منگل، 3 اپریل، 2018

سفرِتھائی لینڈ(4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 تھائی لینڈ" (4)۔"
آج ہم نے بہت خاص شو دیکھنے جانا تھا ،، جو دنیا میں سب سے منفرد ، اور بہت خاص سمجھا جاتا ہے ، یہا ں یہ اپنی تھائی زبان میں " سیام نرامٹ شو" کہتے ہیں ،، اور تھائی لینڈ پہنچتے ہی خطیر بھائی نے بھی تجویز دی تھی کہ اگر یہ نہ دیکھا تو تمہارا تھائی لینڈ کا سفر ادھورا سمجھا جاۓ گا ،،، یہ ایک ایسا سٹیج شو تھا جو قریباً سہ پہر میں شروع ہونا تھا ،،، اس لیۓ صبح کا وقت ہم نے " جم " کو کہیں اور لے جانے کا کہا تو وہ سیدھی شاپنگ کے لیے،،، ایک ویسے ہی روایتی بازار لے گئی ،،، جیسے ہمارے ہاں " پنڈی کا موتی بازار یا راجہ بازار " ہے ،، یعنی سستی اور وافر ورائٹی ،، لیکن اس بازار میں ہمیں ایسی کوئی خاص چیز نہ ملی جو بہت متوجہ کرتی ، البتہ خوبصورت ، ایمرائڈڈ ( کڑھائی والے) چھوٹے ، بڑے پرس مل رہے تھے ، جو منفرد نظر آۓ ،، انہی میں سے میَں نے اپنی بیٹی کے لیۓ، ایک ذرا بڑے سائز کا ، اور جوجی اور شاہدہ نے چھوٹے پرس خریدے ۔ اور پھر اتنا وقت رہ گیا کہ ، ہم " سیام نرامٹ " شو کی طرف چلے اور ذرا آدھ گھنٹہ پہلے پہنچے ، ایک خوب صورت لان میں  داخل ہوتے ہی ٹکٹ گھر تھا ، جس کے باہر خوب سجی سنوری ، پر کشش ، " جوان خواتین " کھڑی تھیں ،، جن کے ساتھ سیاح تصویریں اتروا رہے تھے !! اور لان کے بعد ایک اور اینٹوں کے پرانے طرز کے فرش والے احاطے میں داخل ہوۓ۔ جہاں درمیان میں ایک فوارہ لگا تھا ۔ آس پاس خوب صورت پیڑ پودے اور پھولوں بھری کیاریاں تھیں ، ہم ہر لمحہ اور ہر منظر شوق سے دیکھنے لگیں ، شاہدہ ،نے جم کے ساتھ جاکر ٹکٹ لیۓ ہم احاطے میں پھیلے ، غیر ملکی سیاحوں ، اور انکے ہر منظر کی مووی بناتے ، اور تصویریں لیتے دیکھ رہیں تھیں کہ چند نازک اندام، خوب صورت میک اَپ اور کاسٹیوم میں ملبوس " لڑکیاں ، اور لڑکے، چھم چھم کرتے تیزی سے اس فوارہ کے گرد آ ن پہنچے۔ ہم سب انھیں دلچسپی سے دیکھنے لگے، ، ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ اس شو کے ایکٹرز ہیں ، جو اپنے سٹیج کی طرف جا رہے ہوں گے لیکن یہ وہیں ایک ڈرامہ سا کرنے لگے کبھی دو تین لڑکیاں کسی پود ے یا جھاڑی کے پیچھے چھپتیں اور ، ایک دو لڑکے انھیں ڈھونڈنے کا ایکٹ کرتے ،، یہ فلمی سین 15 ، بیس منٹ تک چلا ۔ اتنے میں ایک خوب بڑا ہاتھی جھومتا ہوا آیا ، اس کے مہاوت نے اسے سجایا سنوارا ہوا تھا ، جم نے بتایا کہ اگر آپ کو ہاتھی کی سواری سے دلچسپی ہے تو ٹکٹ لیں اور 10 منٹ کا ایک چکر لگا لیں ۔ ہم سب نے تو نہ کر دی ، لیکن کچھ دوسرے سیاح خواتین و حضرات ، نے ٹکٹ لیۓ ، ہاتھی کو ہر چکر پر بٹھایا نہیں جاتا تھا بلکہ ، اس کے ہودے کے ساتھ چھوٹی سی سیڑھی لگائی جاتی اور ٹورسٹ چڑھ جاتے ،، اس منظر کے 20 منٹ بعد ہی اعلان کیا گیا کہ ہال کی لابی میں آجائیں ، اور اپنے کیمرے اور موبائل ایک کاؤنٹر پر جمع کروا دیں ۔ ،، پتہ چلا کہ وہ اپنے اس شو کو مکمل طور پر دنیا کے سامنے نہیں لانا چاہتے ، بس جزوی فلم لینے دیتے ہیں ، لیکن اجازت کے ساتھ ، ہال کافی بڑا تھا ، 500 تک لوگ بیٹھ سکتے ہوں گے ، لیکن آج سو یا ڈیڑھ سو لوگ بیٹھے ہوۓ تھے ۔ چند منٹ بیٹھنے کے بعد تک لائٹ لگی رہی ، اور پھر اندھیرا چھا گیا ،،، سٹیج بہت بڑا تھا ،، پردہ ہٹا اور ،، نہایت خوب صورتی سے تھائی لینڈ کی کہانی ، کرداروں ، ایکشنز اور بدلتے مناظر سے دکھائی جانے لگی ۔ یہ کہانی چند دیہاتی عورتوں ، مردوں کی جدوجہد سے شروع ہوئی،، جو اپنے بھیڑ بکریوں کے ساتھ ، ہجرت کرتے ہوۓ شہر آتے ہیں اور پھر وہ کون سی مزدوریاں کرتے ہوۓ ، مشکلات جھیلتے ہوۓ ، کہاں تک پہنچتے ہیں ،،، مناظر اتنے ترتیب سے اور تیزی سے بدلتے رہے کہ ، لگتا تھا کہ ہم جیسےفلم دیکھ رہے ہوں ،، مناظر کی تبدیلی میں اتنی زبردست " ٹائمنگ "تھی کہ جیسے سامنے جیتے جاگتے لوگوں ،اور جانوروں کو نہیں دیکھ رہے ،، یہ کہانی اچھے انجام تک ختم ہوئی ، اور فوراًدوسری ، س کہانی ایک مانجھی ، اسکی کشتی ، اس کی لَو سٹوری ، اس کی بہادری ، جو وہ موجوں سے ٹکراتا ، اور فتح یاب ہوتا ، دکھایا گیا ،،، یہ سب لکھتے ہوۓ میرا تو ایک جملہ بن رہا ہے لیکن یہ سب منظر اتنے خوبصورتی سے لپیٹے جارہے تھے کہ ہال صرف کبھی کبھی تالیوں سے جاگتا ،، ورنہ " دم بخود " رہ جانے والا معاملہ ہو چکا تھا ۔ اس مانجھی کی لَو سٹوری کے مناظر میں باغ ، کی تتلیوں ، اور شہد کی مکھیوں کا سین نا قابلَ یقین حد تک تھا کہ وہ چھوٹے چھوٹے قد و قامت کے ایکٹرز ، پتلی اور نظر نہ آنے والی تاروں پر جس طرح " اُڑتے ، پھرتے " نظر آرہے تھے ، اور ان کا پرَوں کو مسلسل ہلانا ، یہ سب سٹیج کے ہدایتکار ، اور سٹیج سجانے والے کے کما لات تھے ،،، اس کے بعد ایک اور سٹوری شروع ہوئی جس میں ایک نیک بادشاہ ، شہزادی اور موت کے بعد بادشاہ کو نیکیوں کی وجہ سے جنت میں جانے ، اور پھر جنت کے منظر ،،، بس دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ، جس نے بھی اس کہانی کو تخلیق کیا تھا ، جنت کے انتہائی خوب صورت مناظر کو کافی حد تک امیج میں لانے کی کوشش کی تھی ۔ بادشاہ کے دربار کے منظر اور شہزادی کے ہاتھی پر پہنچنے کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا تھا کہ ہال کے اندر ، خوب ، بڑے بڑے دو ہاتھی داخل ہوۓ ، اور حاظرین و ناظرین کے بیٹھنے کی جگہ کے درمیان جو جگہ بنی ہوئی تھی وہاں سے گزر کر سٹیج کی طرف گۓ ،،، اور ہال میں اندھیرا ہونے کے باعث قریب سے گزرتے ہاتھیوں کا احساس ذرا بعد میں ہوا ،،، ورنہ کافی " چیخیں " اُبھرتیں ،،، یہ مناظر اتنے " نارمل اور قدرتی " انداز سے وقوع پزیر ہوتے چلے گۓ کہ لطف آگیا ۔ لیکن اگلے مناظر جنت کے تھے ،، جو نیکو کاروں کی جگہ تھی ، اور یہاں فرشتے ، حسین ملبوسات ، حسین شکلوں میں انہی اَن دیکھی تاروں پر اِدھر اُدھر اُڑتے تو انکی تیزی میں بھی آہنگ ، اور ردھم تھا ،،، یہاں پھولوں پر بھنبھناتے بھنورے ، تتلیاں ، اور شہد کی مکھیاں سبھی چھوٹے قامت کے ایکٹرز تھے ، جن کے میک اَپ میں کمال تھا ۔ اور ، جب اس سٹوری کے بعد " دوزخ " کی جھلک دکھائی گئی ،، تو کافی حد تک انہی تصورات کو دہرایا گیا تھا جو ہر مذہب کی بنیاد میں ہیں ،،، خاصے خوفناک ، اور کریہہ مناظر تھے ،اور دوزخیوں کی حالتیں ،، اور یہی آخری مناظر تھے ،، یہ دو گھنٹے پتہ بھی نہ چلا کس وقت ختم ہوۓ ،، اور سٹیج شو ایسے مناظر پر اختتام پذیر ہوا کہ سارا مجمع ، بہت خاموشی ، اور مہذب انداز سے ہال سے نکلا اور لابی میں آکر اپنے کیمرے اور موبائل واپس لیۓ ،، شام ہو چلی تھی۔ جم اور ڈرائیور انتظار میں تھے ،،، واپسی ہوئی ،تو گھر کے قریب اتر گئیں کہ تاکہ کچھ دیر اس بازار کو دیکھ لیں ، وہیں اس مساج کی دکانیں بھی تھیں ،،، جو تھائی لینڈ کی وجہء شہرت رہا ۔ ،،، شاہدہ نے فوراً اس تجربے  کا فیصلہ کیا اور ایک " دکان " میں  داخل ہو گئی ، اب ظاہر ہم دونوں بھی ساتھ آئیں ، اور پوچھا کہ پاؤں کے مساج کا کیا ریٹ ہے ،، تو وہاں نہایت سنجیدہ ، معمر خاتون نے ریٹ تو بتایا لیکن ساتھ یہ بھی کہ" میری ورکر کو کچھ ٹپ الگ دینا ہوگی " ، ہم فوراً کرسیوں پر بیٹھیں۔ تین ،،تیس اور چالیس کے درمیان کی صحت مند تھائی خواتین ، تین تسلے لائیں ، اس میں نیم گرم پانی اور چند قطرے کچھ آئلز کے ڈالے ، اور ہمیں پندرہ ، بیس منٹ پاؤں ڈبوۓ رکھنے کا کہا ،،، تب ہم نے" ٹونزوں "( یہ نام انھیں ہماری فیملی کے بچے نے دیا تھا ، جو اتنا مقبول ہوا کہ انھیں اکثر ٹونزوں ہی کہا جاتا ہے ) کو آرڈر دیا کہ یہ سامنے ہی ہوٹل ہے ، یہ ساری خریداری کے لفافے لے جاؤ ، اور رضیہ کو کہنا آج ہم کھانا کھائیں گے ،،، وہ اس وقت 14 سال کی تھیں ، لیکن بہت ذمہ داری کے ساتھ ہم سب کے لفافے اُٹھا ، وہ چلی گئیں ۔ ہم نے سکون سے 15 منٹ پاؤں ڈبوۓ رکھے ، کرسیاں بھی آرام دہ تھیں ،( آرم چیئرز )، اور پھر مزید 20 منٹ تک ان مساج کی ماہر خواتین نے خوب تیکنیک سے مالش کی کہ ایڑیوں ، اور اسکے پیچھے ، انگوٹھے اور تلوے کے خاص پوائنٹس پر ان کی مالش نے واقعی ، ملائیشیا ، کی تھکاوٹ بھی اتار دی ،، مجھے ان کا ریٹ یاد نہیں ، لیکن فی خاتون کو ہم نے 20 بھات دیۓ ، تو وہ بہت خوش ہوئیں ، یعنی تھائی غربت ابھی چند روپے پر ہی خوش تھی ،،، !۔
گھر پہنچ کر پہلے ، تو نہا دھو کر نماز پڑھی ، رضیہ بھی ہمارے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی ، پھر اس نے ہمارے اُس سٹیج شو سے متعلق تاثرات پوچھے تو ظاہرہے ہم نے زندگی میں پہلی دفعہ ایسا شو دیکھا تھا ہمیں تو بہت پسند آیا تھا ،،، یہ بھی حقیقت ہےکہ ہر وہ چیز یا بات ، اس وقت تک متاثرکن رہتی ہے جب تک اُس سے بہتر چیز یا بات سامنے نہیں آجاتی ،، تب رضیہ نے یہ بتایا کہ ان ایکٹرز میں ذیادہ تر مخنث ہیں ، اسی لیۓ ان کو لڑکا یا لڑکی کا گیٹ اَپ دینا آسان ہوتا ہے ،،، جب ہم فوارے والے احاطے میں تھیں ،، تو چند ایکٹرز ،،، جو دونوں اصناف کے گیٹ اَپ میں تھے ، وہ بھی مخنث تھے ،،، یعنی ہم اتنے قریب سے دیکھنے کے باوجود انھیں پہچان نہ سکے ،،آج ایک نئے تجربے کا دن تھا ،، سٹیج شو کا بھی اور مساج کا بھی !
( منیرہ قریشی ، 3 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں