جمعہ، 13 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں" (29)

 یادوں کی تتلیاں" (29).۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میں ذرا پلٹ کر واپس ان سہیلیوں کے جھرمٹ میں جاتی ہوں ، جن کے ساتھ میرے،بہترین دن گزرے ،،، اور مجھے ان سب سےبہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، یہ اپنے طور پر خوشحال گھرانے تھے ، لیکن محنت کے دور سے گزر رہے تھے! خاص طور پر رخسانہ تسنیم وغیرہ ، جو ماشا اللہ آٹھ بہن بھائی تھے۔دو ماں باپ ، اور ایک نانی اماں ،، یہ سب دو ،ڈھائی بیڈ رومز پر مشتمل گھر میں رہتے تھے ، مجھے جب اس کے گھر آنے جانے کا موقع ملا۔ تو اس کی امی جو دبلی پتلی خاتون تھیں ہر وقت کچن کے کاموں میں مصروف رہتیں ، ان کی کوشش ہوتی،وہ سب کے لیے مقوی ، ستھری ، اور زیادہ مقدار میں غذائیں تیار کرتی رہیں۔کچھ ہی مہینے میں آنے جانے کے بعد اندازہ ہوا اس گھر کے والدین کے پاس کتنا بڑا دل تھاہر آئے گئے کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں  اور سبھی کوکھاۓ پلاۓ بغیر جانے نہٰیں دیتے تھے ، اس کے ابا سے مل کر مجھے یوں لگا جیسے وہ بہت گھلنے ملنے والے نہیں ، لیکن یہ خیال بعد میں غلط ثابت ہوا ،،، اتفاق سے مجھے اس کے گھر اس طالب علمی کے دور میں جانا ہوا اور میرا گھر حالانکہ نزدیک تھا، لیکن اس کی امی نے بہ اصرار دوپہر کے کھانے پر روکا ۔اور وہاں اس دن مچھلی پکی تھی ، مجھے کبھی مچھلی کھانا پسند نہیں تھی ،لیکن اس دن کھانا پڑی ،اور وہی دن تھا کہ مچھلی میری پسندیدہ ہو گئی۔ اتنا مزیدار سالن تھا کہ ہاتھ رُک ہی نہیں رہا تھا۔اور اس کی وجہ اس خوش ذائقہ ہاتھ والی ماں تھی ، اس کے بعد بھی دو تین دفعہ کچھ بھی کھانے کا موقع ملا،تو ایسا ذائقہ شاید کم ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا۔قریباً   ہر ہفتہ اتوار ان کے گھر رہنے والے مہمان آئے   ہوتے ، اور ان کے گھر سے واپسی پر اکثر سوچتی یہ کیسے سیٹنگ کرتے ہوں گے، کہ مہمان بھی پورے آجائیں اور گھر کے افراد بھی ِ،،، یہ صرف ان کی اعلیٰ ظرفی اور مہمان نوازی کی وجہ سے ممکن ہوتا تھا ،،، ماں باپ کی اس کھلے ماتھے کی عادت نے ، ان کے بچوں کے راستے آسان کردیئے ۔ سبھی لائق ، اور سب ہی خوشحال ہوۓ ۔ ماں باپ گلاب بوتے ہیں ، انھیں سینچتے ہیں ، اور اس کا فائدہ ان کی اولادیں بلکہ اگلی نسلیں بھی اُٹھاتی ہیں ، اللہ کسی کا کوئی اجر ضائع نہیں کرتا ،،،، رخسانہ ، چار بہنیں اور چار ہی بھائی تھے ،ہر بچے کی شادی پر ان کے ابا شادی کا کھانا آتا تو سب سےپہلے ایک دیگ یتیم خانے بھجوا دی جاتی ، اس کے بعد کبھی کھانا کم نہ ہوتا ۔ بالکل اسی طرح ہمارے رشتے کے چچا چچی تھے ان کے بھی آٹھ بچے تھے ، سرکاری کوارٹر ملا ہوا تھا چھوٹا سا ، اس کے پچھلے نہایت چھوٹے صحن میں ایک کمرہ بنوا لیا گیا تھا، اور ان کے گھر بھی کوئی دن ایسا نہ ہوتا کہ رہنے والے نہ آۓ ہوتے بلکہ کئی مہمان ایک ہفتے ، یا پندرہ دن رہ کر جاتے ۔ دونوں میاں بیوی نے بچوں کو بھی اسی عادت پر سیٹ کر دیا تھا ، جب دو بیٹیوں کو کچن میں 40 یا 50 روٹیاں پکانی پڑتیں اور وہ بھی گرمی میں ،تو ، ہم ان کی ہمت پر آفرین کرتیں۔ چاچا جی خود مہمان نوازی ، اور بڑھ چڑھ کر سبھی کے بگڑے یا رُکے کام کراتے رہتے اور تھکتے رہتے،لیکن کیا مجال کوئی احسان کرتے ، ہم نے خود بھی دیکھا ان کے گھر پر شام کو ایک "پینجا " ( روئ دھننے والا) اپنا " روئی کا لمبا سا پینجا پچھلے صحن میں رکھتا اور ایک سبزی بیچنے والا اپنی ریڑھی رکھواتا ، کیوں کہ اُن کے گھر دُور تھے، اور وہ اس اعتباری گھر میں اپنے "رزق کے ہتھیار" رکھواتے ، صبح آکر لے جاتے (کیا ہم آج بڑے گھروں کے باوجود ایسا بڑا دل "کر " سکتے ہیں؟) دونوں اگر شام کے اس وقت آجاتے جب کھانے کا وقت ہوا چاہتا، تو چاچی جی ، فوراً بڑی بیٹیوں کو کہتیں " چلو ان کے لیے دو دو روٹیاں توے پر پھینکو ! خدائی مہمان آۓ ہیں "یہ یونیک جملہ میں کبھی نہیں بھولوں گی !!!! اور آج ان کے بھی سبھی بچے اپنی بہترین خوش حالی کو انجواۓ کر رہے ہیں ، ماں باپ نے کم وسائل کے باوجود جب بھی مہمان نوازی کی ان کی اگلی نسلیں ،حیرت انگیز طور پر خوش حال ہوئیں "" کہ اللہ کسی کا احسان نہیں رکھتا ""، وہ ضرور نوازتا ہے ، کاش ہم اس نکتۂ لین دین کو جلد جان جائیں اور فقر سےبےفکر ہو جائیں ۔ مجھے اپنے پیارے نبیﷺ کی سبھی احادیث سے پیار ہے لیکن مہمان کی توقیر ،کھانا کھلانے کی فضیلت پر مبنی احادیث تو جیسے ہمارے لیۓ مفت کی جنت کا سودا ہے ، ایک حدیثِ مبارکہؐ ہے "میں اللہ سے خودغرض ہونے اور بخیل ہونے سے پناہ چاہتا ہوں"گویا وہ ان دو کمزوریوں کو ناپسند فرماتے تھے۔
( منیرہ قریشی ، 12 اکتوبر 2017ءواہ کینٹ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں