پیر، 16 اپریل، 2018

سفرِدبئی(5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 دوبئی" ( قسط پنجم) (آخری قسط)۔"
شام تک گھر پہنچ کر ذرا تیاری کی ، کہ آج رات خدیجہ کے گھر کی میزبانی کا لطف اُٹھانا تھا ، ڈھنگ کے کپڑے پہنے ،، رات کے ڈریسز بھی رکھے اور صبح کے بھی ،،، کہ صبح کا "برنچ " ( اب یہ لفظ اردو میں محبت سے شامل کیا جا چکا ہے ) حلیمہ کے گھر میں تھا ۔ بچے بھی خوش تھے ، کہ عنائیہ جیسی ، بھولی بھالی ، اور بہت ہی دوستانہ مزاج بچی تھی ،، جس کی ان 6 دن میں رونے کی آواز ایک دن نہیں سنی ،، اللہ کرے وہ ہمیشہ ایسی ہی خوش مزاج رہے ،آمین ! خدیجہ کا گھر ، اپنے والدین کے گھر سے چند منٹ دور تھا اس لیۓ ہم نے پیدل جانے کی خواہش کی ،، ہم نے اس چھوٹے سے راستے کواس لیۓ انجواۓ کیا کہ یہ اِن فلیٹس کی بیک سائیڈ تھی ،، یہاں کار پارکنگ کی کافی جگہیں تھیں ۔ یعنی دو منزلہ پارکنگ ، جو لوگوں کو کراۓ پر دستیاب تھیں ،، نیز پاکستان سے آۓ کچھ درزیوں کی دکانیں تھیں ، جو چھوٹی چھوٹی ان دکانوں سے " غیر ملکی کمائی " کر رہے تھے ،، وہی کمائی ،، جب پاکستان میں کوئی پوچھتا ہے ،، آپ کا بیٹا کہاں ہوتا ہے ، ؟ تو ماں ، یا بیوی یا بہن ، فخر سے بتاتی ہے ،،" جی ! وہ دوبئی ہوتے ہیں " ،، اور سننے والے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ، واہ بھئ ریالوں میں کمائی ہو رہی ہے ،،، اور بالکل ایسے ہی یورپ ، یا امریکا ، وغیرہ میں رزق کی چکی میں پستے لوگوں کا بھی یہ ہی تاثر پڑتا ہے ،،،، اور جب ایک درزی کی دکان میں چندمنٹ کے لیۓ رُکے کہ خالدہ وہیں سے کپڑے سلواتی تھی ،،، تو یہ بھی پتہ چلا کہ انہی 6 بائی 6 کی اسی دکان کے فرش پر سو بھی جاتے ہیں ، اور قریبی پبلک باتھ رومز ، استعمال کر کے ، اور کسی نزدیکی ، ڈھابے ، یا پاکستانی ریسٹورنٹ سے کھانے کا انتظام کر لیا گیا جاتا ہے ،،، اور وہاں بہت دور ، بیٹھی ، ماں ، بہنیں ، بیویاں ،،،، ان تکالیف کا تصور نہیں کر سکتیں ، جن سے گزر کریہ ریال پہنچتے ہیں !! افسوس یہ کہ پاکستان میں ، ان کی واپسی کا سوچا بھی نہیں جاتا ،، اگر کبھی وہ واپسی کا ارادہ ظاہر کر بھی دیں ،،، تو انھیں کہا یہ ہی جاتا ہے " تو کیا ہوا ،، مرد ہو ، تکلیفیں سہہ سکتے ہو ، مرد بنو اور بس کچھ سا ل اور کی بات ہے ، وغیرہ !! ۔
جب ہم خدیجہ کے گھر پہنچیں ، تو اس کا صاف ستھرا ، سجا سجایا ، دو بیڈ رومز گھر بہت اچھا لگا ،،، یہاں کے جن گھروں میں ہمارا جانا ہوا وہ اگر ایک بیڈ روم ، اپارٹمنٹ بھی ہے تو واش رومز ان میں دو ہی بناۓ گۓ ہیں ۔ جب کہ انگلینڈ میں دو یا تین بیڈ رومز بھی ہیں ، تو واش رومز ایک ہی ہو گا ، اُس ملک کا یہ رواج سمجھ نہیں آیا ، ،، خیر حسن توقیر نے بہت اخلاق سے ہمارا استقبال کیا ۔ پُرتکلف کھانا چُنا گیا ، ابھی گپ شپ کا آغاز ہی ہواتھاکہ ،، بلڈ پریشر کا" ذکرِ خیر " ہوا ،، جو آج ہر گھر کے کسی نا کسی ممبر کا مستقل ساتھی ہے ۔ جب میَں نے حسن کو بتایا کہ حکیم آغا غفار کا یہ نسخہ اکثر جگہ بہت کار گر ہوا ہے ۔ 50 گرام سوکھا دھنیا ،، 50 گرام اَسرول ،، اور 10 گرام اجوائن خراسانی ،،، تمام الگ الگ پیس کر ، پھر مکس کر لیں ،، صرف 10 تا 15 دن ،،آدھی چمچ (چاۓ والی) رات کو ایک گلاس پانی میں بھگوۓ رکھیں ،، اور صبح چھان کر پی لیں (نہار منہ) ،،، اسکے بعد اسے ، مزید تب لیں جب ، بی پی کنٹرول نہ ہو رہا ہو ، صرف 5 دن تک مزید ، اس دوران بی، پی کی ریڈنگ کا ریکارڈ لیتے رہنا ہے، یعنی لکھتے رہنا ہے ، ، تاکہ ڈاکٹر یہ روزانہ کا ریکارڈ دیکھ کر اپنا علاج تجویز کرے ۔ لیکن مستقل یا مسلسل نہیں لینا ،،، یہ سب سن کر حسن ، نے بتایا ، مجھے کچھ عرصہ سے ہائی بلڈ پریشر رہنے لگا ہے ،،، آنٹی آپ میرے ساتھ ابھی چلیں ،، آپ کو " سپائس بازار " کی سیر بھی ہو جاۓ گی ،، اور میں آپ کی نگرانی میں دوا بھی لے لوں گا ،، ہمیں کیا اعتراض تھا سب اس کی کار میں بیٹھے ، اور بیس ، پچیس منٹ ڈرائیو کے بعد اُس بازار پہنچے ،، جو بالکل انار کلی ،، یا پنڈی کا موتی بازار کا منظر پیش کررہا تھا ،، صرف یہ کہ صاف ستھرا تھا ، بےشک تنگ گلیوں میں جڑی جڑی دکانیں تھیں ، لیکن گلیوں کے درمیان پتلی اور لمبی کیاریاں تھیں ،، جو اتنے رَش میں خوشگوار تائثر دے رہی تھیں ،، یہیں ، حسن ہمیں ایک ہندو دکاندارکی دکان پر لے گیا ،، جو بہت چھوٹی لیکن اونچائی میں تین گُنا اوپر کی طرف تھی ، جس میں قریباً ہر طرح کی نباتاتی دوائیاں موجود تھیں ، میَں نے لکھا نسخہ اس کے سامنے رکھا ، تو چند منٹ میں اس نے چیزیں حاضر کیں ،، موقع سے فائدہ اُٹھا کر میں نے " آمبا ہلدی " تھوڑی سی خرید لی ۔ ( جس کا ذکر زبیدہ طارق اکثر کرتیں تھیں ، جو ڑوں کے درد کے لیۓ ) ، ، یہاں سے حسن ہمیں سیدھا ، آئس کریم کھلانے لے گیا ، جس نے ہم بڑوں کو تو مزہ دیا ہی عنائیہ ، اور موسیٰ ، کی تو خوشی دیدنی تھی۔ اب گھر کو چلے ،، میَں نے اسے کہا ، دیکھو میَں " نیم حکیم خطرہء جان " والا حساب نہیں کرنا چاہتی ،، تم نے اپنے ،ایک ہفتے کا پلڈ پریشر، چیک کر کے ، یہ ریڈنگ ، اپنے ڈاکٹر کو دکھانا ہے کہ یہ ریڈنگ اب ٹھیک آرہی ہے ،، بی پی کی دوا کم کروں یا بند کر دوں ،،، کیوں کہ ،، مجھے 10 سال پہلے یہ تکلیف شروع ہوئی ، تو اُنہی دنوں آغا صاحب کے ایک پروگرام میں انھوں نے یہ نسخہ بتایا ،، میں نے یہ شروع کر دیا , صرف 10 دن لینے کے بعد مسلسل ریڈنگ لی ، ڈاکٹر کے خیال میں آپ کو بی پی کی دوا کی ضرورت نہیں ، اور الحمدُ للہ ، دو تین سال کبھی کچھ نہ ہوا ،،، البتہ اب کچھ کھانے میں بد پرہیزی کر لوں ،، یا ،، مسلسل دعوتیں کھانی پڑ جائیں تو چیک کروانے پر پھر 5 دن کے لیۓ یہ دوا لے لیتی ہوں ،،، اور بس ۔۔ کیوں کہ حکیم صاحب نے 10 ، 12 دن سے ذیادہ لینے پر منع کیا تھا ۔۔۔ حسن ، نے ساری باتیں دھیان سے سنیں ۔( اب ایک مدت گزر چکی ہے ، دوبارہ ملنا نہیں ہوا کہ پوچھوں۔ اس دوا یا معمول پر عمل در آمد ہوا یا نہیں ) لیکن رات ، گزری ،، اور بچوں کو تیا رکرتے ، کرواتے 10 بج گۓ ،، آج اتوار تھا ،، اور صبح کا وقت ، جب ہم حلیمہ کے گھر کی طرف چلے ، تو دیکھا سڑکوں پر بہت ہی کم رش تھا ۔ اور ہم چند منٹ میں اس کے گھر پہنچ گئیں ،، خدیجہ نے بتایا ،، اتوار کی یہاں چھٹی نہیں ہوتی ،، لیکن کچھ ایسا بھی ہے کہ کئی  دفاتر آج بند ہوتے ہیں ۔ صبح کا وقت ہے ، رش اسی لیۓ کم ہے ،، ورنہ یہ دس منٹ کی ڈرائیو ،، آدھ گھنٹے میں طے ہوتی ،، حلیمہ کا اپارٹمنٹ ، ایک مارکیٹ کی بیک پر موجود کئی منزلہ بلڈنگ میں تھا ،، یہ کچھ نئی بلڈنگ تھی کہ ، کافی صاف ، جدید ، اور ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ!،، حلیمہ اور فیصل ،، ابھی پہلے بچے کی آمد کے انتظار سے گزر رہے تھے ،، اس لیۓ انھوں نے ایک بیڈ روم اپارٹمنٹ لے رکھا تھا ،، جو بہت خوبصورت تھا ،بلکہ حلیمہ نے اسےاچھے، ذوق سے مزید خوب صورت بنا رکھا تھا ،، نشل نے اپنی چچا ذاد بہنوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا ۔ یہاں دو گھنٹے گزار کر واپس ، خالدہ کے گھرآئیں ،، کہ آج دوبئی کا آخری دورہ کرنا تھا ،، کچھ دیر تیاری میں گزرا ،، کہ میری پھوپھی ذاد بہن ، شاہدہ ، کا بیٹا لینے آگیا ،،، شعیب ،، اپنے والدین کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے ، دوبئی رہ رہا ہے ،، اور اب اپنی خالہ ذاد سارہ سے شادی کے بعد بھی یہیں رہ رہا ہے ،، ہم سب کی آپس میں سگی رشتہ داری ہے ،، لیکن سب سے ذیادہ محبت بھرا ، اور بےغرض رشتہ ، شعیب اور میرے چھوٹے بیٹے ہاشم کا ہے جو ہم عمر بھی ہیں اور بچپن کے دوست بھی ،،یہ دونوں اتنے ، خلوص سے یہ دوستی نبھاتے جا رہے ہیں کہ بہت فخر ہوتا ہے ، کہ درمیان میں آنے والی "خاندانی سیاست " کی انھوں نے کبھی پروا نہیں کی ۔ ،،یہ پُرخلوص دوستی کسی رکاوٹ کو قابلَ ذکر نہیں سمجھتی ۔ اللہ یہ دوستی ، بڑھاپے تک ایسے ہی چلاۓ آمین ! شعیب نے موبائل سے اپنی آمد کی اطلاع دی ، اور میَں ، نشل ، اور دونوں بچے ، خالدہ کو اللہ حافظ کہہ کر شعیب کے ساتھ اس  کے گھر دوبئی کی طرف چل پڑے ، ۔
راستے بھر شعیب ، بہت تحمل، اور محبت سے ہماری سیر سپاٹوں کا حال پوچھتا رہا ،، اور پورے گھنٹے بعد دوبئی ، میں اس کے فلیٹس کی طرف آۓ ، تو پہلے ہم نے اس کی بہن آمنہ کے گھر جانے کی خواہش کی ،، ۔
میری کزن شاہدہ کے تین بچے ہیں ، آمنہ ، شعیب اور انعم ،،، آمنہ ، شادی سے پہلے ، ہمارے سکول میں بطورِ آرٹ اور کمپیوٹر ، ٹیچر رہی ہے۔ اس دو سال میں ، اسکی عادات اور ٹیلنٹ کا علم ہوا، سکول بہت ڈیسنٹ انداز سے سجایا ،، اور بچوں کو اتنی محبت اور محنت سے کمپیوٹر کی تعلیم دی ، کہ بچے نہ صرف کمپیوٹر میں دلچسپی لینے لگے ، بلکہ آمنہ ایک ہر دلعزیز ٹیچر کے طور پر آج بھی یاد کی جاتی ہے ،، شادی کے بعد دوبئی ، آکر بھی کچھ عرصہ جاب کی ، لیکن اب دو بچوں کے ساتھ ، گھر کو سنبھال رہی ہے ،، آمنہ کے گھر پہنچیں ، ، تو اس نے سب کو اکٹھا کر رکھا ، یعنی اپنی امی ، ابا ، اور بہن کو ،، سب کے ساتھ ، محبت سے ملنا ہوا ، ایک دوسرے سے تحائف کا تبادلہ ہوا اور یہاں کچھ دیر گزار کر ، شاہدہ کزن کے گھر پہنچیں ،، رشید بھائ اور شاہدہ اپنی بیٹی انعم اور بہو بیٹے کے ساتھ تین بیڈ رومز فلیٹ میں رہتے ہیں ،،، ، شاہدہ میں بھی جو خصوصیات ہیں ،، ایسی کم ہی خواتین میں ہوتی ہیں ، ، ، ! ! آمنہ بیٹی اور شاہدہ ، آمنے سامنے کی بلڈنگ میں رہتی تھیں ، ، کچھ دیر شاہدہ کے گھر ٹھہر کر ، اسے خدا حافظ کہا ،، کہ اس دوران ندیم ( کزن ) واپس شارجہ لے جانے کے لیۓ آگیا تھا ۔ سب کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا ،، اور جب واپس ہوۓ ، تو وہ پھر ایک شاپنگ مال لے گیا ،،، کہ بچیاں آخری وقت بھی کچھ اور ،،، کے چکر میں ،،، ایک نظر ڈالنا پسند کرتی ہیں ،، اس لیۓ میِں نے بھی کہا ،، چلو لے چلو ! ، اور اچھا ہوا کہ اتفاق سے کچھ کام کی چیزوں پر سیل تھی ،، جو معمول کے استعمال کے لیۓ ہوتی ہیں ،،، کچھ وقت گزار کر ، واپسی ہوئی ، آج بھی ندیم کی طرف سے ہوٹل کے کھانے پر اصرار تھا لیکن میَں نے صاف کہہ دیا ،، اب کل ہماری واپسی ہے ، اب تک ہم ٹھیک ہیں ، اس لیۓ ، گھر کا سادہ کھانا کھائیں گے ،، لیکن ، خوش اخلاق ، ندیم نے پھر تکلف سے کام لیا ، اور آئس کریم کے مختلف فلیور بچوں کو دیۓ ،، واپس خالدہ کی طرف پہنچے ،، تو لاؤنج ، ماشا اللہ ، ذوالفقار کی تین بیٹیوں ، بیٹا اور دو داماد ، اور ایک بچی عنائیہ سے بھرا ہوا تھا ،،، وہ سب ہمارے انتظار میں ،تھے ، کہ اللہ حافظ کر لیں ،، وہ لوگ ذیادہ دیر نہیں رُکے ، کہ اگلا دن بھی ان کے آفسسز کا دن بھی تھا ،، سب کی محبتوں اور احترام کے جذبوں کا شکریہ ادا کیا اور دوبئی کی سیر کی یادوں کوسمیٹتے ہوۓ ، سوموار کی دوپہر تک ائیر پورٹ ، اور شام تک اپنے پیارے وطن ، جنت نظیر وطن ، پہنچ گئیں ،، میرا بیٹا ہاشم اور داماد کامران ، ہمیں لینے پہنچے ہوۓ تھے ، اور اپنے اپنے راستوں پر روانہ ہوۓ کہ ابھی میَں نے مزید ایک گھنٹے کا فاصلہ طے کرنا تھا ۔ 
سفر ،، چند دن کا ہو ، یا چند گھنٹوں کا ،، گھر کی ایک جیسی روٹین اور ایک جیسے مسائل سے کچھ وقت کی دوری ،،، مزاج پر اچھا اثر ڈالتی ہے ،،، ناراض مزاج لوگ ،، یا ، خواہ مخواہ غصے میں رہنے والے افراد ،، یا ،، ہر وقت ، دو جمع دو کے چکر میں رہنے والے لوگ ،، یا ،، خدشات میں گھِرے لوگ ، (کہیں ایسا نہ ہو جاۓ کہیں ویسا نہ ہوجاۓ کی سوچوں میں گم رہنے والے )،،،، سبھی کے لیۓ لکھ رہی ہوں کہ ،، زندگی ، کی رنگینیاں آس پاس بکھری ہوئیں ہیں ۔ ،،، اللہ نے یہ کائنات انسانوں کے لیۓ مسخر کر دی ہے ،،، ہم اگر اپنی محدود سوچ ، محدود وسائل ، کے تحت ، کوئ تحقیقی کام نہیں کر سکتے ، کوئی لمبا سفر نہیں کر سکتے ،، تو نہ سہی !! اپنے وسائل کے اندر رہ کر کہیں نزدیک شہر کا چکر ہی لگا لیں ،، ( بھلے ایک دن کے لیۓ یا دو دن کے لیۓ ) ،، لیکن اس میں میری یہ درخواست ہے کہ ،، واپس آکر کبھی پیسوں کی جمع تفریق میں نہ پڑنا ،، ورنہ سیر سے حاصل ہوئی خوشی اور سکون ،، ہَوا ،، ہو جاۓ گا ،، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ میرے اعصاب پرسکون ہو گۓ ہیں کہ نہیں ؟؟ اس سیر ، سپاٹے کے دورانیہ کو بھی ، اپنے ساتھ جانے والوں کے لیۓ پُرسکون بنانا ہے ۔ ورنہ ان کی سیر کا لطف غارت ہو سکتا ہے۔
میَں نے ایک بہت اچھا مضمون ، ایک پاکستانی سابق حکومتی افسر اور ادیب کا جب پڑھا ، تو اسے فوٹو کاپی کروا کر اپنی عمر کی سہیلیوں کو بھی دیا اور اپنے سکول کی ٹیچرز کو بھی بانٹا ،، تاکہ ہم اپنی  منفی سوچ کا جائزہ لیتے رہیں ،، اگر کہیں خرچہ کرنے کی ہمت نہیں ہو پا رہی ،، تو گھر کے نزدیک پارک میں چلے جائیں ،، ارد گرد کھیلتے بچوں کو دیکھیں ، ترتیب سے کھلے پھول نہیں ہیں ،، تو بے ترتیبی سے بکھری جھاڑیوں ، اور پھولوں کو ہی دیکھ لیں ،، ضرور کہیں چھوٹی سی تتلی اُڑتی نظر آۓ گی ،، اور ہماری آنکھوں کو خوشی کی چمک دے جاۓ گی ،،،زندگی بسُور کر گزارنے ، اور جو " نہیں ہے " ،،، اس کا " گِلہ شکوہ " کرنے کا نام نہیں ۔ اور کوشش کیجۓ کہ ، اپنے وزٹ میں کھانے کی ورائٹی کو آخری نمبر پر رکھیں ،، پیٹ سادہ چیز سے بھی بھر جاتا ہے ،،، اصل " حرص " کائنات کی نیرنگیوں کی رکھیں ،،،۔ 
یہاں میَں اس آرٹیکل کے صرف عنوانات درج کر رہی ہوں ،، یہ ذیادہ پوائنٹس ، بزرگی کی عمر تک آنے والوں کے لیۓ ہیں ،،لیکن جوان نسل ذرا اپنے حساب سے سیٹ کر کے عمل کر سکتی ہے ،،، !۔
٭ سوچ سمجھ کر عمل کریں ۔ ٭ راہء خدا میں ضرور خرچ کریں ،٭جائز کاموں پر خرچ کریں ٭اگلی نسل کی ذمہ داری ( گرینڈ چلڈرن ) آپ کی نہیں ٭اپنی صحت کا خود خیال رکھیں، دوسروں کو ہر وقت نہ کہیں ۔ ٭زمانہ حال میں خوش رہنا سیکھیں ٭محبت کا جذبہ قائم رکھیں ٭ فیشن وہ کیجیے جو آپ کے ساتھ اچھا لگے٭باخبر رہیئے ، روزانہ کی خبریں سنیں ، ورنہ حلقہء احباب سے رابطے میں رہیۓ ٭ تنقیدی رویہ ترک کر دیں ، ٭مثبت اور متحرک زندگی گزاریۓ ٭کوئی مفید مشغلہ اپنائیے ٭ گھر سے نکلیں ، چاہے سودا لینے ، یا دوسرے شہر یا دوسرے ملک ٭ دکھ اور پریشانیاں خود پر لاد کر نہ رکھیں ٭اپنا عقیدہ نہ ٹھونسیۓ ٭تخلیقی و تحقیقی ( کچھ بھی ) کام کرتے رہئے ، چاہے وہ گھر پر اگائی جانے والی سبزیوں ، یا پھولوں پر ہو یا ( کچھ یاداشتیں لکھنے پر ہو ) !۔
٭ اگر توفیق ہے تو دعوتیں کرتے رہیۓ ، لیکن اس میں بھی سادگی ہو ! ٭ کوئی اپنی مجبوری سے یا بجٹ سے آپ کو دعوت پر نہیں بلا پاۓ تو بالکل برا نہ منائیں ، بلکہ خوش دلی سے ملنا ملانا جاری رکھیۓ !!!۔ 
( منیرہ قریشی ، 16 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( اختتام دوبئی سفر نامہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں