جمعہ، 16 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا( 5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر" 
 ملائیشیا" ( 5)۔"
اور اب اگلے دن آج برڈپارک اور بوٹینیکل گارڈن وغیرہ کا پروگرام بنا ، اور جب ہم ٹیکسی کے " 007" جیسے تجربے( 4 کے بجاۓ5 کا بٹھایا جانا ) سے گزر کر برڈ پارک پہنچے ، تو دل نہال ہو گیا ،بہت آرگنائزڈ اور سسپنس کے ساتھ بنایا گیا ، داخلہ گیٹ اور پھر ایک چھوٹی سی ندی کے اوپر پتلا سا لکڑی کا پل ،،، یہ قطار ، کے بنوانے کا طریقہ بھی تھا۔ خواتین و حضرات اسی ایک لائن میں تھے ،، اور جوں ہی ہم لابی ٹائپ جگہ پہنچیں ، تین ، چار آدمیوں نے بڑی بڑی چونچوں والے ، خوب رنگین پروں والے "مکاؤ پرندے " یا طوطے " پکڑ رکھے تھے اور لوگوں کو ان کے ساتھ ، تصاویر اتروانے کی ترغیب دے رہے تھے ،، حسبِ معمول" شاہدہ دلیر" نے ابتدا کی تو میَں نے اور جوجی نے بھی ہمت کر لی ،، ایک مکاؤ کندھے پر اور ایک ہاتھ پر ،،،، لیکن حال یہ تھا کہ ڈر کے مارےہم سر بھی نہیں ہلا رہیں تھیں کہیں ، یہ خوبصورت پرندے ، ناراض ہو کراپنی تین انچ لمبی اور ڈیڑھ انچ موٹی "چونچ کہیں ٹھونگ ہی نہ دیں ،، ان کے رکھوالے وقفے وقفے سے ان کی خوراک بھی کھلا رہے تھے۔ لیکن ایمن ، ثمن نے یہ یاد گار تصویریں لے ہی لیں ، اور پھر ہم آگے بڑھیں۔ 
کئی ایکٹر پرمحیط یہ برڈ پارک بےشمار پرندوں سے ، اور اونچے نیچے درختوں سے بھی سجا ہوا تھا ،، کچھ پرندے تو چھوٹے کمرہ نما پنجروں میں اور کچھ بہت بڑے ایریا پر مشتمل پنجروں میں تھے ،،، لیکن ایک چیز دیکھی کہ پورے اس ایریا کو سبز جالی کے کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا تاکہ، کوئ پرندہ اُڑنا چاہے تو اڑ سکتا ہے لیکن " فرار" نہیں ہو سکتا ۔ صفائی کا اعلیٰ معیار تھا، کہیں گھاس بےجا نہیں بڑھی ہوئی تھی، جگہ جگہ برڈ پارک کا عملہ اپنی اپنی ڈیوٹی پر نظر آیا۔ ایک ایک پنجرے کو جھانکتے ہوۓ ہم اس ایریا میں پہنچیں ، جہاں چھوٹا سا سٹیڈیم بنایا گیا تھا ، سیاح آتے جاتے اور بیٹھتے جاتے،، ادھر اُدھر پھِر کر مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچتے نوجوان لڑکے ، ہمارے قریب پہنچے تو کچھ چپس اور کچھ پاپ کارن خریدے گۓ ،،، اور سٹیڈیم کی سٹیج والی ہموار جگہ پر چند پنجرے اور بینچ رکھے ہوۓ تھے ، سٹیڈیم کچھ بھر گیا تو دو سمارٹ یونیفارم پہنے مرد اور دو عورتیں اپنی پرفارمنس دکھانے آگۓ ،،، پہلے دو خوبصورت عقابوں کی ٹریننگ کا مظاہرہ دکھایا گیا ، ایک انچارج لوگوں کے پیچھے کھڑا تھا ، اور ایک خاتون سائڈ پر کھڑی تھی ،، پنجروں کے پاس ایک مرد اور خاتون باری باری عقابوں کو چھوڑتے ، اور جس طرف ، دور کھڑا ٹریننر سیٹی بناتا ، یا کوئ اپنی طرف بلانے کی خاص آواز نکالتا تو وہ صرف اُسی طرف اڑ کر جاتا اور اپنے ٹریننر کے ہاتھ سے اپنی خوراک اُچک لیتا ۔ یہ محض ایک جنگلی پرندے کی ٹریننگ کا مظاہرہ ہی نہ تھا ، یہ بھی کہ وہ صرف اپنے ٹریننر کی بات کو اتنے بے شمار لوگوں کی موجودگی میں، مانتا ہے ، اور اسی کی اطاعت کرتا ہے ،، بجاۓ اور لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کے ،،،،، اگلا مظاہرہ ، کچھ بڑے سائز کے سبز طوطوں کا تھا ،، جس سے بچے اور بڑےسب ہی بہت ہی محظوظ ہوۓ ،،، طوطوں کے یہ دو جوڑے تھے ، ان کے ٹرینرز اپنے آس پاس کبھی ریپر پھینکتے ، کبھی کسی پھل کا چھلکا ،،، حتیٰ کہ مونگ پھلی کے چھلکے بھی ،،، تو وہ طوطے فورا" اپنی چونچ سے ان لفافوں ، یا چھلکوں کو اُٹھا کر ڈسٹ بِن میں ڈال دیتے اور نہایت عقل مند بن کر انھیں انہی کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنی زبان میں ڈانٹتے ،،، سٹیڈیم میں موجود بے شمار سیاح ، چلتے پھرتے چیزیں بیچنے والوں سے بہت کچھ خرید کر کھا چکے تھے ،،، اور اب ریپرز اور چھلکوں کی کافی لوگوں نے زمین پر پھینکا ہوا تھا ،،، اس ، شو کے بعد ، بہت سے سر جھکے اور اپنے اپنے پاؤں کے پاس بکھرے گند کو اُٹھایا ،،،، اور ،،، اب ان چلتے پھرتے دکانداروں کا چیزیں بیچا جانا ،، اور پھر ہماری اس بری عادت کی طرف متوجہ کرنے میں ،،، مطابقت سمجھ آئ ! ،، کہ صرف کہنا کافی نہیں ، عمل بھی ضروری ہے۔ یہ اور بات کہ انسان بار بار غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے ،، کہ ہمیں کون دیکھ رہا ہے ،،، حالانکہ اللہ نے ہر انسان کے اندر اچھائی برائی کا ایک پیمانہ لٹکا رکھا ،وہ اپنے اسی ضمیر کی آواز پر کتنا عمل کرتا ہے۔ 
یہاں سے اب ہم بوٹینکل گارڈن کی طرف چلے ،،، جو شاہدہ اور جوجی کا میدان تھا کہ دونوں نے اسی میں ایم ایس سی کیا تھا ،، لیکن جوجی کافی کچھ بھول چکی تھی ، جب کہ شاہدہ ہمیں کافی گائیڈ کرتی رہی ، یہاں بہت سے ایسے پودے دیکھے جو ، میَں نے صرف ٹی وی کے کسی پروگرام یا نیشنل جیو گرافی کے چینل سے دیکھے تھے ،،، " بس یہاں کا انتہائ ، آرگنائز اور ستھری ،، روشیں دیکھ کر دل خوش ہو گیا کہ " بہار پُر بہار ہے ، ترنمِ ہزار ہے " والا مزا آرہا تھا لیکن کیاریوں کی حدیں پار کر کے تصاویر لینے کی مناہی تھی ،،، اس لیۓ دور اور نزدیک سے کھینچی گئیں ،،، لیکن قانون نہیں توڑا گیا ۔ اب شام ہوا چاہتی تھی ،،، واپسی کے سفر میں کسی ریسٹورنٹ میں رکنا تھا ،، اور کوئ " مَلے " فوڈ آزمانا تھا ۔
( منیرہ قریشی 16 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) (جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں