پیر، 12 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 ملائیشیا" 2)۔"
جیسا میَں نے اپنے سفرِحج میں کئی جگہ لکھا تھا کہ میری طبیعت پورے سفر میں خراب رہی، خاص طور پر سفر کا نوئزیہ ، الگ اور اس سارے دوران کھانے کو دیکھ کر دعائیں کرتی تھی کہ جو کچھ کھا رہی ہوں ، ہضم ہو جاۓ ، ورنہ بھوک بھی نہیں لگ رہی تھی۔ حج سے واپس پہنچ کر چیک کروایا تو اس کی وجہ معلوم ہوئی کہ گال بلیڈر ، پتھریوں سے بھرا ہوا تھا اور فوری آپریشن کی ضرورت ہے ،، چناچہ حج سے واپسی کے مہینے بعد ہی آپریشن کروا کر میں اس چیز سے پیچھا چھڑا چکی تھی ،، جو ہر بار میرا سفر کھوٹا کر دیتی تھی ،،، اور اب میَں اس سفر سے، اور کھانے پینے کو بھی انجواۓ کر رہی تھی !۔
تھائ ایئر لائن ، کے جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی ، میرے لیۓ نۓ ویژن پیش کر رہی تھی ، ، ، جب سمندر کا کچھ نظارہ ختم ہوا ، تو آباد سر زمینیں شروع ہو گئیں ،،، اور حسبِ معمول میں ان اَن دیکھی دنیاؤں ، اور وہاں کے لوگوں کی محبت میں گرفتار ہو گئ ۔ راول پنڈی سے جہاز نے صبح 8 بجے ٹیک آف کیا ، اور ٹھیک 12 بج کرکچھ منٹ تک جہاز تھائ لینڈ میں لینڈ ہو چکا تھا ۔ اور جب ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوۓ کہ اب ہم نے یہاں سے ملیشین ایئر لائن پر سفر کرنا تھا ،،،، لیکن ابھی "اِس وقت" تھائ ایئر پورٹ کی عمارت نے ہمیں دنگ کر دیا تھا ،،، سارا وقت تھائ لینڈ کی غربت کا سن سن کر ذہن میں اپنے پنڈی جیسا بلکہ اس سے گیا گزرا ایئر پورٹ تھا ،،، اور یہاں انتہائ جدید ترین ، صاف ترین ، اورنہایت آرگنائز ، اور ٹرانسپیرنٹ چھت کے ساتھ جب بےحد خوب صورتی سے سجا ایئر پورٹ دیکھا تو اس کے پہلے امیج نےہی دل خوش کر دیا ،،، لیکن ابھی اسے مزید سراہنے کا وقت نہیں تھا ، اس لیۓ اپنے سامان کو گھسیٹتے ہوۓ اُس ٹرمینل تک پہنچنے کی جلدی کی ،،، جہاں پر ملیشئن ایئر لائن کا جہاز کھڑا ہونا تھا ۔ جب ہم جلدی جلدی چلنا شروع ہوئیں ، تو چلتی چلی گئیں ،،، جی ہاں کم ازکم ایک میل چلیں تب کہیں اس ٹرمینل تک پہنچیں ،،، اب یہاں مزید آدھ گھنٹہ رکنا پڑا ،، آرام دہ بنچز ، اور آس پاس کی صفائ ، اور اِنڈور پلانٹس نے سکون دے دیا ۔ اب انتظار ختم ہوا ، اور ہم چاروں خواتین ملئیشن ایئر لائن کی مسافر بن گئیں ،، یہ جہاز بھی بہت صاف ، اور سروس بھی لاجواب تھی ،،، میں یہ لکھنا بھول گئ تھی کہ تھائ ایئر لائن سے اترنے سے پہلے ایئر ہوسٹسز نے مسافروں میں اپنا قومی پھول پیش کیا ،جو فریش پھول تھا ، ہلکے کاسنی رنگ کا خوب صورت تھا ، ہلکی سی خوشبو والا پھول ہم نے اپنے اپنے پرس میں رکھ لیۓ ،،،، مجھے یہ روایت بہت اچھی لگی ،، بعد میں علم ہوا کہ یہ پھول " شکریہ " کا سمبل تھا ۔
اب ہم ملیئشن ایئر لائن کو انجواۓ کر رہی تھیں ، اگرچہ تھائ جہاز میں ہماری خوب مدارت ہو چکی تھی ، لیکن ملائشین ایئر کی دوپہر کا وقت اب ہوا تھا ، اس لیۓ انھوں نے بھی اچھا اعلیٰ کھانا سَرو کرنا شروع کردیا ، جسے ہم اب نہیں کھا سکتی تھیں لیکن میٹھے کے ساتھ پورا انصاف کیا ،،،، ان کی ایئر ہوسٹسز بھی بہت پُر کشش تھیں اور باتک کے خوبصورت ڈیزائن کی لنگیا سی باندھیں ، اوپر چھوٹی شرٹس تھیں لیکن باوقار لباس تھا !! اور باقی وقت کھڑکی سے جھانکتے ،، ملائیشیا اور تھائ لینڈ اور سنگاپور کے درمیان پھیلے سر سبز قطعاتِ زمین دیکھتی رہی ، ، ، جہاز ٹھیک ڈھائ گھنٹے بعد، لینڈ کر گیا ،، اس کا ایئر پورٹ بہت وسیع ، اور صاف ستھرا تھا ،،، اگرچہ اسے خوب صورت ایئر پورٹ میں شمار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن وسعت کا احساس بذاتِ خود ایک حسن پیدا کرتا ہے ۔ 
ہم ہاتھوں میں پاس پورٹ پکڑے معمول کی کاروائ سے گزرنے لگیں ، ایک کمرے میں ہمیں ایک ایک فارم پُر کرنے کا کہا گیا جو سائن کرکے واپس کردیۓ ، ایک دبلا سا ، 35 یا 36 سال کا آدمی سخت پریشان کھڑا تھا ،، اس نے ہمیں کہا ،، میَں اَن پڑھ ہوں ،، اگر آپ لوگ میرا فارم پُر کر دیں ، تو " بھین جی بڑی کرپا ہوگی " ،،، ہم نے نہایت خوش دلی سے مزید 10 منٹ لگاۓ ، اس نے انگوٹھے کا نشان لگایا ، فارم اسے دے دیا ، اور اگلے مرحلے میں پہنچیں ،،، مزید کچھ دو چار منٹ لگے اور ہم فارغ ہو گئیں ،،، اس تمام دورانیۓ میں نہ تو کوئ مِس مینجمنٹ ہوئ ،، نہ کسی اہل کار نے ، چاہے وہ آفیسر تھا ، یا ، کوئ سامان کی چیک ان ، کرنے والی خواتین ، کسی نے کوئ بدتمیزی یا بد تہذیبی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ مجھے افسوس ہوتا ہے یہ لکھتے ہوۓ کہ ہمارے ایئر پورٹ پر ڈیوٹی دیتے لوگ ، بد تمیز تو ہیں ہی ،،، لیکن ان کاسارا دھیان فالتو پیسے اینڈھنے پر ہوتا ہے ،،، بھلے تین قدم تک کی ٹرالی لے آۓ ہوں ،، یا ان سے کسی قسم کی معلومات لینی ہوں تو رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے احسان کر رہے ہوں ۔ 
ایئر پورٹ کی انتظار گاہ پر بہت سے لوگ ناموں کےپلے کارڈ اٹھاۓ خاموشی سے کھڑے تھے ، ، ہمیں ایک بلے کارڈ پر " ڈاکٹر شاہدہ نعیم " کا نام نظر آیا اور اس کارڈ کے نیچے شاہدہ کا مسکراتا چہرہ بھی نظر آگیا ، ہم سب بھی بے اختیا ر مسکرا دیں ، یہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ بھی تھی ، اپنے اپنے سوٹ کیسسز کو ٹرالی کرتے باہر آئیں اور شایدہ سے گلے لگ گئیں ۔ اس نے نہایت پریکٹیکل انداز میں ہمیں اطلاع دی کہ نمبر ایک یہ کہ " یہاں ٹیکسی میں چھے بندے نہیں بیٹھ سکتے، اگلی سیٹ پر یہ دونوں ٹونز بیٹھیں گی ، ایسے طریقے سے کہ ایک آگے ہوکر ایک بیٹھے ، اور دوسری ذرا چھپ سی جاۓ ،،، ورنہ فائن ہو جاۓ گا ، اس ہندو ٹیکسی ڈرائیور نے بہ خوشی حامی بھر لی تھی کہ میں مسافروں کو لاتا رہتا ہوں ، اس لیۓ ہمیں دو ٹیکسیاں نہیں کرنی پڑیں گی ،،،،، دوسرے ابھی اسی وقت فیصلہ کر لو کہ تھائی لینڈ واپس پہنچنے کے لیۓ ٹرین کا سفر کرنا چاہو گی ، یا دوبارہ جہاز سے جانا چاہو گی ،، اگر ٹرین سے جاؤ گی تو نظارے تو بہت اچھے لگیں گے ،لیکن ہمارا ایک دن صرف سفر میں گزرے گا ،، دن ہمارے پاس کم ہے ،،، یہ میَں اس لیۓ اتنی جلدی میں فیصلہ سننا چاہ رہی ہوں کہ اس وقت تھائ ایئر کے ٹکٹ آدھے کراۓ پر مل رہے ہیں ، ہمیں فائدہ رہے گا ۔ " یہ سارا حکم نامہ اس لیۓ بھی سنایا گیا کہ ، ٹکٹ لینے کا آج آخری دن ہے ، اب میں سیدھی ٹریولر ایجنٹ کے پاس جاؤں گی ، تاکہ اس سے ابھی ٹکٹ لے لوں " ،،،، وہ یہ سب اسی با شعوری ، اور کوئک فیصلے کی عادت کے تحت کر رہی تھی جو ، اس کا" خاصا " ہے ۔ ہم نے اپنا ووٹ دوبارہ جہاز سے تھائ لینڈ سفر پر دیا ،، کیوں کہ اس طرح ہمیں تھای لینڈ رکنے کا ایک پورا دن مل رہا تھا ۔ جی ہاں ملائیشیا 11 دن رکنے کے بعد ہم نے 5 دن تھائ لینڈ رکنا تھا ۔ ہمارے فیصلے سے شاہدہ کو اطمینان ہو گیا ، اور اس نے ڈرائیور کو ٹریو لایجنسی کے دفتر پہنچنے کا کہا ،، اب ہم اچھی طرح ٹیکسی میں پیک ہو گئیں ، ڈرائیور نے عقل مندی سے سامان ڈگی میں ایڈجسٹ کیا ، اور ایئر پورٹ سے نکل کھڑے ہوۓ ، اس وقت شام کے قریبا" پانچ یا، چھےبج چکے تھے ،، سورج کی کرنیں بس آخری ایک گھنٹہ ہمیں دے رہی تھیں ۔
ایئر پورٹ ، کوالالم پور سٹی ، سے کافی باہر بنایا گیا ہے ،، جب ہم شہر کی طرف چلے تو قریبا" ڈیڑھ گھنٹے بعد شہر کے آثار نظر آۓ ، لیکن اس ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو میں سارا راستہ ، دائیں اور بائیں ، پالم ' کے درختوں کے گھنے جھنڈ نظر آۓ ،،، کوئ آبادی ، کوئ گھر بنے نظر نہیں آۓ ، ہوں گے تو ان درختوں کے کہیں پیچھے کوئی آبادی ہوتو شاید !!۔
نہ ہی کوئ کارخانوں کی بھر مار نظر آئ ۔ شاہدہ نے بتایا ،، پورے ملائیشیا میں جہاں جاؤ ، پالم کے درخت ہر جگہ لا تعداد نظر آئیں گے ۔ کیوں کہ مہاتیر محمد جیسے ، بالغ النظر ، تعلیم یافتہ ، اور محبِ وطن ، لیڈر نے آکر ان لوگوں کی زندگی بدلا کر رکھ دی ،، اس قوم کو مہاتیرنے بتا دیا کہ پالم ہماری سب سے بڑی انڈسٹری ہے ،،، اسی کو معیشت کی مضبوطی کے لیۓ بنیاد بنایا گیا ،، اور آج 20 سال کے بعد اس ملک کو " ایشیا کا ٹائیگر " کہا جاتا ہے ،،، اب ملائیشیا چند اُن مسلم ممالک میں سے ایک ہے جو امریکا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکتا ہے ،،،! اور یہ سب سن اور دیکھ کر مجھ پر ڈیپریشن کا پہلا وار ہوا،،، اور ،،، ہم کب ، کہاں ، کیسے آگے چلیں گے ؟؟؟؟؟؟ کب ، ایسا لیڈر ملے گا ؟؟
شاہدہ سب سے پہلے ایجنسی کے دفتر پہنچی اور جلدی سے چھے ٹکٹ تھائ لینڈ کے لے لیۓ ،، وہ اُس تھائ لینڈ کےسفر میں ہماری ساتھی تھی !اب ہم شاہدہ کے گھر کی طرف پہنچے جو مزید آدھ گھنٹے بعد آ گیا ۔ 
یہ ایک 21 منزلہ بلڈنگ تھی جس کے صاف ستھرے فلیٹس تھے ، اور ہم اس کی لفٹ سے چند سیکنٹس میں 14 ویں منزل تک پہنچ گئیں ،،، جی ہاں ملائیشیا کا ایک اور تعارف ،،، کہ 13 کا ہندسہ اچھا نہیں ہوتا ، اس لیۓ 12 کے فورا" بعد 14 تھا ، جو دراصل 13ویں منزل تھی ،،، اور یہاں ہی ہم معہ سامان اتریں ، اور یہ مِتھ اکثر جگہ نظر آئ ۔ مغرب ہو چکی تھی ، جب شاہدہ نے دروازہ کھٹکھٹایا ،، اور نعیم بھائ اپنی خوابیدہ آنکھوں اور براڈ مسکراہٹ کے ساتھ سامنے موجود تھے ۔ ( نعیم بھائ دوپہر کے قیلو لے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں ) سلام و دعا کے بعد ، انھوں نے پوچھا ، پہلے ایک ایک کپ چاۓ ہو جاۓ ؟ ہم دونوں نے کہا ضرور ، لیکن ہم وُضو کرکے اور نماز پڑھتی ہیں ، آپ چاۓ کی تیاری کریں ،،، نعیم بھائ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی سائیکالوجی کیا ، پھر ایم فل ، قائدِ ا عظم یونیورسٹی سے اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری ،،،،،، سے لی ! ان سب ڈگریوں کے ساتھ وہ چاۓ سے متعلق بہت "حساس" ہیں ، خود بھی اچھی چاۓ کے شوقین ، اور چاۓ بنا کر پلانے کے شوقین ،، ( بہت عرصے کے بعد علم ہوا کہ ہر کسی کو خود بنا کر نہیں پلاتے ، بلکہ جن سے دل مل جائیں ،ان کے لیۓ یہ مہربانی ہوتی ہے ۔ اور ہم ان کے پیارے احباب میں سے تھیں (:،،،ہم نے نماز سے فارغ ہو کر اس چھوٹے لیکن مکمل ضرویات سے پُر گھر کو دیکھا ،،، گھر میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف اوپن کچن اور اسکے ساتھ چھے کرسیوں کا ڈائینگ سیٹ ،، دو تین قدم کے بعد ڈرائنگ روم جہاں ایک مکمل صوفہ سیٹ اور دو پیڑے دھرے تھے اور اس کے ساتھ خوب بڑی فرنچ ونڈو اور آگے بالکنی ،،، اسی ڈرائنگ روم اور کچن کے برابر ایک بڑا اور دو چھوٹے بیڈ رومز تھے ،،، انہی دو بیڈ رومز میں ہمارا اگلے 11دن کا قیام تھا ، ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ کر نعیم بھائ کی ٹھہراؤ والی گفتگو نے چاۓ کے ساتھ مزا دوبالا کر دیا ،، ہمیں ملائیشیا کی تعلیمی صورتِ حال بارے بتاتے رہے۔ وہ پاکستان سے آۓ مہمانوں کی آمد سے خوش تھے ،،کہ چلو کچھ دن اہلِ وطن کے ساتھ گزریں گے ،، اس گھر کی بالکنی سے پردہ ہٹایا گیا تو بالکل سامنے ملائیشیا کے" ٹوئن ٹاورز " نظر آۓ ، یہ نظارہ ، ہمارے لیۓ خوشکن تھا کہ اتنی مشہور و معروف عمارت اب روزانہ 11 دن ہمیں نظر آتی رہے گی ، زبردست ! ، ایمن ثمن جو خود ٹونز ہیں ، انھوں نے فورا" تصاویر کھینچیں ،۔ ملائیشیا ٹرولی ایشیا کی پہلی شام ، سانولی سلونی اور ، جگمگاتی ہوئ تھی ، اس کی بالکنی سے دور تک نظر جا رہی تھی ، اور ہم اس منظر کو بہت ہی دلچسپی سے دیکھ رہیں تھیں ،،،، اور میَں وہ تھی جو اس سفر کے بجاۓ ڈرائنگ روم کے نۓ پردے اور قالین کو ترجیع دے رہی تھی ، اور اب مجھے سب کچھ بھول چکا تھا ۔ انسان بھی کتنے خسارے کے سودے کرتا رہتا ہے ۔ اور بھول جانے والا واقع ہوا ہے !۔
( منیرہ قریشی 12 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں