اتوار، 18 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (6)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
ملائیشیا" (6)۔"
نعیم بھائ کا گھر " تمن جایا " نام کی جگہ پر تھا ، یہ ایک کم آبادی والا صاف ستھرا ، علاقہ تھا اور جس ایریا میں ان کا فلیٹ تھا اور جس کی شاید 20 ،، 21 منزلیں تھیں اس ایریا کے اندر جانے کے لیۓ بیرئر لگایا گیا تھا، جہاں ہر وقت دو مستعد گارڈ موجود رہتے ، تسلی کے بعد ہی اندر جانے دیتے تھے ۔ اندر خوب چوڑی سڑک ایک بڑے دائرے کی صورت میں تھی اور اس قریبا" دو میل کے دائرے میں ایسی دو مزید بلڈنگز تھیں ، جن میں اتنے ہی فلیٹس بنے ہوۓ تھے ،،، دائرے کے اندر مکینوں کے لیۓ بہت بڑا سویمنگ پول ،، پارک ، ایک بڑا سٹور اور ایک کینٹین بھی تھی ، یہ بہت بنیادی اور مناسب سہولتیں تھیں ،،، جو ہر فلیٹس سسٹم کے تحت بنی بلڈنگز میں ہونی چاہییں ۔ 
خیر ، شام کو جب ہم خوب تھکی ماندی پہنچتیں ، تو اول تو باہر ہی سے ہم کھانا کھا کر آتیں ،، ورنہ نان جاتے ہوۓ لے لیتیں اور سالن تو شاہدہ صبح بنا کر جاتی ،،، لیکن نعیم بھائ کی چاۓ انہی کے ہاتھوں کی ضرور پی جاتی ، اور کبھی قہوے کا دور بھی چلتا ۔ وہ روزانہ کچھ تھوڑا بہت ہم سے ہمارا پھرنا یا " سیاحت نامہ " سنتے ،،، لیکن انھیں یا تو ہماری سیر کوئ دلچسپی نہ تھی یا ، انھیں ملائیشیا سے دلچسپی نہیں تھی ،، بس وہ اپنے " معاہدے کے کیۓ کو نبھا رہے تھے "۔ 
اب اگلے دن کے لیۓ شاہدہ نے خبردار کر دیا کہ ہم نے "گینٹنگ سکائی وے" " یا ہائ لینڈز جانا ہے اور یہ پورے دن کا پروگرام ہو گا ،، لہٰذا " سست مہمانِ گرامی" ( یعنی میں ) ذرا پھرتی دکھائیں گے ۔ چناچہ رات کو ہی سب کپڑے استری ہو گۓ ،، ( یہ بھی ایمن ثمن کی ڈیوٹی تھی ، میری نہیں  )صبح نماز کے بعد نہ سونے کا ارادہ کیا ، باری باری تیاری کے بعد گلے میں پرس کراس کیۓ اور چل پڑیں ۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ کوئی معاشرہ جنت کا نمو نہ نہیں ہوتا ، کہ اس میں ذرا بھر بھی مسائل نہ ہو ۔۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ ، خوفناک صورتِ حال ہو ، سارا ملک ، ناقابلِ سفر ہو اور وہاں اکیلی خواتین کا پھرنا ، غیرمحفوظ ہو، کم ازکم اس معاملے ملائیشیا پر امن ملک ہے ہمارا تجربہ بہت مثبت رہا ، ٹیکسی کا سفر ہوا یا میٹرو کا ، یا بس کا ،،، کسی وقت بھی کوئ مسلہ ء، جیسے پرس کا چھینا جانا ، یا پیسے مہارت سے نکال لیۓ جانا ، یا آوازیں کسنا ،،، کوئ بھی برا واقعہ پیش نہیں آیا الحمدُ للہ ۔ حالانکہ ہم روزانہ میٹرو جانے کے لیۓ پہلے ایک خاموش اور کچھ ویران سا راستہ طے کرتیں ، جو صرف 10 یا 8 منٹ کا ہوتا ، پھر بس سٹاپ آتا ، اسی جگہ دو تین منٹ بعد بس آتی اور یہ بس ہمیں میٹرو سٹیشن تک لے جاتی ،،، لیکن ہمیں اللہ نے ہر شَر سے محفوظ رکھا ۔ یہ بھی واضع کر دوں کہ آج جس " گینٹنگ سکائی وے" کی طرف ہمارا رخ تھا وہ بالکل ہمارے ، بھوربن یا پتریاٹہ جیسا پہاڑی علاقہ تھا، اور وہاں تک بس سے قریبا" ایک گھنٹے کا سفر طے ہوا ،،، بہت آرام دہ سفر رہا 15 ،،، 20 منٹ کے بعد ہی خوب صورت ، بہت ہی سر سبز پہاڑیاں شروع ہو گئیں ، ایک گھنٹ تک خوش کن نظارے دیکھتے ہوۓ ، جب " گینٹنگ سکائی وے " پہنچیں ، تو موسم خوشگوار ،تھا ، اور صبح کے 10 بجے تھے۔ اب ہم نے " کیبل کار " میں سوار ہوکر اصل گینٹنگ سکائی وے تک پہنچنا تھا ، اس ایک کیبل کار میں چھ بندے بیٹھ سکتے تھے لیکن ہم پانچ نفوس ہی بیٹھیں ، اور چل پڑیں،،،۔
یہاں اتنی ہی اونچائی تھی ، جتنی پتریاٹہ کی ہے ،شاید اس سے ذیادہ ہو !راستے کی اکسائٹمنٹ بھی تھی ، اور مدت بعد کیبل کار میں بیٹھنے کا لطف بھی ،، کہ حسبِ سابق شاہدہ نے " ہم تم ہوں گے ، جنگل ہو گا ، رقص میں سارا عالم ہو گا " گایا ،، موسم نے بھی ساتھ دیا اور ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی ،،، چونکہ ہم خود ہی اس کیبل کار میں تھیں ، اس لیۓ کوئ " غیر اخلاقی حرکت " محسوس نہ ہوئی ! یہ رائیڈ قریبا"40 منٹ کی تھی ، دُورنیچے وادیوں میں پگڈنڈیاں نظر آرہی تھیں ، بہت سر سبز علاقہ تھا ،، اچانک وہاں نیچے ایک دو شیر ، اور چیتے نظر آۓ لیکن مزید غور سے دیکھا گیا تو پتہ چلا ، بہت مہارت سے ان جانوروں کے مجسمے فکس کیۓ گۓ ہیں ،،، ! کیبل کار نے محفوظ انداز سے ہمیں گینٹنگ سکائی وے سٹیشن پر اتارا ۔ اور ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہوئیں ،،، دکانوں ، کی بہتات ،،، کونا کھدرا انتہائی خوبصورتی سے سجا ہوا ، سجاوٹ ، صرف دکانوں کے اندر یا باہر نہیں تھی بلکہ سامانِ زیست میں بھی کمال تھا ،،، ہر طوح کے کھانے پینے کی دکانیں دینا کی مختلف قومیتیں پھرتی نظر آئیں ۔ یہ گینٹنگ سٹی چند" چائینز النسل ملائیشینز" نے بنایا تھا اور یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر بنایا گیا ہے ، ساری سجاوٹوں پر سُرخ اور ذرد رنگ غالب نظر آیا ،،، اگر ہم دوسرے پہاڑ سے اس سٹی کو دیکھیں تو دور سے یہ ایک بہت بڑے " الاؤ" کامنظر لگے گا ۔ ( یا یہ میری راۓ ہے)یہاں کھانے پینے کی اشیاء تو مہنگی تھیں ہی ،،، سوئنگ رائیڈز تو مزید مہنگی لگیں ،،، لیکن ایمن ثمن نے پھر بھی ایک یادو رائیڈز کا تجربہ کر ہی لیا ،،، ہم نے یہاں سے چھوٹی چھوٹی کافی چیزیں لیں جو تحائف دینے کے لیں ۔ اور یہ اشیاء ہمیں نیچے ملے بازاروں میں نظر نہیں آئیں ،،، پھرنے کے لیۓ یہاں ایک دن کافی ہے لیکن کوئ رہنا چاہے تو ہوٹلز بھی بنے ہوۓ تھے ، ہم نے واپسی کا قصد کیا اور قریبا" شام چھے بجے کیبل کار میں بیٹھیں ،،، اور اس واپسی کے وقت ، نہ صرف ہم مزید خوش تھیں ، بلکہ آس پاس کے بدلے منظر نے ہمیں مبہوت کردیا تھا کہ سورج کی کرنوں نے ذرد رنگ پھینکنا شروع کیا ،،، تو جیسے چاروں طرف کے پہاڑ شوخ زرد روشنی میں نہا گۓ تھے !!! 40 منٹ کی یہ رائیڈ اور پھر بس کے ذریعے واپسی کا ایک ڈیڑھ گھنٹہ،،، تو گویا گھر پہنچے تو رات کے آٹھ بج چکے تھے ،،، اور پھر نعیم بھائی ، اور ان کی چاۓ ، اور ان کےقدرِ "عدم دلچسپی "لیۓ ہمارے سفر سے متعلق چند سوال ،، وہ بھی شاید دل رکھنے کے لیۓ ،، ورنہ وہ ملائیشیا سے کچھ خفا سے تھے ،،، ۔
( منیرہ قریشی 18 مارچ واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں