پیر، 26 مارچ، 2018

سفرِلائیشیا(10)۔

 سلسلہ ہاۓ سفر"
 ملائیشیا " (10)۔"
اب عدنان ہاشم کا مکمل گھر جو تین چھوٹے بیڈ رومز پر اور ڈرائنگ ڈائنینگ مشترکہ ، چھوٹا سا کچن ، جو اس چھوٹی فیملی کے لیۓ بہت تھا ، ایک واش روم نچلی اور ایک اوپری منزل پر تھا ننھنے منے لان آگے پیچھے ،،،، یہ سب دن کے اجالے میں نظر آگۓ تھے ، اوپر تو ہم نہیں گئیں ،بچیوں کی زبانی ہی علم ہوا ،،، دراصل یہ بتانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ، عدنان ، نے مکینکل انجیئرنگ میں پی ایچ ڈی کر لی تھی ، اور اس کی بیگم نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ، جس طرح  سے انھوں نے اپنی جاب  کے متعلق بتایا ، تو وہ بہترین تنخواہ لے رہے تھے ، بیگم عدنان نے کچھ عرصہ قبل جاب چھوڑی تھی ، اور اپنا کاروبار شروع کر رکھا تھا ، اور وہ کاروبار تھا ، مختلف " کریموں " کا ،،، خاص طور پر " سکن الرجی " میں جو کریم لگائی جا سکتی ہے ، وہ انھیں بنا کر اپنی پرو ڈکٹ کو ڈاکٹرز ، یا کاسمیٹک سٹورز کو بھیجتی تھی ،، اس کی پہلی جاب یونیورسٹی میں پروفیسر کی تھی ،،لیکن وہ اپنے  نئے  کام سے بہت خوش و مطمئن تھی ۔ وہ ایک صاف رنگت والی ، خوش مزاج اور تیز تیز کام کرنے والی انرجیٹک خاتون تھی ،، اس کا تعلق بدھ مذہب سے تھی لیکن عدنان سے شادی کے بعد مسلم ہو گئی تھی ،،،، یہ بات وہیں موجود خواتین نے بتائی کہ اگر لڑکا غیر مسلم ہے تب بھی اور لڑکی غیرمسلم ہے تو بھی ،،، غیرمسلم ساتھی کو مسلم ہونا پڑے گا ، ورنہ نکاح کی اجازت نہیں ملتی۔ شاید یہ قانون اس لیۓ بنا ہو گا کہ آگے چل کر بچوں کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ؟ 
ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھی آمدن والے لوگوں کے سادہ لباس ، سادہ سجے گھر ، اور سادہ طرزِ زندگی ، دیکھ کر بہت رشک آیا ،، کوئی کروفر نہیں ،شو بازی والی گفتگو نہیں،بلکہ ان میں خواہ مخواہ کی عاجزی بھی نہیں تھی ،،، اور یہ ان کی مزید خوداعتمادی  کا اظہار تھا۔ 
بیگم عدنان ، کی جیٹھانی " نورا " کا تعلق انڈونیشیا سے تھا جو مسلم تھی ، اسی کی بیٹی عریضہ ساتھ آئی ہوئی تھی ، وہ بھی بہت پڑھی لکھی ، بہت ہی ہمبل خاتون تھی ،، اسی نے باتوں باتوں میں "ملائیشین باتک" کا ذکر کیا کہ اس کے شو روم کا اسے پتہ تھا ۔ شاہدہ نے ذکر تو سنا تھا لیکن اسے بھی کوئی معلومات نہ تھیں کہ یہ روایتی کپڑا کہاں سے ملتا ہے ،،،،شاہدہ نے اسے اگلے دن کے لیۓ کہا" کہ اگر وہ ساتھ چلے تو ٹیکسی والوں کو بھی بعض دفعہ مطلوبہ جگہ نہیں ملتی ،،، اس نے فوراً حامی بھر لی ،، فاطمہ جو اِن بھائیوں کی وہ بہن تھی جو ہم سب کے لیۓ " باہمی گفت گو" کا ذریعہ بنی ہوئی تھی ،،، وہ بھی بہت ہی تمیز و ادب ، اور محبت کا مرقع تھی ،،، افسوس میری اس کی ملاقات پاکستان میں کبھی نہ ہو سکی ۔ حالانکہ وہ اکثر پاکستان کا چکر لگاتی رہتی تھی ،، اس دوران اس کی ایک اور بہن " راضیہ ' اپنی 12، 13 سالہ بیٹی کے ساتھ آگئی ، وہ ان سب بہن بھائیوں میں سے نکلتے قد کی تھی ، مسکراتے چہرے کے ساتھ ہم سب سے ملی ، ایک اور فیملی ممبر جو پی ایچ ڈی کے آخری سمسٹر میں تھی ۔ ( یاد نہیں مضمون کون سا تھا )۔ 
ان سب نے پاکستان سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا ،،، اپنے مہاتیر محمد کی تعریفوں کے پل باندھے ،،، اور بتایا کہ اسی نے چند قوانین ایسے بناۓ کہ آج ملائیشیا " ٹرولی ایشیاء" بن گیا ہے ،،، واحد مسلم ملک جس کو امریکا دھمکا کر بات نہیں کر سکتا ،،، مہاتیر نے اپنی قوم کو پڑھائ کی وہ سہولتیں دیں کہ ہر گھر میں ایک دو پی ایچ ڈی ، یا ایم فل کیۓ لوگ موجود ہیں ،،اور ایم اے اور ایم ایس سی تو لگتا تھا ہمارے ہاں ، جس طرح میٹرک یا آٹھ جماعت پاس مل جاتے ہیں ، ایم فِل کے اچھے گریڈ لینے والوں کو دوسرے ملکوں میں پی ایچ ڈی ، کے لیۓسکالر شپ دے کر بھیجا جاتا ہے ، فاطمہ نے آسٹریلیا سے ، عدنان نے یو کے سے اور عدنان کی بیوی نے بیلجیئم یا اٹلی سے ڈاکٹریٹ کیا ہوا تھا ۔ 
باتوں باتوں میں کھانا لگ گیا تو ابتدا ہوئی ،،، ابلے چاول ، اور ایک سالن گریوی والا ، اور روسٹ مرغی تھی جو اتنے چھوٹے سائز کے چار چار ٹکڑوں سے روسٹ ہوئی تھی کہ پہلے ہم سمجھیں تیتر یا بٹیر روسٹ کیۓ گۓ ہیں ، یہ بہت لذیز تھی،،، مچھلی بھی تلی پڑی تھی ،،، لیکن یہ سب ہمارے پاکستانی ذائقے کو نہ پہنچ سکے ۔ البتہ اچار اور چٹنیؤں کی مختلف اقسام سے ان کا آدھا ڈائینگ ٹیبل بھرا ہوا تھا شاہدہ اور جوجی نے ہر چٹنی اور اچار کو چکھا ،، اور وہ مجھے بھی گائیڈ کر دیتیں کہ یہ بھی لو ،، اور وہ بھی چکھو !،، پتہ چلا کہ یہ ان کے کھانوں کا لازم جزو ہوتے ہیں ،، اور مہمان کے سامنے ممکن حد تک جو گھر میں موجود اچار چٹنیاں ہیں یا بناۓ گۓ ہیں رکھے جاتے ہیں۔ کھانے کے بعد قہوے کا دور چلا ،، اور اپنے لاۓ تحائف انھیں پیش کیۓ ، انھوں نے فوراً کھول کر دیکھے اور پسند کیۓ ،،،، لیکن جب سب خواتین نے اپنی دلچسپی کا اظہار ہمارے کپڑوںمیں کیا تو ہم نے ان سے وعدہ کیا کی واپس جا کر آپ کے لیۓ بھجوائیں گی ،،،( اور الحمدُللہ وعدہ پورا کیا ، اور جب اگلی دفعہ شاہدہ کا ملائیشا جانا ہوا تو ہم نے اس کے ہاتھ چار زنانہ جوڑے بھجوا دئیے)۔
بہت محبتوں کے ساتھ شام قریباً رات آٹھ بجے وہاں سے رخصت لی ، اور عدنان ایک مرتبہ پھر چھوڑنے چلا ،، وہ بنیادی طور پر خاموش طبیعت لڑکا تھا ،، ہم بھی ذیادہ بات چیت نہ کر سکیں ، اور ڈیڑھ گھنٹہ خاموشی سے سفر کٹا ،،،، اگلے دن ہمیں نورا کے ساتھ وقت گزارنا تھا ، اسی لیۓ صبح کی تیاری جلدی کی ، ٹیکسی منگوا لی اور چل پڑیں ، نورا کے ساتھ موبائل پر رابطہ تھا ۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ایک بازار کے قریب پہنچے تو نورا کا پیغام ملا کہ اب آپ لوگ فلاں جگہ پہنچیں ، ٹیکسی ڈرائیور چلتا رہا ،اور آخر ایک جگہ نورا کھڑی نظر آئی ،، ان تمام خواتین کا ،پینٹ ، ڈھیلی ڈھالی شرٹ یا بشرٹ جو گھٹنوں سے کچھ اوپر تھیں اور سر سکارف سے ڈھکا ہوا تھا ، ایسے حلیۓ میں تھیں ، جو ساتر کہا جا سکتا ہے ۔ نورا نے مسکرا کر استقبال کیا ۔ اور ٹیکسی فارغ کر دی ،،، چند منٹ چلنے کےبعد ایک بالکل عام سے شو روممیں داخل ہوئیں ،،، یہاں کافی ریک تھے جہاں تھان کی صورت مختلف النوع ڈیزائن اور " بُنت" کے کپڑے اوپر نیچے رکھے تھے ، جیسے ہمارے ہاں ،،، البتہ پتلی کاٹن کے پرنٹ بہت ہی دلکش ، اور خوش رنگ تھے ، اور یہ ہی پرنٹ ہم نے " ملائیشن ائر لائن " کی ائر ہوسٹس کو بھی پہنے دیکھا تھا ،،، یہ پرنٹ اور ڈیزائن ان کے " روایتی " تھے ، جیسے ہمارے ہاں ، اجرک ، یا چُنری ، یا چھیل کے ڈیزائن ،مخصوص ناموں سے پہچانے جاتے ہیں ،اور علاقائی نشان دہی کرتے نظر آتے ہیں ۔ میَں نے اپنی بیٹی اور دونوں بہوؤں کے لیۓ ایک ایک شرٹ لی ،،، اور دو کسی کو تحفے دینے کے لیۓ خرید لیں ،، اسی طرح شاہدہ اور جوجی نے بھی خریداری کی ،، اس شو روم کے پچھلے آدھے حصے میں کپڑوں کے رنگے جانے ، سوکھے ہوۓ کپڑے پر " ٹھپے" لگاۓ جانے کے کارنرز بنے ہوۓ تھے ، جنھیں دیکھ کر احساس ہوا تھوڑے سے فرق کے ساتھ اکثر روایاتی چیزیں ایک جیسے انداز سے بنتی ہیں !!۔
یہ وہ جگہ تھی ، جہاں " باتک" کپڑے کو جاننے اور دلچسپی رکھنے والے ، ہی پہنچ سکتے تھے ۔ نورا کا شکریہ کہ اس نے ہمیں وقت دیا اور اتنی دور ہماری خاطر آئی ،، اسی قسم کی مزید دکانوں پر وہ لے گئی اور کچھ خریداری کے بعد بھوک کا احساس ہو تو ،، نورا نے صاف کہہ دیا یہ لنچ میری طرف سے ہو گا ، ہم تینوں نے بہت انکار کیا ،،لیکن وہ مُصر رہی ، اور وہ ہمیں ایسے ریسٹورنٹ میں لے گئی جس کے اوپری منزل سے گزرنے والی ایک چھوٹی ٹرین کی پٹری نظر آرہی تھی ،، (ہمارے ہوتے ویسے کوئی ٹرین نہیں گزری )۔ اور جب نورا بےچاری نے ہمارے ہی بتاۓ مینؤ کے مطابق ایک ایک ڈش منگائی تو اب ہمارئ لیۓ انھیں کھانا محال ہو گیا ،،، یہ سب بےحد پھیکی ، اور بےذائقہ تھیں ، ہم خواتین نے تو کسی طرح اسے آدھا ، پورا کھا ہی لیا ،، لیکن ٹونز نے آنکھوں آنکھوں میں ہمیں انکار کیا کہ ہم سے نہیں کھایا جا رہا ، تو ہم نے بھی انھیں زور نہیں دیا ،،، خیر نورا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ، الودعی کلمات کہے گۓ ،،، اور رخصت ہوئیں ،،، اب تک ہم مزید پھرنے کی ہمت نہیں کر پا رہیں تھیں ،، واپسی ہم نے میٹرو سے کی ،،، ہر دفعہ میٹرو سے آنا جانا ہوتا ، اور ان کے صاف ستھرے سٹیشنز ، دیکھ کر ، انکے لڑکوں ، مردوں کا ، عورتوں کے ساتھ اکھٹے سفر ،، لیکن کوئی بدتہذیبی نہیں ، دھکے نہیں ،، تمیز کے دائرے میں رہتے ہوۓ یہ مناظر ،،، میرے دل کو ان کے لیۓ تو خوشی اور اطمینان دیتے ،،،لیکن اپنے ملک کا سوچ کر خون کے آنسو رونے کو دل چاہتا ،،، اس لیۓ نہیں کہ میٹرو کیوں نہیں بنی ،،، بلکہ اس لیۓ کہ سفر کے آداب کی آگاہی سے ہم کب میچور ہوں گے ،،، سادگی سے کب آگاہ ہوں گے ،، کب ہم شو آف سے دور ہوں گے !!! صرف تعلیم نے انھیں خوداعتمادی عطا کر دی تھی ،، اور بہت حد تک ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا شعور پیدا ہو چکا تھا ۔ قانون کی حکمرانی نے انھیں باشعور کر دیا تھا ۔
( منیرہ قریشی 26 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں