جمعرات، 15 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" ملائیشیا " (4)۔
جب ملائیشیا کا پروگرام ابھی کچا پکا طے پانے والے مراحل میں تھا ، تو ہم ان دنوں اپنے اباجی کے چچاذاد بھائ سے بائ چانس ملنے گئیں ، "جلیل قریشی " چاچا جی ، اباجی کے " فین " میں سے بھی ہیں ، ، ، انھوں نے اپنی نوکری کا زمانہ بھرپور انداز سے گزارا ،اور بچوں کی شادیوں سے فارغ تھے ، اور اب یہ میاں بیوی جن کی محبت کا گراف پہلے دن سے جوں اونچا ہونا شروع ہوا تو ہوتا چلا گیا ، لمحے بھر کے لیۓ بھی اس اونچے ہوتے گراف کو رکا ہوانہیں دیکھا۔اب خوب ملکی اور غیرملکی سیروتفریح کرتے پھر رہے ہیں ،، اور بےفکری کے یہ دن سب سے ذیادہ اچھے ہوتے ہیں جب ، جاب بھی نہیں کرنا ، بچے بھی سیٹل ہیں ،، اور غیرممالک میں بسے لوگ منتوں سے بلا رہے ہوں ، حکیم چاچا ( جلیل چاچاجی کے چھوٹے بھائی انگلینڈ میں دونوں بیٹے آسٹریلیا میں ، اور" مَلے " رشتہ دار ملائیشیا میں ،،، جلیل چاچا جی نے اپنے خاندان ( قریشی) کا شجرہ نسب خود ہی تحقیق کر کے لکھا ، چھپوایا ، اور خاندان کے ہر فرد کو خود دیا ، یہ ایک اہم دستاویز بن چکی ہے ،،، اگلی کتاب بھی اپنے علاقے ٹیکسلا سے متعلق ہے ، جو ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب بھی ہے اور اس کتاب کو فوج کی بیشتر لائبریریوں میں رکھا گیا ہے ،،، بعد میں انھوں نے آسٹریلیا اور ملائیشیا کا سفر نامہ لکھا ، پھر مزید کتب بھی سامنے آئیں ، جن کا ذکر کسی اگلے موقع پر۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ زرخیز سوچ اور دماغ دیا ہے کہ آج 92 سال کی عمر میں بھی لکھنے لکھانے کا کام کرتے چلے جا رہے ہیں ،، ادبی ذوق تو انھیں اپنے ننھیال سے ملا ہے ،، چاچاجی کی والدہ ہمارے آبائی گاؤں کے قریب کے گاؤں سے بیاہ کر آئیں تھیں ، میں نے انھیں اکثر خاندان کی غمی خوشیوں میں دیکھا تھا ،،، وہ دبلی ، لمبی ، صاف رنگ والی بہت ایکٹو خاتون تھیں ۔ وہ عمر کے آخری دن تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتی رہیں ، اور یہ ان کی صحت اور نماز سے ان کے لگاؤ کا اظہاربھی تھا ،، کہ رمضان کی 20 تراویح بھی کھڑے ہو کر پڑھتیں ، جو، جوان خواتین کے لیۓ قدرِ شرمندگی ہوتی ، کہ کچھ تراویح بیٹھ کر پڑھنے کو دل چاہتا ،،،، بات ذرا کہیں اور نکلتی جاۓ گی کہ اس وقت بھی بات انہی کے خاندان کی ہو رہی ہے ، پاکستان بننے سے کئ سال قبل جلیل چاچاجی کے نانا اپنے بھائ کے ساتھ جوانی میں ، روزگار کے سلسلے میں ملائیشیا چلے گۓ تھے ،،، ان کے نانا ہوم سِک ہو گۓ اور کچھ سال گزار کر واپس آگۓ ، جبکہ دوسرے بھائ کا اس سر زمین سے دل لگ گیا تھا ،، وہ وئیں ایک ملائیشین مسلم خاتون سے بیاہ کرکے بَس گۓ ،، چوں کہ ابھی والدین زندہ تھے اس لیۓ ملائیشن دلہن اپنے پاکستانی شوہر کے ساتھ سال دو، سال بعد چکر لگا جاتی ،،، اپنے سسرالی خاندان میں زبان کی بہت مشکل پیش نہیں آئ کہ شوہر نے اپنی بولی پنجابی کچھ نا کچھ سکھا دی تھی۔ گویا اب جلیل چاچا جی کے ماموں ذاد ملائیشین لوگ تھے ،، ان کے بچے بھی کبھی کبھار آتے رہتے ، اور یوں دو ملکوں میں بسی دو نسلوں کے ملنے ملانے کی حد تک رابطے رہے ،،،، اب جب ہمارا وہاں جانے کا ارادہ بنا ،، اور چاچا جی کو پتہ چلا تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہم دونوں میاں بیوی ، جب اپنے دونوں بیٹوں سے ملنے آسٹریلیا گۓ تھے تو واپسی پر ملائیشیا رکے اور یہ 15، 16 دن بہت ہی یادگار گزارے ،، اب وہ ہمیں بھی اِن کریج کرنے لگے کہ ضرور جاؤ ، خوب صورت ملک ہے ،، اور ہمارے اُن رشتہ داروں سے بھی ضرور ملنا ،، وہ خوش ہوں گے وغیرہ وغیرہ !ہم نے ان سے ملائیشین رشتہ دار کا اتاپتا پوچھا تو ، معلوم ہوا ، تازہ معلومات حکیم چاچا جی ( انگلینڈ والے)سے ملیں گی ،، وہ برطانوی شہری ہونے کے باعث اور واہ میں ایک " سرمائ گھر" رکھنے کے باعث سردیوں میں رہنے آتے رہتے ہیں ، اب ان سے رابطہ کیا کہ کوئ لیٹس پتہ معلوم ہو تو انھوں نے نہ صرف ایڈریس لکھ دیا بلکہ ان کا فون نمبربھی دیا ،، نیز انھوں نے ان کے بچوں میں سے عدنان کو فون بھی کر دیا کہ " میری بھتیجیاں آئیں گی ملنے ،، تو انھیں اپنی فیملیز سے ملوانا " ،،،، حکیم چاچا جی نے بتایا کہ عدنان نے ابھی کچھ عرصہ پہلے( 2009 کی بات ہے) انجینئرنگ میں ایم ایس کی ڈگری انگلینڈ سے ہی لی ہے اور وہاں کے قیام کے دوران ہم اکثر ویک اینڈ اکھٹے گزارتے رہے ہیں وغیرہ ،، ،، ،،، ،،،،،،،،،۔
یہ اتنا لمبا پس منظر بتانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ ہم کسی" لوکل خاندان " سے بھی ملیں ، تاکہ ان کے فیملی کلچر کی ذیادہ معلومات مل جائیں گی ۔ اور یوں ،،،، جب ہم ملائیشیا پہنچیں ،، تو تیسرے دن عدنان کو فون ملایا ،، اس نے ذرا اٹکتی انگریزی میں ، ہم سے ہمارا پروگرام پوچھا ، اور بتایا مجھے پاکستان سے دونوں چچاؤں کے فون آگۓ تھے ،،میں آپکو کب لینے آؤں ،
جوجی نے اسے بتایا کہ ہم دو تین دن بعد تم سے رابطہ کریں گے اور تب تمہیں پروگرام بتائیں گے ، ہم ٹیکسی سے آئیں گے ، تم شاہدہ کو راستہ سمجھا دو ،،، اب شاہدہ نے اسے اپنا ایڈریس سمجھایا ،، تو اس نے بتایا ،، میرا آفس آپ کی رہائش کے اور میرے گھر کے درمیان واقع ہے ،، آپ ٹیکسی سے نہ آئیں میَں لینے آ جاؤں گا ،، آپ دو دن بعد فون کر دیں !ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ایک " مَلے" فیملی سے گپ لگے گی ، تو کچھ نئ اور کچھ پرانی باتیں پوچھیں گے ۔
میَں نے ابھی اوپر ذکر کیا تھا کہ ہم نے " ٹون ٹاورز" کی زیارت کر لی اور سیاحتی روزنامچے کا پہلا ٹک مارک لگا لیا ، تو اب یہاں کے کسی شاپنگ مال ، کو دیکھنا چاہا ،،، گۓ دیکھا ، اور بہت متاثر بھی ہوئیں ، لیکن دنیا بھر کے شاپنگ سینٹرز مجھے تو ایک جیسے لگتے ہیں ، یا خریداری کی خواہش نہیں رہی ،، اور اس وقت تک یہ شعبہء عمل ،، وقت اور پیسے کا زیاں لگتا ہے ،،، اس لیۓ میں ان کے لوگوں اور طرز لباس دیکھتی رہی ، کہ حج میں تو یہ ایمبرائیڈڈ عبائیہ میں ہی نظر آئیں تھیں ،،، لیکن یہاں بھی چائینیز ، لڑکیاں کم لباسی میں نظر آئیں ، مَلے لڑکیاں ، کم ازکم کم لباسی میں تو نہیں ،، لیکن جینز اور ٹی شرٹ کے لباس میں اور درمیانی اور بزرگ خواتین ، " ملَے " کے ٹپیکل لباس ، کھلی سی تہبند ٹائپ لنگی ، اور اسی پرنٹ اور کپڑے کی ذرا مناسب لمبی قمیض، اور سر پر سکارف ،، جو مہذب طریقے سے لیا گیا ہوتا ،، 60 فی صد مسلم خواتین نے سر ڈھانپا ہوتا۔ ،یہ بہت مہذب لباس تھا، جبکہ بہت سی خواتین نے جینز ، بشرٹ اور سر کے سکارف کو اپنایا ہوا تھا ۔
ایمن ثمن کے لیۓ یہ پہلا غیر ملکی سفر تھا ، اس لیۓ ان کا ایکسائیڈڈ ہونا قدرتی تھا ۔ ان کی خریداری اس خیال سے بھی تھی کہ اب کچھ ہی عرصے بعد انھیں انگلینڈ ہی سیٹل ہوجانا تھا ۔ میں اور شاہدہ اگلی جگہ کا پروگرام بنا لیتیں ،، اب ہمارا رخ ، ایسے بازار کی طرف تھا ،، جہاں ملائیشیا کے ٹپیکل ، برتن ، کڑھائ والے کپڑے ، اور سجاوٹ کی چیزوں کی طرف تھا جو سوینئر کے طور پر دی جاسکتی تھیں ، یہاں سے البتہ کچھ نا کچھ ضرور خریداری ہوئ کہ اب میرے گھر دو بہوئیں بھی تھیں اور ایک بیٹی بھی ،، چار مختلف عمروں کے " گرینڈ چلڈرن " بھی ،،، یہی پیارے رشتے میری جیب خالی کراتے رہے ،،، اب ہم تھک بھی گئیں ،، شاہدہ بالکل پرفیکٹ میزبان ہے جو ، کوشش کرتی ہے کہ کچھ انوکھا تجربہ ہوتا رہے ،، اس نے جہاں اور اعلانات کر رکھے تھے ، تو ایک یہ بھی تھا کہ " ریڑھی والی ہر چیز چکھی جاۓ گی """ تاکہ ہمیں اس قوم کے کھانے کے ذائقے بارے ، علم ہو جاۓ گا ، یہ تو شکر ہے کہ یہاں حلا ل فوڈ بھی تھا اور صاف ستھرا بھی ،،،اس لیۓ ، کسی قسم کے اندیشے نہ تھے ،، ،، ریڑھیاں ، صاف ستھری اور رنگین تھیں ، ذیادہ تر یہ ریڑھیاں ، خواتین مینج کر رہی تھیں ،یہ ریڑھیاں ایک جگہ ہی فکس تھیں ، وہ انھیں لے کر ادھر ادھر نہیں پھرتی تھیں ۔ان کو ایک سادہ اور دومنزلہ عمارت کے صحن میں لائن سے فکس کیا ہوا تھا ۔ 
شام ہوتے ہی اب ہم واپس گھر کی جانب چلیں ،،، میں نے ذکر کیا تھا کی شاہدہ اور نعیم بھائ کے 13ویں منزل کے گھر کی بالکنی سے ،، میٹرو ٹرین پہلی مرتبہ ہم نے بھی دیکھی ،، اب ہماری واپسی اسی میٹرو ٹرین سے ہونی تھی ،، شاہدہ نے جوجی کو پاس کھڑا کیا کہ اب میں پانچ دن کے لیۓ ہم سب کے ٹکٹ لے لوں گی ، اس طرح ہمیں ہر دفعہ ٹکٹ لینا نہیں پڑے گا اور ٹکٹ کارڈ ، چیکنگ مشین سے ٹچ کر کے سٹیشن کے اندر داخلہ مل جاۓ گا ، اور اسی طرح سٹیشن سے نکلتے وقت بھی مشین سے ٹچ کر کے باہر نکلیں گے ،،، پہلی دفعہ کے تجربے سے میَں تو کنفیوژ سی ہوگئ تھی ۔ لیکن دوسرے دن ، کے آنے جانے نے سب جھجھک دور کر دی ، ۔
( منیرہ قریشی 15 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں