جمعہ، 6 اپریل، 2018

سفرِتھائی لینڈ(7)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
تھائی لینڈ" (7) ( سفرِ تھائی لینڈ کی آخری قسط)۔"
آج ، 2009ء اپریل کی 6 تاریخ تھی ،، اور ہم نے 12 بجے تک ائیر پورٹ پہنچنا تھا ایک ڈیڑھ بجے،کی فلائیٹ سے واپس پاکستان جانا تھا جبکہ شاہدہ نے ابھی واپس ملائیشیا جانا تھا ،، لیکن ہم سب کی فلائیٹ پندرہ ، بیس منٹ کے وقفے سےتھی ، اس لیۓ ائیر پورٹ ہمیں ایک ساتھ ہی جانا تھا ،، اب رضیہ اور خطیر بھائی کو اللہ حافظ کہا ،، انکے کُک اور کپڑے دھونے والی خاتون کا بھی شکریہ ادا کیا ، اور اپنا سامان ، خطیر بھائی کی اسی بڑی گاڑی میں رکھوا یا ، جو ہمیں لینے آئی تھی،، تھائ لینڈ کی گنجان سڑکوں پر آخری نظریں ڈالتے ہوۓ ،،، تھائی لینڈ کے بہت ہی خوبصورت ، صاف ستھرے ، اور جدید ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوئیں ،،، یہاں ملائیشیا جاتے ہوۓ آدھ گھنٹہ رکنا ہوا تھا ، لیکن اس وقت صحیح لائن پر پہنچنےاور دوسری کنکٹڈ فلائیٹ کی اتنی فکر تھی کہ ، اتنے جدید ائیر پورٹ کو سرسری نظر سے دیکھا تھا ،، اب چوں کہ گھنٹہ بھر پہلے جا کر بیٹھنا ہوا ، اس لیۓ خوب آرام سے ، جائزہ لیتے ہوۓ ،، دکانوں پر پھر سےنظر ڈالتے جب ذرا ریسٹ کا دل چاہا ،، تو ایک بہت خوبصورت بینچ پر براجمان ہوئیں ،، جیسا میں نے اکثر لکھا ہے کہ شاہدہ ،،، کی شخصیت میں خود اعتمادی کا عنصر نمایاں ، ہمارے ملائیشیا اور اب تھائی لینڈ کی سیر کو ، "یاد گار اور بھر پور" بنانے میں اس کا جو حصہ ہے ،، وہ ناقابلِ فراموش ہے ،،، وہ نہ صرف بولڈ ہے ، بلکہ نئے تجربے کرنے ، اور ان پر فوراًعمل کر بیٹھنا ،، چاہے وہ کچھ بولنا ہے ، کھانا ہے ، کہیں پہنچنا ہے ،، یہ سب اس کی ذات کی وہ کوالٹیز ہیں ، جو ساتھ کی " ہم جیسی " خواتین کو بھی جو ذرا محتاط قدم اُٹھانے کی عادی ہوتی ہیں ،، کو بھی پُر اعتماد کر دیتی ہے ۔ شاہدہ کے ساتھ ہم نے جب بھی سفر کیا ، پُر لطف وقت گزارا ،، چاہے وہ سفر چند گھنٹوں کا ہوا ،یا راتیں گزارنے کا ،وہ اپنی کمپنی سے دوسرے کو خوش رکھنے اور آسانی دینے کی کوشش میں رہتی ہے ،، ہم جب اس کی باتیں گھر میں کرتی ہیں ، تو یہ باتیں سن سن کر میری پوتی ملائکہ اور نواسی حمنہٰ ، نے خواہش ظاہر کی کہ" کاش ہمیں بھی شاہدہ آنٹی کے ساتھ سفر کا موقع ملے " اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے ، کہ ایک نئ نسل بھی شاہدہ جیسے خوشگوار " بزرگوں " کی صحبت چاہتی ہے ( لفظ بزرگوں پر اعتراض کرنا منع ہے )(: 😄😃😎وہ ایک ایسی گائیڈ ہے ، جو سیر کے دوران ، مکمل انجواۓ کراتی ہے ،، کبھی راہ چلتے ، پھیری والوں سے ، کھانے کی چیزیں لینا کبھی ، اجنبی زبانوں کے چند الفاظ سیکھنا ، تاکہ کہیں بولنا ہوا، تو " کچھ پوچھنے میں آسانی رہے،،شاہدہ ، میں جتنی خوبیاں ہیں ،،، یہ اپنے پیچھے والدین کے ہاتھ اور شوہر کے تعاون کی وجہ سے ہوں گی ،،، لیکن ذیادہ خوبیاں ، اس کے اپنے طور پر خود کو پالش کرنے سے آگے بڑھی ہیں ۔ وہ اپنے مسائل چاہے گھریلو ہوں یا باہر کے ،،، سکول کے ہوں یا سفر کے ،،، سبھی کو خود حل کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے ، نہ ہو سکیں تب کسی دوسرے کو کہتی ہے ،،اس کی یہ خوبی بھی قابلِ تعریف ہے کہ جو کام کرنا ہے " گھنٹوں کا کام منٹوں میں " کر کے فارغ !!! ہمارے اس غیر ملکی سفر میں ، اللہ نے اسے وسیلہ بنایا ،،، اور ہمارا یادگار سفر ، اسکی دریا دلی ،، مہمان نوازی ، اور اَن تھک طریقے سے ، آۓ ہوۓ مہمان کو پورا وقت دینے کے اوصاف کی وجہ سے ممکن ہوا ، جو بہت کم لوگوں میں ہوتے ہیں ،،اس کی پُرخلوص دوستی پر ہمیں ناز ہے ۔
تھائ لینڈ کے صاف ستھرے ائیر پورٹ پر اس خوب صورت بینچ پر بیٹھے، شاہدہ کی نظر سامنے کی دکان پر پڑی تو وہ فوار" اُٹھی ، اور بیٹھتے ہی ، ہمیں بھی پیش ہوئ ،، جی ہاں ، املی ، اس کی کمزوری ہے ،، املی یہاں " پھلیوں " کی صورت میں ملی تھی ، ایمن ، ثمن نے بھی جھجکتے ہوۓ ، چکھا ،، اتنی مزیدار کہ ہم سب نے ختم بھی کر لی ، اسی چکھنے میں کوشش کے باوجود ، کچھ نا کچھ " پھلی کے ذرے " ، فرش پر گرے ۔ کہ ایک منٹ بعد ہی قریب ہی فرش صآف کرتی ورکر آئ ، اور مسکرا کر صفائ کی ،، ہم نے اسے معذرت بھی کی لیکن ، یہ ایکشن مجھے پسند آیا ۔ 
شاہدہ کی فلائیٹ کا اعلان ہوا ،، بےحد شکریہ کے الفاظ سن کر وہ واپس ہوئی ،، ہمارے ابھی بھی 20 منٹ رہتے تھے ، ظہر ہو چکی تھی ، سوچا نماز پڑھ لیتی ہیں ، ٹونز وں نے بتایا یہ "پریئر روم "چند قدم پر ایک " " نماز کا کمرہ بنا ہوا ہے ۔ ہم گئیں تو صاف ستھری نمازیں بچھی ہوئیں تھیں 10 تک کے نمازیوں کی جگہ تھی۔ اور باقی کمرہ دوسرے مذاہب کے لیۓ تیار کیا ہوا تھا ۔ نماز کے بعد ، پھر تازہ وُضو کے لیے باتھ روم گئیں تو وہ بھی صاف ستھرے ۔ (مجھے یاد ہے ! ہم حج سے واپس اپنے پنڈی کے ائیر پورٹ پر اُتریں ، ، تو میَں واش روم جانا چاہتی تھی ، لیکن میرے بیٹے نے منع کر دیا کہ راستے میں کسی پٹرول سٹیشن میں چلی جایۓ گا ،، یہاں صورتِ حال ابتر ہے ،)ہماری فلائیٹ کا اعلان ہوا ، اور ہم اپنے پیارے وطن کے لیۓ چل پڑیں ، وہ وطن ، جس میں دنیا کے ہر ملک میں موجود اگر کوئ نعمت ہےتو وہ ہر نعمت یہاں موجود ہے ،،، صرف رہنما ، صاف نیت و صاف دل مل جائیں تو زمین پر جنت یہ ہی ہے ، اللہ ہمارے وطن کو تاقیامت قائم دائم رکھے آمین ثم آمین !۔
میری دعا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ، جو ذرا سا بھی خوشحال ہے ،، وہ سال میں ایک دفعہ اپنے کسی کم خوشحال رشتے دار کو ، یا سہیلی یا دوست کو ، اپنے گھر بلا کر ایک تفریحی ٹرپ کرواۓ ،،یا ، اپنے وسائل ہیں تو کسی دوسرے شہر میں چند دن کے یہ تفریحی دن گزرواۓ ،،، جب دوسرا بندہ خوش ہو گا ، اس کے اعصاب " ریلیکس " یعنی پُرسکون ہوں گے ،، تو وہ زندگی کے پُر آشوب دور سے نۓ سرے سے لڑنے کے قابل ہو جاۓ گا۔ ، اس وقت آپ کو یا اُسے محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کسی کو سکون کی دولت دے کر کتنی نیکی کما رہے ہوتے ہیں ۔ یہ صرف نیکی نہیں ، اپنے پیاروں کا علاج بھی ہو رہا ہوتا ہے کیوں کہ یکسانیت بیمار بنا دیتی ہے ،، زندگی کے مسائل سے لڑنے کا ،، اور اللہ کی دنیا کی خوب صورتیاں دیکھنے کا ،، یہ موقع دوسروں کو بھی دیں ،،،آپ کو بھی خوشیاں ،ملیں گی ، انشا اللہ !!!۔
( منیرہ قریشی 6 مارچ 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں