جمعہ، 30 مارچ، 2018

سفرِتھائی لینڈ(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 تھائی لینڈ" (2)۔"
اب تک شاہدہ،اور نعیم بھائی کے گھر ملائیشیا میں، ہم کافی حد تک اپنی مرضی سے صبح اُٹھتیں ، یا کم ازکم ہماری صبح کا وزٹ 9 یا 10 بجے شروع ہوتا ، اور یہاں ابھی ساڑھے سات بجے تھے کہ ٹورز کمپنی کی وین معہ گائیڈ آچکی تھی ،، اور ہمارے ناشتے اب شروع ہونا تھے ،، بادلِ نا خواستہ ،، ناشتہ کے طور پر صرف پھل پکڑے اور چل پڑیں ،، لیکن اتنے میں کُک نمودار ہوا اور ایک خوب صورت ٹوکری میں ہمارے لیۓ نہ صرف ناشتہ کا کچھ سامان اورکچھ فالتو کھانے پینے کا سامان ، نفاست سے رکھا ہوا ، ہمیں پکڑا دیا ،، ہم فوراً لفٹ سے نیچے پہنچیں ، تو لاؤنج میں جہاں ایک خوبصورت راکری بنی ہوئی تھی ، کے قریب ایک ٹپیکل تھائی خدو خال والی ، دبلی پتلی ، میانے قد کی پینٹ بشرٹ میں ہماری 40 سالہ گائیڈ کھڑی تھی ،، شاہدہ اس سے کل مل چکی تھی ، دونوں نے علیک سلیک کی ، اور اس نے اپنا ایک لمبا سا نام بتایا ، اور پھر کہا " آپ بے ٓشک مجھے " جِم " کہہ لیا کرنا ۔ ہوٹل سے باہر آۓ تو بہت اچھی 10 سیٹرز وین دیکھ کر دل خوش ہو گیا ۔ ڈرائیور نے صرف ہیلو کہا ،، اور اس سے آگے وہ ایک لفظ انگریزی کا نہیں جانتا تھا ، البتہ " جِم " ہمارے مطلب کی حد تک ٹھیک انگریزی جانتی تھی ،،، اس لیۓ گزارہ اچھا ہو جاۓ گا ،، کا تائثر ملا ۔" جِم" نے ہمارا آج کا پروگرام واضح کیا ، کہ ابھی ہم سیدھے " گولڈن بدھا " یا "ایمرلڈ بدھا " محل جائیں گے ، اور پھر وہاں سے مزید آگے ۔، 
جب ہم "گولڈن بدھا " کے محل یا ٹمپل میں پہنچیں تو وہاں گیٹ پر مختلف قومیتوں کے سیاح کا جھمگٹا تھا ،، ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوئیں ،، شروع میں ، چھوٹی بڑی عمارات پر کچھ تھائی اور کچھ انگریزی طرزِ تعمیر کی جھلک تھی ، اور یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انگریزی فوج نے اپنے قیام کے بہت اثرات مرتب کیۓ تھےکہ اتنی اہم عمارت پر بھی تبدیلی نظر آئی ،جو تھائی شاہی خاندان کی رہائش بھی تھی اور ایک طرف عبادت گاہ بھی بنائ گئ تھی ، اس کے ایک چھوٹے سے ہال میں جہاں شوخ سرخ ، سنہری ، اور کالے رنگوں کی خوبصورت آرائش کی گئ تھی ،، یہاں ایک ڈائس تھا ، شاید انکے بڑے پروہت کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی اور اسکے پیچھے ایک 10 فٹ اونچے مینار پر ایک ہموار سطح پر جہاں سرخ ریشمی کپڑا بچھا ہوا تھا ، جو نفاست سے نیچے تک پھیلا ہوا تھا ،، اُسی ہموار سطح پر بدھا کا سبز مجسمہ رکھا ہوا تھا ،، کہا جاتا ہے کہ یہ مجسمہ ایمبرلڈ ( زمرد ) کے ایک ہی ٹکڑے سے بنایا گیا ہے ،، اور اتنا بڑا ایک ہی مکمل ٹکڑا دنیا میں میں اور کہیں نہیں پایا جاتا ۔ اور چونکہ یہ شاہی خاندان کے لۓ عبادت گاہ بھی تھی اس لیۓ ، سنہری رنگ کو نمایاں رکھا گیا تھا جو کسی زمانے میں ، خالص سونے سے سجاوٹ کی جاتی تھی ،، لیکن اب صرف سونے کا پانی چڑھے ہوۓ " پتروں " سے ، سجاوٹ کا کام کیا گیا تھا۔ 
مجھے تو بدھا کے بارے میں یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جہاں جہاں اس کے ماننے والے ہیں ،، وہاں وہاں بسنے والوں نے بدھا کے خدوخال کو اپنے مطابق ڈھال لیا ہے ،، چین ، کوریا ، برما ، یا اب تھائی لینڈ کے بدھا کو دیکھۓ تو وہ کھچی کچھی آنکھوں والا ، ذرا پھولے گالوں والا، اور کچھ بیٹھی ناک کا بدھا بنایاگیا ہے۔
جبکہ ٹیکسلا کے بدھا کے خدوخال ، خوبصورت غزالی آنکھوں اور ترشے ہونٹ ، فراغ ماتھا ، ستواں ناک پر مبنی خطوط پربنے ہوۓ ہیں ، جو مردانہ حسن کا نمونہ نظر آتا ہے ،،، اب ان میں سے کس ملک کے بدھ لوگوں کا تصور کتنا حقیقت کے قریب ہے ، تو یہ اس کے چاہنے والوں پر ہی چھوڑتے ہیں ، لیکن جہاں تک مہاراجہ سدھارت کے علاقے ، اور اس کا اعلیٰ ذات سے تعلق ، اور مہاراجہ کا بیٹا ہونے کا تاریخی پس منظر دیکھا جاۓ تو ٹیکسلا ، کا بدھا ہی حقیقی تصور پیش کرتا ہے ،،، خیر ہم ایمرلڈ بدھا کے گرد براۓ نام ایک سبز ریشمی چادر سی لپٹی دیکھی ،، پوچھنے پر بتایا گیا کہ ، سیزن کے مطابق بدھا کے کپڑے بدلاۓ جاتے ہیں ،،، اور یوں دیکھنے والے کو موسم کی خبر ہو جاتی ہے ۔ اس عبادت گاہ کے باہر کافی بڑے مختلف مجسمے بنے ہوۓ تھے ،، ان میں ذیادہ تر انہی کے روایتی ، ڈریگنز کی تھی ، سارا قلعہ بہت صاف ، اور خوب دیکھ بھال سے سنبھالا ہوا تھا ،، اس میں فوٹو گرافی کی مکمل اجازت تھی ۔ یہاں خوب کونا کھدرا دیکھا ، اور ڈیڑھ گھنٹے میں پھر واپس گیٹ سے باہر آئیں تو اس محل کے بالکل قریب ، کچھ سوینئرز کی دکانیں تھیں ، اور اِن دکانوں سے چھوٹے ، بڑے ہاتھی کی کڑھائی شدہ فریم یا بغیر فریم تصاویر بک رہی تھیں ۔ جو کپڑے پر کی گئی تھی ، یعنی کاغذ پر پینٹنگ الگ کی گئی تھی ، اور ہاتھی اس قوم کا قومی نشان ہے کہ ، " کی چینز " یا لکڑی کے خوبصورت زیورات رکھنے والی ڈبیاں ،، ہر چیز پر ہاتھی کی موجودگی ضرور تھی ،!ابھی اس خریداری کی مصروفیت سے ہٹے ہی تھے کہ سڑک کے دوسری طرف نظر گئی ،، ایک چھوٹی سی باڑ کے پیچھے خاصا بڑا قبرستان نظر آیا ،، جو صفائی اور دیکھ بھال کا مظہر تھا ۔ اب علم ہوا یہ قبرستان ، ان برٹش فوجیوں کا تھا جو ، دوسری جنگِ عظیم میں یہاں قبضہ کرنے کی خاطر ٹھہرے ، اور بعد میں جاپانیوں کے قبضہ کے بعد ، ان کے قیدی بن گۓ ۔ اور اپنے اپنے حصے کے سانس ، لے کر رزق کھا کر ، پرائی زمین کی مٹی میں رَل مل گۓ ، کہ کاتبَ تقدیر نے یہ ہی لکھا ہوا تھا ،،،،، میَں ہمیشہ ایسی قبروں کو دیکھ کر دیر تک انہی کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں کہ ، کہاں پیدا ہوۓ کہاں پلے بڑھے ، اور اپنی اپنی قبروں کو ساتھ لے کر اُسی سر زمین پر پہنچ گۓ جہاں ، انھوں نے قیامت تک کے لیۓ مستقل ٹھکانہ پکڑنا تھا ۔،،، ایسے ہی مسلم افواج اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور ، آۓ ، چھاۓ ، اور اپنے حصے کے کام نبٹا کر ،،، اجنبی سر زمین کی مٹی کو اوڑھ کر ، سوۓ کہ اب اپنوں سے قیامت ہی کو ملیں گے ،، یہ دوری ، اور پھر حسرت ناک دوری ،، کتنی اذیت دیتی ہوگی ۔ اب اس برٹش فوجی قبرستان پر قریب ہوکر نظر ڈالی ،، تو ان فوجیوں کی قبروں کے کتبوں پر انکے نام ، عہدے اور عمریں درج تھیں ،، کسی کی عمر 20 سال ، کہیں 30 سال ، کہیں 25 سال کے جسم روپوش تھا معہ خوابوں کے !!!آج اِن قبروں میں سے اِکا دُکا پر پھول بھی رکھے نظر آۓ ،،،،،،،،،،۔
( منیرہ قریشی 30 مارچ واہ کینٹ ) ( جاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں