جمعرات، 12 اپریل، 2018

سفرِدبئی(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
( دوبئی" ( قسط دوم "
اگلا دن اسی ذوق و شوق کا دن تھا جو لڑکیوں کی ذات کا حصہ ہوتا ہے، یعنی " شاپنگ میں دلچسپی " ! خاص طور سے نۓ ملک آکر تو یہ قدرتی بات تھی ،،، چنانچہ خالدہ اس کی دونوں بیٹیاں حلیمہ ، خدیجہ اور اس کی بیٹی عنائیہ، ، میَں ، اپنے بچوں سمیت خدیجہ کی کار میں بیٹھیں اور ، شارجہ سےدوبئ کی طرف روانہ ہوئیں ۔ صبح کے 10 بجے تھے ، ٹریفک کا وہ اژدہام نہ تھا ، جو دوپہر یا شام کا خاص منظر تھا ۔" دبئی مال " پہنچیں ،، میَں نے چند منٹ اس گروپ کا ساتھ دیا ۔ اب تک جو دوتین ملک دیکھے تھے ، سب کے شاپنگ مالز ، ایک جیسے تھے۔ اس لیۓ ایک چھوٹے سے فوارے کے پاس بینچ بھی تھے اور کچھ کھانے پینے کے سٹال تھے۔ اور ذرا ہٹ کر رش بھی نہ تھا ،، میَں نے بیٹی نشل اور دیوررانی خالدہ سے کہا " میَں یہاں انتظار کروں گی ، مجھ سے اتنا گھوما بھی نہیں جا رہا ، اور کوئ خاص شاپنگ بھی نہیں کرنی ،، تم سب پھرو ،،،! فارغ ہو کر یہیں آ جانا ، یہیں کھانا پینا ہو جاۓ گا ۔
مجھے یوں جب بھی کبھی موقع ملے، رش کی جگہ اکیلے بیٹھنا بہت پسند ہے ،، ایئر پورٹ ، سٹیشن ،یا بس اڈہ ، میرے لیۓ گھنٹوں کا شغل ہے ۔ میَں اس شغل سے کبھی نہیں اُ کتائی ۔ ( یہ بچپن سے آج بڑھاپےتک کا پسندیدہ کام ہے ) اللہ کی رنگا رنگی ، ان کے لباس ، حرکات ، اندازے ،،، بس میرے لیۓ صبح سے شام کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ، ۔
اس سلسلے میں اپنا ملک ہے ، یا غیر ملک ، اپنا شہر ہو یا اجنبی شہر ،،، اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ اور مجھے اپنی پسند سے وقت گزارنے کا آج موقع مل گیا تھا ،،، لیکن یہ موقع صرف تین گھنٹے بعد ختم ہو گیا ، نشل کچھ شاپنگ کر کے آگئی ،،، لیکن اس کی فرمائش تھی " آئیکیا"۔
 "( IKEA )"۔
شاپ میں آپ میرے ساتھ چلیں ، مجھے پسند کروانے میں مدد دیں ، ،،بیٹی کی خوشی سے ذیادہ کیا چیز ہو سکتی ہے ، حمنہٰ اور موسیٰ آگے آگے ایسے چل پھر رہے تھے ، جیسے یہ روز آتے رہتے ہیں ، اور انھیں ہر کونا کونا پتہ ہے ، آئیکیا کے شیڈمیں گھوم پھر کر لا تعداد اقسام کی اشیا دیکھیں ، ہر چیز میں ندرت ، نفاست تھی ،، نشل ایک گھریلو بیوی اور ایسی ماں ہےجسے گھر کے ہر کمرے کی سجاوٹ کی فکر ہوتی ہے ، اور ساتھ ہی یہ کہ بہت مہنگی بھی نہ ہووغیرہ ۔ اس نے صرف چند چیزیں خریدیں ! اور ہم واپس اسی برگر ، یا نوڈلز، اور شوارما کے کارنرز کی طرف آئیں ، خالدہ اور دونوں بیٹیاں پہنچ چکی تھیں۔اور ہم نے کافی کے ساتھ کھانا پینا کیا ، کچھ ریسٹ ہوا ، اور پروگرام بنا کہ ، اب نصرت باجی سے مل آتے ہیں ، یہ میری پھوپھی ذاد بہن ہیں ، اور کافی عرصہ دوبئ میں رہ کر اب پاکستان واپسی کے لیۓ سامان باندھ رہیں تھیں ، خالدہ نے انھیں فون پر پوچھ لیا کہ ہم آنا چاہتے ہیں ، انھوں نے کہا شام کی چاۓ میرے ساتھ ہو گی ۔ چناچہ اب اس مال میں پھرنے کا ایک گھنٹہ اور مل گیا ، چاکلیٹ کی بہت بڑی دکان نے بچوں کو وہاں سے ہلنا مشکل کر دیا ،،، اور کچھ عنائیہ کے لیے ، بھی لیا گیا ،،، کیوں وہ بچوں کی عین عادت کے مطابق پہلے دن سے حمنہٰ اور موسیٰ کو یوں وقت دینے لگی جیسے ہم صرف اسی سے ملنے دوبئی آۓ ہیں ،،، ہمارے ایک دن پہلے پہنچنے پر عنائیہ کے نانا ذوالفقار نے بتایا تھا کہ یہ سب سے ذیادہ مجھ سے مانوس ہے ، روزانہ کی ملاقات بھی ضروری ہے اور میرے پاس ہی اس کا ذیادہ وقت گزرتا ہے ،،، اور اگلے دن صبح 10 بجے جب یہ دو ڈھائی سالہ عنائیہ نانا کے گھر میں داخل ہوئ تو نانا ، نانی کو سلام کیۓ بغیر ،وہ ہمارے کمرے کی طرف بھاگ کر چلی گئی کہ کہیں نانا اسے رکنے کا بھی نہ کہہ دیں ، اس کے رویے کی تبدیلی کو سب نے انجواۓ کیا ۔ اور یوں ، وہ موسیٰ اور حمنہٰ کے لیۓ بھی ایک کھلونا بنی ہوئ تھی ، بہت سی چیزیں آج عنائیہ کے لیۓ بھی خریدی جا رہیں تھیں ۔ تاکہ اس سے مزید دوستی ہو سکے ۔ 
گھنٹے بعد نصرت باجی کے گھر پہنچ چکی تھیں جو دوبئی کے اچھے علاقے کا تین بیڈ روم اپارٹمنٹ تھا ۔ وہ ہمیشہ محبت اور اتنی اپنائیت سے ملتی ہیں ، کہ ہمیں اپنی سُستی پر افسوس ہونے لگتا ہے کہ جب وہ پاکستان آتی ہیں تو ہمارا ان سے ملنا کیوں نہیں ہو پاتا ،،، اور خاندانوں میں چلتی سیاست کیوں ہر جگہ آڑے آتی ہے ، حالانکہ زندگی تو بہت تھوڑی سی ہے ۔اور ہر گزرتا دن ، ، ، شب وروز کے درخت کے تنے پر پچھتاوے کی کیل ٹھونک کر گزر جاتا ہے ،،، چاۓ پر بہت فارمل باتیں ہوئیں ، صرف بچپن کو ذیادہ یاد کیا جاتا رہا ۔ 
واپسی پر رات ہو چکی تھی ،، دوبئی کی مصروف ترین سڑکوں کے نظارے کیۓ ، خدیجہ راستے میں آنے والی اہم عمارات بارے بتاتی رہی ، اس وقت وہ ہمیں لے کر اپنے گھر کے قریب واقع چھوٹی سی ، نہایت خوب صورت " سفید مسجد" لے گئی ،،، یہاں کے پارک میں بچے اور کچھ بڑے بیٹھے رہے لیکن میَں ، نشل اور خالدہ مسجد میں جا کر عشا کی نماز پڑھنے لگیں ، اس وقت چند خواتین ، نماز کے بعد کے نوافل پڑھنے میں مصروف تھیں ، ہم اِس چھوٹی سی ، حسین مسجد کو دیر تک سراہتی رہیں ،،،،، دوبئی کی ہر مسجد مدرسہ کے طور بھی استعمال ہوتی ہے ، جہاں صرف ناظرہ قر آن کی تعلیم دی جاتی ہے ( 2013ء تک میں یہ ہی بتایا گیا تھا )۔
کچھ اور رُک کر گھر واپس ہوئیں، نشل اپنی چیزیں ساتھ ساتھ سمیٹنے کی قائل ہے ۔ اور پھر رات تھی ، اور ہم ، دنیا جہان کی باتیں کرتیں ، ڈیڑھ بج گیا ، آنکھیں بند ہونے لگی تو بستر میں گُھسیں ۔
( منیرہ قریشی ، 12 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں