منگل، 27 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (11)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 ملائیشیا " (11) (آخری قسط)۔"
نُورا کا شفیق چہرہ ، ہمیشہ یاد رہے گا ، ہم واپس اپنے اپارٹمنٹ آئیں اور کچھ نا کچھ پیکنگ شروع کر دی کہ اب ہمارے پاس دو دن رہ گئے تھے ، ابھی ہم نے واپسی پر تھائی لینڈ 6 دن رکنا تھا ،،، اور ملائیشیا کے لیۓ حال یہ تھا کہ " دل ابھی بھرا نہیں " والی کیفیت تھی ۔ بہر حال اگلی صبح ہم 10 بجے کے قریب نعیم بھائی کی یونیورسٹی ( اسلامک مَلے یونیورسٹی) پہنچ گئیں ،، اور سیدھے ان کے آفس پہنچیں ،، انھوں نے مسکرا کر استقبال کیا،، وہ ایک بہت خوب صورت گرے ، اور کالے ، اور کہیں گلابی رنگوں سے سجا یہ آفس ایک ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا تھا ،،، ہم نے کرسیاں سنبھالیں اور نعیم بھائی نے ہماری تواضع کے لیۓ کافی کا آرڈر دیا ، اوراس کے بعد شاہدہ کی رہنمائی میں یونیورسٹی کی سیر کو نکلیں ،، نعیم بھائی نے بتایا یہ قریباً تین میل کے احاطے میں پھیلی ہوئی ہے ،، اور صرف کوالالمپور میں ایسی کئی درجن یونیورسٹیز ہیں ،،، یہ ادارہ بہت خوب صورت بلڈنگ ، خوب صورت آرگنائزڈ ،لان ، صاف ستھرے باتھ رومز پر مشتمل تھا ،،، چونکہ اس کا نام اسلامک سے شروع ہوتا تھا ، اسی لیۓ یہاں آنے والے ملکی اور غیر ملکی طالبات کے لیۓ سکارف لازمی تھا ،،، اس یونیورسٹی میں طلباء بھی پڑھتے ہیں ، اور یہاں مختلف ممالک کے غیر ملکی طلباء داخل تھے، ہم نے ان کی کینٹین میں بھی کچھ دیر رُک کر چاۓ پی اور سینڈوچ وغیرہ لیۓ ، اس دوران نمازِ ظہر کا وقت ہو گیا ،، پتہ چلا طالبات کے لیۓ" نماز کا کمرہ" ہے اور تب صاف باتھ رومز کا تجربہ ہوا۔ نماز کے بعد باہر کی طرف آئیں ،، باہر آکر یونیورسٹی کی ذاتی بسیں دیکھیں اور ان میں سے ایک میں بیٹھ کر یونیورسٹی سے باہر ایک بس سٹاپ تک پہنچیں ، یونیورسٹیز کی حالت اور یہ سن کر کہ اس سے بھی بڑی درجنوں یونیورسٹیز صرف اس ایک شہر میں ہیں ۔ تو اسی سے اندازہ ہوا کہ ملائیشیا کا تعلیمی بجٹ کتنا ذیادہ ہے کہ نہ صرف اپنے عوام بلکہ غیر ملکی طلباء کے لیۓ بھی تمام سہولتیں دی گئیں ہیں ۔ یہاں کا لٹریسی ریٹ 93٪ تھا ۔ جو اب یقینا" بڑھ چکا ہے ، یہ ہی وہ کامیابی تھی ، جو کسی ملک کا دیانت دار لیڈر ہی کر سکتا تھا ،، اور مہا تیر محمد نے کر دکھایا ،،،
اوراب ہم ایک قریبی " چڑیا گھر " کی طرف چل پڑیں ۔ ( مجھے اس کا نام یاد نہیں ) اس " زُو" میں تین ، چار قسم کے شوز کی سہولت تھیں ،، ان میں سے ایک"ہاررہاؤس" تھا ، جس پر ٹکٹ تھے ،،ایک طرف مختلف رائیڈز تھیں ، ان کے الگ ٹکٹ تھے ، لیکن اس دفعہ ہم نے" زُو " کے ٹکٹ لیۓ ،،، اور ہمیں بہت لطف آیا ،،، کیوں کہ یہاں کے پرندوں اور جانوروں کے پنجرے بہت مختلف اور ، کھلے اور دل کش تھے ۔ پرندوں میں تو بہت ہی ورائٹی دکھائی دی ۔۔ البتہ جنگلی جانور ، ویسے ہی تھے جیسے ہمارے ہاں کے چڑیا گھروں میں نظر آتے ہیں ۔ ہاتھیوں کے گزرنے کے راستے کو منفرد طریقے سے سجایا گیا تھا ،، جو مجھے پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا ۔ چھوٹے چھوٹے رنگین جھنڈوں سے آراستہ راستے ہاتھیوں کی پہچان کے لیۓ تھے ، کہ تم نے ادھر اُدھر نہیں ہونا ۔ پھرتے پھراتے جب "مگرمچھوں " کے کافی بڑے ایریا تک پہنچیں ، تو آج اُس وقت ان کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا ،،، ایک جوان لڑکی ، زُو کی اپنی یونیفارم میں اور سکارف پہنے،، اپنے ماتحت عملے کے ساتھ اُن کو ذبح شدہ یا زندہ مرغیاں پھینک بھی رہی تھی اور پھکوا بھی رہی تھی ،، ہمارے لیۓ یہ نظارہ نیا تھا اوَر بھی لوگ کھڑے دلچسپی سےیہ منظر دیکھ رہے تھے ،، آدگ گھنٹہ یہ سلسلہ چلا ، لڑکی فارغ ہوئ تو ہم اپنی پُر تجسس طبیعت کے تحت چند باتیں پوچھنے لگیں ،،، تو اس نے سلام کے بعد اپنا نام " رقیہ " بتایا ،، اور یہ کہ وہ ایم ایس سی کیمسٹری کر چکی ہے ، اس دوران ایک شارٹ ویٹنری کورس کیا ، اور یہاں جاب مل گئ ،، کچھ کمائ کر لوں تو کیمسٹری میں ایم فِل کا ارادہ ہے ، مزید اِن مگر مچھوں بارے بتایا کہ ایک چھوٹے مگر مچھ کو ایک مرغی اور بڑے کے لیۓ دو مرغیاں ، ایک ہفتے بھر کی خوراک ہوتی ہے ، اور یہ کہ مجھے پاکستان سے بہت دلچسپی ہے ، آپ ایک بہادراور خوب صورت قوم ہیں ،،، اور یہ وہ جملے تھے ، جو ملائیشیا چھوڑنے سے ایک دن پہلے ہمارے کانوں نے سنے ،،، جو ہمیشہ یاد ریئں گے ،،،، اسی لیۓ"رقیہ" بھی یاد رہے گی ،،، اور " ملٹی پل پارک" کی یاد بھی رہے گی ۔،، جس کا تجربہ بہت عمدہ اور منفرد رہا ،،، !۔
شام ڈھلے واپس " 13 ویں " منزل پہنچیں ،، شام کی چاۓ پر فاروقہ نے مدعو کر رکھا تھا ،،، کچھ تیاری کر کے ہم پڑوسی خواتین کے گھر پہنچیں ، اِن کی چاۓ کی سبھی چیزیں وہی نارمل اور فارمل سی تھیں،، البتہ انھوں نے تین سنہری( مناسب سائز کی ) میٹل کی پلیٹوں کو خوب صورتی سے میووں سے سجا رکھا تھا ،، یہ ایرانی روایات کے مطابق مہمان سے محبت کا اظہار تھا ،، اس میں ہر چیز مُٹھی مُٹھی بھر الگ الگ دائرے میں سجی ہوئی تھی اور اوپرپولی تھین سے کوَر کیا گیا تھا ،،، اور یہ میرے ، جوجی اور شاہدہ کے لیۓ الگ الگ تحفہ تھا جو چاۓ کے بعد ہمیں دیا گیا ،،، یہ ایک پیاری روایت تھی ۔ ہم نے کچھ آپسی تصویریں کھینچیں ،، اور اللہ حافظ کہہ کر ہم سب دنیا کے میلے میں گم ہوگئیں ،،، یہ 2009 کی بات ہے اور ہم پھر نہیں ملیں ،، کیا پتہ ہم میں سے کون کس کو کسی اور ملک میں جا ملے ،،، ! " کسی نے کیا خوب کہا ہے !" کل اور پَل ،،، موجودہ لمحہ ہی اصلی حقیقت ہے " ،،،،گھر آکر دل پر اچھے لوگوں ، اور مناظر سے دوری کا دکھ بھرا بادل چھا گیا تھا ،،اور یہاں مَیں جدای سے پہلے ہی نوسٹلجیا کا شکار ہوئی جا رہی تھی !! واہ بھئ بندے ،،،۔
صبح ہماری تھائی لینڈ کی طرف روانگی تھی ، جس کے ٹکٹ ملائیشیا داخل ہوتے ہی لے لیۓ گۓ تھے ۔نمازِ فجر کے بعد ناشتہ کے نام پر صرف پھل کھاۓ گۓ ، اور وہی مہندر کمار کی ٹیکسی لے جانے پہنچ چکی تھی ،،، نعیم بھائی کا دلی شکریہ ادا کیا ،، اور آج تک کرتی ہیں ،، کہ اگر وہ اپنی طبیعت کے برعکس یہ جاب '" ویسے ہی جسٹ فار چینج "" نہ کرتے ،،، تو ہم خواتین بھی شاید ملائیشیا نہ دیکھ پاتیں ،، لیکن میِں سمجھتی ہوں ، شاہدہ کی اپنی بڑی بیٹی مزنہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اور ایک اور سہیلی جو ہمارے بعد اس کے گھر رہنے آئی ،، کو محض ملائیشیا کا رزق کھلانے کے لیۓ نعیم بھائی سے " غلطی " کرائی گئی ، اور ہم بہت اطمینان سے سیر کرتے اب تھائی لینڈ کے لیۓ ائر پورٹ پہنچ گئیں ،، راستے بھر " پام کے جھنڈ کے جھنڈ ہمیں خدا حافظ کر رہے تھے ،، اور انتہائی یادگار گیارہ دن گزار کر ،، ایک اور دنیا میں داخل ہو رہی تھیں ،،، ۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2018ء واہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں