جمعرات، 5 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (24)

 یادوں کی تتلیاں " (24)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ء سن 1965کے 17 دن پوری پاکستانی قوم کے لۓ ،ایک ایسا تجربہ تھا جس نے اسےصرف " پاکستانی" کے طور پر شناخت دے دی تھی ۔ خالی ، جوش و جذبہ ہی نہیں بھرا تھا ،،، بلکہ لوگوں نے اپنے اثاثے ، پیش کر دیۓ ، اپنی مقدور بھر پونجی اپنی فوج ، یا حکومت کو پیش کر دی ، یہ وہ دن تھے کہ ہسپتالوں کے باہر خون دینے والے جوان لڑکے ، لڑکیوں کی قطاریں لگی ہوتیں کہ ہمارا خون حاضر ہے ، لیکن ان میں سے جس کی باری نہ آتی وہ اداسی سے واپس جاتا ، خود ہم سب سہیلیوں نے اپنے نام ، پتے ہسپتال میں لکھوا دیئۓ تھے ! لیکن وہاں وہ لمبی قطار تھی کہ بلڈ بنک میں جگہ نہیں رہی تھی اور یہ کیفیت ہر چھوٹے بڑے شہر میں تھی ، ،،، ان دنوں بھارتی وزیرِ اعظم ' لال بہادر شاستری" سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ ہر پاکستانی اس کی موت کا جملہ کہتا ( یا ، ایسا جوان لوگ اپنے غصے کے اظہار کے لۓ کہتے ) جہاں بھی چندے کے بکس پڑے ہوتے اس پر لکھا ہوتا " مرگ بہ شاستری "۔
ہم نے یہ جنگ جیتی یا نہیں ، لیکن اس جنگ نے دشمن کو یہ ضرور بتا دیا کہ یہ نئ قوم " لوہے " کے چنے بن چکی ہے ! اتنی آسانی سے دعویٰ کر لینا کہ " شام تک ہم لاہور جم خانہ میں جشنِ فتح منائیں گے ، ان کے لۓ سخت شرمندگی کا باعث بن گیا، ، ۔
گھر میں بھائی جان اور بڑے بھائی جان کے آنے سے رونق ہو گئی ، حالات نارمل ہونے لگے ۔ سکول کالج کھل گئے ۔ جیسا میں نے پہلے لکھا تھا کہ اماں جی بوجہ بیماری کے بہت ہی کم آنا جانا رکھتی تھیں ، لیکن ان کو ملنے ایسی خواتین ،یا بیگمات آتی تھیں جن کا اماں جی سے کوئی میچ نہ ہوتا کیوں کہ وہ اتنی ماڈرن ، اتنی پڑھی لکھی ہوتیں کہ ، ان کے جانے کے بعد ہم کرید کرید کر ان سے پوچھتیں ' وہ کیا باتیں کرتی رہیں ، ؟ لیکن وہ بہت کم ان سے متعلق کچھ ذکر کرتیں ، جو تھوڑا بہت بتایا ،، اس کے تحت بہت بعد میں احساس ہوا کہ ظاہری حلیہ کسی کی اندرونی حالت و کیفیت کا غماز نہیں ہوتا ، ، دراصل ان کی کونسلنگ بھی ہو جاتی اور کچھ دین سے وابستہ ہدایات بھی مل جاتیں ، جو شاید ان گھرانوں میں نہ تھیں۔ 
اباجی نے ہمیں کلب میں جانے سے کبھی نہ روکا ، وہ ہر اچھے ادبی یا ، کوئز شو ، یا اچھی فلم دکھانے خود لے جاتے ،،،، یہ جانا ہمارے لیے ذہنی ، بالیدگی کا باعث بنا ،اور ہم میں خود اعتمادی آتی چلی گئی ،،،ہم سب بہن بھائی ویسے ہی اچھے ، اردو انگریزی ادب کے شائق تھے ، اب یہ رفتار تیز ہو گئی ، ،،، جوجی اس میدان میں میری نسبت جلدی میچور ہو گئی تھی ، اس نے چوتھی جماعت سے " اردو ڈائجسٹ " پڑھنا شروع کر دیا تھا اور میں نے چھٹی جماعت میں اسے انجواۓ کیا ، لیکن واہ آکر کتابوں سے محبت کا یہ عالم ہوا کہ " شفیق الرحمان " کی کتابوں کا پورا سیٹ ، ابنِ صفی کا پورا سیٹ ، اسی طرح نسیم حجازی کے اور ایم اسلم ، رضیہ بٹ ،کے ناول، ،،، مختلف دوسرے ادیبوں کی کتابوں سے ہمارے شیلف مزید بھر گۓ ! اس دوران قرۃالعین حیدر کا نام سنا اور ان کا پہلا ناول " میرے بھی صنم خانے " خریدا ، جب پڑھا تو کچھ سمجھ آئی کچھ نہ آئی ، کیوں کہ دسویں جماعت میں شعور ایسا پختہ بھی نہیں ہوتا ، ،،،،، لیکن ان کے طرزِتحریر کی میں ایسی عاشق ہوئی کہ آہستہ آہستہ ان کی ، 8 ،10 کتابیں خریدیں ، اور جب بی،اے میں اردو ادب بطورِ مضمون لیا۔ اور اس میں کسی ایک ناول پر 25 نمبر کا مضمون لکھنے کو کہا گیا تو میں نے اسی اپنی پسندیدہ مصنفہ کے ناول " آخرِ شب کے ہمسفر " پر ایسا اچھا تجزیاتی مضمون لکھا کہ چیک ہوکر واپس ملا ، تو میں نے خوشی سے نہال ہو کر اباجی کو دکھایا ! اس پر لیکچرار صاحبہ نے 25 میں سے 23 نمبر تو دیۓ ہوۓ تھے لیکن ساتھ لکھا تھا " یقین تو نہیں آرہا کہ یہ آپ نے لکھا ہے " لیکن مضمون کے مطابق آپ کو نمبر دے رہی ہوں ! ہمارے گھر میں تعلیمی میدان کی کامیابی کو بہت اہمیت دی جاتی ، اور ناکامی کا غم منایا جاتا ۔ 
جیسا میں نے لکھاتھا کہ واہ کینٹ میں آتے ہی ہم دونوں بہنوں کو سکول داخل کرایا گیا ، مجھے انٹرمیڈیٹ سکول / کالج میں جب نویں میں داخلہ ملا تو اس کلاس میں تیس ، بتیس لڑکیاں ہوں گی ۔ مجھے جس لڑکی کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ ملی ، شاید وہ کلاس میں ناپسندیدہ تھی ، مجھے محسوس ہوا کہ زیادہ لڑکیاں مسکرا رہی تھیں ، ، خیر دو چار دن تک میں اسی لڑکی سے بات چیت کرتی اور اسی سے شروع سال کا پچھلا کام لیتی رہی ، اس نے بھی بہت خلوص سے مدد کی ، مہینہ گزر گیا ، اور مجھے پتہ چلا اس سے کلاس کی شاید ہی کوئی لڑکی بولتی ہو ! اس کالج میں ایک کارنر پر اخبار کے دو سٹینڈ لگاۓ گئے  ہوتے جس میں سےایک پر اردو اور ایک پر انگریزی اخبار پھیلا کر لگوایا گیا ہوتا ، اخبار بینی کی پکی عادت کے تحت میں قریباً روزانہ اس سٹینڈ پر جاتی اور اخبار الٹ پلٹ کر پڑھ لیتی ، کہ اس دوران ایک لمبی اور سانولی لڑکی اکثر اسی وقت آتی اور صرف ایک آدھ بات کر کے چلی جاتی ، ہفتے بعد اس نے کہا " میں روز تم سے کچھ نا کچھ پوچھ لیتی ہوں " مثلا" '' پیریڈ شروع ہونے والا ہے ، کلاس میں پہنچو ، یا آج کی تازہ خبر کیا ہے ؟"( اور میں بس منمنا کر جواب دے کر چلی آتی ) اب ہفتے بعد اس نے  "تھانیدارانہ " انداز سے جب یہ کہا کہ تم پورا جواب بھی نہیں دیتیں اور کلاس کی سب سے " لڑاکا لڑکی " کو دوست بنا رکھا ہے !!!! تب مجھے اس بےچاری سے بول چال کا بائیکاٹ سمجھ آیا ۔ لیکن فطرتاً میں اس وقت ایسی بولڈ نہ تھی کہ فوراً اس سے دوستی ختم کر دیتی ، اس سے دوستی سال بھر چلتی چلی گئی ،،،، لیکن بس کلاس روم کی حد تک ! اب مجھے یہ " تھانیدارنی " ٹائپ نئی سہیلی مل گئی جس کا نام شہناز مہدی تھا ، وہ آرٹس گروپ میں تھی اس لۓ ہماری ملاقات صرف ' ریسس " میں ہو پاتی ، میں سائنس سیکشن میں تھی جہاں میری ایک اور سہیلی بن گئی " فرحت ممتاز" !!، ، شہناز اور اس کی سہیلیوں کا گروپ جب میں نے دیکھا ، تو میں نے دوستی کے قدم آہستہ کر لیے ، کیوں کہ وہ بہت پُراعتماد ، اور حسِ مزاح سے بھر پور تھیں، یہ پانچوں آپس میں اتنی جُڑی ہوئی تھیں کہ انھیں کسی مزید سہیلی کی ضرورت نہ تھی ! ان کے خوب ہنسی مذاق کومیں دور سے دیکھتی رہتی ،، دراصل میں ایک  مختلف سکول سے آئی تھی ، جو ایک کرسچین سکول تھا اور وہاں کا الگ ہی سخت اور اُصولی ماحول تھا . یہاں قدرِ ، ریلیکس ماحول تھا ! اور اس ماحول کو میں آہستہ آہستہ جذب کر رہی تھی ۔ اسی لۓ سہیلیاں بنانے کی رفتار انتہائی سست تھی ، !یہاں کا سارا سٹاف بہت پڑھا لکھا تھا ، زیادہ لیکچرار ڈبل ایم،اے تھیں ، خود نویں جماعت کی ہماری کلاس انچارج " مس ذکی " نے اردو اور انگریزی میں ایم۔اے کیا ہوا تھا نویں میں انھوں نے ہمیں اردو پڑھائی اور میں اچھی اردو کی وجہ سے ان کی نظروں میں آگئی ، جبکہ دسویں میں انھوں نے انگریزی پڑھائی اور میں نالائقوں میں شامل ہو گئی کہ یہ زبان میرے لۓ ہمیشہ مشکل رہی ( خواہ مخواہ ) حالانکہ ، گھر میں والد ، بھائی اور بہن سب کی بہترین انگریزی تھی اور ہمارے گھر انگریزی ناول تو تھے ہی ، لیکن انھیں پڑھنے کی طرف راغب نہ ہو سکی ،، جبکہ بھائی اور جوجی ہر وقت کوئی نا کوئی انگریزی ناول پڑھتے نظر آتے ،،،،ایسا ہی زگ زیگ سبھی مضامین میں چلتا رہا ۔ ہماری سائنس اس زمانے میں ، کیمسٹری ، فزکس ، اور ہائی جین فزیالوجی پر مشتمل تھی ، مجھے ان سے کوئی مسئلہ نہ تھا ، مسئلہ تھا تو صرف اور صرف میتھ کا ،،،، ہماری اس وقت ٹیچر مسز وحید تھیں ، وہ کالا نقاب والا برقعہ پہن کر آتیں تھیں اور چوں کہ گھر کوئی بہت دور نہ تھا اس لیے پیدل ہی کالج آتیں ، چلنے سے ان کا سانس چڑھا ہوتا اور جب وہ نقاب ہٹاتیں تو جیسے کالے بادلوں میں سے چاند نکل آیا ہو ،،، والا حساب ہوتا ، وہ بہت خوب صورت ،خاتون تھیں جنھوں نے شاید ہی کبھی لپ سٹک لگائی ہویا کوئی اور فیشن کیا ہو،ان کے ہونٹ قدرتی ہی گلابی ،،، نظر کی عینک بھی انکے حُسن میں اضافے کا باعث بن گئی تھی ، وہ نہایت دھیمی طبیعت اور دھیمی آواز سے پڑھاتیں ،،، لیکن میں ان کے مضمون کی ایک نالائق طالبہ رہی ، ،،،،،، یہاں میں یہ ضرور لکھوں گی کہ مضمون خود مشکل یا غیر دلچسپ نہیں ہوتا اس کے پڑھانے والا اگر اسے دلچسپ انداز سے نہیں پڑھا پاتا ، تو بہت سے طلباء اس مضمون سے متنفر ہو جاتے ہیں ، میں جس سکول سے پڑھتی ہوئی آئی تھی وہاں ، ایک تو شدید سختی کا ماحول تھا کہ ، ناخن نہیں کٹے تو ہاتھ پر ڈنڈے ، کنگھی نہیں کی گئی تو ہاتھوں پر سٹک ! ٹسٹ اچھا نہیں تو سارا دن کھڑے رہو وغیرہ ،،،،، خوف کے اس ماحول میں تیز طلباء تو ٹیچر سے پوچھ لیتے ہیں کہ یہ ذرا ، دوبارہ سمجھا دیں ،، لیکن جب سرے سے سمجھ ہی نہ آۓ تو کس طرح یہ بات کہی جاۓ کہ " سب دوبارہ سمجھائیں کہ کوئی فارمولا پلے ہی نہیں پڑا ، پنڈی کے اس سکول میں ماسٹر صاحب میتھ کے لیے تھے ، جو صرف اس جملے کو اکثر دہراتے " لو بھئ یہ تو ابھی آدھے راستے پر ہیں " اور ہم چند طالبات بےبسی سے انھیں دیکھتی رہ جاتیں ! کہ اگر دوبارہ سمجھا دیں تو کیا فرق پڑے گا ،،، یہیں سے مجھے حساب کا خوف ایسا چمٹا کہ آج تک چمٹا ہوا ہے ! میں تو کوئی چیز خریدتی ہوں تو دکاندار کے بہ واپسی پیسے نہیں گنتی ، جوں کے توں رکھ لیتی ہوں ، کہ جب منفی اورجمع کرنہیں سکتی تو شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ چُپ کر کے رکھ لو ۔ 
مسز وحید کی بہت کوشش سے میں صرف الجبرا میں تھوڑی سی اور جیومیٹری میں کافی اچھی ہو گئی اور انہی دو میں محنت کر کے دسویں کے بورڈ امتحان میں پاس ہو گئی ، اور باقی مضامین نے بھی عزت رکھ لی اور ہائی سیکنڈ ڈویژن لے ہی لی ،،، ایف ،اے میں البتہ اپنی پسند کے مضامین تھے( اکنامکس ، فلسفہ ، اور ہسٹری ، اردو ، انگلش تو لازمی تھے )اس میں بھی ہائی سیکنڈ ڈویژن لیکن کلاس کی 35 لڑکیوں میں سے پانچویں نمبر پر رہی ، اور اسی طرح بی اے میں مرضی کے مضامین نے پھر ہائی سیکنڈ ڈویژن دلادی ،،،، اسی بات سے اندازہ کر لیں کہ میں کبھی لائق طالبہ نہیں رہی لیکن ،،، حیران کن انداز سے میں ایک اچھی ٹیچر ضرور رہی ہوں اور میرا خیال ہے ، میں نے جس خرابی کو اپنے تعلیمی دور میں محسوس کیامیں نے اسے خود کے قریب بھی نہیں آنے دیا ،،، الحمدُللہ !۔
اب جب دسویں میں پہنچ گئی تو ، شہناز مہدی کے باقی گروپ سے کچھ بےتکلفی ہونی شروع ہوئی ،،،، اور جب فسٹ ایئر میں آۓ تو سیکشن ایک تھا لیکن مضامین پھر بھی فرق رہے۔ یہ گروپ تھا ، نسرین جمال ، رفعت صمصام ، رخسانہ تسنیم اور زبیدہ۔ ،،،،،،،اس زندہ دل گروپ کی باتیں انشاء اللہ اگلی قسط میں۔
(منیرہ قریشی 5 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں