منگل، 1 مئی، 2018

سفرِانگلستان(4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت ، یوکے "(4)۔"
مائرہ ، جوجی اور میں نے آنکھوں سے محبتوں کا اظہار کر لیا تو ،، مائرہ نے مزید وقت ضائع کیۓ بغیر سامان ،، گاڑی تک " ڈھونا " شروع کیا ، بے شک گاڑی ٹیوٹا جیسی کوئی تھی ، لیکن ہمارا سامان بھی خوب تھا ،، دو فولڈنگ گدے ،، تین سوٹ کیسز،، اور دو ذرا بڑے ، دو ذرا چھوٹے بیگز ، ؤغیرہ ، لیکن اس نے بہت مہارت سے سامان سِیٹ کیا اور جب جوجی اگلی سیٹ پر اور میَں پچھلی سیٹ ذرا ٹھس کے بیٹھیں ، تب بھی ہماری گود میں ایک ایک ایسے بیگز تھے کہ جن کے اندر کچھ برتن بھی تھے جن کے ٹوٹنے کا خیال کیا جا رہا تھا، اور اب ہم دونوں " ناک تک سامانوں سامان " ہو گئی تھیں ۔ اس لیۓ ہمیں مانچسٹر کی سڑکوں کی صرف لائٹس نظر آ رہی تھیں ،، اللہ کا نام لے کے مائرہ نے کار سٹارٹ کی ،، کیوں کہ گئیر تک بامشکل بدل رہۓ تھے ۔ قریبا" 45 منٹ کی ڈرائیو کے دوران اس نے جلدی جلدی اگلے دن کی رپورٹ دینی شروع کی کہ " کل نکاح کس جگہ ہے ، یہ کہ ، کتنے لوگ ہوں گے ، اور یہ کہ میَں نے جب اندازہ لگایا کہ آپ لوگ شاید نہ پہنچ سکیں ، ویڈنگ ڈریس نہ پہنچ سکا، تو ایک جوڑا لہنگا سوٹ لے لیا ہے ، اب نکاح کی تقریب میں وہی پہنوں گی ،،اس تقریب کا کھانا ابو کی طرف سے ہے (جو مہینے سے پہنچے ہوۓ تھے ) ۔ " اور یوں مائرہ نے ماہرانہ انداز سے ساری داستان بھی سنا دی ،، اور میں سوچتی رہی ،، شادی سے ایک دن پہلے تک تو ہماری دلہنیں ، "مایوں کے ریسٹ دور " پر ہوتی ہیں ، یا بیوٹی پارلر کے چکر لگ رہے ہوتے ہیں ، لیکن مائرہ انتہائ پریکٹکل بنی کبھی ہوٹلز کی بکنگ اور انتظام کا جائزہ لے رہی تھی ، اور کبھی ہم دور دیس والوں کو وصول کر رہی تھی ، اور یہ سب کام خوش دلی سے ہو رہے تھے ۔ ،،، 11 بجے رات ایک گھر کے سامنے گاڑی رکی ،، ہم دونوں باہر تب ہی نکل سکتی تھیں جب" گود لیۓ گے سامان" کو ہٹایا جاتا، ٹونزوں کے کان باہر کی طرف لگے ہوۓ تھے ، ابھی کار رکی ہی تھی کہ دونوں دروازہ کھول باہر آئیں اور کار کے کھلے دروازے سے ہی اپنی اماں سے چمٹ گئیں ،، اور رونے کا بے مثال سین شروع ہو گیا ۔ شکر ہے کہ انھوں نے چیخیں نہیں ماریں ، ورنہ آس پاس کے لوگ ضرور یا تو خود آجاتے یا پولیس کو اطلاع دے دیتے ۔(: کہ ان پاکستانیوں کو کچھ ہو گیاہے !!!میَں نے کہا پہلے مجھے سامان سے فارغ کرو تب ملوں گی ،، ایمن ، ثمن نے جلدی سے سامان گھر کے اندر پہنچایا ، اور پھر گھر کے اندر دوبارہ ملنے ، اور پیار لینے کے سین ہوۓ ! یہ ایک بالکل ویسا ہی گھر تھا جو انگلش ، قوم ، کی ضروریات کے عین مطابق ہوتے ہیں ،، لیکن اس وقت ایک تنگ ( ہمارے حساب سے ) کاریڈور میں قدم رکھو تو ، فورا" دائیں طرف کا دروازہ ڈرائنگ ڈائنگ کے اچھے بڑے سے کمرے میں داخل ہوئیں ،، اسی کاریڈور کوتین چار فٹ چلو تو اوپر جاتی سیڑھیاں تھیں،یعنی ساڑھے تین بیڈ رومز اوپر تھے ،نیچے اس بڑے لاؤنج کے آخر میں کچن ایک پوڈر روم ، اور ایک سٹور تھا ،،، فی الحال  اوپر جانے سے پہلے ہم اطمینان سے لاؤنج کے بڑے صوفے پر بیٹھ گئیں ، اور ٹونزوں نے ہمیں کھانے کا پوچھا ، تو ہم نے صرف چاۓ اور کچھ بسکٹ کی فرمائش کی ،،، یہ بھی منٹوں میں حاضر کی گئی ،،، لیکن ،،،،،،،،،،،ایک اہم بات یہاں بھول نہ جاؤں ،،،،
چوں کہ ، ایمن ثمن اور مائرو کے پاس دو چھوٹے بیڈ رومز والا اپنا گھر مانچسٹر کے مرکز میں تھا ،، اسی لیۓ کبھی نا کبھی دودیال ، ننھیال میں سے کوئی جاتا تو انہی کے پاس ٹھہرتا ،،، الحمدُ للہ ،، ماں کی ہدایت پر انھوں نے ہر مہمان کو خوشدلی سے رکھا ، چاہے کوئ 15 دن رہا چاہے 5 دن ۔ 
اِن بچیوں کا بچپن میرے بچوں کے ساتھ تو گزرا ہی تھا ، خود میں بھی ان پر " حاوی " تھی ۔ اس لیۓ میرے لیۓ ان کا پیارکچھ فرق سا بھی تھا ،، پہلے تو دونوں فورا" ایک خوبصورت " بُکے " لے آئیں اور پیش کیا ، اور پھر چاکلیٹ کا بہت بڑا ڈبہ پیش ہوا ،، کہ ہم آپ کو ویلکم کہتی ہیں ،،،آپ ہمارے پاس پہلی دفعہ آئیں ہیں ۔ میرے لیے ان کی محبت کا ایسا اظہار تھا جو " غیر پاکستانی " تھا ،،، اسلیۓ مجھے یہ انگلش میڈیم سٹائل بہت اچھا لگا ،، ، ،،،اور جہاں تک ان کی محبت کا فطری پن تھا ،،وہ بندے کو چند دن میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے ،،، اور وہ ہے مہمان کو خوب توجہ دینا ، ! آج کل اسی بات کا رواج کچھ کم ہو گیا ہے ۔
میَں اور جوجی فریش ہو گئیں ، نہانے سے ہم ذیادہ ہی الرٹ ہو گییں۔ اور پہلے چاۓ ، اور پھر کافی نے ہمیں رات ڈیڑھ ، دوبجے تک جگاۓ رکھا۔ ٹونزوں نے اپنے اور دلہن نے اپنے اپنے کپڑے نکال ، اور خوشی کی آوازیں نکالتی رہیں ۔ آخر دو بجے بستروں میں گھسے ! 
بہمشکل فجر کے لیۓ اُٹھیں ،،پڑھی اور پھر سوئیں تو صبح 9 بجے آنکھ کھلی ۔،،،،،، رات تو اندھیرا تھا ، باہر کا منظر تو نظروں سے اوجھل تھا ۔ بیڈ رومز اوپر تھے ، ایک بیڈ روم میرے حصے میں ،، ایک جوجی کے اورایک ایمن ثمن کا تھا اور دلہن کے پاس سنگل بیڈ کا ایک نہایت چھوٹا کمرہ تھا ، جس میں وہ بس دو راتوں کے لیۓ تھی ، عام حالات میں یہ کمرہ شاید سٹور کے طور پر استعمال ہوتا ہو گا ۔ ،، اوپر دو باتھ رومز اور ایک سٹور بھی تھا 
یہ گھر ہم سب کے لیۓ بہت بڑا تھا ، اور یہ صرف شادی کے نکتہء نظر سے 6 ماہ کے لیۓ کراۓ پر لیا گیا تھا ، اور خیال تھا کہ ، دو تین اپنے فیملی ممبرز پہنچ جائیں گے ، جنھیں ٹھہرانا پڑے تو کوئ مسلہ نہیں ہو ،جوجی کا ویزہ نہ لگنے، اور دوبارہ ویزہ کے چکر میں آنے والے مہمانوں کے شیڈول اُپ سِٹ ہو گۓ ،، اور انھوں نے یو کے آنے کا ارادہ چھوڑ دیا ،یہاں اب اِن چھ ماہ سے یہ ہی تینوں بہنیں ، اہنے باپ کے ساتھ ، رہ چکی تھیں تین ماہ گزر چکے تھے ، اور اب تین ماہ رہ گۓ تھے ،،، اور اب ہماری یعنی میری اور جوجی کی پلینگ کیا تھی کہ ہم کتنے مہینے اس میں رہتی ہیں ، کیوں کہ وایزہ تو 6 ماہ کا تھا ،،، لیکن سردیاں بھی نزدیک ہی تھیں ۔ ،،، بہر حال صبح آنکھ کھلی تو دماغ بھی سکون میں تھا ، سفر کی تھکان تو بالکل نہیں تھی ۔ پہلے تو اپنا کمرہ بہت پسند آیا کہ نہایت مناسب سائز ، ایک الماری ، بیڈ سائڈ میزیں ،، آرام دہ بستر ،،، ایک کھڑکی 4بائ 5 کی تھی جو بند تھی ،، صبح پہلا کام یہ کیا کہ کھڑکی کھولی اور ،،،،،،،،،،،،،
میرے سامنے وہ منظر تھا ، جو میَں سارا دن ، ساری عمر دیکھتی رہتی تو بھی نہ اُکتاتی ،، دور تک وادی نظر آرہی تھی ( اوپر کی منزل کا فائدہ ) دور کوئ فارم ہاؤس تھا ،، جس کی ایک حد بندی میں بھیڑیں او ر دوسری فینس کے اندر خچر یا پونییز پھر رہے تھے ۔ صاف ستھرے کم اونچائ کے ٹیلے 
، نظروں کو بھا رہے تھے ۔آسمان کی طرف دیکھا تو ایک عرصے بعد شفاف فضا کا احساس ہوا ، ہوا ہلکی سی ، کسی سمِل کے بغیر ، بادل اتنے تیزی سے رواں دواں جیسے کہیں پہنچنے کی جلدی ہے اور مسلسل کوئ ایک دودھیا لکیر نظر آتی چلی جا رہی تھی ،،، کچھ دیر بعد ہی پتہ چل گیا کی ہوائ جہاز اتنی اونچائ سے گزرتے ہیں کہ ان کا دھواں جم جاتا تھا ، لیکن آواز ہم تک نہیں پہنچتی تھی ۔،اور
نظریں دور سے جب نزدیک کے جائزے پر آکر رکیں تو ،، پتہ چلا اسی گھر کے ساتھ پچھلا لان بھی تھا جو کھڑکی کے عین نیچے تھا ۔ لمبی بے ترتیب گھاس سے بھرا بے توجہی کا منظر پیش کر رہا تھا ، چونکہ گھر کے افراد بھی ، خود مسافر تھے ، کچھ ہی ماہ کے لیۓ وہ مالی کہاں رکھتیں ، اس گھر کے ساتھ دائیں ، بائیں بھی اتنے بڑے گھر تھے جو مکینوں کی سادگی کو 
بھی ظاہر کر رہے تھے ، اس پچھلے لان کے سرے پر 6یا7 کرسمس (ٹریز) )درخت تھے ، جوسارا وقت لہلہا تے رہتے ۔ذرا دائیں جانب بھی مزید بہت بڑا گھر تھا ،،اور اکسٹریم بائیں طرف بھی دو گھر نظر آۓ ۔ یہ سب کچھ ایک "سٹل" " فوٹو کی طرح نظر آیا ۔ صبحیں تو اکثر چمکیلی ہی ہوتی ہیں ،،، لیکن شہروں کے مناظر ، قدرتی مناظر کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے ۔اور ہر ملک اپنے منظرکی خصوصیت پیش کرتا ہی ہے ۔ لیکن دشت ، صحرا ، پہاڑ یا سمندر کنارے کی صبحوں کا اور شام کے مناظر کا تو کوئی جواب ہی نہیں ۔
ملک کے امیر اور غریب ہونے سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ بس منظر صاف ، ستھرا ہو ، اور قدرت کے عناصر موجود ہوں ۔ اس وقت بھی مجھے لگا میَں تصویر دیکھ رہی ہوں ۔ ،،، جبکہ جوجی اور ٹونزوں کے کمروں کی کھڑکیاں دوسری طرف کھلتی تھیں ،، جو گھر کے داخلے کے دروازے کی طرف تھیں ،، اور وہاں اس گھر کی سڑک اور سڑک پار کے گھروں کا منظر تھا ،،،،، اس آرام دہ کمرے ، خوب صورت نظاروں ،، اور خاموشی اور دل کے اندر اِک اطمینان کی کیفیت ،،،، میں تو جھوم رہی تھی ،، اور ہر منظر کے بعد یہ ہی دعا دل سے نکلتی ،، میرے رب میرے ملک کو بھیوہ حکمران عطا کر دے ، جو یہاں کے کونے کونے کو سنوار دیں ، آمین !!۔
جب گھر کی ہر چیز پر نظر ڈالتی نیچے آئی تو ،، ابھی خواتین میں سے کوئی بھی نہ جاگا تھا ۔میَں نے لاؤنج کے آخر میں بہت بڑی کھڑکی تھی ،،کے پردے ہٹاۓ ، اور بے ترتیب لان اور اس کے گرد فینس دیکھنے لگی اسی کھڑکی سے جڑا ڈائیننگ ٹیبل اور کرسیاں تھیں ،، ابھی نہایت دلچسپی سے ہر چیز دیکھ ہی رہی تھی کہ جوجی اورمائرہ آ پہنچیں ،، جوجی نے کہا ،، بس ابھی بچیاں ناشتہ تیار کرتی ہیں ۔ میں نے اس لیونگ روم کی سڑک کی طرف کی کھڑکی کے پردے بھی ہٹاۓ ، میں ہر منظر سے آگاہی چاہ رہی تھی ،، یہ تھا مانچسٹر کا خوبصورت گاؤں " بیک اَپ ,, اور یہ تھا نمبر 27 فیئر فیلڈ , روڈ کا گھر ،،، جس میں ہم نے زندگی کے کچھ دن گزارنے تھے !جس نے آتے ہی مجھے عجیب سی سرخوشی دے ڈالی ،، !۔
( منیرہ قریشی ، یکم مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں