اتوار، 29 اپریل، 2018

سفرِانگلستان(3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفرِ ولایت ،، یو کے " ( 3) ۔"
پی آئی اے نے ٹھیک ایک بجے دوپہر یوکے کی طرف اُڑان بھری ، ، اور جب سیٹ بیلیٹ کھولنے کی اجازت مل گئ تو ادھر اُدھر دیکھا ،، ٹینشن بھی دور ہو چکی تھی ،، جوجی ،،اس سفر کی " ماہر ین " کے طور پر ساتھ آچکی تھی ،،، اب اس سے پوچھا ،، یہ ویزہ والوں کا کیا ڈرامہ ہوا ،، تب اس نے بتایا "'، تمہارے گھر سے نکلنے کے بعد ، میَں نے مائرہ کو فون کیا ، کہ میَں تو تمہاری شادی میں شریک نہیں ہو سکوں گی ، چیزیں ساری خالہ کے ہاتھ بھجوا دیں ہیں ، لے لینا " تو وہاں ، رونا دھونا مچ گیا ۔ مائرہ نے فون بند کرنے کا کہا ، اور پاکستان ویزہ سیکشن میں فون کیا ،،تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے تو پیپرز چار ، پانچ دن پہلے ہی بھجوا دیۓ تھے ،، مائرہ نے اسی افسر سے کہا کہ میری والدہ کے  فون پر اطلاع دو ،،، تب موبائل پر میسیج آیا " ،، اور یوں میں سیکنڈوں میں تیار ہوئی ،، فیاض گاڑی لے آیا ، اور ہم مِنٹوں میں شدید بارش میں ، پہلے اسلام آباد ، ویزہ سیکشن پہنچے ، اور جب پنڈی کی طرف چلے تو راستے کو جگہ جگہ کنٹینرز سے بلاک کیا ہوا تھا ، فیاض نے آج ڈرائیونگ کا کمال دکھایا اور بہت پیچیدہ اور شارٹ کٹ کرتا ، مجھے پہنچا دیا ،، اور یوں جہاز کی آخری مسافر جوجی تھی ۔ ،،، 
جس وقت مسافر جہاز کے اندر ، یہاں وہاں کے چکر کے ساتھ بیٹھ رہے تھے ، تو میں نے اندازہ لگایا 90 فیصد مسافر پاکستانی ، تھے ، جن میں ذیادہ تعداد، ، میر پور اور گوجر خان سے تعلق رکھنے والوں کی تھی کہ ان کی بولیوں ، اور حلیۓ ان کی وابستگی واضع کر رہے تھے ، ، ، یہ میرے لیۓ بہت دلچسپ گروہ بن گیا ، میَں یکدم ، کیموفلاج ہو کر انھیں غور سے دیکھتی ،، اور ان سب کو رخصت کرنےآنے والوں ،، دور دیس جانے والوں کی سوچتی متفکر آنکھوں ، آسودہ حالی کے نشے میں ڈوبے لوگوں کو
اور حساس چہروں کو پڑھنا آسان تھا کہ ،، ملنے اور بچھڑنے کے لمحات میں انسان "جیوئن " یا خالص سا ہو جاتا ہے ،، میرے لیۓ "سفر" اور وہ بھی ایک مغربی ملک کے سفرکا موقع بہت پر جوش ثابت ہو رہا تھا ۔ اس لیۓ میری تمام سوئ حسیات بیدار ہو گئیں ، ان دو گھنٹے کے زمینی منظر ، یو کے کے ہمارے ہم وطنوں نے چند سطریں سُجھا دیں ،، پرس ٹٹولا ، تو پین موجود تھا ،، کسی وقت کے کیش میمو کی ایک پرچی پڑی تھی ، اسی کو نکال کر جلدی سے یہ احساسات ، لکھ لیۓ کہ ذہن سے نہ نکل جائیں ، ، ، ۔
" آنکھیں "
جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی سے جھانکتی آنکھیں 
کچھ سوچتی آنکھیں ،،،
کچھ سہانے سپنے سجاۓ ، آنکھیں 
جدائ کی نمی پونچھتی آنکھیں 
سِکوں کی عینک پہنے ، کچھ بے حس آنکھیں ،
شوقِ تجسس سمیٹے کچھ پُر اُمید آنکھیں ،،
اور کھونٹے سے بندھے بیل سی لاتعلق آنکھیں 
سبھی مگر تقدیر کے جالے میں پھنسی آنکھیں ( 4 ستمبر ،)۔
اب جہاز محوِ پرواز تھا،، پاکستان کی حدود سے نکل کر افغانستان ، کے اوپر اُڑ رہا تھا ،، اور میَں آس پاس سے بےنیاز صرف اس چھوٹی سی کھڑکی سے دنیا کی وسعت کو دیکھ رہی تھی ، یہی کام اگلے آٹھ گھنٹے کا تھا ، ، جس سے میں ایک لمحے کے لیۓ نہیں اُکتائی ۔ حالانکہ رات بھی بےآرامی کی گزری تھی لیکن نیند کوسوں دور تھی ،، میں سفر کا ہر لمحہ کشید کرنا چاہتی تھی ۔ 
دن کی مکمل روشنی ، اور صاف موسم نے ہر منظر واضع کر رکھا تھا ،، افغانستان کے اوپر اُڑان کے دوران ،، نیچے سنگلاخ ، یا سفید پہاڑوں کا سلسلہ تھا ،، اسی لیۓ افغان ، مزاج بھی سخت سنگلاخ ہوتا ہے ، ان کی زمین سر سبز ضرور ہو گی ، لیکن دوری ، مناظر کو کچھ سے کچھ دکھاتی ہے ۔ ،،، کچھ منٹ ہی گزرے تھے کہ ، روس کی حدیں شروع ہوئیں ، اور جہاز بہت دیر اس کے خوب پھیلے رقبے پر اُڑتا رہا ،، اور ذہن ، روس افغان لڑائ ، اور پاکستان کی نازک ترین پوزیشن ، اور اس خطے پر دنیا کی سُپر پاورز کے ، چلاۓ گۓ شطرنج کے مُہرے ، ان کے نتائج ان کے اثرات ،،، کچھ دیر ہی ذہن پر آۓ ،، اور فورا" محو کر لیۓ ،،، کہ ایک تو میں " سفر " کے پر سکون جذبات کو انجواۓ کرنا چاہتی تھی دوسرے ،، اتنی بڑی دنیا کا خالق و مالک، جانتا ہے ، کیا ہونا ہے !!!!ساتھ ساتھ زمین سے نظر کو آسمان کے بدلتے رنگ بھی متوجہ کرتے رہے ۔ اور ہم جو دوپہر ایک بجے اُڑے تھے ، تو تادیر یوں لگا جیسے دوپہر ٹھہر سی گئ ہے ۔ اور جہاز پولینڈ کی طرف مڑا ، تو اب سہ پہر ہو چکی تھی ،، مجھے جہاز کے اندر کی دنیا تو بھولی ہوئ تھی ،،، جیسا میَں نے شروع میں ایک ہلکا سا ذکر کیا تھا کہ ہماری سیٹیں " بزنس " کلاس میں تھیں ،، اور ایسا ہاشم بیٹے نے کیا تھا ، اس کا خیال تھا ، آپ اس عمر میں اپنے آرام کا خیال رکھیں ، اور بزنس کلاس میں سفر کیا کریں ، اس دفعہ کی یو کے جانے کی ڈرامائ سچوایشن میں ہم اتنی مصروف تھیں کہ ہاشم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا ، اور جب ہم ائر پورٹ پہنچیں ، ٹکٹ ہمارے ہاتھ میں آۓ تب اس کلاس کا پتہ چلا ،، ہمیں بزنس کلاس کی سیٹیں بس آرام دہ لگیں لیکن ،، باقی پی آئ اے ، کی لاجواب سروس ماضی کا قصہ بن چکی ہے ،، بالکل بےمزہ کھانا ، کوئی خاص ورائٹی نہیں ، حتیٰ کہ ان میزبانوں کے چہروں پر مسکراہٹ تک نہ تھی ،محض اچھی کراکری سے کار کردگی ، بہتر نہیں ہو سکتی ،،، یقین کیجۓ مایوسی ہوٰئی ،، کیوں کہ اس سے کہیں ذیادہ ہر لحاظ سے اچھی سروس ، تھائ ایر اور ملئیشین ائر لائنز کی اکانمی کلاس کی تھی ، ، مجھے تو بس یہ خیال رہتا ہے ، کہ جہاز کو کچھ ہوا تو وہ اکانمی یا بزنس کو الگ الگ صورتِ حال سے سامنے نہیں لاۓ گا ، ایک جیسے طریقے سے نبٹاۓ گا ، تو خود کو اس کلاس کونشس کے چکر میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال کھانا پیش ہوا ،، اس کے بعد وُضو تازہ کرنے اُٹھی ، تب تک جوجی اپنے ایریا کا چکر لگا کر ٹانگیں سیدھی کر چکی تھی، ائیرپورٹ میں ملے سمارٹ بزرگ جوڑے سے گپ شپ لگا رہی تھی ، بریگیڈئر انور صاحب ، ہمارے یوسف ماموں جان کے کورس میٹ نکلے اور اتفاق سے ان کا گھر پنڈی میں میری بیٹی کے گھر کی لین میں تھا یہ سب تعارف ہوتے ہی ، ان کی طرف سے بھر پور دعوتِ مل گئ کہ جب پنڈی آئیں ، ضرور ملیں ،، وہ مانچسٹر اپنی بیٹی کے پاس تین چار ماہ گزارنے کے لیۓ ہر گرمیوں میں جاتے تھے ،، اس مرتبہ لیٹ ہو گۓ تھے ، اس لیۓ اب ان کا ارادہ دو ماہ رہنے کا تھا ، کہ اس کے بعد سردی ذیادہ ہو جاۓ گی ۔ جہاز کی اڑان بہر حال بہت سموتھ رہی ،، جب انگلینڈ نزدیک آیا تو مانچسٹر کےبارے میں میرا خیال تھا ،، ایک چھؤٹا ساشہر ہو گا لیکن جہاز نے لینڈ کے لیۓنیچی پرواز کی تو اس وقت مغرب ہو چکی تھی ، لیکن نیچے کے مناظر واضع تھے ، اور مانچسٹر ائیر پورٹ ، کم ازکم پنڈی ائیر پورٹ سے کافی بڑا تھا ،،، جہاز لینڈ کر گیا ۔ ائیر پورٹ کی بلڈنگ میں چیک ان کے لیۓ داخل ہوۓ ، تو جہاز کے ہمسفر کا بہت بڑا کراؤڈ ساتھ ساتھ تھا صاف ستھری سادہ عمارت ،، دو ذرا بڑی عمر کی مسکراتی برٹش خواتین نے ہمارے پاسپورٹ چیک کیا ، اور صرف دو جملے بولے ،، کس کے پاس ٹھیریں گی ، اور کہاں ؟ میَں نے شادی کارڈ فورا" سامنے رکھا کہ میری بھانجی کی شادی ہے اور یہ ایڈریس ہے ،،، او کے ، وش یو گڈ لک !! اور ہم عمارت کے اندر داخل ہوئیں ،،، یہاں تک اگر یہ دو گوریاں نظر نہ آتیں اور ایک برٹش سارجنٹ، تو ،، اپنے گوجر خان اور کشمیر کے مرد و خواتین کا جمِ غفیر دیکھ کر یہ ہی لگ رہا تھا کہ " ہم گوجر خان ائیر پورٹ " پر اتری ہیں ،، خوب تگڑی خواتین نے کانوں میں اچھے بڑےجھمکے ، اور اونچی ہیل کی جوتیاں ، سفر کے دوران کے حلیۓ نے حیرت میں ڈال رکھا تھا ،،، لیکن یہ خواتین اتنی جگر دار تھیں کہ ، خوب بڑے بڑے سوٹ کیس اکیلے ہی بیلٹ سے اُٹھا رئیں تھیں ،، اور ان کے مرد دو دو بچوں کی انگلیاں پکڑے ، آرام سے کھڑے تھے ،،، وہ سب دو تہذیبوں کا عجیب سا امتزاج تھے ، ، جنھیں دیکھ کر کچھ بھی سوچنے کو دل نہیں چا ہ رہا تھا ۔ کہ کبھی کبھی آنکھ اپنے ،،،سامنے کے نئے مناظر کو اپنے " مشاہدے " کے طور پر دیکھ رہی ہوتی ہے ہمیں ہمارا سامان تلاش کرنے میں آدھ گھنٹہ لگا ،، اس دوران نظریں ، مائرہ کی آمد کی منتظر تھیں ،، رات کے 9 بج چکے تھے ،، سامان اکٹھا ہو گیااور میں کسی بھی احساس سے عاری ، سامنے کے منظر دیکھ رہی تھی ، سب کچھ پنڈی کی جدید دکانوں کی طرح کی کچھ شاپس تھیں ، ہم ایک بینچ پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگیں ، جوجی حیران تھی کہ اب تک کیوں نہیں پہنچی !اُٹھ کر سامنے شاپ پر کھڑے ایک نوجوان سے اس نے موبائل کی ریکویسٹ کی کیوں کہ یہاں کی سم ابھی نہیں لی گئ تھی ،، اورجیسے ہی ، اس نے مائرہ کانمبر ملایا ،، اس نے جواب دیا اماں میں بس پہنچ گئ ،، جوجی نے اس لڑکے کا شکریہ ادا کیا ،،، اور اس نے فورا" بتایا ،، میَں پاکستانی ہوں ، یہیں کھڑا ہوں ،، آپ کو جب فون کرنا ہو گا ،،مجھ سے ہی لیں ،، ،،، تو گویا ،، اقدار و اطوار ،،، ابھی زندہ ہیں ۔
جوجی ابھی واپس بینچ پر آکر بیٹھی ہی تھی کہ سامنے سے لمبی سی ایک لڑکی ، کالی ٹائٹس ، چھوٹی سی فراک اور کھلے بالوں سے لہراتی ہوئ نظر آئی ،،، خوب پھیلی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنی اماں کو سلام کے بعد صرف اتنا کہا " آج میری سالگرہ ہے اور آپ کے آنے سے بڑھ کر میرے لیۓ کوئ بڑا تحفہ ہو ہی نہیں سکتا تھا " ،،،، گلے ملے اور جذبات تو ہم پاکستانیوں کے پاس وافر ہوتے ہیں ۔
( منیرہ قریشی ، 29 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں