منگل، 30 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 20)

"چھانگا مانگا کا دُکھ"
باب ۔۔20
دل پر پڑا بوجھ تھا کہ جانے کا نام نہیں لے رہا تھا ،انسان کی عمر بہت ہوا تو اسّی یا سو سال ہی ہو پاتی ہے ۔اُس میں بھی آخری دس ، بیس سال دماغی کمزوری یا یاداشت کے چلے جانے کے مرض سے وہ حالاتِ حاضرہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ ہر غم اور خوشی سے بھی ماورا ہو جاتا ہے ۔لیکن یہ بزرگ درخت جنھیں کہیں پانچ سو ، کبھی ایک ہزار اور کبھی دس ہزار سال کی عمر دے کر بھیجا گیا ہوتا ہے ، وہ کیسے کیسے دل فگار مناظر کو دیکھتے اور چُپ سادھے خدمات بجا لاتے رہتے ہیں ۔ ایسے نا قابلِ برداشت حالات میں بھی وہ اپنی طرف سے کوئی انتہائی قدم نہیں اُٹھاتے ، صبر اور خدمت کے جذبے سے سرشار حکمِ خداوندی پر سرِ تسلیمِ خم کیے رہتے ہیں ، اسی لیے تو اُن کے سینے میں کتنے گھاؤ ہوتے ہیں، ان کا سینہ کیسے کیسے رازوں کا امین ہوتا ہے مگر اپنی خدمت میں کیا مجال کوئی کوتاہی کر جائیں ۔ کمرے کی فضا میں بھی اداسی گُھلی محسوس ہوتی رہی ۔
؎ دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
اور اُسی دن مجھے چند وہ اداس لمحات پھر یاد آگئے ، جو کبھی بھول نہ پاؤں گی ۔۔۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر "پتّوکی " سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر بارہ ہزار ایکڑ پر محیط ،انسانی ہاتھوں سے ترتیب اور تکمیل پائے گئے جنگل کی سیر کا موقع ملا ،جِسے دنیا کا ایک بڑا مصنوعی جنگل بھی کہا جاتا ہے اور چھانگا مانگا کا نام دیا گیا ہے ،یہاں شیشم ، کیکر کی بہتات تھی ۔ خوبصورت درختوں ، جگہ جگہ بنچ ، کچھ قطعات پر پُھولوں کے تختے ،کہیں پانی کی رکاوٹ سے بنی جھیل اور اسی کے کنارے خوبصورت ریسٹ ہاؤس ، عجب دل پذیر مناظر تھے ۔ خوب صورت جنگلی حیات اور پرندوں کی چہکار سے ، سکون ہی سکون پھیلا محسوس ہوا ۔ ادھر اُدھر کی سیر کے بعد درختوں کے ایک جھُنڈ تلے ڈیرہ ڈالا گیا اور طعام کے بعد قیام بھی کیا جانے لگا ، تو اِرد گِرد پھیلی نرم میٹھی دوپہر کی غنودگی میں جیسے کِسی نے چھینٹے گرائے ۔ یوں محسوس ہوا ، شاید کِن مِن بارش آ گئی ہے ، آسمان پر آوارہ بادل تو تھے ، ساتھ نرم دھوپ بھی تھی ، فضا میں بھی سکوت و سکون تھا کہ چند قطرے پھر گِرے توجھُنڈ کے خوبصورت چھتنار درختوں کی طرف نظر پڑی ، تو ڈُبڈبائی آنکھوں کے آنسو مزید پھیل گئے ،اوہ ! میَں اپنے گروپ کی سنگت کی خوشی اور اس جنگل کی خوبصورتی میں محو ہو کر اپنے دیرینہ دوستوں کو نظر انداز کر بیٹھی تھی ۔انسان بھی کیسا خود غرض ہو جاتا ہے ۔ اپنی خوشیاں کتنی عزیز ہوتی ہیں کہ باقی سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے لیکن درخت ہوں اور کچھ کہا کچھ سُنا کی کیفیت سے گزرے بغیر آ جاؤں ، ایسا کبھی ہوا نہیں تھا ، یہ آج کیوں کر ایسا ہو گیا ؟
جلدی سے ذرا اُس حصے کی طرف قدم بڑھائے کہ راز و نیاز کے لئے وہ خوبصورت گوشہ سامنے تھا جہاں لمبے ، پتلے تنّوں والے سفیدے کے جوان درختوں کے ساتھ دو پختہ عمر شیشم کے درخت اپنی لمبی گھنی ٹہنیوں کو اتنا پھیلا چکے تھے کہ بیچارے سفیدے کے درخت قدرے ٹیڑھے ہو چکے تھے لیکن سفیدے کے درخت ایسے مطمئن نظر آئے جیسے اچھا شاگرد ، استاد کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کی گھمبیر خاموشی اور سخت رویے کو بھی خوش دلی سے سہہ جاتا ہے ۔ پانی کے چھینٹے انہی شیشم کے درختوں نے چھڑکے تھے جو دوسو سال پرانے تھے ، جانے لالچی ٹمبر مافیا سے کیسے بچ گئے !! اُن کی اداسی اور عمیق فراست اُن کے ٹھہرے ٹھہرے لہجے پر اتنی حاوی تھی کہ نظریں خود بخود جھک سی گئیں ، یہ ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب ان پاکیزہ فضاؤں کو متعفن کرنے والے اذہان نے انھیں اپنی طمع کے لئے استعمال کیا تھا۔ شیشم کے درختوں نے یاد دلایا ،
" تم شاید پہلی مرتبہ یہاں آئی ہو ، اسی لئے تم نے ہماری دکھی فضاؤں کو فوری محسوس نہیں کیا ،کیوں کہ ہمیں حکمِ الٰہی ہے کہ کوئی بھی تمہاری چھاؤں تلے بیٹھے ، اُنھیں خوش آمدید کہنا ہے ۔ آج تم یہاں آئی ہو ، ہمیں سوات ریسٹ ہاؤس کے قدیم درختوں نے صبح پیغام دیا تھا ، آج درختوں کی عاشق ، انھیں سراہنے والی پہنچے گی ، بے شک اُسے وطن کی تاریخ کے سیاہ صفحات سنا دینا ۔ وہ نئی نسل کو اپنی زندگی میں کبھی کبھار یاد دلاتی رہے گی کہ کیسے تمہارے نام نہاد رہنماؤں نے شراب ، کباب ، اور دوسرے لوازمات سے چند ضمیر فروشوں کو اُسی طرح گھیرا ، جیسے ہر دور کی تاریخ میں دُنیاوی لالچ میں پھنس جانے والے میر جعفر ، میر صادق خریدے جاتے رہے ہیں اور یہ بے ضمیراپنے آپ کو تھوڑے سے مال کے بدلے لالچ کی دلدل میں دھنسا کر آگ کا سودا کر تے رہے ہیں۔غیر ملکی آقا اپنی بادشاہت کی مضبوطی کی خاطر اگر نام نہاد اسمبلیوں میں چند بکاؤ مال خریدتے رہے تو وہ "پُھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " کی پالیسی پر عمل کرنا اپنا حق سمجھتے تھے لیکن یہاں ان کے اپنے ہم وطن ، ہم مذہب تھے کسی دوسرے ملک و مذہب کے لوگ نہیں تھے ۔ وہ سمجھتے ہیں " ووٹ ، اور جمہوریت کی سیاست کا یہ اہم رُکن ہے کہ آزاد ارکان خریدو اور حکومت بنا لو " !! جیسے اللہ کے نام پر اور اس کی کتاب پر حلف اٹھا لینا اور پھر توڑ دینا آج کی سیاست کا حصہ ہے ! اُن بکاؤ مال کے نزدیک اخلاقیات کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ۔
بے ضمیری نے انہی کی نسلیں تباہ نہیں کیں ، بلکہ لفظ " خاندانی ، اصلی نسلی " کے معنی تبدیل کر دئیے ۔ پاک وطن کی آنے والی نسلوں نے ایسوں کو کامیاب دیکھا تو یہی سبق سیکھا کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو ۔ کون سا عہد ، کیسی وفاداری ؟"۔
اِس خوبصورت جنگل میں سب سے پہلے 1988ء میں نواز شریف نے جواُس دور میں پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ تھا اپنی اگلی وزارتِ اعلیٰ کی سیٹ کی خاطر چالیس آزاد ارکان ِصوبائی اسمبلی کو یہاں کے ریسٹ ہاؤس میں قید کیا ۔ یہ قید ان ارکان کی اپنی خواہش پر تھی ۔ نواز حکومت نے انھیں ہر وہ سہولت بہم پہنچائی جس سے گِدھ خوش ہو جائیں ، پھر عین ووٹ ڈالنے کے دن انہی بے ضمیروں نے حقِ نمک ادا کیا اور یہ حسین جنگل اب ایک بُرے فعل کے نتیجے میں بدنامِ زمانہ بنا دیا گیا ہے ۔دنیا کی گندگی کھانے والے گِدھ ، جن کے ناپاک اذہان نے گندگی بھرے معاہدوں پر دستخط کیے ۔ جیسے یہ سب کرتوت انجام دینے میں کوئی قباحت ہی نہیں ۔ جانے اُن کا کیا انجام ہوا ؟ جانے انھیں وہ دولت کتنے دن استعمال کرنا نصیب ہوئی ؟ بالکل یہی حرکات بے نظیر نے جاری رکھیں اور اس کے ضمیر فروشوں کو سوات کے ایک ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا ،جو بھی حکومت میں بیٹھا ، اُس نے ببانگِ دہل یہ گناہ کیے ۔ اور " لوٹا کریسی ، ہارس ٹریڈنگ ، فلور کراسنگ اور نہ جانے کیا کیا اصطلاحات ایجاد ہوئیں، کیوں کہ انسانوں نے مویشی منڈی کا روپ خوب دکھایا ،اِس جوڑ توڑ میں محو لوگوں کو شطرنج کی سب چالیں آ گئی تھیں اور ہیں !! نہیں آیا تو یہ کہ " روزِ محشر بھی کچھ پوچھا جائے گا ۔ عہد توڑنے کی وعید بھی بتا دی گئی ہے ،اُن کے فیصلوں نے جانے کتنے کروڑ نصیبوں پر سیاہ لکیر پھیر دی!" ۔
شیشم کے درختوں نے شدید دکھ میں ڈوبے لیجے میں بتایا ،" ہماری آنکھوں کی طرف دیکھو ، آنسو مستقل اِن میں ٹھہر گئے ہیں ، ہم سوات کے اُس ریسٹ ہاؤس کے درختوں کی طرح جھومتے نہیں ، بے آواز بین کرتے ہیں ۔ جانے اِس پاک سر زمین کے سادہ لوح لوگوں کو کب تک احمق سمجھا جاتا رہے گا ؟ جانے ان کے بے ضمیر لیڈروں کو عبرت ناک سزا کب ملے گی ؟ جانے تم لوگ کب شعور کی منزل پاؤ گے ؟ کب تمہارے اندر کی محدود سوچ بدلے گی ، دُور مستقبل کی روشنی جو دکھائی دے رہی ہے، اسے پانے کی کوشش نہیں کر رہے ؟ کب تک شاندار لوگوں کا استحصال ہوتا رہے گا ؟ ،کب تک اپنے دشمنوں کے لئے تر نوالہ بنتے رہو گے، کب ایکا کرو گے ؟ جانے ہمارے سایوں تلے کب تک گھناؤنے کھیل رچائے جاتے رہیں گے ، کب تک ؟ ۔ہم درخت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ہوا اور پرندے ہمارے لئے وہ پیام بر مقرر کیے گئے ہیں جن کی خبروں سے ہی ہم اپنے دکھی ساتھیوں کے دکھ سے پل بھر میں آگاہ ہو جاتے ہیں ۔ ہم مل کر اُن کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔ ہمارے اتفاق و اتحاد سے کچھ سیکھو ۔اُس دن کے بعد سے چھانگا مانگا کے اِس جنگل کو اِیسی مذموم سازشوں کے لئے جیسے چُن لیا گیا ہو ایک وقت ایسا بھی آیا جب رمضان کا مہینہ تھا جس کا احترام بھُلا دیا گیا اور شراب و کباب کی محفلیں ایسے منعقد کی گئیں جیسے خالق کائنات ،کہیں اور گیا ہوا ہے اور یہ خود دنیا کے مالک بن گئے ہیں ، ان کو یومِ محشر بھُولا ہوا تھا ۔ تمہیں جب موقع ملے ، اِس تاریخ کو نئی نسل تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتی رہنا کہ اسی طرح ہی زندگی سبق سکھاتی ہے ۔ آنکھیں کھلی رکھو کہ دشمن کبھی غافل نہیں ہوتا ، اُٹھو ، اور اُسی با وقار دور کو پا لو ، جب یہ ملک دوسرے ممالک کو قرضہ دیتا تھا ۔ یہاں غیر ملکی آتے اور ہمارے بہترین پالیسیوں سے سیکھتے اور آج وہ ہم پر ہنستے ہیں ۔ غلط کار حکمران کے منحوس اثرات " !۔
شیشم کے درختوں نے آہ بھری اور آنکھیں موند لیں ۔ اچانک مجھے یہ جنت ، یہ بےفکری ، بے معنی لگنے لگی ۔ جب قوم کے ہر فرد کو مستقل نہ سہی ، کبھی کبھی کی تفریح کی بنیادی سہولتیں ستتر (77) سال میں نہ مل سکیں ۔ تو گویا اپنے دشمن ہم خود ہیں ۔!!

( منیرہ قریشی یکم مئی 2024ء واہ کینٹ) 

اتوار، 28 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں" (رپورتاژ۔ 19)


"راہِ اُمید"
باب۔۔ 19
پُھولوں کی صحبت نے دل کو کچھ شاد کیا ، کچھ پُر امید کیا ، ہلکی ہلکی پُروا سے سبھی پُھول مُسکرا مسکرا کر یوں جھوم رہے تھے ، جیسے دنیا میں کوئی غم نہ ہو ۔ ہاں ،کیوں نہیں جب ہر حکمِ ربی کو راضی با رضا ہو کر تسلیمِ کر لیا جائے ،جب احکامِ انبیا پر کامل یقین کے ساتھ عمل کر لیا جائے تو دل اور روح سکون سے ایسے ہی سر شار رہتے ہیں ، یہ کومل ، نازک ، دلفریب پھول لہلہا رہے تھے ۔ جیسے کہہ رہے ہوں " زندگی چند روزہ ہے ۔اِسے ہنس کے گزارو یا رو کر ، یہ تو تم پر منحصر ہے ۔
؎ یہی سننے کی خواہش ہے تو پھر دہرائے دیتے ہیں
کہ ہم سے پیڑ چاہے بےثمر ہوں سائے دیتے ہیں
نئی رُت میں نئے پھولوں کا استقبال کرتے ہیں
پُرانی رنجشوں کو ہم ، یہیں دفنائے دیتے ہیں
(کنول جوئیہ)
ساتھ رہتے ہیں تو کچھ ایسی دو ا دیتے ہیں
سارے دُکھ درد کو پل بھر میں بھُلا دیتے ہیں ( شکیل حنیف)
سامنے پارک میں پھرتے خوش باش لوگ ،خراماں خراماں یہاں وہاں جاتے ہوئے لوگ اُن غلط کاروں کو بالکل نظر انداز کر کے گزر رہے تھے ۔ میرے لئے شاید یہ سرِ عام گناہ ناقابلِ برداشت تھا ،کیوں کہ ایسی بے حیائی کو کم ازکم مشرقی ممالک میں اُن کی روایات نے روک رکھا ہے اور نام نہاد ہی سہی مذہب کے کمزور رسّے کو بھی تھام رکھا ہے ۔
مَرے قدموں سے گھر کی راہ لی ۔ اگرچہ مجھے ہر صورت بوڑھے درخت کے قریب سے ہو کر گزرنا تھا ۔ اپنے دل کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے چلتے ہوئے اس کے پاس رُک گئی ، اس کے فراخ تنے پر اداسی سے ہاتھ پھیرا " تمہیں کیا کیا سہنا پڑا اور سہنا پڑرہا ہے " میں نے اُسے ہمدردی سے کہا اور اسی محویت میں اُس کے تنّے کے " تھمب پرنٹ "یعنی دائروں پر محبت کی نظر ڈالی ۔ یہ کیا ، یہاں تو پانچ سو سال کے سبھی واقعات درج تھے ،جوں ہی میری نظروں نے انھیں تلاشا ، گویا فلم چل پڑی ہو ۔ تیز چلتی گھوڑا گاڑیاں ، حملہ آوروں کے جتھے ، مقابلے کرتے سپاہی ، اس علاقے کی جنگلی حیات ، سازشیں کرتے باغی ، خوبصورت لمبے لبادوں میں ملبوس نازک اور موٹی خواتین ، اُن کے اغوا ہوتے مناظر ، اُن کے مختلف عمروں کے بچے جن میں سے کچھ گھائل نظر آئے ،کچھ بھاگ نکلے اور گھنے جنگل کی تاریکی میں گُم ہوتے چلے گئے ۔ میَں چونک گئی ،کہیں میری تصویر بھی اس دائرے میں ثبت نہ ہو جائے ،کہیں میں بھی یہیں محفوظ نہ ہو جاؤں ۔ بے معنی خوف نے آن گھیرا ،میں تیز قدموں سے اپنے ٹھکانے کی جانب چل پڑی ۔تبھی یاد آیا کہ لندن کے دس ہزار سالہ "ایپنگ فارسٹ " نے کہا تھا "وہاں اپنے گھر کے قریب کے پارک میں پانچ سو سال کے درخت سے ملنا ، وہ تمہیں بہت سی کہانیاں کہہ دے گا ، کیوں کہ تمہیں اس سے بار بار ملنے کا موقع مل رہا ہے ،وہ ایسے ہی دلی دوستوں کو اپنے کچھ راز بتا دیا کرتا ہے " کہ
؎وہ ایک بات جو تم نے کہی درختوں میں
اِسی لئے تو ہوئی دوستی درختوں میں !! ( ظہیر قندیل )
راستے میں موجود کئی درخت بھی اپنے بزرگ درخت کی ترجمانی کرتے ہوئے بولتے جا رہےتھے ۔
"دیکھو ،کبھی اپنے وطن میں قوانینِ قدرت کو توڑنے کی اجازت نہ دینا ، اِس سے ماحول کی " پاکیزگی" مجروح ہوتی ہے ۔ آہ ، انسان نے فضائی آلودگی ، آبی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگیوں کو جان لیا ، اُن پر لمبے چوڑے مضامین پڑھے اور چھاپے جاتے ہیں ، سیمینار ہوتے ہیں لیکن اپنی نئی نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے " اخلاقی آلودگی " کو کیوں نظر انداز کر بیٹھا ؟"۔
" یہاں تو معصوم جنگلی حیات بھی اِن کی بے شرم حرکتوں سے نالاں ہے ۔ کچھ تو کرو ، یہ کیسی ترقی اور خوشحالی ہے کہ اب تو اِن کی ستر فیصد عبادت گاہیں ویران ہو چلی ہیں ۔ وہاں سکول اور شادی ہال بنائے جا رہے ہیں ۔ جانے انسان کیوں اتنا بے حِسّ ہو گیا ہے ؟ وہ کیوں اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھ رہا ہے ؟" ۔

( منیرہ قریشی ، 29 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

جمعرات، 25 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔18)

"شدت ہائے غم"
باب۔18
گھر کے باہر کے چھِدرے جنگل سے کبھی چند منٹ کی اور کبھی ایک گھنٹے کی مجلس جمتی اور وہ میری ساری باتیں ، مکمل ذوق شوق سے سنتا ، دوستی کا ایک گُر یہ بھی ہےکہ کہنے والے کے دل تک پہنچنے کے لئے اُس کی باتوں کو یوں سنا جائے جیسے وہ پہلی مرتبہ یہ سب سُن رہا ہے ۔ " اوہ! اچھا مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں تھا" والا رویہ ہوتا ہے ۔
کوئنز پارک کا چکر لگائے چند دن گزر چکے تھے ۔ موسم بھی خزاں کی آمد کی خبر دینے کے لئے دبے پاؤں آ رہا تھا ۔ اور اُس دوپہر ' پارک' جو کبھی گھنّا جنگل تھا ۔ باوجود خوش باش ، سیر کرتے لوگوں کے کچھ مراقبے میں ڈوبا لگا ۔یا حسب سابق میری حسیّات نے یہ خبر دی ۔ کچھ دیر اسی پارک کی جھیل کنارے ،بسنے والی بے تکلف بطخوں کے اچھے بڑے خاندان کی صحبت رہی ،اس جھیل کے گرد خوبصورتی سے بنائے گئے واکنگ ٹریک پر بہت سے بچے ، اپنے والدین یا اساتذہ کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے اور کئی اداس دل بھی انہی شانت چہروں کی وجہ سے اپنے تفکرات بھول گئے تھے ۔ ایک مخصوس راہ پر چلتے چلتے اپنے پسندیدہ درختوں کے جُھنڈ کی طرف چلتی گئی ،اس جھنڈ میں شامل سب سے بڑے گھیر کے تنّے والے سے خاص سلام دُعا ہو چلی تھی لیکن آج اِس جھُنڈ پر صاف محسوس ہوا کہ یہاں خاموشی کچھ گہری ہے ۔ جہاندیدہ بزرگ درخت کے پتے ہلکی پیلاہٹ کے رنگ میں آیا چاہتے تھے اور وہ آنکھیں بند کیے مراقبے کی کیفیت میں نظر آیا، جب کہ کچھ نزدیکی نسبتاًکم عمر درخت کے سبز پتے سُرخ رنگت میں تبدیل ہونے کی تیاری میں نظر آئے سوچا ،!! شاید بزرگ درخت اس لیے پیلے رنگ میں رنگا جا رہا ہے کہ سوچ رہا ہو " شاید یہ میری آخری بہار تھی ، شاید یہ آخری خزاں بِتا کر جا رہا ہوں" اور باقی قدرِ جوان درخت سُرخ لبادے اوڑھ کر یہ ظاہر کر رہے ہیں، " ہمیں لمبی خزاں کا سامنا ہوا تو پھر کیا ؟ پھر سے بہار آ ہی جائے گی ، پُر اُمید رہنا چائیے "۔
کچھ دیر وہیں رُکی رہی تو یکدم زیادہ سُرخ پتوں والے ایک کم عمر درخت نے بولنا شروع کیا تو بولتا چلا گیا ۔" ہم پر وقت کے اُتار چڑھاؤ کے رنگ آتے اور چلے جاتے ہیں ۔ یہ ازل سے لکھ دیا گیا ۔ ہم یہ تبدیلیاں خوش دلی سے قبول کرتے اور گزارتے ہیں ۔یہ نیچے گِرے پتے ہمارے ہی لیے کھاد کی وہ خوراک بن جاتے ہیں جس کی طاقت سے ہماری بیماریاں دور ہوتی ہیں ، ہر جنگل اپنے آپ میں محسوسات کا خزانہ بھی سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ۔ ہمیں بھی سکون اور گیان دھیان کے لئے پاکیزہ فضا درکار ہوتی ہے ۔ خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اب کئی سالوں سے شخصی آزادی کے نام پر نو عمر یا پختہ عمر کے انسان ،اپنی غلط کاریوں کے لئے ہماری چھاؤں کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں ۔ ہم خزاں میں بے لباس ہو جاتے ہیں ، شدید ٹھنڈ ہمیں بیزار بھی کر دیتی ہے ۔ لیکن کم از کم اِن قبیح نظاروں سے تو جان چھُٹ جاتی ہے "۔
تو اس خاموشی اور مراقبے جیسی کیفیت کی یہ وجہ تھی! بزرگ درخت تو پھر بھی مراقبے کے ہالے میں ساکت کھڑا رہا ، جب کہ کم عمر درخت نے دل کی بات کہہ ڈالی " تمہیں علم تو ہو چکا ہے نا !! یہ پارک بعد میں بنا ، پہلے گھّنا جنگل تھا ، جہاں ہرنوں کی ڈاریں بے فکری سے چَرتی چُگتی تھیں ۔
گچھے دار دُموں والی لومڑیاں ، خرگوش اور سہہ ( خار پُشت ) اور گوہ (monitor lizard ) اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھیں ۔ بےشک ایسے جنگل انسان کو ڈراؤنے لگتے تھے ۔ لیکن یہی ڈر کا غلبہ ہم درختوں کی زندگی کا باعث بھی بنا رہا ۔ البتہ صاحبِ اقتدار طبقہ جنگل کے خوف سے تو آزاد تھا کیوں کہ وہ اپنے اقتدار کو خظرہ سمجھ کر گھنے جنگلوں کی کانٹ چھانٹ کرتے رہتے ، کہیں یہاں باغیوں کے مستقل ٹھکانے نہ بن جائیں ، کہیں ہمیں چیلنج کرنے والے عناصر ، یہیں چھُپ کر ہمارے خلاف سازشوں میں کامیاب نہ ہو جائیں ، ایسے ہی بے معنی خدشات کے تحت اس طبقے کے مُٹھی بھر انسان ہمارے دشمن بنے رہے ۔ ہمارے ساتھیوں کو شہید کرتے رہے ، جنگلوں کے درمیان راستے بنے ، پھر انھیں تفریحی پارکوں میں بدلایا گیا اور اِسی کوشش میں جنگلی حیات سِمٹ سُکڑ کر رہ گئی ۔ یاد رکھو ،وہی جنگل ، مکمل جنگل کہلاتا ہے جہاں ہمارے تنوں کے گِرد چھوٹے بڑے جانور چُہلیں کرتے ہوں ۔ اُن کی خوبصورت بولیاں فضا میں موسیقیت پیدا کرتی ہوں ،وہی جنگل خاص دبدبہ اور خاص چھَب کا مالک ہوتا ہے ۔ اب جنگلی جانور کم بھی ہو گئے ہیں ،جو ہیں وہ دن بھر اپنے بِلوں اور پرانے نالوں کے محفوظ کونوں میں چھُپ کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ شام ہو انسانوں کی چلت پھرت ختم ہو تو پھر خوراک کے لئے نکلیں ۔ اور تم نے دیکھا !!؟ اب پارک تو بن گئے لیکن اب اِکا دُکا درختوں کے جھُنڈ تلے آج کا انسان وہ حرکتیں کر رہا ہوتا ہے ، جو شریف لوگ اپنے گھروں کے اندر اپنے محرم رشتوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور آج کل نہ صرف نا محرم مرد و زن یہاں ہمارے سایوں میں ہمیں اپنے گناہوں کے گواہ بنا رہے ہوتے ہیں بلکہ اِسی دوران ہم جنسی کے بد بودار طوفان کے افعال ہمارے سایوں تلے روا رکھے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہمیں بیزار کر دیتا ہے۔ ہم دکھ سہنے اور کُڑھنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں ، تم دیکھو ہم انھیں آکسیجن جیسی قیمتی چیز مفت بانٹتے ہیں اور انسان مادر پدر آزادی اور میرا جسم میری مرضی کے گھٹیا خیالات اپنا کر ہمارے سایوں تلے کیا کر رہا ہوتا ہے ؟ جب بھی یہ منظر دہرایا جاتا ہے ، ہمارا غصہ کئی گُنا بڑھ جاتا ہے ۔تم جہاں سے گزریں ، وہاں ابھی تک نوجوان لڑکے اُسی قبیح حرکت میں مصروف تھے ، جس کی وجہ سے ربِ کائنات کا غضب بھڑکا تھا ، اور سب سے زیادہ عذاب اِسی گھناؤنے فعل کی وجہ سے بھیجا گیا تھا ، اپنی نئی نسل کو " شخصی آزادی "(پرائیویسی )کے نام پر آزاد چھوڑ دینا ،والدین کا یہ رویہ ناقابلِ معافی ہے !" ۔
کیا ہم سمیت کائنات کے سب مظاہر اُس ضابطۂ حیات کے پابند نہیں ، جو اُس نے مقرر کر دئیے ہیں ، ہم میں سے جب کوئی یہ ضابطہ توڑتا ہے تو نتیجے میں کائنات میں غضب و قہر کی لہر پیدا ہو جاتی ہے ۔ جو انسانی جانوں ، علاقے کے خدو خال کو شدید نقصان پہنچا کر دم لیتی ہے ۔ خود سوچو ، یہ گندی حرکات ہمارے غصے کو بھڑکا ئیں گی نہیں "۔ یکدم نگاہ اُسی درخت کی اُوپر شاخوں کی طرف گئی ، تو سبھی کم عمر درختوں کے پتّے بھی جیسے شعلہ زن تھے ،ان کی آنکھیں انگارے برساتی محسوس ہوئیں ۔ ایسا لگا جیسے وہ اِن خلافِ فطرت حرکات کے مرتکب لوگوں کو جلا ڈالیں گے ، یا اُن پر خود کو گرا دیں گے کہ اُنھیں کچل ڈالیں ۔
مجھے جلد وہاں سے ہٹنا پڑا ۔ کہ بزرگ درخت کی گھمبیر خاموشی اور کم عمر درختوں کی غضب ناکی نے خوف زدہ کر دیا تھا ۔
دل اداسی کی گہرائی میں ڈوب گیا۔ شیطان کے چھاپے اور تانے بانے میں انسان اِتنی آسانی سے کیسے آجاتا ہے جیسے ، مکڑی ساکن اور جامد ہو کر کامیابی سے شکار کو اپنے جال میں پھنسا لیتی ہے ۔ کاش اے انسان ! عارضی آزادیوں کے بدلے اپنے ضمیر کو نہ مار ےکہ یہ ضمیر وہی ہمزاد ہے جس کی گواہی پر وہ جکڑا جائے گا ۔ چلیئے ،وہ بعد کا دربار سہی لیکن دنیا میں اس کے اثراتِ ظاہری و باطنی کی تباہ کن حالتیں ہو سکتی ہیں اور ہو رہی ہیں ۔ اُس انجام سے ڈریں !!
کوئنز پارک کا وہ دن ، درختوں کے غم اور خوشی اور غصّہ و شانتی سبھی کیفیات نے دل و دماغ پر ایسا اثر ڈالا کہ جلدی سے اپنی من پسند کیاریوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی کہ پھولوں کی معصومیت ، لطافت ، خوش نمائی ، اور خوش ادائی ، انسانی مزاج پر عجب خوشگوار اثرات ڈالتے ہیں ۔ اور ان کی صحبت سے انسان مایوسی کی دلدل سے نکل جاتا ہے ۔ وہ پھر سے امید کے چراغ روشن کرنے لگتا ہے ۔ جلد انسان فطرت کی طرف لوٹے گا ۔ اور پھر ہر کسی کے مطالبات دائرۂ فطرت کے تحت پورے کئے جائیں گے۔

( منیرہ قریشی ، 26 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

جمعہ، 19 اپریل، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپورتاژ۔ 17)



" رقصِ درویش اور بُرصہ کی کیبل کار"
باب۔۔17
بچپن جس گھر میں گزرا ، وہ مکمل شہری علاقہ تھا ۔۔ گھر اگرچہ آٹھ مرلے تک کا تھا لیکن صحن اتنا مناسب تھا کہ کناروں پر لگی ایک طرف چنبیلی کی بیل اور دوسری طرف موتیے کے جھاڑ کے ساتھ انگور کی بیل بھی دوسری منزل تک چلی گئی تھیں ۔ اس صحن کے درمیان میں سفیدے کا ایک درخت بھی لگا دیا گیا ۔ ہمارے بچپن میں ہی دیکھتے ہی دیکھتے سفیدے کا درخت جوان ہو گیا اور اس کی چوٹی دوسری منزل کی دیوار تک جا پہنچی ۔ ایسے جیسے ، اُسے انگور اور چنبیلی کی بیلوں کی دوسراہٹ کی خواہش تھی ، وہ بھی ان دونوں کی دوستی میں وقت گزارنا چاہتا ہو لیکن جب بھی ہَوا تیز چلتی تو ، سفیدے ( پاپوپلر) کا درخت ایسے جھومتا ، جیسے رقص کر رہا ہو ،ہلکے ہلکے ہلکورے لیتا ہوا ۔ بہت بعد میں ترکیہ جانا ہوا، وہاں "رقصِ درویش" کی محفل نصیب ہوئی ،جانے کیوں اُس چھوٹے سے ہال کے نیم اندھیرے میں تین سادہ ترین لبادے میں مختلف عمروں کے درویش کبھی ہولے ہولے ، اور کسی وقت تیز اپنے ہی قدموں پر والہانہ گھوم رہے تھے اور مجھے سفیدے کا درخت شدت سے یاد آگیا ، جیسے یہ اپنے ہی قدموں کے دائرے میں گھوم رہے تھے ویسے ہی سفیدے کا درخت جھومتا ، جیسے ہوا اسے موسیقی کے سُر سنا رہی ہو ،لیکن جب کبھی ہوا تیز ہوتی ، سفیدے کا جھومنا ، بالکل ایسی تڑپ لئے ہوتا کہ جیسے وہ اُڑ جانا چایتا ہو ۔ میَں کم عمری کے باوجود اس خیال سے اس کے تنے پر ہاتھ رکھ دیتی ، جیسے میں اپنے ننھے ہاتھوں سے اُسے گرنے سے بچا لوں گی اور اُسے گلے لگا لیتی ،میرا خیال ہوتا یہ بہت تیز ہوا سے خوف زدہ ہے کیوں کہ مجھے وہ اندر ہی اندر سسکتا ، روتا محسوس ہوتا ۔
یہ ساری دلی کیفیات میں نے گھرکے باہر کے چھَدرے جنگل کو سنا ڈالیں ۔ آج ہم کافی دنوں بعد محفل سجا پائے تھے اور آج یہاں بھی ہوا تیز تھی ، سفیدے کے درخت کی یاد نے مجھے گرفت میں لے لیا تھا ، تب چھِدرے جنگل کے ایک عمررسیدہ درخت نے ساری روداد تحمل سے سن کر اتنا ہی کہا
" وہ اکیلا درخت تھا اور یاد رکھو اکلاپے کا اپنا منفرد دُکھ ہوتا ہے ، جب وہ دُکھ کا رَس مسلسل پیتا رہتا ہے تو یا تو وہ بیمار ہو جاتا ہے یا ابدال بن جاتا ہے ، وہ آس پاس کے علاقوں کے دور دراز کے درختوں کو پیغام رسانی کر رہا ہوتا ہے، تیز ہوا سیکنڈوں میں یہ پیغامات آگے پہنچاتی ہے تاکہ مختلف مسائل میں جکڑے درختوں کو حل بتا سکے ۔"
" جس طرح انسانوں میں روحانی دنیا کی عجب توجیحات ، آداب و درجات ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی ہم درختوں کی دنیا میں بھی اللہ کے حکم سے درجات بانٹے جاتے ہیں ِ ابھی تم نے ترکیہ کا ذکر کیا وہاں بھی کسی سے ملیں ، یا مال و اسباب کی محبت میں غرق رہیں ؟"۔
مجھے اُس کے تبصرے پر شرم آ گئی ،واقعی جب ہم کسی دوسرے ملک ، یا علاقے کی سیر کو جاتے ہیں تو پہلی کوشش یہی ہوتی ہے یہاں کی تھوڑی بہت سوغات اکٹھی کی جائے، کچھ خود رکھیں کہ یاد گار ہو گی اور کچھ تحائف کے طور پر بھی دینا ہوں گی ۔اسی لین دین سے ہمارا بہت قیمتی وقت ، بے قیمت چیزوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔ لیکن ترکیہ کی سیر میں چپے چپے نے مسحور کئے رکھا کہ ہر کونا ، ہر تاریخی عمارت ، ہر چوراہا ، یوں جانا پہچانا لگا تھا جیسے میں یہاں وقت گزار چکی ہوں ۔ میرے لئے کوئی جگہ اجنبی نہیں تھی ۔ شاید اس کی یہی محبت تھی کہ وہ نو دن یوں گزرے جیسے مجھ میں کسی درویش کی روح حلول کر چکی ہو۔ میرے پاؤں تھک چکے تھے لیکن جسم سفیدے کے درخت کی طرح اپنے ہی قدموں پر جھوم رہا تھا ۔ تب میں نے چھِدرے جنگل کے بزرگ درخت کو بتایا ۔
" جب بُرصہ شہر پہنچے تواس وقت وہاں ایک روشن دن تھا ، صاف ستھرے شہر کے خوبصورت ، صحت مند ، مطمئن لوگ دلوں کو تقویت دے رہے تھے کہ دنیا میں پُر اعتماد چہروں کی بھی الگ اُٹھان اور شان ہوتی ہے ۔ اِس شہر نے داخلے کے وقت ہی اپنے نام دو تاثر درج کروا دئیے تھے ،پُرسکون فضا اور سبز ٹھنڈے رنگ کا منظر و پس منظر ۔ پھر جب ہمیں وہاں کی جدید تفریح یعنی کیبل کا رمیں بیٹھنے کا موقع ملا تو بُرصہ جو پہلے ہی پہاڑی علاقہ اور سطح سمندر سے ایک سو پچاس میٹر اونچا ہے پھر بتدریج اوپر ہی اُوپر چڑھتی کیبل کار اور نیچے وہ لمبے پتلے زمردیں رنگ کے پتوں والے انتہائی اونچے درخت ، جب کیبل کار چڑھتی چلی گئی تو ان درختوں کی چوٹیاں ہماری کیبل کار سے چُھو کر سرسراتیں چلی جا رہی تھیں ۔ اُس دن خواجہ غلام فرید رح کی خوبصورت ترین کافی کے اِس شعر کی بخوبی سمجھ آئی تھی ۔۔
؎ اُچیاں لمبیاں لال کھجوراں
تے پَتر جنھاں دے ساوے !
اور میں اُن کی اونچائی اور لمبائی کو سراہتی جا رہی تھی کہ اچانک گھّنے درختوں کی باوقار سرگوشی نے چونکا دیا ۔ '' ہم تمہیں پہچان گئے ہیں کیوں کہ تم ہمیں جانتی ہو ! ہاں اِس سرزمین پر آتے ہی تمہیں سکون ، ٹھنڈک اور سبز کے ہر شیڈ نے سرشار کر دیا ۔ اس لئے کہ ہم درختوں نے ظالم حملہ آوروں کو بھاگتے دیکھا ہے اور صاحبِ ایمان فوجوں کی استقامت دیکھی ہے ،یہ جو ہمارے سبز رنگ اتنے خوش نما ہیں اور اِن میں سبز کا ہر سبھاؤ جھلک رہا ہے اور ہم جو اتنے تن آور اور سَر بلند ہیں تو دراصل اِس سر زمین میں کیسی کیسی مَعْرَکَۃُ اْلآرا ہستیاں ابدی نیند سو رہی ہیں ۔ عثمان غازی ، علاءالدین غازی ،اورحان غازی اور اُن کے جانثار ، جانباز ساتھی، یہ سب اِس زمین پر آئے اور یہیں مدفون ہوئے۔
یہاں تم جہاں جہاں سے گزرو گی ، کسی نا کسی شہید کا خون وہاں گرا ہو گا ۔ یہ اُسی خون کی آبیاری کا نتیجہ ہے کہ یہاں سبز رنگ کا ہر عکس جھلملاتا دکھائی دے گا ۔ تمہارے دریائے سوات جیسا زمردیں سبز رنگ ، آذر بائی جان کی چراہ گاہوں جیسا ہلکا سبز رنگ ،کہیں ڈھاکا کے سُندر بَن کے جیسا کائی رنگ ، بُرسہ کے اُس جنگل نے اِک تفاخر سے اپنی چوٹیوں کو جھٹکا دیا ، ہمیں یہ فسوں و دبدبہ آزادی کی اُس تڑپ نے دیا جنھوں نے آزادی اور وقار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ۔ سو یہاں لوگوں میں ہی نہیں ، درخت ، پہاڑ ، ویرانوں میں بھی رعب جھلکتا نظر آتا ہے کبھی دیکھا ہے ایسا منفرد خطہ؟"میں نے کھُلے دل سے اعتراف کیا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد تادیر اُسے برقرار رکھنے سے ان کی کئی نسلوں کے رگ و پے میں اِک مزاجِ رندانہ آ چکا ہے اور غیر قوم کی سو سالہ پابندیاں بھی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔
میری یہ یادیں اِس سارے چھدرے جنگل نے غور سے ساکت ہو کر سنیں، مجھے اندازہ ہو گیا کہ اُنھیں سب خبر ہے ، محض میری محبت میں سکون سے ساری روداد سنتے رہے ۔ کتنی پیاری بات کہ کبھی کبھی آپ اپنے دل کی ساری بات کہہ ڈالتے ہیں ، تب احساس ہوتا ہے ، یہ باتیں سامنے والے کو معلوم تھیں اس نے صرف مُروّت میں میری داستان پھر سُن لی ۔ کتنا بڑا ظرف چاہیے ، کتنا حوصلہ چاہیے ، سُنی بات کو سکون سے سنتے رہنا اور ظاہر کرنا کہ میں پہلی دفعہ یہ سن رہا / رہی ہوں ۔ مجھے بھول جاتا تھا کہ ساری دنیا کے درخت ایک خاندان ہی تو ہیں اور ایک دوسرے کی خیر خبر رکھنے کا اُصول اور طریقہ ان کو ودیعت کیا گیا ہے ۔

( منیرہ قریشی 20 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

۔600 سال پرانا درخت تو گویا وہ سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کا گواہ ہے ۔

سلطنتِ عثمانیہ کے دور کا قدیم چنار کا درخت ، جس کا ان سے روحانی تعلق رہا ۔اور اب صدر طیب نے قوم کو چنار کے درخت زیادہ سے زیادہ لگانے کا حُکم دیا ہے ۔

 

منگل، 16 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " (رپورتاژ۔ 16)

"اسرارِ کائنات"
باب۔ 16
سرگودھا کے بزرگ برگد سے ملاقات اگرچہ سَرسری تھی ،اس حیرت انگیز درخت نے جانے ہمیں اور کتنی کہانیاں سنانا تھیں ، بلکہ کچھ راز تھے جو عیاں کیے جانے تھے ۔ اس کی ہر ٹہنی ، بزبان خاموشی ہمیں کچھ دیر اَور ، کچھ دیر اَور رکنے کا کہہ رہی تھیں ۔ لیکن ایسے ہی تو انسان کو جلد باز اور بے صبرا نہیں کہا گیا وہ اپنے گمان میں " چلو جلد چکر لگائیں گے " لیکن وہ" جلد" یا تو آتی نہیں ، آتی بھی ہے تو وقفہ اتنا لمبا ہو چکا ہوتا ہے کہ پہلے والی گرم جوشی اکثر مفقود ہو جاتی ہے ۔ شاید ایسے میں سامنے کے مظاہرِ فطرت بھی محتاط ہو چکے ہوتے ہیں ۔ اسے اگر چاہ نہیں تو ہمیں بھی پرواہ نہیں ۔قسمت ہمیں بہترین مواقع دیتی ہے لیکن ہم اُنھیں جلد بازی کی نذر کر دیتے ہیں ۔ برگد کے اس جہاندیدہ ، کہنہ سال درخت کی جھکی کمر ، تجریدی آرٹ کے عجب نمونے میں ڈھلی لا تعداد جڑیں ، اب جو خود ایک درخت کے روپ میں ڈھل چکی تھیں ، اسی لئے تو جھکی کمر کے اصل درخت کے گرد جنگل نہیں بلکہ اسرار کا ہالہ کھڑا ہو ا تھا ۔ جب اس نے کہا تھا ،، '' دیکھو ! قدرت نے میرے وجود کو نہ صرف عجیب ہییت دے دی ہے بلکہ اس میں سے دروازے اور کھڑکیاں کھلتی نظر آ رہی ہیں " اس وقت سوچا بھی تھا ، کیا پتہ یہ ایک اور اَن دیکھی دنیا کا دروازہ ہو ۔ کیا پتہ غور کرنے سے کسی کھڑکی سے کسی نئی دنیا کو دیکھ پاتی ،کیا پتہ ؟
بالکل ایسا ہی پیغام ایک "ہوائی سفر "کے دوران ایک افریقی سر زمین نے دیا تھا ۔ جیسے ہی علم ہوا کہ ہم اس وقت ایمزون جنگل کے ساتھ جڑے ممالک کے اوپر سے گزر رہے ہیں ، تو آنکھ چھپکے بغیر یہ منظر اُس وقت تک دیکھتی رہی ، جب تک جنگل کی آخری قطار نہیں گزری ۔ آہ ! اُس کے ایرانی قالین کی طرح کے گُتھے درخت عجب منظر پیش کر رہے تھے ، نیرنگئ قدرت اپنے منفرد رنگ سے سامنے تھی کہ وہاں سبز رنگ کا ہر عکس جھلکیاں دکھا رہا تھا ۔ پہلے ہلکے سبز رنگ کی لہر آئی ، پھر بتدریج گہرا سبز سامنے آیا ، اور اس کے بعد کائی سبز ، جو جنگل کا زیادہ حصہ سمیٹے ہوئے تھا اس کے فوری بعد سمندری سبز اور پھر جہاز کی پرواز کے دوسری جانب کے موڑ تک زمردیں سبز نے دلبہار منظر دکھایا جو یادوں میں آج تک بسا ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ ہر سبز رنگ الگ الگ پیغام دیتا چلا گیا ، " ہمارے راز جاننے ہیں ، تو نیچے اترو ہمارے درمیان آؤ ! ہم اس طرح فضا سے اپنی اصل خوب صورتی نہیں دکھاتے ، تمہیں جاننا بھی چاہیےکیوں کہ ہم تمہاری دنیا کو آکسیجن کا 'چھ فیصد' حصہ دیتے ہیں ۔ اور پچیس فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں ۔ اسی لئے تو ہمیں دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے ۔ یہی علاقہ ہے ، جہاں سینکڑوں قبائل کے ساتھ ساتھ ان گنت جنگلی حیات ، پل بڑھ رہی ہے،ہم پانچ کروڑ سال سے انسان کے لئے حیرت اور ہیبت کا علاقہ بنے ہوئے ہیں " ۔
میں سبھی سبز رنگوں کے پیغامات سے تھک گئی ، آنکھیں بند کیں اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی ، لیکن ابھی سبز رنگ مجھے نہیں چھوڑ رہا تھا ۔ میری آنکھوں کی پُتلیاں سبز ہو چکی تھیں ، میرے منہ کے اندر سبز رنگ کا ذائقہ گھل چکا تھا ، سبز رنگ مسلسل میرے گرد ہالہ بنا کر ہلکورے لے رہا تھا ، اس کے جملوں کی تکرار تھی ، "کبھی دیکھا ہے افریقی لوگوں کو ، بھلے ان میں سے لا تعداد کے آباء دوسرے مغربی ممالک میں جا بسے ہیں لیکن ان میں چند باتیں مشترک ہیں ، وہ چلتے نہیں جھومتے ہیں ، وہ انہی جنگلوں سے اِس فطری عمل کو اپنے خون میں لے کر گئے تھے ۔ ہم افریقی درخت بہت مضبوطی سے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اونچے ہوتے چلے جاتے ہیں ، ہمارے قدموں میں نئی پود پنپ رہی ہوتی ہے ۔ اب یہاں یہ چھوٹے پودے ہوں ، جھاڑیاں ہوں ، یا آسمان کو چھوتے خوب لمبے درخت ہم جھومنا نہیں چھوڑتے ، موسم چاہے جو بھی ہو ، ہمارا ڈال ڈال پات پات جھومتا رہتا ہے ، یہی ہمارا حمد و ثنا کا انداز ہے "۔
تب سوچ کو افریقی خدوخال کے سیاہ رنگ نے متوجہ کیا تو احساس ہو گیا یہ جھوم جھوم کر چلنا ، ان کے جینز میں ودیعت کر دیا گیا ، اب زندگی کا برش مصیبت کے منظر پینٹ کر رہا ہے ، یا خوشی کے چیختے چلاتے رنگوں کی بوچھاڑ دِکھا رہا ہے ۔ افریقی وجود جھوم جھوم کر ہر طرح کے وقت کو گزار رہا ہوتا ہے ، یہی جھومنا اُن کے اعصاب کو شانت رکھتا ہے ۔
مختلف سبز شیڈز کے ایرانی قالین کی طرح گُتھے جنگل نے جاتے جاتے جو پیغام دیا تھا ، اس کی صدا بار بار کانوں میں گونج رہی تھی ۔
" ہم سے ملنے آؤ تو وقت طے کر لینا ، ہم چند گھنٹوں میں گھُل مِل جاتے ہیں ، تم نے انداہ لگایا افریقی سیاہ رنگ کتنے دوستانہ رنگ میں گندھا ہوا ہے "۔
ہزاروں سال سے دنیا کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم احسان جتاتے ہیں ، ؟ تم غور کرنا ، افریقیوں میں بھی آحسان جتانے کی عادت نہیں ملے گی ، ہم سے یہی اُصول سیکھ لو ، خدمت ، صبر اور بے غرضی !
" یہی پیغام قدرت الہیٰ کا ہر مظاہر دے تو رہا ہے ۔ تم غور ہی نہیں کر رہے ۔ آزادی اور خود مختاری کی چاہت رکھتے ہو ، جسمانی آزادی حاصل کر بھی لیتے ہو لیکن اخلاقی آزادی اپنانے کی رفتار کیوں تیز نہیں کرتے ، انسان کو یہ زندگی تو بہت تھوڑی ملی ہے ، اے فانی !!! بس یہی تم براؤن اور کالی قوموں کا المیہ ہے کہ سوچ کی بلند پروازی میں سُست ہو ۔ تم میں موجود گنے چُنے بہادر نہ ہوں تو تم کانوں کے کچے اپنی ہی جاتی کو مارنے لگتے ہو ،، کب سنبھلو گے ؟ ہم درختوں تلے کیسے کیسے ظلم روا نہیں ہوتے ، اگر خالق کا حکم نہ ہوتا تو ہم خود کو ظالموں کے اوپر گرا دیتے "۔

ہاں البتہ ہم نے خوب غربت اور ظلم ہوتے دیکھے ، لیکن افریقی ہوائیں اور ہم درخت فیاضی کو نہیں بھولے ۔ اسی لیے افریقی جہاں ہو مہمان نوازی میں کمی نہیں کرتا ۔ افریقی جنگلات کو خوشحال قومیں تباہ کرنے اور اس کے وسائل پر قبضہ کے لئے بے چین رہتی ہیں ۔ لیکن ہم دیوارِ چین کی طرح ناقابلِ تسخیر ہیں ، یہ ایکا ہی ہمیں بچا رہا ہے کبھی افریقی نسل کے ماضی کو پڑھنا ، غلامی کا کون سا رنگ ہے جو انھوں نے نہیں سہا لیکن صبر سے اپنی قسمت بدلنے میں لگے رہے ۔ سیکھو ، انسانو ں ! سیکھو ۔ خود میں ایکا مضبوط کرو ۔ ہم درختوں سے سیکھو !! ہم ہی تو اِس کائنات کا حُسن ہیں ۔ہمیں برباد ہونے دو اور نہ خود کو برباد کرنے کی کسی کو اجازت دو ۔ تمہارے ہی ایک خوبصورت ذہن کے درویش فطرت ادیب خلیل جبران نے کہا تھا ۔ "درخت نظمیں ہیں جنہیں زمین آسمان پر لکھتی ہے"۔ 

( منیرہ قریشی ، 17 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

اتوار، 14 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپورتاژ۔15)



۔ ( پاکستان کے شہر سرگودھا کے قریب " مڈھ رانجھا " میں برصغیر کے دوم نمبر کے برگد کا درخت ، جو ساڑھے تین ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ اس کے تین یا سات سو سال پرانے تنے ہیں )
باب۔۔ 15
ہر دور میں فطرتِ انسانی نے اَن دیکھی قوت سے ہیبت محسوس کی ، تو دکھائی دینے والی وہ قوت جو حواس میں آجاتی ہو ، انسان اس سے متاثر ہو کر اُس کے سِحر کے حصار میں چلا جاتا اور یوں کبھی سورج ، چاند یا جلتا الاؤ اسے اپنے سے بہت بلند ، قوت والا لگا تو اُسی سے منتیں مانگنے لگا۔ کبھی کسی درخت کی قدامت ،منفرد رنگت ، جسامت ، اونچائی ، لمبائی ، انسان کو اپنی محرومیوں کا مداوا کرتی محسوس ہوتی ، تو وہ اسے اپنی دعاؤں کا مرکز سمجھنے لگتا ۔ ایسے میں درخت مسکراتے ! " یہ فانی بھی کیا چیز ہے ، اپنے عارضی مسائل کا حل فانی سے طلب کر رہا ہے ۔ یہ جسے خالق نے فرشتوں جیسی مخلوق سے علم کی بنیاد پر سجدہ کروایا ، اسے جو فراست بخشی ، کمزور لمحات میں اسی فراست کو بے عقلی کے گڑھے میں دھکیلنے میں دیر نہیں لگاتا ۔ اسی لئے دنیا کے مختلف خطوں میں لاتعداد ایسے درخت ہیں جن کی ٹہنیوں اور تنّوں کے ساتھ دھاگے یا دوپٹے بندھے نظر آئیں گے۔ انہی جگہوں کی یہ روایات وہاں کے عوام کی ذہنی سطح اُجاگر کرتی ہے " ہم درخت چُپکے چُپکے باتیں کرتے ہیں تمہیں ہماری زبان سمجھ نہیں آ سکتی ہم اسے چُپ کی زبان کہتے ہیں ۔ اِسی لئے ہم ہر آنے والے مہمان کے دوست بن جاتے ہیں کہ یہی زبان " احترام " کی زبان بھی ہے" یہ سب سر گوشیاں سرگودھا جاتے ہوئے موٹر وے کنارے ایک سایا دار درخت نے کیں ، جس کی چھاؤں میں چند منٹ بیٹھنا ہوا ۔ میں دل ہی دل میں دنگ رہ گئی کہ اس وقت ہمارا سفر سرگودھا ہی کی طرف تھا .لیکن اسے کیسے پتہ چلا ؟ دھریک کے درخت نے جیسے میرا خیال پڑھ لیا تھا وہ جھوم کر کہنے لگا بے شک ہم کہیں نہیں جاتے ، نہ ہمیں کوئی بتاتا ہے لیکن ہمارے خالق نے ہمیں خیال پڑھنے کی یہ حِس دے رکھی ہے ۔
یہ بھی تو دیکھو ، تم بھی تو ہم سے سوچ کی لہروں سے گفتگو کر لیتی ہو یہ اور بات کہ انسانوں میں ایسا بہت کم نظر آتا ہے ۔ "کبھی پاکستان کے ایک سر سبز شہر" سرگودھا " کے نواحی علاقہ مڈ رانجھا جانا ہوا تو دیکھنا۔ وہاں برگد کا وہ درخت ہے جو ساڑھے تین ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہے ۔ اس کا یہ پھیلاؤ دیکھنے والوں کو سِحرزدہ کر دیتا ہے ۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو وہ پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لئے محسوس ہوتا ہے۔مقامی لوگ اسے سینکڑوں سال ( قریباٍ ًساڑھے تین سو سال اور بعض روایات کے مطابق سات سو سال )پرانا بتاتے ہیں ۔ جسِے کئی سو سال پہلے ایک صُوفی بزرگ مرتضیٰ شاہ یا کچھ روایات کے مطابق بابا روڈے شاہ نے اپنے شاگرد کے ساتھ لگایا تھا ۔اسی کے قریب اپنا ٹھکانہ بنایا ،اسے "بابا روڑے دی بوڑھ"کہا جاتا ہے۔ آج برگد کا یہ درخت اپنی لمبی جَٹوں کے ساتھ اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کے نیچے کئی سو لوگ بیٹھ سکتے ہیں ، یہ اب اپنی ذات میں خود ایک جنگل بن چکا ہے ۔ اس کے تنے پر لوگ اپنے نام پتے لکھ جاتے ہیں ، یہ حرکت دنیا کے اس دوسرے نمبر کے بزرگ درخت کی صحت کے لئے ہرگز ٹھیک نہیں ۔ لیکن نسل انسانی اگر قدر کرے گی تو تباہی کے بعد ہی ، اس وقت فطرت بھی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم کرنے میں دیر نہیں لگائے گی ۔ کاش انسانی معاشرے کچھ مظاہرِ فطرت کو مقدس ہی بنائے رکھیں۔ تب ہی ان کا بچاؤ ہو سکتا ہے ۔ جیسے وسیع سر سبز میدان ، ساحلی صفائی ، پہاڑوں کو کٹائی سے بچانا کہ یہی تو زمین کی میخیں ہیں اور ہر طرح کے جنگلوں کو بچایا جانا ۔ اب یہ بزرگ درخت سب پر اپنا مہربان سایا ڈالے رکھتا ہے ، اسی کی چھاؤں میں بے شمار مویشی آرام سے بیٹھے جگالی کرتے ہیں اور لا تعداد پنکھ پکھیرو لمبے چوڑے خاندان کے ساتھ سکون سے مقیم ہیں۔ صبح شام حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں ۔ درخت اپنی فطرت کے مطابق فیض کا سرچشمہ بنا کھڑا ہے ۔ لیکن جہالت کی غلاظت لیے انسان نہ جانے کچھ حرکات جانوروں سے بھی بد تر کیوں کر جاتا ہے کہ وہی سازشیں، وہی تانے بانے۔
مڈ رانجھا پہنچ کر بزرگ برگد درخت نے ہی بتایا " عمر کے لحاظ سے میرا ایک بڑا بھائی سری لنکا میں ہے ،جسے وہاں کی حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے ،جب کہ ایک چھوٹا بھائی ہندوستان میں ہے ۔ ہم تینوں کا باہمی رابطہ ہواؤں اور پرندوں کے ذریعے مسلسل رہتا ہے ۔ نہ جانے کیوں میں خود کو کچھ مضمحل محسوس کر رہا ہوں ، شاید بے تحاشا پھیلاؤ نے میری قوت مدافعت کم کر دی ہے ، اِسی لئے تھکا تھکا نظر آتا ہوں ، حالانکہ ملائیشین بزرگ درخت ایک ہزار برس سے زیادہ کے ہیں ،جو بہت ترو تازہ ، سرسبز اور سیدھے کھڑے ہیں " ۔
"اب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ میں نہ تن کر سروقد ہو سکتا ہوں ، نہ اجنبی مہمانوں کے اعزاز میں جھوم سکتا ہوں" ۔ لیکن چُپ کی مدھم آواز سے اس کا" جی آیاں نوں" کہنا اور پھر میٹھی مسکراہٹ سے ملائیشین بزرگ درختوں کا احوال پوچھنا ، اس کا یہ انداز دل میں گھَر کر گیا ۔
پودوں کےعلم کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین خان کے مطابق پودوں کو نا پید ہونے سے بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ کسی اہم درخت کو "مقّدس" قرار دے دیا جائے تاکہ لوگ خود اس کا تحفظ کریں لیکن میرے وطن کے لوگ ابھی تربیتِ شعور کے دور سے گزر رہے ہیں ۔
ایک درخت کے لئے کہنہ سالی اس کے گیان اور وجدان میں اضافے کا باعث تو ہوتی ہے ، دوسرا بڑا غم وہی اُس کے سائے تلے سازشیں اور گھناؤنے منصوبے تیار کرنے والی حرکات ، درخت کی صحت ، اور وجدان کو کھوٹا کرتی رہتی ہیں ۔ جانے انسانوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی کہ کراماً کاتبین کے بعد یہ درخت بھی اُن کے اعمال کے عینی شاہد ہیں ۔
برگد کی مڑی تڑی موٹی لیکن بے ترتیب شاخوں نے اُسے تجریدی آرٹ کا نمونہ بنا ڈالا تھا ۔ اوپر سے آتی جڑوں نے نیچے آکر نئے درخت کا رُوپ دھار لیا تھا ، ایسے کہ جیسے دروازے کھڑکیاں سی بن گئی ہوں ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا یہ دروازے اور کھڑکیاں کسی دوسری دنیا میں قدم رکھنے کا باعث بن سکتی ہیں ۔ واقعی آس پاس کی خاموشی اور اِس کے بےمحابا پھیلاؤ کےباعث اس بزرگ درخت کا نرالا سِحر تھا ۔ ہم نے دل سے تکریم کی اور اس کے مختلف تنوں پر ہاتھ پھیرا کہ اب اللہ حافظ کہوں کہ سرگوشی سی اُبھری " تم کتابیں تو پڑھتی ہو کبھی زندگی تمہیں وہاں لے گئی جہاں ہمارا بڑا بھائی سری لنکا کا شہری ہے ، تم میری اور اپنی ملاقات کا ذکر ضرور کرنا ،اُسے ملائیشین بزرگ درختوں کے بارے میں بھی بتانا کہ وہ ہمارے آباء میں سے ہیں ۔ اب جاؤ ! کہ شام ہوتے ہی یہاں کا پُراَسرار سناٹا ، لوگوں کو ہم سے دور رکھتا ہے ، دراصل یہی تھوڑا سا رعب ودبدبہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے لئے سکون ، اور گیان کے اوقات میسّر ہو جاتے ہیں ۔ اللہ کا حکم ہوا تو پھر ملیں گے "۔
(منیرہ قریشی ، 15 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

بدھ، 10 اپریل، 2024

" بس اک خیمے کا سوال ہے " ( فلسطینی بیٹی کے لئے )

" بس اک خیمے کا سوال ہے " ( فلسطینی بیٹی کے لئے )

" بیٹی ! تمہیں کیا چائیے ؟
کھانا چائیے ؟ یا کھلونا ؟
نہ کھانا ، نہ کھلونا ،،،،،!
مجھے بس اِک خیمہ چاہیئے !
جانے میں کتنے دنوں سے نہیں سوئی !
کھلے آسماں تلے اندھیرا ڈراتا ہے
بموں کی سیٹیاں سونے نہیں دیتیں
بے خواب آنکھیں اب نیند بھول گئی ہیں !!
مجھے صرف اک خیمہ چاہئیے ،
جو مجھے باہنوں میں لے لے گا ،،،
گود میں سلائے گا ،،
سہانے خواب دکھائے گا
مجھے کھانا اور کھلونے دلائے گا
خیمہ ،اوجھل کر دے گا
سبھی ویرانیاں
ٹوٹے گھر ، اور بین ڈالتی عورتیں
مجھے کھلونے نہیں چاہئیں
میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟
سب بچے جانے کہاں کھو گئے ہیں؟
یا ، سب ہی بڑے ہو گئے ہیں !
میں نیند ڈھونڈنے نکلی ہوں
میرا ریشہ ریشہ نیند مانگتا ہے
روم روم میٹھی نیند چاہتا یے
کیا، آپ نیند بھی بانٹ رہے ہیں ؟
جناب ، بس اک خیمے کا سوال ہے !!

( منیرہ قریشی 10 اپریل ، یوم عید الفطر ) 

منگل، 9 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)


"خالق کی محبت کے گواہ"
باب۔۔14
انسانی تاریخ میں اگر انسانوں کی ہجرت کا مطالعہ کیا جائے ، تو جنگل اس ہجرت میں انسانوں کے ساتھی بن کر ساتھ دیتے رہے ہیں ، بلکہ جب کبھی کسی برگزیدہ ہستی نے اللہ کے حکم سے کسی ویرانے میں ڈیرہ ڈالا ، کسی درخت کے نیچے ٹھکانہ پکڑا ، لوگ نیکی اور سکون کی تلاش میں آتے گئے اور کارواں بنتا چلا گیا والا حساب ہونے لگا ۔
راجہ سدھارتھ جِسے لوگوں نے مہاتما بدھ کا خطاب دے دیا ،600 سال قبلِ مسیح پیدا ہوا ،,شاہی خاندان کا پروردہ ، نیپال جیسے سر سبز لیکن ایک چھوٹے سے ملک کا مالک ، اصل خوشی ، آگاہی اور اول و آخر کی تلاش میں دنیا تیاگ دی ۔ تو کسی ویرانے میں وہ خوش قسمت درخت انجیر کا تھا جس کے نیچے بیٹھا،جس کی چھاؤں نے اور محبت بھری شعاعوں نے راجہ سدھارتھ کو مہاتما بُدھ بنا دیا کہ " صفائے باطن اور محبتِ خَلق " ہی زندگی کا محاصل سمجھا دیا گیا ۔ اُسی کی تعلیمات کو لے کر اس کے شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے ۔ ایک زمانہ گزرا کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب بُدھ قرار پایا ،اس کے ماننے والوں میں ان کی نمایاں صفت " عاجزی"سمجھی جاتی ہے ، جسے مختلف خطۂ ارض کے انسانوں نے اپنے اپنے انداز میں جذب کیا۔
"مہاتما بُدھ"کی تعلیمات سے متاثر ایک (hwanung ) ہیوانگ نام کا شخص کوریا کی سر زمین پہنچا اور کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک غیر آباد جگہ "صندل " کے درخت کے نیچے بسیرا کیا ۔ اور وہیں ایک عبادت گاہ بنائی ۔ جب مزید کچھ لوگ وہیں آ کر آباد ہونے لگے تو اُس نے اس نئے شہر کو "سنسی( "SINSI" )کا نام دیا یعنی " خدا کا شہر " گویا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے تصور کو درخت سے جوڑے رکھا ،اور اپنے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا جلوہ ، سر سبز درخت کی صورت میں دکھایا جو ایک شعلہ نما روشنی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ میرا رب کتنا حیران کن ہے کہ کہیں نہیں سما سکتا ، سوائے مومن کے دل میں ۔ وہ خود جمال ہے تو اس نے جمیل چیزوں سے اپنے بندوں کے لئے کائنات کو حسین ترین چیزوں سے سجا دیا اور اس فہرست میں آسمان سورج چاند تارے تو ہیں ہی ،زمین کے تارے درخت بنا دئیے ، جو دلوں اور مزاجوں کو ٹھنڈک سے مالا مال کرتے رہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں ،سراپا محبت وہ خود اور سراپا محبت اس کی کائنات ! تشکر ، تشکر ، تشکر !! اے کُن فیکون کے مالک !!
اسی لئے تو میں سمجھتی ہوں درخت شاہد ہوتے ہیں ، الہام کے ، الہامی لمحات کے ، ہر خیر و شَر کی مجالس کے جو ان کے نیچے منعقد کی جاتی ہیں ۔ ، ہر عہد اور بد عہدی کے اور جب وہ سُن سکتے ہیں تو کبھی خالق نے زبان دے ڈالی تو بول بھی پڑیں گے ۔ پھر رازوں اور گواہیوں کا وہ دروازہ کھل سکتا ہے ، جو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہونے کا سماں ہو سکتا ہے ۔ لیکن کائنات کی سب سے ذہین ترین مخلوق" انسان " سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتا کہ اپنی ذلت کے سامان کا ابھی سے کچھ احوال درست کر لوں ۔

( منیرہ قریشی 9 اپریل 2024ء واہ کینٹ) 

اتوار، 7 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں"( رپور تاژ۔13 )

(ریمز بوٹم کی پہاڑی اور اس پر بنا مینار۔ اور اس کے دامن کے درخت ۔۔۔جو انسانوں کی انسانیت سوزی کا گواہ ہے۔)
باب۔۔13
" انسانی فطرت کو خالق نے اپنی فطرت کے رنگ دے کر بھیجا ہے ۔ لیکن یہ بتا دیا گیا کہ منفی قوتوں کا بھی سامنا ہو گا یہ اور بات کہ تم دنیا میں منفی طاقتوں کو پانچ فیصد دیکھو گے ، لیکن کامیابی کی سطح ان طاقتوں کی زیادہ جبکہ مثبت سوچ والے پچانوے فیصد ہو کر بھی بے بسی ، یا کم علمی کی دلدل میں پھنسے ہوں گے " ۔
یہ سارے جملے ایک ادبی محفل کے ذہین شخص نے ادا کیے تومیں ذہنی طور پر اُس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں منفی طاقتوں کا شکار بے بس و مظلوم بے گناہ روحیں صدیوں سے ایک ہی پکار کر رہی ہیں ، " انصاف دو ، انصاف چاہیے انصاف ! ہماری روحوں کو کب سکون ملے گا ؟
"ریمز بوٹم" ،( Rams Bottom)پہاڑی ( ایک برطانوی قصبہ )کی چوٹی پر ایک اونچا ٹاور بنا ہوا ہے۔ اور اُس چوٹی سے لے کر میل بھر کے دائرے میں کوئی درخت نہ تھا ،، البتہ زمین کے قریب آتے آتے درختوں کا گھنّا دائرہ تھا ، جس کے بعد ہی زمینی سطح تک اِکا دُکا خوبصورت گھر تھے ۔ بتایا گیا کہ یہ وہ ٹاور ہے جہاں اُن خواتین و حضرات کو جادوگری کے الزام کے بعد زندہ جلایا جاتا تھا ،جن پر یہ الزام ثابت ہو جاتا تھا اور اوپر کے سبھی درخت کاٹ دئیے گئے ، تاکہ دور نیچے کھڑے لوگ یہ کربناک ، دل دوز سزا دیکھیں اور آج کئی عشروں کے بعد بھی اس چوٹی پر کوئی گھاس تک نہیں اُگتی ، جانے کیوں !!
پہاڑی کے گھیراؤ کے گھنے درخت ہمارے گروپ کو دیکھ کر ٹھٹھک سے گئے ۔ اُن دیہاتی خواتین کی طرح جو شہری خواتین کو دیکھ کر ایک دوسرے کے پیچھے چھپتی ہیں ،کچھ منٹوں کے بعد وہ مطمئن ہو گئے تو اس کے بعد جیسے سبھی درختوں نے بیک وقت بولنا شروع کر دیا ۔
" تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو ؟ جلدی چلی جاؤ یہاں سے ،تمہیں نہیں بتایا گیا ، یہ پہاڑی آسیب زدہ ہے ۔ اس پر بنے مینار کو دیکھا ہے ، جہاں بےگناہ عورتوں سے ذاتی دشمنیاں نکالی جاتیں تاکہ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے ، جھوٹی گواہیاں اکٹھی کی جاتیں اور انہی میں کوئی جوان اور کچھ عمر رسیدہ عورتوں کو جس دن جلایا جاتا تو ہمارے اِس ذخیرے سے پرے لوگ یوں کھڑے ہو جاتے جیسے دلچسپ سٹیج ڈرامہ دکھایا جائے گا ، آہ ! انسان انسانیت کے درجے سے کتنا گِر جاتے تھے ، سزا دینے والے بھی اور دیکھنے والے بھی ۔اِن دل خراش مناظرکے کرب کو اگر کوئی محسوس کر رہا تھا تو یہ ہم درخت ہی تھے ، آہ !ہمارے سینے چھلنی ہو جاتے تھے ، بےگناہوں کی چیخوں سے زمین کانپ رہی ہوتی اور ہم لرز جاتے تھے ۔ مزید گناہ یہ کہ کئی بار ان بےگناہوں کے بچوں کو بھی جلایا جاتا !! چلو سزا دیناتھی تو یکدم گلوٹین کر دیتے ، یا پھانسی چڑھا دیتے ، ایسے تڑپا تڑپا کر مارنا ؟ اور پھر لوگوں کے سامنے ان انسانوں کا تماشا لگایا جانا ؟ جن پر لگے الزام مکمل سچائی پر مبنی بھی نہ ہوتے، یہ سب وہ نا انصافیاں تھیں کہ آج تک سرِ شام اُن سب بےگناہ روحوں کی چیخوں سے یہ علاقہ بین کرنے لگتا ہے ، وہ روحیں آج بھی انصاف مانگتی ہیں ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لئے چیختی چِلاتی چوٹی سے اُترتی ہیں تو ہماری شاخیں انھیں اپنی باہوں میں سمیٹ لیتی ہیں ،تسلی دیتی ہیں ، وہ اُن ظالم انسانوں کی نسلوں سے انتقام لینا چاہتی ہیں ، پہاڑی کے دامن میں رہائش پذیرچاہے کسی بھی خاندان سے ہوں ، ہم انھیں ، اپنے سر سبز پَروں کی چھاؤں تلے گلے لگا لیتے ہیں ۔ روز اُن کی سسکیاں ، اُن کا دکھ سنتے ہیں ! جانے سات سو سال سے یا نو سو سال سے ؟ لیکن اُن پر لگے جھوٹے الزام اور اگر یہ الزام ایک فیصد بھی درست تھے تب بھی کسی کو یہ حق نہیں تھا کہ اتنی ایذا رسانی دی جائے "۔
بوڑھے بزرگ درخت جس کی شاخیں اب مزید جڑوں کے ساتھ زمین میں پیوست تھیں ، اس نے پہلی دفعہ ہمیں اہمیت دی " کتنی عجیب بات ہے کہ جرمنی ، برطانیہ ، بیلجیئم ، اور فرانس اور چند دوسرے ممالک میں جادو گری کے الزام میں جلائے جانے والوں میں چھیاسی(86) فیصد عورتیں تھیں اور بہ مشکل چودہ فی صد مرد ؟ حیرت صد حیرت ! مرد ہی منصف ہوتے اور اپنی صنف کو بچا لے جاتے اور عورت،جو جسمانی طور پر کمزور ، بچوں اور خاندان کی محبت میں غرق ، قابلِ گردن زدنی ٹھہرتی! حالانکہ خالق کائنات نے تو عورت اور مرد کو ذہنی فہم و فراست دینے میں کوئی کمی نہیں کی ۔ عورت رشوت خور ، فرعون صفت مردار گِدھوں کے سامنے چارہ بننے کو تیار نہ ہوتی تو اسے جادو گرنی قرار دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ۔ اُنہی روحوں کی بےگناہی اور منصفوں کی نا انصافیوں کے سبب اس پہاڑی پر سبزے نے اُگنے سے انکار کر دیا ۔ اب ہم ہی اُن آگ میں تپتی روحوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں "۔
بہت ہمت کر کے پہاڑی کی چوٹی پر بنے مینار کی طرف قدم بڑھائے لیکن مینار کے در و دیوار نے اپنی پیشانی سے پشیمانی اور دکھ کے قطرے آنسوؤں کی صورت گرائے اور ہمارے قدم رُک گئے ۔
جہاں دیدہ بزرگ درخت نے کہا " دیکھا کہا تھا نا ، اُس طرف نہ جانا جہاں بے انصافی اور قتل ہوئے ہوں ، وہاں کا ذرہ ذرہ ، اُس نا انصافی کا گواہ بن جاتا ہے اور ایسی جگہ انسانوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاسکتا " ۔
واپسی کے سفر میں سبھی خاموش تھے ۔ اُن سینکڑوں سال پہلے کئے گئے ظالمانہ قتل کے برعکس ، آج کے دور کی عورت کی آسودگی محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی ۔ بزرگ درخت کی بات دل میں کھُب گئی تھی ، قربانی اور ناجائز الزمات لگا کر عورت ہی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ۔کیوں ؟ کبھی "اِنکا تہذیب" میں عورت کو سنوار کر مدہوشی میں زندہ ہی کسی غار میں دفن کر دیا جانا ،کبھی دریائے نیل کو خوش کرنے کے لئے "عورت " کو پیش کیا جاتا رہا۔ حتٰی کہ یونانی خود کو بہت ترقی یافتہ تہذیب گردانتے تھے لیکن کسی جگہ اگر قربانی دینی ہے تو 'عورت ' اور پھر یہ کوشش بھی کہ وہ جوان اورخوبصورت ہو۔اور وہ اپنی گلابی جوانی کے سنہرے دنوں سمیت اگلی دنیا میں پہنچا دی جاتی اور ہمیشہ کے لئے انصاف کی منتظر یومِ محشر کا انتظار کرتی رہتی ۔
ایسی جگہوں سے واپس آکر دل کی اداسی تو بجا ہے لیکن آج کی دنیا کی چکا چوند، روشن قمقموں اور نیون سائن سے سجے بڑے بڑے بِل بورڈ ز اور چڑیوں کی طرح چہکتی آزاد خواتین کو دیکھ کر اِک گونا اطمینان ہوا کہ کم از کم آج صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ یہ اور بات کہ دماغ نے فوری سوال کیا ، اچھا !! کیسے ؟ دیکھا جائے تو عورت کل سب کے سامنے الزام لگا کر سزاوار تھی ، آج اندرون گھر ، سنگ باری کی جاتی ہے ۔ گویا بباطن روز مرتی اور روز جیتی ہے ۔ دنیا میں اس سنگ باری کا تناسب آج بھی وہی کہ عورت چھیاسی فیصد اور مرد چودہ فی صد کی ٹرافی سنبھالے بیٹھا ہے ۔
(منیرہ قریشی 8 اپریل 2024ء واہ کینٹ )