ہفتہ، 28 اپریل، 2018

سفرِانگلستان(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفرِ ولایت ، یو کے " (2)۔"
مائرہ ، کی شادی پر جن مہمانانِ گرامیء قدر نے پہنچنے کا کہا ، یا امکان ظاہر کیا ، اُن سب کے پاس یو کے کے ویزوں کے کوئ مسلےٗ نہ تھے ، جوجی بھی پانچ مرتبہ برطانیہ جا چکی تھی ،بس میَں ہی تھی ، جو پرانے " آقاؤں ' کے دیس پہلی مرتبہ جا رہی تھی ،،، اس لیۓ اپنے بیٹے کامل علی کی نگرانی میں جتنا ہو سکا اپنے کاغذات مکمل کیۓ ( وہ 13 سال کینیڈین ایمبیسی میں ایسی جاب پر رہا کہ وہ گائیڈکرسکتا تھا )،، حتیٰ کہ کامل کے کہنے پر اپنے سکول کا سالانہ میگزین بھی ساتھ لگایا ،،، تاکہ یوکے والوں کو یقین دلا دیاجاۓ ،،" بھئ صرف شادی اٹینڈ کرنی ہے ، ہم یہاں اپنے ملک میں بہت عزت سے رہ رہے ہیں ، ہمارا آپ کے ملک کو رہنے کے لیۓ اولیت دینے کا کوئی ارادہ نہیں ،، " ،، اور تو اور ،،، مائرہ کا شادی کارڈ بھی ساتھ پِن اَپ کر دیا گیا ۔ اپنا رشتہ بھی لکھ دیا وغیرہ ،،،
مائرہ کے واہ میں چھوٹے سے فنگشن کے بعد ہم نے فوراً بعد اپنے کاغذات ، اسلام آباد میں " فیڈیکس " میں جمع کروا دیۓ تھے ،،، شادی کی تاریخ 27 جولائی 2014ءمقرر ہوئ یتھی ۔ ویزہ لگنے کی صورت میں ہم دونوں کا 6 ماہ تک کا ویزہ لگنا تھا ہمارا ارادہ شادی سے چند ہفتے پہلے جانے کا تھا ، تاکہ "نۓ رشتہ داروں " سے بھی ملیں گے ، اور جو کمی بیشی شادی کے سلسلے میں رہ گئ ہے اسے پورا کر لیں گے ۔ ویزہ آفس سے اطلاع بذریعہ ، موبائل آنی تھی ،، اور ٹھیک تین ہفتے بعد اطلاع ملنے پر کہ " فیڈیکس " آفس آکر اپنے بند لفافے خود کھولیں ، (اس طرح عین اس وقت پتہ چلتا ہے کہ ویزہ لگا ،یا نہیں ) ہم دونوں بہت خوشی خوشی واہ کینٹ سے اسلام آباد تک ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچیں ،،، اس وقت سہ پہر ہو چکی تھی ،، ہم دونوں کو نام کے مطابق لفافے کھولنے کے لیۓ دیۓ گۓ ، میں نے مکمل یقین کے ساتھ کہ ویزہ " نہیں " لگا ، کا جملہ لکھا ہو گا ۔ لفافہ کھولا ،،، تو ویزہ لگاۓ جانے کی خبر تھی ،،،،، اور ناقابلِ یقین بات یہ سامنے آئی کہ " دلہن کی اماں " کا ویزہ  مسترد  ہو گیا تھا ،،،،،،!مجھے ہنسی کے ساتھ ساتھ رونے کی ملی جُلی کیفیت کا ایک دفعہ پھر تجربہ ہوا۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ (جب جوجی سات آٹھ ماہ پہلے مانچسٹر گئی تھی تو اسے کان میں شدید تکلیف کی بنا پررات ایمرجنسی میں ہاسپٹل جانا پڑا ، اور چیک اَپ پر صبح سویرے ڈسچارج ہو کر آ بھی گئی تھی ، اور ساری پے منٹ مکمل تھی) !! آپ نے اپنے کان کی تکلیف پر چند گھنٹے کے لیۓ ہاسپٹل میں داخلے پر ادائیگی نہیں کی تھی ،،، اس لیۓ ویزہ نہیں ملے گا ، کہ آپ نیشنل بھی نہیں ،،،، یہ ایک مایوس کن اعتراض تھا ۔ 
("" کتنا اچھا ہے میرا وطن ، بل ادا ہوا نہیں ہوا ، روکنا کسی کو نہیں "")
شادی کی تاریخ میں دو ہفتے رہ گۓتھے ،اور ہمیں اب دوبارہ اپلائی کرنا تھا۔اس دوبارہ کا مطلب تھا مزید تین ہفتے انتظار ،،! اور یہ کہ تمام پیپرز کا دوبارہ ترتیب دے کر دوبارہ جمع کروانا ،، یعنی کھلا ایک ماہ ،،، ! یہ ساری اطلاع جب ، یو کے ،پہنچی تو بچیوں کا رونا دھونا ختم ہی نہیں رہا تھا ۔ بڑی مشکل سے حالات کو سمجھا گیا ۔ اور مائرہ یعنی " یو کے " کی دلہن نے صاف کہہ دیا " میَں شادی ایک ماہ آگے کر دیتی ہوں ، لیکن اب کاغذات یہاں کی وکیل کے ذریعے مکمل کروا کر اپلائ کیۓ جائیں گے ،،، چناچہ شادی کی نئ تاریخ 5 ستمبر نکاح اور 7 ستمبر 2014ء شادی ( ولیمہ + رخصتی ) فکس کی گئی ،،،،، !نیا کارڈ ، نئ تاریخ کے ساتھ جلدی سے چھپوایا گیا ،، تاکہ اسے بھی اور، جس جھیل کنارے ،
" مارکی " کی بکنگ تھی اسکی رسیدیں وغیرہ اور ہاسپٹل کے تمام ادائیگی ، کی رسیدیں ، ساتھ لگائی گئیں ۔ اور وکیل نے کاغذات مکمل کروا کے بھجواۓ ، جمع کرواۓ گۓ ، اور پھر انتظار شروع ہوا ،،،! ہاشم (چھوٹا بیٹا ) نے ہماری 4 ستمبر کی پی۔ آئ ۔ اے کی دو سیٹ کی بکنگ کروا دی تھی ،،، اور ،،، 2 ستمبر آگیا ،، ویزہ آفس کی طرف سے کوئ اطلاع نہ ملی ،، جوجی کا مایوس اور اداس ہونا تو بنتا تھا ،،، میں جتنی بہادر ہوں ،، باہر سے ہوں ،، اور فوری ایکشن کے طور پر بھی بہادر ہوں ،،، لیکن اکیلے سفر اور وہ بھی اتنے لمبے سفرکے لیۓ مجھے خود کو بھی خوب تیار کرنا پڑ رہا تھا ۔ میرا سوٹ کیس تیار تھا ، اور دلہن کا شادی کا جوڑا ، زیور اور ٹونزوں کے دونوںدنوں کے فنگشنز کے کپڑے ایک الگ سوٹ کیس میں تھے ،، نۓ رشتہ داروں کے لیۓ بھی کچھ تحائف اُسی بکس میں تھے ، ،،، 2 ستمبر اور پھر 3 ستمبر بھی گزر گیا ، اور 4ستمبر صبح 12 بجے والی فلائیٹ کے لیۓ ، مجھے ہاشم چھوڑنے کے لیۓ میرا بکس اور دلہن کا سوٹ کیس گاڑی میں رکھا۔ 
۔8 بجے ہم گھر سے نکلنے کے لیۓ تیار ہو گۓ میَں روانہ ہونے لگی تو ،،جوجی نے بہت بھاری دل کے ساتھ بیٹی کی ساس کے لیۓ لیا گیا ایک بینگل پکڑایا ،،، کہ یہ تم اچھے الفاظ کے ساتھ اسے میری طرف سے تحفہ پیش کرنا ،، میَں نے اسے کہا " اب مجھے جملے نہ سکھانا ، کہ یہ کہنا اور وہ کہنا میَں نے تین بچوں کی" ساسوں " کو اپنے الفاظ سے نبٹایا ہوا ہے ! نہ فکر کرو ۔"میَں دل میں بہت ہی خفا تھی ، کہ ایک ماں کے لیۓ یہ مبارک دن بہت انتظار کے بعد آتا ہے ۔ اور اس کی پہلوٹھی کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی ،،، اور وہ خود نہیں جا ، پا رہی تھی ۔ بینگل اور دونوں نندوں کے لیۓ ٹاپس ، اپنے پرس میں ڈالے ،، سب کو اللہ کی حفاظت میں دے کر ، بچوں سے اور جوجی سے بھاری دل سے الوداع ہوئ ،، ہاشم نے گاڑی دوڑائ ،، بادل سخت گھِِر آۓ تھے ، یوں کہ بارش کسی لمحے برس سکتی تھی ،، گھر سے نکلے صرف 15 منٹ گزرے تھے کہ ،، ہاشم کا موبائل بجا۔،،
جوجی کی آواز تھی ،، "ہاشم ، مجھے ابھی ابھی فیڈیکس کی طرف سے میسیج آیا ہے کہ آپ کے پیپرز آ گۓ ہیں ، آکر لے لیں ،، ہاشم نے جواب دیا " خالہ ! آپ ڈرائیور فیاض کو لے کر دوسری گاڑی سے اسلام آباد پہنچیں ، اپنا سوٹ کیس ساتھ رکھیں ۔ اگر ویزہ لگ گیا تو وئیں سے پنڈی ائیر پورٹ پہنچ جائیں ،،، میَں اماں کو تو ائیر پورٹ پہنچاؤں ! یہ نہ ہو کہ یہ بھی اپنی فلائیٹ سے رہ جائیں ،،، کم از کم یہ تو انگلینڈ پہنچ جائیں " ،،، جوجی نے بھی حامی بھری ، کہ ٹھیک ہے تم چلتے جاؤ ، اب میری اطمینان اور بے چینی کی ملی جلی کیفیت شروع ہو گئ ،، اور ہم ایک گھنٹے کے بعد پنڈیائیر پورٹ پہنچے ۔ تو وہاں میری پیاری بیٹی نشل اپنے دونوں بچوں کے ساتھ موجود تھی ،، میری نواسی حمنہٰ نے مجھے اپنا گلے سے لٹکانے والا ، بہت بے وزن اور بہت سے سے خانوں والا پرس دیا کہ اماں یہ اپنے گلے سے لٹکا لیں ، اپنا پاسپورٹ وغیرہ اسی میں رکھیں ۔ آپ کو وزنی پرس پسند نہیں ہوتے ،،، نشل نے بھی مجھے ایک پیکٹ پکڑایا ،،، لیکن مجھے کسی کی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ، ہاشم نے نشل کو ساری  صورتِ حال  بتائی ، کہ جوجی خالہ ویزہ سیکشن پہنچیں تو ہی سیٹ کنفرم کروائیں گیں،،، اتنی " فلمی صورتِ حال " تھی کہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہو گا یا نہیں ہو گا ، نشل ، ایمن کے لیۓ " لیمن ٹاٹ پیسٹریز " کے ڈبے لائ تھی ،، میَں نے صاف کہہ دیا ، یہ میں نہ پکڑ سکوں گی ، جوجی خالہ آ گئ تو اسے دینا ،، اب میَں ہاشم اور بیٹی نشل اسکے بچوں سے ایک ٹینشن سے رخصت ہوئ ،، اندر میرے سوٹ کیس بھی چلے گۓ ،، میں چیک اِن ہوگئ ،،، باہر سخت بارش ہو رہی تھی ۔ اور میں بار بار جوجی کو فون ملا رہی تھی ، کیا بنا ؟؟؟
تب اس نے خوش خبری سنائی کہ ویزہ لگ گیا ہے ،، اور میں ائیر پورٹ پہنچ رہی ہوں ،، ہمارے چچا جلیل قریشی کا بیٹا عامر جلیل پی آئ اے میں اچھی پوسٹ پر ہے ،، جوجی نے اسی کو رابطے میں رکھا کہ تم میری سیٹ کینسل نہ کروانا ،، اور میں بس پہنچ رہی ہوں ، بس چند منٹ دیر ہو گی ،، اور ایسی گھبرائی ، گھبرائی چار پانچ فون وہ عامر کو کرتی اور میَں اسے ،،اور ہاشم پھر خالہ کو ۔ اور آخر لائن میں لگ کر جہاز کی طرف روانہ ہوئ ۔ میرے گلے میں دو پرس لٹک رہے تھے ، آخری چیکنگ کے لیۓ گھبراہٹ میں دونوں پرس ٹٹولے تب بورڈنگ کارڈ ملا ،، اور چھاجوں برستے مینہ میں جہاز کی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے سب مسافر گیلے ہو گۓ ۔ لیکن اندر بزنس کلاس میں کچھ ذیادہ مسافر نہیں تھے ،، کھڑکی والی سیٹ پر بٹھایا گیا ،،، جس سے باہر میری نظریں جہاز کی سیڑھی کی طرف تھیں ،، اور جوجی سے رابطے پر پتہ چلا وہ ائر پورٹ کے وزیٹرز لاؤنج میں بیٹھ گئی ہے ،، اس دوران نشل پیسٹریز کے پیکٹ دے کر چلی گئ ۔ جوجی بھی اتنی ٹینس تھی کہ کہیں یہ فلائیٹ رہ نہ جاۓ ۔ اور اسی دوران اس نے قریب بیٹھے ذرا بزرگ ،، لیکن ماڈرن کپل کو دعا کے لیۓ کہا ،، کہ میری سیٹ صرف چانس پر ہے ،، آپ دعا کریں " ! آخر وہ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتی نظر آئ ،، تو میں نے اطمینان سے ، موبائل بند کر دیا ،،،، جب وہ میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ، تو ہم دونوں نےایک دوسرے کی طرف صرف دیکھا اور ہنس دیں ،، اور تب تک دوپہر کےساڑھے بارہ ہو چکے تھے ، ہم دونوں نے شکرانے کے نفل پڑھے ۔ ماڈرن بزرگ جوڑا ، ہم سے اگلی سیٹ پر تھا ۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا اور مبارک ہو کے الفاظ بولے ،،، جوجی نے تب بتایا کہ جوں ہی میرا نام بولا گیا ، میں نے فٹ ایمن کے لیۓ آئی پیسٹریوں کا ڈبہ کھول کر انھیں پیش کر دیا کہ شکر ہے میری سیٹ کنفرم ہوگئی ہے آپ منہ میٹھا کریں ،، میَں یو کے جا رہی ہوں "۔
بہت شادیاں بھگتائیں ،، لیکن " مائرہ کی شادی " نہایت منفرد انداز اور دلچسپ واقعات سے بھرپور رہی ،،، ! یادگار شادیوں کے لیۓ بہت سی حماقتوں کا ہونا " شاید " ضروری ہوتا ہے !!  ۔
آج 4 ستمبر 2014ء جمعرات کا دن تھا ، اور 2013ء کے دوبئی کے وزٹ کے بعد ایک بار پھر سفر سے لطف اندوز ہونے جا رہی تھی ، اور حسب عادت ، اس وقت سفرکی خوشی اور نئی دنیائیں دیکھنے کی سرشاری نے میرا احاطہ کر لیا تھا ،،، ! " اور اللہ نے کتنی اور کیسی کیسی نعمتیں عطا کیں ، کہ شکر کے الفاظ کم پڑ گۓ ہیں ۔ 
( منیرہ قریشی 28 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )
🙂😍

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں