جمعرات، 22 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(8)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" ملائیشیا" (8)۔ 
آج ملائیشیا میں ہمارا ساتواں دن تھا ، اورمسلسل سات دن سے پھرنا پھرانا ہو رہا تھا ،،، بلکہ میَں ایک سیر کا ذکر نہیں کر سکی ، جو "پُترا جایا "نام کی جگہ جانا ہوا تھا جہاں ایسا میوزیم تھا جہاں ملائیشین تاریخ اور " تحریکِ آزادی " سے وابستہ تمام تصاویر ، اوزار ، ہتھیار ، اور اور اہم واقعات کو محفوظ کیا گیا تھا ،، واقعات کو موئثر انداز سے ڈسپلے کیا گیا تھا کہ مجسموں کو اسی دور کے لباس میں پیش کیا گیا تھا ،،، ظلم سہتے اور محروم طبقے کے تائثرات کو ان کے چہروں اور زخموں سے بھی واضح کرنے کی پُر اثر کوشش کی گئ تھی ، یہ سارا میوزیم ، وسیع رقبے پر محیط تھا ۔ میوزیم کے گرد اچھا خاصا رقبہ سر سبز پارک کی صورت میں تھا ۔ اس میوزیم سے ملائیشین تاریخ سے متعلق بہت معلومات ملیں ۔ ایسے میوزیم جس بھی ملک میں ہوں ،،، انھیں بلترتیب سِٹ ہونا چاہیۓ تاکہ کسی ملک کی تاریخ کی ساری جدوجہد " بتدریج " واضع ہوتی چلے جاۓ ،،، کچھ ایک کمرے میں ، کچھ تیسرے ، اور کچھ پانچویں میں مختلف کمروں میں واقعات پھیلانے سے وہ اثر پزیر نہیں رہتے ۔ بہر حال ہم نے اس میوزیم سے بہت کچھ حاصل کیا ،، اور وہاں سے ذرا قریب ہی ملائیشیا کا ایک" بیچ" ( beach )تھا جہاں تفریح کے لیۓ آنے والوں کے لیۓ کچھ کھانے پینے اور بیٹھنے اور فٹ بال اور نٹ بال کھیلنے کی سہولتیں تھیں ،، جس دن ہمارا وزٹ ہوا ،، اس دن شاید چھٹی کادن نہیں تھا ،، معلوم ہوا کہ ویک اینڈ کے دو دنوں میں ہاتھی کی سواری کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔
خیر تو بات ہو رہی تھی کہ ساتویں دن کے۔۔ اور آج آرام کادن بھی مقرر ہوا ،، شاہدہ نے گھر کو دیکھا بھالا ،، کچھ سالن کی ڈشز بنا ڈالیں ، تاکہ مزید جو دن رہ گۓ ہیں ان میں نعیم بھائی اور ہمیں مسئلےنہ ہوں ۔ 
نعیم بھائ ، کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ فارسی زبان اگر بہت بہترین نہیں تو بقدرِ ضرورت بہت اچھی بول لیتے ہیں ، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے فلیٹ کے بالکل ساتھ دو ایرانی بھائیوں کا قیام تھا جن کا ان کے ساتھ آنا جانا تھا ، علی ،بڑا اور مایار ( معیار) چھوٹا تھا،یہ اسی یونیورسٹی میں بھی تھے جہاں نعیم بھائ جاتے تھے ،، نعیم بھائ نے شروع کے دو دن بعدہی انھیں پہلےاپنے گھرچاۓ پر بلایا ، تو ان دونوں بچوں کے حسن کو دیکھ کر ایرانی خوبصورت کے قائل ہو گیئں ،،، اور اصل بات یہ بھی تھی کہ دونوں بہت شریف اور اپنی پڑھائ کی طرف سے بہت سنجیدہ تھے ،،، نعیم بھائ انکے استاد تو تھے ہی اور پھر فارسی زبان کی باہمی گفت و شنید نے ان کو آپسی تعلق میں بہت مضبوطی اورموءدبانہ انداز آچکا تھا ، علی ، جو بڑا بھائ تھا ، 24 ، 25 کا ہوگا ، لیکن بھائ کی ذمہ داری میں اس نے خود کو سنجیدگی کے دائرے میں رکھا ہوا تھا ۔ جبکہ مایار ( یا پھر معیار ہوگا) 18، 19 سال کا آنکھوں میں کچھ شرارت کی چمک لیۓ ، موءدب بچہ تھا ،،، ان کے فلیٹ سے آگے دو فلیٹ چھوڑ کر ایک ایرانی ماں بیٹی کی رہائش تھی ۔ ماں کا نام " فاروقہ اور بیٹی نیلوفر " تھا ،،، ماں 35 ، 40 کے درمیان اور بیٹی ،18 ،20 کی ہوگی ،،، یہ دونوں انتہائ مغرب ذدہ ، اور ایران میں خمینی انقلاب کے بعد ، ملائیشیا ہجرت کر آئیں تھیں اور علی اور مایار بھی کچھ ایسی صورتِ حال کے متاثرین میں سے تھے ،،لیکن اپنے مذہب اور تمیز و ادب کے دائرے میں یہاں دو سال سے تھے ۔ علی اور مایار سے ملاقات کے بعد چوتھے دن فاروقہ اور اس کی بیٹی سے ملاقات شاہدہ کے گھر میں ہوئی ، دو دن بعد انھوں نے ہمیں اپنے گھر چاۓ پر بلایا ۔ سہ پہر کی اس ٹی پارٹی میں علی اور مایار بھی مدعو تھے ، چاۓ پُرتکلف تھی ، فروقہ کی بڑی بہن بھی چند دن پہلے ایران سے انھیں ملنے آئی تھی ، اور وہ نماز اور سکارف کا خیال رکھ رہی تھی ،،، کمزور انگریزی کے باوجود سب کا کام چل رہا تھا ،، البتہ نعیم بھائی کی فارسی نے انھیں " ہیرو " بنا دیا کہ یہ سب ایرانی اس بات سے بہت خوش تھے کہ ایک پاکستانی ہماری زبان بہ آسانی بول رہا ہے۔ 
دو گھنٹے کی گپ شپ کے دوران اگلے دن " واٹر پارک " کا پروگرام ان سب کے ساتھ طے ہوا ، تاکہ ایک تفریحی ٹرپ ہمارے اور فاروقہ کی بہن افروزکے ساتھ کیا جاۓ ۔ اگلے دن ہم سب تیار ہوکر نیچے پہنچ گئیں ، شاہدہ نے جب بھی ،،، تفریح کا پروگرام بنایا ، خوب اچھی تیاری کرتی ہے ، کھانے پینے کی چیزیں ،، گروپ کے ممبرز کے حساب سے رکھیں ! اور ہوسکا تو یہاں بھی پاکستانی انداز کے سینڈوچ ، نمکو ، پرت دار پراٹھے وغیرہ اور بہت کچھ کیا ہوا تھا ،،، یہ اس کے کھلے دل اور ہاتھ کی وجہ سے ہے ۔ ورنہ ،،،،؟! واٹر پارک میں ایک کافی بڑے تالاب یا لوگوں کو دلچسپ طریقے سے بھگوۓ جانے کا سلسلہ تھا اس تالاب کے قریبا" ایک طرف لوہے کے سٹینڈ پر ایک بہت بڑا " گھڑا " جوں ہی بھرتا وہ قریب تیرتے لوگوں کے اوپر یکدم اُلٹ جاتا ،، اور یوں لوگوں کو ایکساٹمنٹ ملتی ،،، ہم خواتین کے ساتھ صرف مایار گیا تھا ، اور نیلو اور فاروقہ نے سوئمنگ کاسٹیوم پہنے اور پانی میں غڑاپ ہوگۓ ۔ جوجی اور شاہدہ ایمن ثمن کچھ دیر سوچتی رہیں ، پھر اپنے کپڑوں سمیت تالاب میں جاگھسیں ،، لیکن میِں اور افروز کسی صورت پانی میں جانے کو راضی نہ ہوٰہیں ، اور لب تالاب ہی نظارے کرتیں اور آپس میں باتیں کرتی رہیں ،،، افروز انگریزی سے نا بلد تھی ،، اور میَں فارسی سے ،، اس لیۓ میَں نے اپنی دسویں میں پڑھی فارسی کو ذہن میں زور دے کر چند لفظ ، " ری کال " کیۓ ،،، اور یوں کافی حد تک ہماری گفتگو جاری رہی ۔ اس نے سکارف لیا ہوا تھا اور لباس بھی ساتر پہن رکھا تھا اس نے بتایا کہ وہ حج کر چکی ہے ، اس کے تین بچے ہیں جو ایران میں ہیں ، اور وہ کچھ دن گزار کر واپس چلی جاۓ گی ۔ ایک گھنٹے کی پیراکی کے بعد سبھی پانی میں گھسے لوگ واپس آۓ تو آس پاس بنی دکانوں کو دیکھنے کا فیصلہ ہوااور بےحد افسوس کہ دونوں ماں بیٹی اسی مختصر ترین پیراکی کے کاسٹیوم میں دکان دکان پھرنے لگیں آخر مجھ سے نہ رہا گیا میَں نے ان کے ہاتھ میں پکڑے ٹاول گاؤن کی طرف اشارہ کیا ،، انھیں پہن لو ،، سردی نہیں لگے گی ،،! انھوں نے بادل ناخواستہ پہن لیۓ ،، اور پھر وہ اپنے اصلی لبادے پہننے چلی گئیں اور ہم دوسری طرف سے جاتے ہوۓ ، پاؤں کی چھوٹی ، اور سخت میل کو کھانے والی ننھی منی مچھلیوں کے تالاب کی  جانب آئیں اور میَں ، شاہدہ اور جوجی اپنی پے منٹ کر کے ان کے چھوٹے سے تالاب میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئیں ،، یہاں آدھ گھنٹہ یا 25 منٹ ہی بیٹھنے دیتے ہیں !اور آج اس ساتویں دن ہمارا ریسٹ ڈے تھا ،، گھر کے مختلف کام کر کے ہم ایک بجے چاۓ پینے لگیں ،، تو میَں نے آفر کی" چلو شاہدہ کیا یاد کرو گی ، آج میَں تمہاری مالش کرتی ہوں" ،،،، شاہدہ کا، سر دبوانا ، یا مالش کروانا ،، اس کی کمزوری ہے، اس کے سر کو ہاتھ لگانے کی دیر ہوتی ہے وہ جیسے نشے میں آجاتی ہے اور اگلے کا بس ایک گھنٹہ ، اس کی مکمل تھیراپی ہوجاتی ہے ،،، چناچہ آج جب مَیں نے کہا کہ" میَں سر دباؤں گی نہیں ، ، بس آرام آرام سے مالش کروں گی ،، تو اس نے سیکنڈ بھی نہ لگایا اور تیل کی بوتل پکڑا ، میرے آگے بیٹھ گئی ،،، ایک چھوڑ ڈیڑھ گھنٹہ لگا ، اور پھر جوجی کی مالش ہوئی ،،،، تو اس وقت تک میَں نے کسی کام کاج میں حصہ نہیں لیا تھا ،،، تو شاہدہ نے وہ دلچسپ اور مستند جملہ بولا تھا " بھئ بڑے بڑے مہمان میرے گھر آۓ ہیں لیکن منیرہ جیسے " ہڈحرام " مہمان شاید ہی کوئی آۓ ہوں "  جوابا" میَں نے کہا " تم جو مرضی کہو مجھے قبول ہے ، لیکن میَں کام نہیں کروا سکتی" ،،، ایسی ہلکی پھلکی نوک جھونک چلی آرہی تھی ،،، لیکن اس دن دل سے مالش نے شاہدہ کو نہال کر دیا ،،، کہنے لگی ،،، میَں نے تمہاری ساری " ہڈ حرامی" کو معاف کر دیا ہے کیوں کہ میری ساری تھکاوٹ اتر گئی ہے "۔ 
( منیرہ قریشی 22 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں