جمعرات، 5 اپریل، 2018

سفرِتھائی لینڈ(6)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 تھائ لینڈ" (6)۔"
اور اب " بریج آ ن دا ریور کواۓ " ،،، اسی کے تاریخی پُل سے اسی کے دور جیسی ٹرین رائیڈ کے بعد ہم فلوٹنگ بازار کی طرف رواں ہوۓ اور بَوٹ نے یہ فاصلہ جلدی نبٹا دیا ، اور جب ہم بوٹ سے اتریں تو وہ تیرتا بازار لکڑی کی خوب موٹی ، بڑی لمبی اور کچھ چوڑی آپس میں ، جُڑی گیلیوں پر مشتمل ، فرش تھا ، اِن گیلیوں کوآپس میں خوب مضبوطی سے جوڑا گیا تھا ،،، یہ ایک لکڑی کا بجرہ تھا ،،، جو دریا پر "کھڑی حالت میں تیر" رہا تھا ۔ جب اس پر اُتریں تو تھوڑا سا ، ہمارے قدم کا مضبوطی سے جما ہونا ضروری ہے ، یہاں چھوٹی بڑی چھابے ٹائپ دکانیں تھیں ، کچھ ریڑھیوں پر بھی سامان سجا ہوا تھا ،،، یہاں وہاں پھرنا ہوا ،، تو لگا یہ بازار کسی زمانے میں نزدیکی لوگوں کے لیۓ ضرورت رہا ہو گا ،،، لیکن کچھ مدت سے یہ سیاحوں کی کشش کے لیۓ " مینٹین " کیا جاتا رہتا ہے ،، اور سیاحت  میں ایک پڑکشش نام کا اضافہ سمجھیں ،، یہ بہت اچھی بات ہے کہ ان کی وزارتِ سیاحت بہرحال سرگرم ہے ، تاکہ تھائی لینڈ کی اکانمی کی ایک بڑی آمدن کا گراف اونچا ہوتا رہے ،،، یہاں غربت کے اثرات ضرور ہیں لیکن بھکاری ، ذیادہ نظر نہیں آتے ،،، یہاں بھی درمیانہ طبقہ ، بزنس کر رہا تھا ، کئی ایسی چیزیں تھیں جو ابھی تک کے بازار میں نظر نہ آئیں اور ہم نے منفردسمجھ کر خریدیں ،، مثلا"بچوں کے تھائی کلچر کے مطابق بنے کھلونے ، بہت چھوٹے بچوں کے ایمرائیڈڈ ، فراک ، سلیپنگ سوٹس ، بڑی لڑکیوں کی کڑھائی والی ٹی شرٹس وغیرہ ( ضرور یہ گھر بیٹھی ، بزرگ خواتین کی کاوشیں ہوں گی) اسی دوران بھوک تو لگی لیکن ہمیں کوئی ریسٹورنٹ نظر نہیں آیا ، اب ایک طرف لائن سے سبزیوں اور پھلوں کی ریڑھیاں تھیں ،، باقی سب دکانوں پر ذیادہ تر خواتین دکاندار تھیں ، لیکن پھلوں ، سبزیوں کا کاروبار مرد چلا رہے تھے ۔ یہاں سے کچھ پھل خریدے ، اور ڈیڑھ گھنٹہ گزار کر واپس ہوئیں ، ابھی ہم اس فلوٹنگ بازار سے نکل رہیں تھیں کہ ایک دکان کے باہر کچھ اور چاندی کے برتنوں میں ایک " پان رکھنے کے لوازمات کا کافی بڑا پاندان، جس کےساتھ " سروتا " بھی ،رکھا ہوا تھا ا پنے برِصغیر کی چیز دیکھ کر شاہدہ کی رگِ ذوق پھڑک اُٹھی ،، اور جب ہم بَوٹ کے سفر کے بعد سیدھے وین پر بیٹھیں تو شاہدہ نے اپنے طور پر جِم کو " پان اور اس کے برتن " بارے میں کافی کچھ سمجھایا اور یہ بھی کہ یہ وہ برتن ہے جس پر ، گانے ، بھی بناۓ ہوۓ ہیں ،، لو اب تم یہ گانا سن لو " اور اس نے فورا"اپنے" اہلِ زبان پڑوسی" سے سیکھا ہوا گانا " اچھے نندویا سروتا کہاں بھول آۓ " نہ صرف پورا گایا ،، بلکہ اس کا مکمل ترجمہ انگریزی میں کر، کر کے بتاتی گئی ،، شاہدہ کی بولڈ ، اور تفریحی رگ پھڑک جاۓ تو وہ عمل کرنے میں دیر نہیں لگاتی ، اس طرح ، جِم کومحظوظ کیا ۔ اسے کتنا سمجھ آیا ، اس کا اظہار تو اس نے نہیں کیا ، لیکن شکر ہے ڈرائیور ، کو جسے ایک لفظ انگریزی کا نہیں آتا تھا ، ""پوچھ سکتا تھا ، کہ " مشرقی ممالک میں " نندوئی بےچارہ ایسا رشتہ تو نہیں جس پر تم لوگوں نے گانے بنا لیۓ ،،، """ ۔
"تھائ لینڈ کی " ڈامنین سڈوک فلوٹنگ بازار " پر سیر کا" ٹِک" لگایا ،، واپسی پر ہم سیدھے بنکاک کے مشہور شاپنگ مال ( اس وقت کا ) " رابنسن " میں جا اُتریں ،، کہ اب یہ بھی سیاحوں کی لسٹ پر ہوتا " تھا " ،، ( اب تو مزید مالز بن چکے ہیں )
یہاں( میری یاد کے مطابق )، 6 منزلیں تھیں جن میں سے 3 تو زیرِ زمین اور باقی اوپر ،، ہر طرف جانے کے لیۓ" برقی زینے" تھے ، چند سیکنڈوں میں ہر منزل پہنچ سکتے تھے ،، سامان کی بہتات نے چکرا کر رکھ دیا، خیر سب اپنی اپنی پسند کے فلور پر چلی گئیں ، اور ایک مخصوص جگہ ملنے کا، دو گھنٹے بعد کا وقت مقرر ہوا ،،، اور صرف دیکھنے دکھانے میں وقت گزرنے لگا ،یہاں رضیہ نے آنے کا کہا ہوا تھا ، اس لیۓ وہ ہمارے پھرنے ، پھرانے کے بعد ،پہنچی ہوئی تھی ۔اور ہمیں پرس اور جوتوں کی دکانوں کے بارے میں گائیڈ کرنے لگی ،، کوئی شک نہیں یہاں "جوتوں اور پرسسز" کی بہت ورائٹی تھی اور کم قیمت بھی کہ پاکستانی ایک روپے کے بدلے میں ، دو بھات تھے ،،، اس لیۓ یہاں اپنی تحائف کی لسٹ کو پورا کیا ۔ اور واپس گھر کو آئیں ، اب کل تھائی لینڈ میں ہمارا آخری  روز تھا جو خاصا مصروف دن ہونا تھا ۔ اس لیۓ پیکنگ شروع کر لی کیوں کہ یہاں سے شاہدہ نے واپس ملائیشیا اور ہم نے پاکستان جانا تھا،،، اگلے دن حسبِ معمول " جَم " معہ ڈرائیور اور بہترین وین کے ، صبح سات بجے موجود تھی ،، ہم نے اسے انتظار نہ کرایا ۔ اور جب ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہاتھیوں کے " ڈرامے " یا شوٹنگ کی جگہ پہنچیں تو بہت کم سیاح موجود تھے ،، آس پاس پھرنے میں وقت گزاری بھی کی ، اور تصویر کشی بھی چلتی رہی ،،، یہاں ہاتھیوں کا بہت بڑا " باڑہ" تھا جہاں بڑے اور چھوٹے ہاتھیوں کو الگ الگ رکھا گیا تھا خاص طور پر درمیانے سائز کے ہاتھی بالکل الگ باڑے میں تھے۔ جِم اور شاہدہ کے درمیان  گفتگو میں معلومات تو مل ہی جاتی تھیں، کچھ ذاتی نوعیت کی باتیں بھی ہو جاتیں ،،جَم نے بتایا اس کے چار بچے ہیں جو مختلف عمروں کے ہیں ، شوہر بہت کم کما پاتا ہے ، اور اس کی غیرموجودگی میں بچوں کی نانی یا دادی انھیں سنبھالتی ہے،،، عورت ! دنیا کے کسی خطے ، کی ہے اگر گھر میں معاشی کمزوری ہے ، تو شوہر ، بھائی یا باپ کے ساتھ ، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو جاتی ہے ، کچھ نا کچھ کرتی ، کماتی اور بچوں ، کے منہ کو دیکھتی انھیں کچھ خوشی دینے میں کوشاں ہوتی ہے ،،، مرد ضرور کماتا ، محنت کرتا چلا جاتا ہے ، اگر ایک دفعہ نکمےپن کا چسکا لگ جاۓ ، تو خود کو بےشرمی ، اور ہڈ حرامی کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے ، اب اسے عورت کے کام کرنے اور اپنے گھر میں ایک بے کار رکن بننے ،،، لیکن منہ کھولنے والا بننے میں کوئی شرم نہیں رہتی ۔،،،،،،، جِم شاہدہ کی نفیس ایمبرائیڈڈ چھوٹی شرٹ کی بار بار تعریف کرتی تھی ، بلکہ اِس دن اس نے فرمائش بھی کر دی کہ اگر ہو سکے تو مجھے ایسی شرٹ ( جو جینز پر پہنی جاتی ہے) پاکستان سے بھجوا دینا ۔ 
اتنے میں سیاحوں کے اکٹھے ہونے اور شو شروع ہونے کی اطلاع کے لیۓ ہاتھ کی گھنٹی بجاتا آدمی ، ادھر اُدھر پھرنے لگا ،، ہم ایک لکڑی کی بنچوں والے چھوٹے سے سٹیڈیم میں داخل ہوۓ ، بیٹھتے ہی ایک اناؤنسمنٹ جو، انگلش اور تھائ زبان میں تھی ،،بتایا گیا کہ ہاتھی ، پہلے زمانے میں کتنے ذیادہ تھے لیکن ، بھاری سامان ڈھونے ،، جنگوں میں ہاتھیوں کے استعمال ، نے اس نسل کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ، ہاتھی کے دانتوں کی دولت کو حاصل کرنے کے لیۓ شکاریوں نے پہنچایا ،،، یہ ایک ذہین ، زیرک ، لیکن تیز ترین یاداشت رکھنے والا ایسا قوی ہیکل جانور ہے جسے انسان نے اپنی عقل ، و ذہانت سےقابو کیا اور اس سے کام لیا ، اب اس سے جنگوں میں جو کام لیا جاتا تھا ایک ہلکا سا اس کا عکس ، ڈرامائی اندازمیں دکھانے کے لیۓ آمنے سامنے کچھ بڑے کچھ درمیانے ہاتھی کھڑے ہو گۓ ، ان پر بیٹھے مہاوت اور مزید آس پاس کے فوجی ،، دو مختلف وردیوں میں ملبوس دشمنوں کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ پہلے تو کچھ تلواروں اور تیروں سے جنگ ہوئ ،ہاتھی پوری ، توجہ اور محنت سے آگے ، پیچھے ،ہو رہے تھے ،،، جیسے انھوں نے خود کو اُسی زمانے میں پہنچا ہوا محسوس کر لیا ہو ،، اور ایک فریق نے جب دوسرے کو پچھاڑ لیا ،،، تو دشمن فوج کے ہاتھیوں کو ،،، جیتنے والے ہاتھیوں نے دھکیل دھکیل کر میدان سے باہر کیا ،، یہ ایک دلچسپ منظر تھا،، دوسرا ، ایکٹ پرا نے دور کی توپ اور گولوں کے اور بارود بھر کر چلائی جانے والی بندوقوں کا دکھایا گیا ۔ اس میں بھی دو فریق بناۓ گۓ تھے ،، جن کی وردیاں فرق تھیں ۔ اب ایک قلعے کی دیوار اور برجیاں بھی نظر آ رہیں تھیں ، اسی کی برجیوں سے بارود بھری بندوقوں کا مظاہرہ کیا گیا کچھ پیدل فوجی ،بھی لمبی نال والی بندوقیں تھامے ، خوب لڑائ کا منظر دکھا رہے تھے ! اتنے میں توپ کے گولوں کی دھائیں دھائیں سے ماحول خاصا گرم ہو گیا ، چند چھوٹے بچوں نے پریشان ہو کر رونا شروع کر دیا ۔لیکن اس سارے شور و غُل میں ،دو حریفوں کے  مابین حملوں میں ہاتھیوں کی " ایکٹنگ "لاجواب تھی ! ۔
دونوں طرف پانچ پانچ ہاتھی تھے ، کچھ بڑے کچھ چھوٹے۔ اور اس طرح ایک مکمل ایکٹ ختم ہوا اور 10 منٹ کے وقفے کے بعد ،،،، آخری آئیٹم تو ہم بڑوں اور چھو ٹوں سبھی کی دلچسپی کا تھا ، یہ تھا " فٹ بال میچ " ،،، اس میں چھوٹے ہاتھیوں کی شمولیت تھی ،، پہلے کی طرح دو ٹیمیں ،، لیکن ریفری صاحب ذرا بڑا ہاتھی تھا۔ اس نے سونڈ کے ذریعے سیٹی بجائ ۔ میچ شروع ہوا ، اور فٹبال کو ڈی میں پھینک کر گول کیا گیا ،اس ایکشن میں جس مہارت اور دلچسپ انداز اپنایا گیا ،،، اس نے ناظرین کو بار بار تالیاں بجانے پر مجبور کر دیا۔ خاص طور پر جب گول کی کامیابی ملتی تو چھوٹا ہاتھی ، خوشی سے " ہپس " ( میرا پشتو بولنے والے پوتے نے بتایا تھا کہ ہپس کو " کُناٹے " کہتے ہیں ، میں نے شاہدہ کو بتایا ہوا تھا ،، وہ اس لفظ کو بے شمار جگہ استعمال کر کر کے انجوۓکرتی رہی ) کے بل بیٹھ جاتا اور اگلی دونوں ٹانگوں اور سونڈ کو ہوا میں لہراتا ، یہ بالکل بچوں جیسی خوشی کا اظہار تھا ، جو حاضرین کی بھی ہنسی ،اور خوشی کا باعث بنتا،،، یہ میچ ختم ہوا تو ابھی دوپہر کا صرف ، ایک بجا تھا۔
اب جِم ہمیں ، قریب ہی چند منٹ کی ڈرائیو پرایک اور شو دکھانے لے گئ ، میں تو ہر جگہ اور ہر شو کو انجواۓ کر رہی تھی،، لیکن اب دیکھاۓ جانے والا شو نے تو مجھےمسحور کردیا ۔ یہاں ایک چھوٹے سے ہال میں بس سو کے قریب لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ بس چھوٹا سا ہال ،،، اور اس میں دبلی سمارٹ لڑکیاں، تھائ رنگا رنگ لباس میں ، خوب صورت میک اَپ میں ، ان کے ساتھ انہی کی طرح کے دبلے لڑکے تھائ لباس میں ،، ان لڑکوں کے ہاتھوں میں لمبے لمبے بانس تھے ،،، انہوں نے پہلے ہلکے ردھم میں بغیر بانسوں کے ڈانس کیا ، پھر ان کا وہ دیہاتی ڈانس شروع ہوا ، جو بہت دلچسپ اور مہارت کا ثبوت تھا ، ( شاید یہ ان کا روایاتی ڈانس بھی تھا ) ایک لڑکا ، دو الگ الگ بانس کے ایک طرف کے سرے پکڑے ہوۓ تھا اور دوسرا لڑکا انہی بانسوںکا دوسرا سرا پکڑے ہوۓ تھا۔ بانسوں کو خاص طریقے اور ردھم سے بجانا شروع کیا ،جب ایک یا دو نازک لڑکیاں ان بانسوں کو فرش پر بیٹھے اور جلدی جلدی بجاتے بانسوں ، سے مہارت سے اپنے پاؤں کو کھلتے ، بند ہوتے خلا میں ڈالتی ، اور نکالتیں ،،، اور اس دوران ان کے باقی جسم میں ناچنے کی کیفیت موجود رہتی ،، لیکن کیا مجال پاؤں ، بانسوں کے بجنے اور آپس میں ٹکرانے کے دوران بیچ میں آجاۓ ،،، اور یہ سب جب بہ یک وقت ، 6 لڑکیاں کرتیں تو ، بجتے بانسوں کے ردھم میں نزاکت ، اور مہارت کا خوب صورت " امتزاج " نظر آتا ۔ یہ چھے تتلیاں ڈولتی ، اُڑتی ، پاؤں کو چابکدستی سے بچاتیں ،،، تو یہ سب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ،،، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ اب تو گھر گھر اور ہاتھ ہاتھ میں  انٹرنیٹ کی سہولتیں ہیں ،، اس میں یہ ڈانس دیکھیں گے تو آپ کو بھی پسند آۓ گا ،،ایک گھنٹے کا شو دیکھ کر باہر لان میں آئیں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ امریکی یا برطانوی ، تین بہت بزرگ خواتین اپنی چھڑیوں کے سہارے ، اور اپنی اپنی مددگار نرسسز کے ساتھ ، ہال سے نکل رہیں تھیں ،، وہ ہم سے ذیادہ لمبے سفر کر کے آئیں تھیں ، اور ان کی عمریں 80 یا 85 کے درمیان ضرور تھیں ۔ لیکن " دنیا دیکھنے " یا" گھر سے نکلنے" کے لیۓ ان کے جذبے کو ہم نے سراہا ۔ علم حاصل کرنے اور سیرِدنیا کی کوئ عمر نہیں ہوتی ،،، اور ہونی بھی نہیں چاہیۓ۔
باہر لان میں چند وہ لوگ کھڑے تھے، جو اسی ادارے کے ملازم ہوں گے ،،، ان میں سے دو تین نے بہت بڑے سانپ اور اژ دہے اپنے گلوں میں ڈالے ہوۓ تھے ،، اور ٹورسٹس کو دعوت دے رہے تھے کہ اژ دہے کو گلے میں لٹکا کر تصویر اتروائیں ،،، کچھ جرات مندوں نے جراؑت کرلی ،،، ہم انھیں دیکھتے ہوۓ اپنی وین کی طرف آگئیں ،،، اب ڈھائی بج چکے تھے جب جِم نے خوشگوار اطلاع دی کہ ہم راستے میں ایک جگہ شاندار لنچ کریں گے ، جو اسی پیکج میں شامل ہے ،،، اور ابھی باتیں ختم ہی ہوئیں تھیں کہ اس ریسٹورنٹ تک پہنچ گئیں ، یہ ایک خوب صورت اور وسیع ہوٹل تھا ، اس کے ایک ہال تک جِم نے رہنمائ کی ،، وہاں دو الگ بہت بڑی میزیں رنگا رنگ کھانوں سے لدی ہوئیں تھیں ،،، اس نے اشارہ کیا ، " اس طرف مسلم حلال فوڈ ، اور میں دوسری طرف جا رہی ہوں ،، یہ کہہ کر وہ چلی گئ ، اور ہم چند مختلف دوسری قومیتوں کے ساتھ اپنی میز کی طرف آئیں اور شاہدہ کی تجویز پر سب سے پہلے مختلف قسم کے سُوپ ، تھوڑے تھوڑے ، چکھے ،،، اور یہ سب بہت اچھے  ذائقے کے تھے ! اب تلی مچھلی اور نوڈلز ، اور نامعلوم عجیب شکلوں والے کھانے کھاۓ ،، لیکن " میٹھے " کا تو جواب ہی نہیں ۔ اور ہم نے اپنا پیٹ ذیادہ اسی سے بھرا۔ اور جب جِم واپس آئی ، تو ، ہم میٹھے یا ڈیزرٹس سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں ،،، ٹونز عمر کے اس دور میں تھیں ، جب کھانے میں بہت مخصوص " پسند ، نا پسند " چلتی ہے ۔
اب جَم اور ڈرائیور اور " آرام دہ وین " سے الودع کا وقت آگیا تھا ، ہوٹل پہنچ کر ان دونوں کو ، اتنی ٹپ ضرور پیش کی ، کہ ان کے چہرے کھِل گۓ ،، اور جم کا چہرہ مزید کھلا جب ، شاہدہ نے اوپر کمرے میں جا کر اپنی شرٹ جو جِم کو بہت پسند آگئی تھی ، بدلا کر استری کر کے لفافے میں اچھے طریقے سے ڈال کر اسے پیش کر دی ،، اور کہا کیا پتہ پاکستان پہنچ کر میں بھول جاؤں ، تو کیوں نا ابھی اپنی پسند کی چیز لے لو ،،، وہ تو خوشی سے اس کے گلے لگ کر شکریہ کہنے لگی ،، اور دعاؤں کے ساتھ اللہ حافظ کہا ۔
( منیرہ قریشی 5 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں