھی سوچ ہے کہ نئ نسل ،" سونے کی محبت میں " سے نکل رہی ہے ۔ ورنہ اس کی محبت میں پیسے جمع کرتے کرتے ، کئ دفعہ عورت اپنی خوراک ، اپنی تفریح ، اور اپنے علاج سے بھی غفلت برتنے لگتی ہے ،، اور زندگی کا سنہری دور ، بہت سی غیرمتوازن انداز سےخواہشوں کی تکمیل میں گزر جاتا ہے ، ، ، ۔
خیر خالدہ کا مسئلہ حل ہوا ۔اور ہم نے باہر نکل کر فرمائش کی کہ ہمیں کسی میوزیم کا وزٹ کرواؤ ،، نزہت نےاپنے موبائل نیٹ سے میوزیم کا پتہ کر لیا ، اتفاق سے چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد ایک بورڈ " میوزیم " کا نظرآیا ، اور سب شوق سے اندر داخل ہوۓ ،،، لیکن یہ وہ میوزیم نہیں تھا ، جو ہر ملک میں لفظ " میوزیم " پر پورا اترتا ہو ،،، یہاں تنگ سی گلیاں "اَن گڑھ " پتھروں سے بنائ ہوئیں تھیں ۔ اِن گلیوں میں بہت چھوٹی چھوٹی دکانیں ، مختلف سامانوں سے سجی ہوئیں تھیں ، کسی میں روایتی ، شیشے کے یا رنگین دھاگوں سے کڑھائی والے یا دھات کے سکوں سے سجے لباس تھے ،، کہیں مصنوعی ، یا اصلی " سٹون " بِک رہے تھے ، اور کہیں" گہوہ " معہ روایاتی برتنوں میں پیسے دے کر پیا جا سکتا تھا ،،، گویا " دوبیئ " والوں کے نزدیک یہ میوزیم کہلاتا تھا ۔ اکا دکا فارنرز بھی تھے ، ، اس وزٹ کا مزہ نہیں آیا ،، لیکن ،سیاح کی بنی لسٹ میں ایک ٹِک مارک لگ گیا ۔
دوپہر ہوچکی تھی ، اور ہم دوبئی کی ایک خوبصورت مسجد کے قریب پہنچ چکی تھیں ،، مکہ ، مدینہ کی مساجدکی طرح یہاں بھی سُرخ اور سنہرے رنگوں کے امتزاج سے سجے قالین اور بہت کم فرنیچر کی صاف ستھری مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھی ۔ بچوںمیں حمنہٰ نے شوق سے وُضو کیا اور نماز پڑھی ،،، نماز کے بعد باہر نکلیں ، تو اچانک ذرا دور سے ہمیں اپنا ایک رشتہ دار ، ظہور نظر آیا ، اس سے پہلے کہ ہم اُس تک پہنچتیں ، وہ دور جا چکا تھا ، لیکن میَں نے خالدہ سے اس کے نمبر کا پوچھا تو اس نے مجھے نمبر ملا دیا ، ظہور نے مجھ سے بات کی تو حیرت اور خوشی کا اظہار کیا ،، اس نے مجھے محبت سے ملنے کا کہا ،، میَں نے بتایا تم ابھی اسی مسجد سے نکل کر گۓ ہو ، جہاں تک پہنچے ہو وہیں کھڑے رہو ، ہم تمہارے پاس پہنچتیں ہیں ،، اس نے نزہت کو اپنی لوکیشن سمجھائی ۔ ہم دو تین منٹ میں اس تک پہنچے ، ،، ظہور کے ساتھ ہماری کوئی ڈائرکٹ رشتہ داری نہیں ، لیکن وہ خاندان میں سے ہے ، اس کے والدین بچپن میں راولپنڈی کےہمارے گھر کے ساتھ ،پڑوسی تھے۔بچپن میں نہ صرف بیمار رہتا تھا ، بلکہ یہ دیر سے بولا ، اور زندگی میں کبھی کسی سکول نہیں گیا ،، اس کا ایک بڑا بھائ اور بڑی بہن اور ایک اس سے چھوٹی بہن ہیں ،، والد بہت معمولی جاب پر تھا ، گھر میں غربت کا راج تھا ، ، لیکن جب یہ بڑا ہوا ،تو قد بت ، لمبا اور مضبوط جسم کا تھا ، اسکے ایک اور رشتہ دار نے اسے اس وقت دوبیئ بلا لیا جب پڑھے لکھے ہونا شرط نہ تھی ، ظہور کسی بنک میں چپڑاسی کے طور پر ملازم کروایا گیا ، اور اب اسے یہاں آٹھ ، نو سال ہوچکے تھے ۔ اور وہ اسی بنک میں چپڑاسی تھا ،،، سادہ ترین مزاج ، سادہ ترین زندگی ، سادہ ترین سوچ ،،، اسی لیۓ اسے میری اماں جی نے " سائیں ' کا خطاب دیا ہوا تھا ، ، لیکن اب ہم اسے ظہور کہہ کر بلاتیں تھیں ، وہ بہت خوش ہوا ،، میِں نے اسے کہا ، دن اب ہمارے پاس ایک اور رہ گیا ہے ، اس لیۓ دوبارہ ملنے کا چانس نہیں ۔ ابھی ہمارے ساتھ کچھ وقت گزارو ، میَں نے خالدہ سے کہا ، آج کا لنچ میری طرف سے ہو گا ، ، ایک نزدیک کے شاپنگ مال میں گئیں ، جہاں دوسرے فلور پر بہت بڑا اور بہترین ریسٹورنٹ تھا ،، یہیں جو جس کادل کیا آرڈرز دیۓ ، اور ظہور کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے مختلف باتیں کرتی رہی ، ، ، اسے بچپن کی کسی محرومی کا نہ افسوس تھا نہ اس کی یاداشت میں سخت دنوں کی ریکارڈنگ تھی ، اور یہ مومن ہونے کی نشانی ہے،، کیوں کہ وہ سادہ دماغ کے ساتھ بڑا ہوا تھا ، جس میں صرف محبت کا بسیرا تھا ، جب سے دوبئی آیا تھا ،، ماں کی سب محرومیاں ختم کرنے کی کوشش کیں ۔ اپنی بہنوں کوبہت پیار سے ان کی پسند کی چیزیں بھیجتا ، بھائی کا تابعدار رہا ، والد اسکے بچپنے میں چل بسا تھا ،،، اور پھر جہاں ماں نے کہا وہیں شادی کر لی ،،، اللہ نے اسے دو بیٹے بھی عنایت کر دیۓ ،، اب جو کماتا ، پاکستان میں اپنے ایک کزن کو بھیجتا جو ایمان داری اور سلیقے سے اس کی کمائی میں سے اخراجات دے کر باقی رقم جمع کرتا رہتا ہے ( بعد میں چند سال کے اندر اُسی کزن نے اسکے دو گھر بنا دیۓ ، ایک میں اس کی فیملی رہتی ہے اور دوسرا کراۓ پر لگا دیا ہے ) انتہائ سادہ اور مکمل ان پڑھ اور کسی ہنر سے عاری ظہور ، کو اللہ نے بہت نواز دیا ، وہ آج لینے نہیں دینے لائق ہے ، رزقِ حلال کی برکتیں ہی برکتیں تھیں ! ہم سب بہنیں ، ہمیشہ اسے دعا کا کہتی رہتی ہیں ،، اور آج کے دن بھی میرا اصرار یہی تھا ،،، تم مجھے اپنی دعا میں یاد رکھو گے ،،،، کھانا کھا لیا گیا ، چاۓ بھی پی گئی ، ، میَں ظہور کو ذیادہ وقت دینا چاہتی تھی ، مجھے اندازہ تھا ، وہ مجھے خود بلانا چاہتا ہے لیکن وہ کسی کے ساتھ کمرہ شیئر کر کے رہ رہا تھا ،،اس لیۓ یہ اس کے لیۓ نا ممکن تھا ،،، باہر میِں اسےکچھ کھلانے نہ دیتی کہ میں عمر میں بڑی ہوں ، ، اور بڑے اپنا حق ذیادہ استعمال کر لیتے ہیں ! اس کو اللہ حافظ کیا ،، اور اب واپس شارجہ چلے کہ آج رات حلیمہ کے گھر نہ صرف رات کا قیام تھا ، بلکہ پُرتکلف ڈنر بھی تھا ۔ 
( منیرہ قریشی 14 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں