منگل، 13 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
ملائیشیا " (3)۔"
ہم مارچ کے درمیان میں پہنچی تھیں ۔ اور یہ دن موسم کے لحاظ سے بہترین تھے ، رات پنکھے کی ضرورت پڑ رہی تھی ، اگر اے سی لگایا جاتا تو آدھ گھنٹے کے لیۓ ،،، پہلی رات ہم دونوں بہنیں تو آرام سے سو گئیں ،، البتہ ٹونز سسٹرز نے صبح بتایا کہ وہ ذرا بےآرام رہیں ، خیر صبح نماز کے بعد ہم دونوں ضرور سوتی ہیں ، اور گھنٹے یا دو گھنٹے کی نیند ہمیں فریش کر دیتی ہے ، یہ روٹین چھٹیوں کا ہوتا ہے ،،، ورنہ وہی ورکنگ خاتون کی طرح صبح پانچ تا شام 5 تک کا مصروف ترین دورانیہ ہوتا ، اور ہم ہوتیں ،، (البتہ میں نے جب سے خود کوزبردستی ریٹائر کیا ہے ، اب روٹین بدل چکا ہے ، یہ پھر کبھی سہی، کہ کیا روٹین بن چکا ہے)۔
ملائیشیا کی پہلی صبح بھی خوب چمکیلی تھی ، شاہدہ نے ناشتہ سجا رکھا تھا ،،،،۔
شاہدہ سے متعلق میَں نے اپنی لکھی " یادوں کی تتلیاں " میں ذکر کیا تھا کہ وہ اور ہم بچپن میں نو سال پڑوسی رہے ،، اور یہ 1964ء کی بات ہے،اور اب 2009 ء تک ہماری دوستی نے بتدریج بہت سی خوشیاں اور نرمی سستی اکٹھی گزار لی تھیں ، وہ دراصل جوجی کی کلاس فیلو بھی ہے اور پکی سہیلی بھی، اسکی باقی تینوں بہنوں ( بڑی بہن تسنیم اور شاہدہ سے چھوٹی ٹونز ، روبینہ ثمینہ ) سے بھی ہمارا بہناپا چل رہا ہے، الحمدُللہ !۔
ان بہنوں میں سے شاہدہ " ورسٹائل " شخصیت ہے ،،، پڑھنے میں ایم ایس سی بوٹنی ، پھر ایم فل اور پھر انگلینڈ کی یونیورسٹی سے بوٹنی میں پی ایچ ڈی کی، اسی لیۓ ڈاکٹر شاہدہ کہلاتی ہے ،،، اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ، کچن میں آج بھی کام کرنا پسند کرتی ہے اور کچھ چیزوں کی زبردست ماہر ہے ، جیسے" سفید پلاؤ " ،کا جواب ہی نہیں ، یا آنٹی ( شاہدہ کی امی ) کے ہاتھ کا پلاؤ لذیذ ترین تھا یا اب شاہدہ کے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔ اچھی میزبانی میں اپنا ہی سٹائل رکھتی ہے، اور سب سے بڑی بات کہ وہ دوستی چلانا اور نبھانا جانتی ہے ،، جس کا کریڈٹ اسی کو جاتا ہے ،،، اور ایک سب سے اچھی عادت کہ وہ نماز فجرکے بعد سوتی نہیں اس کی زندگی کا " ماٹو" قائد والا ہے "کام کام اور بس کام "،،، اور اس کا کہنا ہے کہ میری یہ ہی عادت بری بھی ہے ، کہ پھر شام سے ہی وہ نیند کی وادی میں اتر جانے پر مجبور ہو جاتی ہے ، ،،، اور خوبیاں تو اس کی جوانی سے یہ بھی ہیں کہ ، اپنی بچیوں کےہر ڈیزائن کے کپڑے خود سی لیتی تھی ،،نٹنگ وہ کر لیتی ہے ، اور اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں پوری طرح اس کی نظر میں رہتیں ! اس میں نعیم بھائی کا بھی حصہ تھا ،،،،،،،،۔
زندگی کے مشکل سوالوں کو بھی آسان رخ دے لیتی ہے ،،، اور یہ کمال تو بہرحال کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
جی ، یہ سب خوبیاں واقعی اس میں ہیں ، اور اب 2009ء ہے اور ہم اس کی میزبانی کا لطف اٹھا رہی تھیں ،،، ایمن ثمن ، جوجی کے گھر اس وقت دنیا میں آئیں ، جب اس کے چھوٹے بیٹے کی عمر 10 سال تھی ، ایک تو وہ ٹونز اور پھر بہت ہی پیاری بھولی سی ایک جیسی شکلوں والی تھیں ، میرے تینوں بچے تو اُن پر فدا ہو گۓ ، ہماری فرمائش ہوتی کہ انھیں روزانہ ملوانے لایا کرو ،،، اور ہم ان کی پیاری حرکتوں سے لطف لیتے ، اور اب یہ ٹونز ، او لیول میں تھیں اور ہمارے بھی بہت سے کام نبٹانے کے قابل ہو چکی تھیں ،، خود جوجی ، کو بھی اپنی سہیلی کی طرح کچھ نا کچھ کام کرنے کا شوق ہوتا ہے ،، اور آخر میں رہ گئ" میَں" ،،، تو اس 11 روزہ قیام کے دوران اپنے بارے میں شاہدہ کا" مستند جملہ" بعد میں لکھوں گی ،، لیکن تھا وہ جملہ واقعی " بے لاگ ، اور کھرا " ،،،  ،،،،،۔
بہر حال پہلے دن کا ناشتہ ، عین پاکستانی مزاج کا تھا ،، ڈٹ کر کھایا گیا ، شاہدہ ،، اکثر ایک وقت میں دو کام نبٹانے کی عادی ہے ،، نعیم بھائ کے لیۓ رات کا کھانا تیارہو رہا ہے ،، اورمہمانوں کے لیۓ بھی مزید دوسری ڈش کا بھی اہتمام ہو رہا ہے ، ، کچن سے فورا" باہر ایک چھوٹا سا بر آمدہ تھا جس میں واشنگ مشین سیٹ تھی اور شاہدہ نے اپنے ،میاں کے کپڑے دھلائ کے لیۓ اس میں ڈال رکھے تھے ، جو اب دھل بھی چکے تھے ،، مجھے ہر چیز کو دیکھنے اور پھر اسے سمجھنے کے لیۓ " ذرا وقت چاہیے " ہوتا ہے ،،، مجھے اس کی ایک وجہ تو شاید ،کم ذہین ہونا لگتی ہے اور دوسری ،، میں گھر سے باہر جا کر صرف " لطف " لینے کی کیفیت میں آچکی ہوتی ہوں ،، اسی لیۓ میں نے ناشتہ کیا اور تیار ہونے اپنے کمرے چلی آئ ،، کچھ دیر بعد ہم سب تیار ہو چکی تھیں ، اور شاہدہ نے ہمیں ہمارا آج کا شیڈیول بتایا ،چوں کہ گاڑی ہے لیکن وہ نعیم بھائ یونیورسٹی لے جاتے ہیں کہ وہ اچھی خاصی دور ہے ،، ٹیکسی میں چھے کے بیٹھنے کی اجازت نہیں ، ایمن ثمن ، منی سی لگتی ہیں ، اب یہ دونوں جوجی اور شاہدہ کے درمیان گھس کر بیٹھیں گی ، مجھے اگلی سیٹ پر بیٹھنا ہو گا اور سب دنوں میں یہ ہی طریقہ رہے گا۔ 
آج ہم سیدھے ٹون ٹاورز دیکھنے جائیں گے ، پھر کسی مال میں ، ہم سب کی یہ ہی خواہش تھی،، ٹون ٹاور تک پہنچنے تک ، ملائیشیا کی سڑکوں ، عمارات ، اور صفائ ، اور لوگ دیکھتے ، بلکہ بغور دیکھتے چلے گۓ !ٹون ٹاور کے ایریا میں داخل ہوۓ ، ٹیکسی چھوڑنا پڑی ،اس وقت دوپہر کے ایک بجنےکوتھا ۔
شاہدہ نے ٹکٹ گھر سے ٹکٹ لیۓ ، اور ہم ایک انتظار گاہ میں بیٹھ گۓ ، ابھی آگے گئ پارٹی واپس نہیں آئ تھی ، اس دوران انتظار گاہ میں 15 ،20 سیاح اکھٹے ہو چکے تھے۔ کہ ظہر کی اذان سنائی دی ، ہم تینوں خواتین با وضو تھیں ، وہیں بیٹھے بیٹھے ہی قصر نماز پڑھ لی ، اور اس کے چند منٹ بعد ہماری باری آئ ، اس گروپ کو سب سے پہلے ٹون ٹاورز بارے معلوماتی ویڈیو دکھانے لے جایا گیا، ایک بڑے کمرے میں یہ اہتمام تھا فلم میں ٹون ٹاورز کی ابتدا سے کام اور کاز بتایا گیا تھا ، اور اب کس منزل میں کتنے آفسسز ہیں ، کتنے کمرے ہیں ، اور کس منزل تک جانے کی اجازت ہے ، اور دونوں ٹاورز کو ملانے والے پل تک جا سکتے ہیں وغیرہ !یہ فلم 3 ڈی تھی ، 15، 16 منٹ میں ختم ہو گئ۔ اور سارے گروپ کو تین گروپس میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر گروپ کے ساتھ ایک گائیڈ تھا اور تھی ،، یعنی ایک نوجوان لڑکی اور دو یا تین لڑکے جو اپنی سمارٹ یونیفارم میں ملبوس تھے ہر گروپ الگ لفٹ میں سوار ہوا، اور صرف چند سیکنڈ میں ہم ٹون ٹاورز کے ملاۓ گۓ پل والی منزل پر تھے ،،، اتنی اونچائ کا تجربہ بھی خوب انوکھا تجربہ ہوتاہے ۔ گروپ کے سب 22 ، 25 ارکان تصاویر لینے میں اور پُل کے درمیان چلنے پھرنے میں مصروف ہو گۓ لیکن میَں نے محسوس کیا ، نوجوان گائیڈز بہت ہی الرٹ ہو چکے تھے ۔ پل کی ریلنگ ڈبل تھی ، یعنی ایک ریلنگ کے بعد دو فٹ کے فاصلے پر دوسری ریلنگ تھی ، جو اوپر سے جھانکنے والوں کی مزید حفاظت کا کام دے سکتی ہے ۔ باقی دیواریں تو ٹرانسپیرنٹ فائبر گلاس کی تھیں ،،،، گویا حفاظتی حصار ہر طرح سے تھا ، ، یہ تو بعد میں علم ہوا کہ گائیڈز کی نظر سے بچ کر چند ایک خود کشی کے واقعات ہو چکے ہیں اسی لیۓ نوجوان گائیڈز ، کے چہروں سے کچھ سنجیدگی اور ذیادہ مستعدی نظر آرہی تھی ،وہ بہ ظاہر خوش دلی سے سیاحوں کے ساتھ تصاویر بھی اتروا رہے تھے ،،، صرف 15 منٹ کے بعد ، واپسی کا سگنل ملا ،، اور اسی ترتیب سے ہر گروپ اپنے اپنے گائیڈ کے ساتھ لفٹ میں داخل ہوۓ لیکن اوپر آنے اور اب نیچے پہنچتے ہی ہماری گنتی ضرور کی گئی ۔ ،،، دنیا کے مشہور و معروف ملائیشیا ٹون ٹاورز ، کو دیکھنا ، ایک سیاح کی " سیاحتی لِسٹ " پر ٹِک مارک تھا جو اگر نہ دیکھا جاتا تو ملائیشیا کا دورہ نا مکمل لگتا ،،،،۔ 
( منیرہ قریشی ، 13 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں