جمعرات، 29 مارچ، 2018

سفرِتھائی لینڈ(1)۔


" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" تھائی لینڈ" (1)۔"
۔" ملئیشین ایئر لائن " ہمیں لے کر اپنے نہایت سر سبز کھیتوں ،کھلیانوں کے اوپر اُڑا کر اپنے پڑوسی ملک کی طرف لے کر چلا ،، اور ہم ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تھائی ایئر پورٹ اُتر رہیں تھیں ،،، اور حسبِ سابق پُرجوش کہ ایک نئی سر زمین کو دیکھنا ،، میری خانہ بدوش روح کو بہت ہی پسند ہے۔ 
جیسا میں نے ملائیشیا کی طرف جاتے وقت چند گھنٹے ، تھائی ایئر پورٹ رکنے کا حال لکھا تھا ، کہ انتہائی شاندار ایئر پورٹ ، کہ جیسے تھائی لینڈ ، ایک امیر ملک ہے ،،، اب اس ملک کے اندر داخل ہو رہیں تھیں ،،، یہاں ان دنوں پاکستانی سفیر ایک ریٹائرڈ میجر جنرل خطیرخان تھے ،، یہ شاہدہ اور جوجی کی بچپن کی ہم جماعت اور سہیلی رضیہ کے میاں تھے ،، میری بھی رضیہ سے اچھی گپ شپ تھی کہ کچنار روڈ والے گھر کے قریب اس کا گھر تھا،،، لیکن اس دفعہ یہ ملنا ملانا ، سالوں بعد ہو رہا تھا ،، اور شاہدہ نے یہ ہمت کی کہ ، ٹوٹا رابطہ دوبار جوڑنے کی کوشش کی تھی ۔ رضیہ نے خوش دلی سے اپنے پاس رہنے کی دعوت دی ،، تو شاہدہ نے اسے بتادیاہم فلاں دن ، فلاں فلائیٹ سے پہنچ رہی ہیں ، ایئر پورٹ پر ، خطیر بھائی کا پروٹوکول آفیسر ، معہ گاڑی کے موجود تھا ، ڈاکٹر شاہدہ کا بورڈ پکڑے بندے کو پہچان لیا گیا ۔ اور ہم اسکی بڑی جیپ میں عین دوپہر ، کو بہت مصروف سٹرکوں سے گزرتے ہوۓ ، ایک مزید مصروف سڑک پر تین ، چار منزلہ ہوٹل کے پورچ میں رکیں ،،،ہم لفٹ کے ذریعے تیسری منزل پہنچیں اور کاریڈور کے چند قدم کے بعد رضیہ کے گھر کا دروازہ سامنے تھے یہ ایک ایسا " سویٹ " تھا جو دو سویٹ ملا کر ایک کیۓ گۓ تھے ،، اب اس میں خطیر بھائی اور رضیہ کا قیام تھا اور آج کل ان کی الوداعی دعوتیں چل رہیں تھیں ۔ کہ وہ اب وہ واپس پاکستان جا رہے تھے ، ، ان کے پاس چار بیڈرومز کا یہ گھر بہت سے مہمانوں کی آمد اور عارضی قیام کا باعث بنا رہا ۔رضیہ سے میری آخری دفعہ کی تواتر سے ملاقاتیں تب ہوتی رہی تھیں جب خطیر بھائی کرنل تھے اور چائینا میں کوئی کورس کر رہے تھے ،،اور وہ اپنےسسرال اور والدین کے پاس رہ رہی تھی، درمیان کا زمانہ ، گیپ دے گیا تھا ، خیر رضیہ گھر پر تھی اور دوپہر کے کھانے پر منتظر ،، کھانے پر بیٹھیں تو خطیر بھائی بھی پہنچ گۓ ،، ایک دوسرے کے بچوں  کےبارے میں پوچھتے ، سکول سے متعلق باتیں کرتے ، کھانا ختم ہوا ،، تو شام کا یہ پروگرام بنا کہ رضیہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار ہوئی تاکہ اگلے پانچ دن کے لیۓ ہمارا ایک دن ضائع نہ ہو سکے ، اس دوران خطیر بھائی نے کہا " کہ" سیا م نرمیت شو " تو ضرور دیکھنا ،، تیار ہوکر پیدل ہی اس بازار کی طرف رضیہ روحی کی معیت میں چلیں ،، جس طرف گائیڈ اور ٹورزم ایجنسیز دکانیں سجاۓ ہوۓ تھیں ،،یہاں ایک آفس میں شاہدہ اور رضیہ نے اُن سے ، اور کچھ انھوں نے اِن سے انٹرویو لیۓ ،، معاملہ طے پا گیا ،، اور وہ ایک وین ، ڈرائیور اور ایک لیڈی گائیڈ کے ساتھ روزانہ صبح سات ، ساڑھے سات تک آجایا کرے گا ،، اورہر روز دو تین ، اہم قابلِ دید جگہیں دکھائیں گے ،،، چاہے شام کا کوئی بھی وقت ہو جاۓ، انھیں جو  ادائیگی  کی گئی وہ بھی مناسب تھی ۔
فی الحال ہم آس پاس کی مصروف سڑکوں کو دیکھ رہیں تھیں ، جو اپنے ہی پنڈی کے راجہ بازار جیساکسی بہت مصروف بازار کا منظر پیش کر رہی تھیں ،، ہر طرح سے ایک ترقی پذیر ملک جیسا منظر تھا ، یہاں رضیہ نے کچھ شاپنگ مالز کی تفصیل بتائی تاکہ ہم اپنے مطلب کی چیزیں کہاں سے لے سکتے ہیں اور کیا خریدا جانا چاہیۓ ، تاکہ وقت ضائع نہ ہو، وغیرہ ،، جس طرح غریب یا ترقی پزیر ملکوں میں کوئی نا کوئی جانور بےتکلفی سے سڑکوں پر مٹرگشت کر رہے ہوتے ہیں ، چاہے بھینسیں ہوں یا بندر ،،، یہاں ہاتھی ( ذیادہ بڑے سائز کے نہیں ) سڑک پر چل پھر رہے تھے ،لیکن اپنے مالک کے ساتھ ،، مالک کے ہاتھوں میں اور کندھے سے لٹکے تھیلے میں کٹے ہوۓ فٹ لمبے گنے ہوتے ہیں ، وہ ایک فٹ والی گنے کی گڈی ( 6یا5 گنے) ہاتھ میں لیۓ ہوتے ہیں ، جہاں سیاح دیکھتے ہیں، آفر کرتے ،" 20 بھات" میں یہ گڈی لیں ، ہاتھی کو کھلائیں اور اس کے ساتھ تصویر اتروائیں !! ،،،، ( 20 بھات کا ریٹ 2009 کا ہے ، اب کا نہیں معلوم ) ،،، لیکن ہمارا پہلا دن اور چھوٹتے ہی کھلا،ہاتھی ، پیش ہو جاۓ ،، ڈر کا حال یہ کہ ہم آگے آگے ، اور ہاتھی والا چند لفظی انگریزی کے ساتھ پیچھے پیچھے، ، جوجی اور شاہدہ نے ہمت کی اور ایک گڈی خرید کر اسے کھلائ اور فورا" رضیہ نے تصویر لے لی ۔ اور سند رہی کہ انھوں نے ہاتھی کے خوف کو بھگا دیا تھا ۔ اب یہاں وہاں کی پیدل سیر ہوتی رہی ، کیوں کہ سبھی قابلِ ذکر مارکیٹ نزدیک ہی تھیں ۔ اس طرح تھائ لینڈ کی پہلی شام آئ ، اور خوب روشنیوں سے نہائی سڑکیں نظر آئیں ،، یہاں کی ٹیکسیاں ، مختلف پرائیویٹ ایجینسیز کی ملکیت ہونےکی نشانی کے طور پر ، اپنے الگ رنگوں سے نمایاں کی گئی تھیں ،، لیکن یہ سب رنگ بہت ہی تیز تھے ،، آتشی گلابی ، تیز زرد رنگ ، تیز پیلا ، یا کسی کا خوبصورت گرے رنگ بھی تھا ۔ شہر کے اندر کی سڑکیں بہت چوڑی نہیں ، اس لیۓ ٹریفک اکثر آہستہ اور جام ہوتی ہے ،، البتہ جو چیز نئی نظر آئی ،، وہ تھی " ٹُک ٹُک " کی سواری ، یہ ہمارے ہاں کے " چنجی" کو سواریوں کے بیٹھنے کی جگہ کو ذیادہ لمبا کر دیں ، جدید ریڑھا سمجھ لیں  ،، ایک وقت میں 6 تا 8 لوگ بیٹھ سکتے ہیں ،،، اور ایک دن بعد ہم نے یہ تجربہ بھی کر لیا ،، دوسری نئی ، اختراح یہ نظر آئی کہ اگرسنگل سواری ہے ، چاہے وہ عورت ہے یا    مرد،
توایک جگہ بہت سے " سکوٹر " کھڑے تھے ، سنگل سواری کراۓ پراس میں جا سکتی ہے ، اور سکوٹر والا ، فاصلے کے حساب سے کرایا لیتا ہے ۔ 
پھرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ گھر کی ڈائرکشن ، جوجی اور شاہدہ کو اچھی طرح سمجھ آگئی ۔ اس سینس سے میَں تو آج تک نا بلد ہوں ۔ اور ایمن ثمن تو ابھی تھیں ہی چھوٹی ۔ 
چلنے پھرنے کے دوران رضیہ اپنے ہوٹل کی طرف کی سڑک پر مڑی ، تو اس روڈ پر بہت سی دکانیں ، تھائی مساج کی تھیں ،، جو دیکھنے میں چھوٹی ، لیکن دو منزلہ تھیں ، رضیہ نے بتایا کہ یہاں کی مساج خواتین اپنے کام کی ماہر ہیں اگر ایک مرتبہ پاؤں کی کروا لینا ، سکون ملے گا ۔ 
اب واپس ہوٹل آئیں کچھ دیر ٹی وی دیکھا ، اس دوران ، کُک نے چاۓ سرو کی ،، رضیہ اور خطیر بھائی تیار ہوۓ ، کہ آج کل ان کی الوداعی دعوتیں چل رہی تھیں ، اور ہمارے ساتھ رات کے کھانے میں شامل نہ ہونے پر معذرت کر لی ۔ ہم نے اپنے کمروں میں آکر اگلے دن کی تیاری کر لی کہ صبح جلدی نکلنا تھا ، ،۔ 
( منیرہ قریشی 29 مارچ 2018ء واہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں