ہفتہ، 31 مارچ، 2018

سفرِتھائی لینڈ(3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 تھائی لینڈ" (3)۔"
ابھی تو سہ پہر ہی ہوئی تھی ،، اپریل کا شروع تھا اور یہاں ابھی موسم قابلِ برداشت تھا ۔ " جم " نے بتایا ہم ایک سیاحوں کی دلچسپی کے گاؤں رکیں گے ،، جو پرانے تھائی گاؤں کی عکاسی اور آگاہی کے لیۓ بنایا گیا ہے ، آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ایک خاموش اور بہت کم آبادی والے علاقے میں پہنچے ۔ ایک جگہ وین رکی ، وہاں کچھ کچا ،، کچھ پکا ، بنا ایک بڑا ہال تھا ،، جس کے ایک طرف کافی بڑی کڑھائی ، ایک تندور ٹائپ چولہے پر دھری تھی۔ بالکل ہمارے ہاں کی طرح ایک بندہ اس کڑھائی میں " کڑچھا " چلاتا جا رہا تھا اور یہاں گنے کے رس سے شکر بنائی جارہی تھی جسے کاغذکی پڑیوں کی صورت گرم گرم حالت میں " چکھایا " جا رہا تھا ،،، اسی ہال کے دوسری سائڈ پر دیسی شکر کے ، اور انکے مطابق " دیسی شہد" کے جار براۓ فروخت رکھے ہوۓ تھے، ہمیں ان سے کوئی دلچسپی نہ ہوئی کہ یہ صرف کمانے کا ذریعہ تھا ،، ورنہ ہماری شکر کی بات ہی الگ ہے ۔ اسی ہال کے پیچھے لے جایا گیا ، یہاں مٹی سے بناۓ گۓ ، گاؤں کے ایک، دو گھر بناۓ گۓ ہیں ، اور کچھ ماضی میں استعمال ہونے والی اشیاء بھی رکھی ہوئی تھیں ، اوپری منزل بھی بنائی گئی تھیں ، البتہ ، یہاں اوپری منزل کے دو کمروں کی چھت کے قریب سوراخ تھے ، پوچھنے پر بتایا گیا کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہی سوراخوں سے پہلے پہل تیروں سے ،، اور اب کچھ جدید ہتھیاروں سے مقابلے کے لیۓ بھی ان سوراخوں سے کام لیا جاتا تھا ، یہ بالکل ہمارے قبائلی گھروں کی طرح کی تعمیرتھی ، اوپری منزل کی طرف جانے کے لیۓ ، سیڑھیاں بھی مٹی سے بنائی گئی تھیں ۔ یہ سب ہم جیسے مشرقی ملک سے تعلق رکھنے والوں کو متاثر نہ کر سکا ،،،لیکن یہاں مغربی سیاحوں کے لیۓ دلچسپی کا سامان تھا ، ہم تو آج بھی "چرخہ" کے اوزار کو کسی نا کسی طور استعمال کر ہی رہے ہیں ،،، ہاں البتہ ، اس شاپ کے بر آمدے میں ہاتھی دانت سے بنی بہت سی چیزوں کا سٹال تھا ، جہاں سے ہم نے اپنے اپنے گھروں کے لیۓ" ایک لائن میں بنے ہاتھی" خریدے ، جو سب کو بہت پسند آۓ ، اور ابھی تک میرے ڈرائنگ روم ،میں تھائی لینڈ کی یاد دلاتے ہیں ۔
لیکن ہم نے جم سے کوئی اظہارِ ناراضگی نہیں کیا کہ یہ کیا ہمارے ہی گاؤں جیسا گاؤں دکھا دیا ،، یہ تواس کے " وزٹ کا پروفیشنل پوائنٹ" تھا جو اس کے خیال میں آج کی جدید دنیا سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے لیۓ دلچسپی کا باعث ہو گا !،، اور اب وہ ہمیں واپسی کے سفر میں ایک اور " لکڑی پر کارونگ " کے شو روم میں لے گئ ،،،، یہ شو روم ، بھی چھوٹے سے جدید ہال پر مبنی تھا ، لیکن ساتھ ہی باہر کی طرف لان کے کچھ ایریا پر مزید چیزیں بھی ڈسپلے کی گئی تھیں ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ، کہ اندر رکھے فرنیچر ، اور دیوار پر لگیں ، تصویری کارونگ ( کھدائی کی گئی لکڑی ، جیسے ہمارے ہاں چنیوٹی کام مشہور ہے ) ، بہت ہی لاجواب اور بہترین کام تھا ۔ خاص طور پر دیوار پر لگی لکڑی کی تصویری کہانی ، نے بہت متاثر کیا ، جس میں بادشاہ ، اسکے درباری ، شکار ، جنگل ، ہتھیار ، سبھی کو خوبصورتی ، اور مہارت سے نمایاں کیا گیا تھا ،، ایسا ہی فن ، ایران میں قالین بافی میں اور ہمارے ہاں گرم نمدوں میں ، "آر " کی کڑھائی سے نمایاں کیا جاتا ہے ، اور پوری تصویری کہانی بیان کی جارہی ہوتی ہے ،،، باہر لان میں پرانے تھائی دور کے غلام، کنیز اور ان کے بچوں کے لکڑی کے مجسمے تھے ، جن کے جسموں پر مفلوک الحالی ، اورچہروں پرمظلومیت کا احساس نمایاں تھا ،، باقی جگہ لکڑی " گیلیوں " کی صورت میں پڑی تھی ،، تاکہ وہ موسموں کی شدت سہنے سے مزید مضبوط ہوتی جاۓ ۔ جوجی اور شاہدہ نے کہانی کی صورت میں دیوار پر لگی تصویر کی بہت سی فوٹو کھینچی، کہ یہ ایک خوبصورت یاد گار چیز تھی ۔ 
اب ہم واپسی کے سفر پرچلیں تو جم نے تجویز دی کہ راستے میں ایک اچھا ریسٹورنٹ ہے وہاں رکنا چاہیں گی ، کیوں کہ وہاں کا کھانا آپ کو پسند آۓ گا ،،، ہم نے ہاں کہا اور آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد یہاں پہنچیں جہاں اوپن ائر میں ایک ایک کیلے کے درخت کچھ فاصلے پر اُگے تھے یا لگاۓ گئے تھے ،،اور ہر درخت کے گرد چار یا چھ چھوٹے سائز کی کرسیاں لگائی گئی تھیں ۔ جم اور ڈرائیور الگ بیٹھے ، اور ان کے لیۓ ان کا آرڈر دیا ، اپنے لیۓ حلال کا پوچھ کر چاول ، تلی مچھلی اور پرانز کا بھی آرڈر دیا چپس تو ہماری ہر آرڈر میں رہے ، کہ ٹونز کو ہر کھانے سے" بو"آتی تھی ، تو وہ کچھ چاول کچھ چپس کو مکس کر کے پیٹ بھر لیتیں ، یہ کھانا اگرچہ بہت ذائقہ دار نہ تھا لیکن پرانز کی وجہ سے مزیدار لگا کہ وہ گریوی میں پکا ہوا سالن تھا ،،، اور جب ہم تھکے ہارے ہوٹل پہنچیں تو رات کے ساڑھے نو تھے ،، رضیہ گھر ہی تھی ، ہم نے کھانے کا بتایا ،کہ کھا  چکے ہیں ،، البتہ قہوہ مل جاۓ ، تو  خانساماں نے قہوہ دیا اور اب وہ رخصت ہوا ، اور رضیہ نے ہماری دن بھر کی روداد سننی شروع کی ، ساتھ دنیا جہان کی پرانی باتیں ، گیارہ بجے تک اپنے بیڈ رومز میں آگئیں ، کہ پھر صبح سات بجے تیاری کرنا تھی ۔ 
( منیرہ قریشی 31 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں