بدھ، 21 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (7)۔

" سلسلہ ہاۓسفر"
 ملائیشیا" (7)۔"
جیسا میں پہلے لکھا کہ ملائیشیاکی پہلی صبح شاہدہ نے ہمیں  روایتی پاکستانی ناشتہ کرایا ، لیکن اگلے دن ہم سب کو نزدیکی ایسے "ڈھابے " میں لے گئی جہاں جا کر دل خوش ہو گیا ،،، ہم شاہدہ کے گھر سے لفٹ میں بیٹھے اور چند سیکنڈ میں نیچے پہنچے ،، ایک بڑے کار پورچ سے گزر کر جب گیٹ بیرئر کی طرف سے باہر نکلھے اور چند منٹ کی واک کی اور ساتھ ہی ایک ڈھلوان راستے پر مزید 10 منٹ تک چلیں ،،اور چھپر نما کچھ کچا کچھ پکا بنا یہ ریسٹورنت ، ہمیں بہت دلچسپ لگا ,بالکل پاکستانی طرز کا بڑا سا ڈھابہ تھا ،،، یہ ایک مزدور یا بہت ہی مصروف کم آمدن افراد کے لیۓ بہت ہی سستا ڈھابہ تھا ۔ دراصل شاہدہ ہمیں ، ان چند دنوں میں بہت سے تجربات سے آگاہی کروانا چاہتی تھی ،،،کیوں کہ اسی طرح ایک اجنبی سر زمین کی مختلف سمتوں کے نظارے کیۓ جا سکتے ہیں ۔ یہاں مَیں نے اور جوجی اور بچیوں نے پہلی مرتبہ " دوسا " کھایا ،،، باقی تو سالن کا ذائقہ ویسا ہی تھا جیسے ہمارے ہاں کا ۔،،، اسی ڈھابے کے باہر " مچھلی" کے مختلف بڑے چھوٹے ، جار پڑے تھے ، جن میں ہر طرح کی مچھلیاں ، بکنے کے لیۓ تیار تھیں ، تاکہ اگر پکوانا ہے تو اسی ڈھابے سے پکوا سکتے ہیں ۔ یہاں چھوٹے آکٹوپس بھی بِک رہے تھے ،،، خیر یہ ہمارے لیۓ نیا تجربہ رہا ،،، واپس گھر آۓ ، اور آج چھٹا دن تھا جب ہم نے " سیل " شو دیکھنے جانا تھا مزید ایک مینا بازار اور شاہی مسجد کی طرف جانا تھا ،،، اس لیۓ تیاری پکڑی ،،، اور سب سے پہلے سیل شو دیکھنے کا وقت ہوا چاہتا تھا ،، ساڑھے گیارہ تک شو شروع ہونا تھا ، جب ہم پہنچیں ،،، اور یہاں بھی ایسا ہی شو دکھایا گیا کہ ،،، اگر جانور گندگی نہیں پسند کرتا اور مختلف ریہپرز اٹھا اٹھا کر ڈسٹ بِن میں ڈالتا ہے تو انسان کیوں نہیں سمجھتا اور سیکھتا ،،، ایسے شوز ہمارے ملکی میں تو چپے چپے پر ہونے چاہییں ،، شاید ملک و قوم میں سدھار آجاۓ ۔ 
دو سیل نے بچوں اور بڑوں کو گھنٹہ بھر مصروف رکھا اور پھر ہم سیدھے شاہی خاندان میں سے کسی سلطان کی بنائ انتہائ خوبصورت مسجد دیکھنے گۓ ،یہ ایک ایسے چوڑے دریا کے اوپر بنے پُل کے بعد بنائ گئ تھے ،، جس کی حدود کسی وقت اس الگ ریاست کی بھی حدود رہی تھی ،،، یہاں بھی تصویر کشی ہوئ اور خاص طور پریہاں کسی اشتہار کی شوٹنگ بھی دیکھنے کو ملی اور یہ بھی کہ نۓ نویلے دلہا دلہن بھی فوٹو شوٹ کے لیۓ پھر رہے تھے ،،، ہمیں ہر چیز انوکھی لگی ،،، کہ ملائیشن دلہن نے بہر حال َ شادی میں انگلش ڈریس پہنا ہوا تھا ۔ 
اب تک دوپہر گزرنے والی تھی جب نزدیکی پارک میں ،،، " گھریلو صنعت کاری " کے فروغ کے لیۓ لگاۓ گۓ مینا بازار جیسے بازار پہنچیں ،، اور پتہ چلا علاقے کا ناظمِ اعلیٰ نے افتتاح کیا ہے اور وہ ہر سٹال پر خصوصی چکر لگا رہا تھا ، ہم نے بھی نہ صرف سب سٹال دیکھے بلکہ یہاں سے کافی چیزیں خریدیں کیوں کہ وہ سب ہوم میڈ اور سستی بھی تھیں ،،، ان میں چھوٹے سائز کے کچھوؤں کے اوپری خول سے بنے " پرس بھی " تھے ۔ ہر چیز میں نفاست ، اور خوش رنگی تھی ،،،،جو ان سادہ لباس اور مزاج خواتین ۔ کے ذوق کا پتہ دے رہی تھیں ،،، کھانے پینے کے سٹال کے علاوہ ایک جگہ " پینسل سکیچ " بنانے والا آرٹسٹ بیٹھا تھا ،، جو ایمن ثمن کی دلچسپی کا باعث ہوا ، اور اس سے ان دونوں کے سکیچز بنواۓ ،،، وہ درمیانی عمر کا آرٹسٹ بہت خوش ہوا کہ نہایت معمولی فرق سے دو ایک جیسے چہرے بناۓ !! اسے ادائیگی کر کے سیدھے ایک ریسٹونٹ میں جا بیٹھیں ،،، اور ہم نے " مَلے کھانا " کھایا ،،،، ! یہ تجربہ ہم نے جگہ جگہ کیا لیکن ،، افسوس کہ کوئ بھی ڈش پاکستانی ذائقے کو شکست نہ دے سکی ، اور ہم پاکستانی کھانوں کے مقابلے میں 10 میں سے 5یا 7 نمبر دے کر اُٹھ جاتیں ،، کھایا ضرور ، کہ کھانا ، ستھرا اور حلال ہوتا ،،، نیز گرم اور تازہ بھی ،،!اس دن ہمیں کافی وقت ملا ،،، اسلیۓ چائینز بازار چل پڑیں ،، تاکہ یہ علاقہ بھی دیکھ لیا جاۓ ، چائینیز النسل یہاں مسلم آبادی کے بعد سب سے ذیادہ آبادی ہے ،، اور پھر اس کے بعد باقی ہندو ، سکھ اور عیسائ مذہب کے ماننے والوں کی مشترکہ " پرسنٹیج " ہے ،،، چائینیز النسل کا، کافی بڑا طبقہ خوشحال ہے ، اسی لیۓ ان میں ایک خاص خود اعتمادی دیکھی ، یہ کاروبار پر جمے نظر آۓ ،،، ہم جس بازار میں گئیں ، یہاں ذیادہ تر ایکسپورٹ کے مال سے لدی دکانیں تھیں ، ، ایمن ثمن نے ، انگلینڈ کے موسم کے مطابق کچھ کپڑے ، کچھ جوتے لیۓ ،، اور باقی وقت میں ونڈو شاپنگ کرتے ہوۓ ہی شام ہونے لگی اور ہم واپس گھر کو روانہ ہو گئیں ۔ ملائیشیا ، کے شہر کولالمپور کو ہم ان چند دنوں میں ذیادہ سے ذیادہ " بہ نظرِ غائر" ہی سہی ، لیکن دیکھ لینا چاہتی تھیں ۔ کبھی شمال ، کبھی جنوب ،  ۔
( منیرہ قریشی ، 21 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں