جمعہ، 13 اپریل، 2018

سفرِدبئی(3)۔

سلسلہ ہاۓ سفر"
دوبئی " ( قسط سوم)۔"
اگلے دن صبح ناشتے کے بعد ، میرا ایک کزن ندیم اپنی کا ر لے آیا کہ" آج باجی میری مہمان ہوں گی"، کزن ندیم میرے والد کی پھوپھی کا بیٹا ہے ۔ لیکن مجھ سےعمر میں بہت چھوٹا ہے ،، اس سے بڑا بھائی نعیم ہے جو پاکستان میں رہائش پذیر ہے ، یہ دونوں بھائی اپنے والدین کی ایک طرح بڑھاپے کی اولاد ہیں ، انتہائی لاڈلے ،، لیکن انتہائی مؤدب !! خاندان کا شاید ہی کوئی بندہ ہو جس سے ان کے اچھے تعلقات نہ ہوں ،، کیوں کہ وہ خود ہمیشہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہوۓ ہر ایک کو عزت دیتے ہیں ، ، یہ ان کے والدین کی تربیت ہے ،، جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ میَں آئی ہوئی ہوں ، خود ہی ملنے آیا اور کہہ دیا کہ آج کادن میرے ساتھ !!!وہ کئی سالوں سے دوبئی میں کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتا رہا ہے ، اب اپنا بزنس کر رہا ہے ، ! اسکی ، بیوی ( وہ بھی میری کزن ہے) اور دو بچیاں ،، پاکستان رہتی تھیں ۔ اس نے کار میں بیٹھتے ہی بتایا ۔ "باجی آج میں آپ کو میٹروسے اپنے آفس تک لے جاؤں گا۔ میٹرو کی سیر بھی ہو جاۓ گی " ،، ( اُس وقت 2013ء تک پاکستان میں صرف لاہورمیں میٹرو ٹرین تھی) ۔ بچوں کو اکسائٹمنٹ ، تھی ، موسیٰ ، ایک بھولا بھالا بچہ تو ہے، لیکن اندر سے سمجھ دار ہے ۔ اس نے ندیم ماموں سے فورا" دوستی کر لی ، گپ شپ سے ، وہ اس سے میٹرو کی معلومات لیتا رہا ، میٹرو سٹیشن پہنچ کر ندیم نے ہی ٹکٹ لیں ، اپنی کار کہیں پارک کی ۔ اور جب بیٹی اور بچوں نے میٹرو کی رائیڈ لی ، تو بہر حال یہ نیا اور خوب تجربہ رہا۔ یہ سفر شارجہ سے دوبئی کے مرکز تک کا تھا ،، یہاں ، ہم اُتر کر صرف چند منٹ پیدل چلے کہ ندیم کے آفس کی بلڈنگ میں پہنچے ۔ یہاں اس کا پارٹنر موجود تھا ، اُسی کی عمر کا ،، وہ بھی پرانے ملنے والوں کا بیٹا ہے ، دونوں محنتی بچے ہیں ، اور اچھی لوکیشن پر اچھا آفس لے رکھا تھا ۔ آئس کریم سے تواضع ہوئ اور ندیم ہمیں ایک قریبی شاپنگ مال " لے گیا ، یہاں کی سیر میں بھی نشل نے کچھ چیزیں لیں اور میَں نے کچھ تحائف لیۓ اور اسی سیر میں سہ پہر ہو گئی ۔ ندیم نے واپس میٹرو سٹیشن تک کا راستہ اختیار کیا ، اور دوبارہ میٹرو کی رائیڈ سے بچے فریش ہو گۓ ۔ کار پارکنگ سے کار لے کر سیدھا شارجہ کے اس ہوٹل لے گیا جہاں اس کے خیال میں بہترین مچھلی نان ، اور خاص پلاؤ ملتا تھا ،، میِرے انکار کے باوجود ، وہ بضد رہا کہ اگر ابھی بھوک نہیں ، تو پیک کروا لیتا ہوں ، ،، لیکن کھانا میری طرف سے ہی ہوگا ، چناچہ پیک کروا کر، خالدہ کے گھر تک آیا ، انھیں بھی سلا م علیک کر کے جانے لگا کہ میں نے آفس کے کچھ کام نبٹانے ہیں ، خالدہ، ذوالفقار 
نے ،اویس اور نزہت ہمارے انتظار میں تھے ، کھانا کھا کر قہوہ پی کر نشل پھر اپنی پیکنگ کرنے کمرے میں چلی گئ ، ، اور بزرگ افراد اپنی دلچسپی کی باتیں کرتے رہے ، اکثر ایک ڈیڑھ بج ہی جاتا ۔
اگلے دن اویس نے چھٹی لی تھی ، صبح کے 10 بجے چلے، وہ ہمیں سب سے پہلے " مال آف امارات" لے گیا نزہت ، اورخالدہ ساتھ تھیں ، یہاں آج بچوں نے ، " آئس ایریا ، کا "اِنڈورسکینگ " انجواۓ کرنا تھا ۔ جہاں کے ٹکٹ لیۓ گۓ اور ،،،،،
نشل اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اور نزہت کے ساتھ چلی گئی۔ وہاں کی تفصیل اس نے بعد میں بتائی ، سکینگ ، اور وہاں کے خوب" فر" والے لباس نے اور وہاں کے ایک چھوٹے سے ریسٹورنت نے انھیں عیش کرا دی ،، بچوں کے چہرے خوشی، سے سُرخ ہو رہے تھے ،،، یہ سب دیکھنے کی ہی تو مجھے خواہش تھی ۔سکینگ کے اس ایریا میں انھوں نے گھنٹہ بھر 
سے ذیادہ وقت گزارنا تھا ، اس دوران وہیں مال کے اندرایک ریستورنٹ میں خالدہ، اس کا بیٹا اویس ، اور میَں بیٹھ کر چاۓ پینے لگے ، اتنے میں اویس کا ایک دوست ماجد آگیا ، پتہ چلا یہ اسی ریستورنٹ میں پارٹنر بھی ہے ،، اس نے ہمارے ساتھ چاۓ بھی پی اور اپنی کہانی بھی سنائ کہ انگلینڈ سے ایم بی اے کی ڈگری لے کر، وہیں بس جانے کا سوچا لیکن ،" پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب" سے مشاورت سے یہاں منتقل ہوا ہوں ، انھوں نے ہی کہا تھا ، کھانے پینے کی چیز کا ،کاروبارکرنا ،یہ ریسٹورنت ہم تین دوستوں نے مل کر کھولا ، اور اب حال یہ ہے کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ، ،،، گھنٹے ڈیڑھ تک بچے آگۓ ،،، ہم سے ماجد نے بِل کہاں لینا تھا ! اب اویس ہمیں " بُرج الخلیفہ " کی طرف لے گیا ، اس جگہ سے پہلے ، اس نے کوشش کی کہ وہ " پائن ٹری آئی لینڈ" کی طرف لے گیا کہ ایک نظر وہاں ڈال لیں ، لیکن اس طرف کی سڑک بن تھی اور مرمت کا بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا ، وئیں سے برج الخلیفہ تک پہنچے ، قریب جانے کی کوئی خواہش نہ تھی ، اسی کے قریب ، ڈانسنگ فاؤنٹین اور ارد گرد کا بہت خوبصورت پارک تھا ، او رایک مختصر سی مسجد بھی ، عصر اور مغرب اسی مسجد میں ادا کی 
اتنے میں اونچی سی موسیقی کا ردھم سنائ دیا ،، جو شروع میں ناگوار محسوس ہوا۔ لیکن کچھ دیر بعد نہ صرف موسیقی کی دھن اچھی لگی بلکہ اسی میوزک کی لے پر، ڈانس کے انداز میں فواروں کا اونچا نیچا ہونا مسحور کن تھا ،،، ہم سب نے بہت لطف اُٹھایا ،، شام ہوئ اور واپسی کے سفر میں اویس ہمیں اس جانب لے گیا ، جہاں "ہمارے " ناقابلِ معافی فرعون مزاج" حکمرانوں کے نہایت شاندار گھر تھے ، دل شدید طور سے اداس ہو گیا کہ کیا ہم پر " ایسے اور ویسے" لوگوں نے حکمرانی کرنی ہے ،،، " کیا قحط الرجال " ہے ۔ شاندار رہائش ، محفوظ مستقبل ، عیش ہی عیش ،،، اللہ سے معاملہ " ؟؟؟ وہ دیکھا جاۓ گا "!!!
اویس کہنے لگا ڈوبتی شام میں اس " بیچ" کا منظر اچھا لگے گا ۔ اور کار ، "جومیرہ" بیچ پر جا کھڑی کی ، یہ اگست تھا اور ابھی شدید گرمی نہیں پڑی تھی ، ویسے تو ہر وقت ہوا چلتی رہتی تھی لیکن ، شام کو کچھ ذیادہ تیزی تھی ، لیکن خوشگوارہوا نہیں تھی ، اسلیۓ ، ذیادہ رکنے پر دل ہی نہیں چاہا ،واپسی کا رستہ لیا ، ،،، عنائیہ کی پیاری پیاری باتیں منتظر تھیں ۔
اور پھر اگلا دن ، حلیمہ ، اسکی بیٹی عنائیہ، اپنی کار میں اور اسکے ساتھ نزہت ، تھی ، جب کہ ہم اویس کی کار میں بیٹھیں ، آج ہم ڈولفن شو دیکھنے جا رہے تھے ، یہاں بھی ٹکٹ لیۓ اور جب شو شروع ہوا، تو مجھے ملائیشیا کے شوز یاد آ گۓ ۔ لیکن یہ ان سے فرق تھا ۔ یہاں تین ، یا چار جوان ڈولفنز کی ذہانت کے مظاہرے تھے ، ان کے ٹرینرز میں ایک خاتون اور دو مرد حضرات تھے ،،، اس میں ڈولفن کبھی بال منہ سے دھکیل کر نِٹ بال کھیلتیں ، کبھی وہ ٹرینر کی آواز پر ، سیٹی پر ڈانس کرتیں ، کبھی قہقہہ لگاتیں ، کبھی حاظرین کی طرف بال پھینکتیں ، اور کبھی شرارت سے اپنی دُم زور سے پانی پر مارتیں کہ قریب کے، ارد گرد کے لوگ بھیگ جاتے ،،، لیکن وہ سٹیڈیم جہاں 200 کے قریب لوگ بیٹھے تھے ، ہر چہرہ ، مسکراہٹ اور خوشی کے جذبات سے دمک رہا تھا ، آدھے لوگ تو اِس دو گھنٹے کے شو کے ہر لمحے کو کیمروں ، میں محفوظ کرنے میں لگے ہوۓ تھے ،، خود ہم سب کی نظریں لمحے بھر کے لیۓ بھی اُن سے ہٹ نہیں رہیں تھیں ، ،آخری آئٹم یہ تھا کہ جو ڈولفن پر سواری کرنا چاہتا ہے ، وہ صرف 10 ریال ہاتھ میں پکڑے ،، ڈولفن کو دکھاۓ تو، ٹرینر اسے اُس پر سواری کراۓ گا ،، رقم تو بہت معمولی تھی ،،، اصل بات ہمت اور جراؑت کی تھی ،،، جو ایک نو دس سال کے بچے نے کی ، صرف ایک ڈیڑھ منٹ کی ڈولفن رائیڈ ، سے سٹیڈیم تالیوں سے گونج اُٹھا ۔،،،، اور پھر بہت سلیقے سے سب اپنی سیٹوں سے اُٹھ کر باہر ارد گرد پھیلے سر سبز پارک میں آگۓ ،،،، اور باہر بچوں کی دلچسپی کی ایک اور فن تھا ،، سجے سجاۓ اونٹ ،جیسے ہمارے کراچی کے ساحل پر ہوتے ہیں ، میرے بچوں نے بھی خوشی سے اُونٹ کی سواری کی ،، اور اب اویس کی طرف سے ایک نزدیکی میکڈولڈ میں پیزہ پارٹی تھی ،، عین بچوں کی پسند کی دعوت ! آج ڈولفن شو ، اور پیزہ پارٹی نے یادگار دن بنا دیا ،، اور میَں ہر نعمت کے بعد ہمیشہ اداس ہو جاتی ہوں ،، اس لیۓ نہیں کہ میں " خدائ خدمت گار " بن جاتی ہوں ،، یا میں بہت قومی سطح کی کوئ ورکر ہوں ،، اور میَں قوم کے لیۓ ذیادہ درد محسوس کرنے والی ہوں ،،، آصل میں حساس فطرت لوگ کا مسلہء ہی الگ ہوتا ہے، ، ، اُونٹ تو ہمارے کراچی میں مدتوں سے ہیں ،، کیا محفوظ ماحول میں ہمارے بچے اِن کی سواریوں سے لطف اُٹھا رہے ہیں ، پاک وطن میں کس چیز کی کمی ہے ! لیکن عوامی سطح پر تفریح کے اتنے کم مواقع ہیں ، اتنے کم سٹیڈیمز ہیں ، کہ آج ہماری قو م کے پاس تفریح کے نام پر صرف " چلو کھانا کھاتے ہیں " کے علاوہ کوئ سوچ نہیں رہی ،، اگر کہیں کوئ فیٹیول ہے بھی تو دل ڈرتا ہی رہتا ہے ،،، کہیں کچھ ہو نہ جاۓ ! کہیں غنڈہ گرد عناصر ، پریشانی نہ کھڑی کر دیں ،،، یہ وساوس اسلیۓ آتے ہیں ، کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ ، تفریح کے نام پرغیر محفوظ بن چکا ہے ( مکمل طور پر نہ سہی، جزوی طور پر) ،، کالج ، یونیورسٹیاں ، تفریح گاہئیں ، بد تہذیبی ، کے جال میں جکڑے چلے جا رہے ہیں ۔ اور ایسے سٹیڈیم ، جہاں چھوٹے چھوٹے ، شوز سےتھکےاعصاب کو پر سکون کرنے کے شوز ہوتے ، ، اگر آپ ایک بہت ہی مصروف شاہراہ کے کسی کونے میں چُھپ کر بیٹھ جائیں ، تو آپ کے سامنے سے عورتیں ، مرد ہزاروں کی تعداد میں گزریں گے،،، یہ ہر طبقے ہر عمرسے تعلق رکھتے ہوں گے ،،، لیکن ان کے چہرے ، پریشان ، متفکر ، بد دل یا اداس اور اردگرد سے بے نیاز ہوں گے ،،چلتے چلے جارہے ہوں گے ،،، اس ہزاروں کے مجمعے کے گزرنے پر آپ کو شاید ایک یا دو چہرے مطمئن یا پُرسکون نظر آئیں گے ،، شاید اسی لیۓ ویلفئر حکومتیں ، اپنے عام عوام کے رحجانات ، سوچ اور مصروفیات ،پر ہر لمحہ نظر رکھتیں ہیں ۔ تاکہ ان کے اعصاب پر مہنگائ ، کرپشنز ، صحت ، اپنے ساتھ ہونے والی ذیارتیاں ان کو شٹر نہ کر دیں ، وہ ہمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ بیٹھیں ، انھیں مثبت تفریحات مہیا کرتے رہو۔ لیکن ، ہم کب ایسے بےفکر ماحول کا لطف اُٹھائیں گے ،، کب ، ؟؟ آخر کب ؟؟اور میَں سفر وسیلہء ظفر یا ،، وسیلہء فکر کی گرداب میں ضرور گھمن گھیری کھالیتی ہوں ، کہ جب کبھی خودغرضی سے کوئی تفریح کرتی ہوں ۔
عبدالحمید عدؔم کا ایک خوب صورت شعر ہے ،
؎ عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے 
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں !۔
( منیرہ قریشی ، 13 اپریل 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں