ہفتہ، 24 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(9)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
( ملائیشیا " (9"
جب ہمارا آٹھواں دن خوب آرام ، اور اپنے اب تک کے سفر ملائیشیا کی کارکردگی پر نظر ثانی پر گزرا ،، کسی کسی وقت میَں ان دنوں کی خاص باتوں کو ایک چھوٹی سی ڈائری میں لکھ لیتی تھی ۔ اس میں چند اور باتیں نوٹ کیں ،، اور آج اپنے رشتہ داروں کے " مَلے رشتہ داروں" میں سے جس کا موبائل نمبر ہمارے پاس تھا ، وہ ملایا تو ،جلیل چاچا جی کا رشتہ دار " عدنان ہاشم " نے ہیلو کہا ،،،، اب جوجی نے اپنا تعارف کرایا ،،، اس نے ہمبل طریقے سے لیکن صاف گوئ سے پوچھا ،، آپ کہاں ٹھہری ہوئیں ہیں ؟ اور آپ کو کل کون سا وقت مناسب لگ رہا ہے تاکہ ہم مل لیں ،، ورنہ اس کے بعد میَں ذرا مصروف ہوں وغیرہ ! " ،،، یہ ساری گفتگو انگریزی زبان میں ہوئ ۔ باقی بات چیت کے لیۓ جوجی نے شاہدہ کو موبائل پکڑایا ، اسی نے اپنا اتہ پتہ بتایا، تو عدنان نے کہا کہ میرا آفس ،، آپ کی رہائش اور میرے گھر کے درمیانی فاصلے پر ہے ،، مجھے آپ کے پاس آنے میں 20 منٹ لگیں گے لیکن میَں آپ لوگوں کو لینے آجاؤں گا " آپ کل 12 بجے تک تیار رہیۓ گا ، تاکہ وقت ضائع نہ ہو " ! ہم نے نہ صرف اگلے دن کے ملبوسات نکالے ، بلکہ ان کے لۓ پاکستان سے لاۓ گۓ تحائف بھی پیک کیۓ ! ہمیں وہاں تین فیملیز سے ملنے کی امید تھی ،،، ایک تو یہی عدنان ہاشم ،، دوسرا بھائی صابری ہاشم ، اور تیسری ان دونوں کی بہن " فاطمہ ہاشم " ! اور فی الحال انہی تینوں کے بارے میں پتہ تھا کہ یہ تینوں تو ضرور ملیں گے۔
اگلا دن ہم سب کے لیۓ بہرحال اس لحاظ سے پرُجوش تھا کہ ایک " مَلے خاندان " کے ساتھ ملنا اور کچھ دیر ان کے گھر ٹھہرنا ہو گا ،، مزید ان کی روایات اور رسوم کا علم ہو گا ،! 11 بجے تک ہم سب پوری تیاری کے ساتھ تیار تھیں ، شاہدہ نے اپنی طرف سے ایک مٹھائی کا ڈبہ لے لیا تھا ،، پونے بارہ ہی ، دروازے کی گھنٹی بجی اور ایک دبلے ، لمبے ، صاف رنگت والے آدمی کی آمد ہوئی ،، اس نے سلام کے بعد بتایا میَں عدنان ہوں !سلام دعا ہوئی ، احترام کے ساتھ اسے ڈرائنگ روم میں کچھ دیر بٹھایا اور شاہدہ نے فوراًکولڈ ڈرنک پیش کر دی ، وہ اتنا سنجیدہ مزاج تھا کہ مسکراہٹ نام کی چیز اسکے چہرے پر نہ دیکھی ۔ وہ ہم تینوں سے عمر میں چھوٹا تھا ،، لیکن اس نے شاید ہمارے بڑے ہونے کا کریڈٹ ہمیں دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ، خیر ٹھیک 12 بجے ہم سب اسکی " سوک" کار میں عازمِ سفر ہوۓ ،، راستے میں اس نے صرف چند جملے بولے ، " جلیل قریشی صاحب کی آپ کے ساتھ کیا رشتہ داری بنتی ہے ؟ آپ ان تینوں بھائیوں ( جلیل چاچا جی ، حکیم چچا اور حلیم چچا )سے کتنے فاصلے پر رہائش پزیر ہیں ، اگر آپ ملائیشیا پہلی مرتبہ آئیں ہیں تو کہاں کہاں سیر کی !! وغیرہ اور پھر " شاہ عالم " کا علاقہ آنے تک قریباً 40 منٹ لگے لیکن ، باقی سفر خاموشی میں کٹا ۔ 
" شاہ عالم " کی نیلی مسجد ، یا " بلو موسق" پر کار جا رُکی ، عدنان نے خود ہی کہا ، یہ مسجد یہاں کی ہی نہیں پورے ملائیشیا کی مشہور مسجد ہے ، آپ ابھی دیکھ لیں ، کیوں کہ یہ واپسی کے راستے میں نہیں آۓ گی ،، کوئی شک نہیں ، ، ، دنیا کی ہر مسجد کا ایک اپنا اثر ہوتا ہے ،،،،، چاہے وہ مسجد قدیم ہو یا جدید ،، بنی سنوری ہو یا نہایت سادہ ،، کچھ ویران سی ہو یا بہت آباد ،،، اس کی ایک اپنی زبان ہوتی ہے ،،، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہوتی ہے !!!اور یہاں نیلی مسجد ،، نے تو خود ہمیں " حسَین ،نیلے ، ٹھنڈے ، رنگ اور احساس میں بھگو ڈالا ، ، ایکڑوں میں پھیلا سبزہ زار ، کے عین درمیان پُرشکوہ ، نیلی مسجد تھی ،، ابھی دوپہر کی نماز کا وقت رہتا تھا ،، خاموشی اور سکوت کا ایک اور ہی رعب ہوتا ہے ،، جو دل کو محبت بھرا ، غم دینے لگتا ہے ، میرے احساسات تو ایسے ہی تھے ،ساری مسجد ، کی بناوٹ ، سجاوٹ میں نیلا ، سفید اور کہیں گرے رنگ تھا ،، ساری مسجد میں سادے نیلے قالین بچھے تھے، اندر داخل ہوتے ہی ایک کاؤنٹر تھا ، جہاں دو خواتین اور ایک مرد ڈیوٹی پر تھے ، انھوں نے ہمیں مسجد سے متعلق ، قدرے کمزور انگریزی میں معلومات دیں اور ساتھ بروشرز بھی دیۓ ، ایک خاتون مسجد کی مزید جگہیں دکھانے ساتھ چلیں ، اور ہم نے کونا کھدرا محبتوں سے دیکھا ۔ اور وُضو تو کیا ہوا تھا ، دو نفل اور ظہر کی قصر نماز پڑھ لی ،، اس دوران عدنان نے بھی مسجد کےمردوں کی سائڈ پر نماز پڑھی ہو گی ، کیوں کہ اس کی پینٹ کے پائنچے الٹے ہوۓ تھے ،، اس نے نہایت سنجیدگی سے ہمارے کیمرے سے ہماری تصاویر ، نیلی مسجد کے پس منظر سمیت کھینچیں ،،، ہم نے مسجد کی نگراں خواتین سے چند " کی چینز " یادگار کے طور پر خریدیں ۔ 
اب چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد ایک عام سے گھریلو اشیاء اور کھانے پینے کی چیزوں والے بازار میں رکے ، جہاں کے ایک ہوٹیل سے عدانان نے ایک پیکٹ وصولا ،، اور پھر مزید چند منٹ کے بعد ایک ایسی سڑک پر جہاں بنگلے نما گھر بنے ہوۓ تھے ، کار رُکی اور اب ہم بہت چھوٹے سے سبز لان سے گزر کر بر آمدے میں پہنچیں ،، بر آمدے میں پہلے سے چند جوڑے جوتوں کے نظر آۓ ،، عدنان نے اپنے سپاٹ لہجے میں بتایا ،، ہم لوگ جوتے باہر اتا ر دیتے ہیں ، ہم نے بھی فورا" جوتے اتارے اور سب سے پہلے " فاطمہ " نظر آئ ، اس نے پُر جوش انداز سے گلے لگایا ،، اور بہت ٹوٹی پھوٹی اردو میں بھی چند جملے بولے ، ( کیوں کہ وہ سال دو سال میں پاکستان کا چکر لگایا کرتی ہے ) ، اب دروازے پر عدنان کی پیاری سی بہت سمارٹ بیوی ،میکسی پہنے اور گلے میں سکارف لٹکاۓ سامنے آئی ،، سب خواتین گلے ملتی رہیں اور اب ہمیں ڈرائنگ روم ،( جو ان کا لاؤنج بھی ہوتا تھا )، میں بٹھایا ، تو ایک اور خاتون جو مختصر قد و قامت ، کی سکارف ، بشرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھی اپنی بیٹی 16، 15 سالہ بیٹی کے ساتھ، داخل ہوئی،یہ عدنان کی دوسری بھابھی " نورا "تھی اور ساتھ اس کی بیٹی : عریضہ"یا عریسہ )تھی ، بھابھی تو ہم سے گلے ملی لیکن بیٹی نے ہم بڑوں کے دایاں ہاتھ پکڑ کر پشت پر پیار کیا ،، عدنان کی اپنی بیٹی " حنا " بھی جب ملی تو اس نے بھی ہمارے ہاتھوں کی پشت پر پیار کیا ،، آج کے جدید دور میں ، بڑوں کے ادب کے طور پر نئی نسل کی طرف سے اس پیاری روایا ت کو برقرا ر رکھتے دیکھ کر دل خوش ہو گیا ،، حالانکہ ہمارے ہاں بھی یہ رواج ہے ، لیکن پاکستان میں "بہت بزرگ" کے ہاتھ پر پیار کیا جاتا ہے یا،خواتین ، اپنے سے کچھ چھوٹے رشتہ دار لڑکوں ، مردوں کے ہاتھ پر پیار دیتی ہیں۔ملنا ملانا ، جاری تھا کہ دو باپ بیٹا داخل ہوۓ،اور یہ" غلام ہاشم" ( فاطمہ وغیرہ کا ایک اور بھائی )۔اور اس کا نوجون بیٹا تھے ، ،، تعارف کا فریضہ فاطمہ نے اُٹھایا ،، کہ سب سے بہترین انگریزی اسی کی تھی ، اس نے انگریزی میں آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ۔ باقی کچھ اٹک کر گزارا کر لیتے تھے ۔،،، انکو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم میں سے سہیلی کون سی ہے اور رشتہ دار کون سے ہیں کیوں کہ ہم سب پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ،، باری باری نام اور رشتہ کی وضاحت ہوئ ۔ اسی دوران ایک اور جوڑا داخل ہوا ، یہ " عدنان وغیرہ کے سب سے بڑے بھائ صابری ہاشم تھے ، جو خود بھی اور ان کی بیگم بھی جنرلسٹ بھی تھے اور " ملائیشین نیوز " کے ایڈیٹر بھی تھے ۔ یہ عدنان اور اس کی چائینیز النسل مسلم بیوی کا بڑاپن تھا اور عقل مندی بھی کہ ، ایک ہی جگہ سب بہن بھائیؤں کو اکٹھا کر لیا ،، اور ہماری ملاقات ان سب بہن بھائیوں سے ہو گئ ، جو کوالالمپور میں عدنان کے گھر کے قریب رہتے تھے ،، ان سب بہن بھائیوں کی والدہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتی تھیں ،، جہاں ٹرین سے 4 گھنٹے جانے کا فاصلہ تھا ،، ! تعارف پر پتہ چلا ، یہ 6 بھائی اور 4 بہنیں ہیں ، ان میں سے دو بھائی اور دو بہنیں پی ایچ ڈی ،، اور دو بھابھیاں بھی پی ایچ ڈی تھیں ،،، یہ سن کرہم سب " حیرت " میں گم ہو گئیں ،،،، اور ذرا اپنے پر غور بھی کیا ۔ کہ کیوں پاکستانی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتے۔ 
ایمن ثمن ، کو حنا اور عریسہ اوپری منزل پر بنے اپنے کمرے میں لے گئیں ۔ بعد میں ایمن ثمن نے بتایا کہ ان دونوں لڑکیوں نے بےتکلفانہ بات چیت کی اور اسی میں کہہ دیا " ہماری خواہش ہے کہ ہماری شادی کسی پاکستانی لڑکے سے ہو ، وہ خوب صورت ہوتے ہیں ؛ ، اور یہ کہ کاش ایسا ہو سکتا ۔ یہ سن کردعا کی ، کہ اللہ کرے پاکستانی لڑکے لڑکیاں ، دوسرے مسلم ممالک کے رشتوں کو قبول کریں اور اس طرح ،،، نئی سوچ رکھنے والا وہ معاشرہ سامنے آسکتا ہے ، جو امن بھائی چارہ ، اورمضبوط روایات کو مستحکم کر نے والا ہو !!!۔
( منیرہ قریشی 24 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں